سوال
سائل دیوبند مسلک سے وابستہ ہے اور اس نے **احسن الفتاویٰ** میں پڑھا کہ بریلوی مسلک کے افراد قربانی کے **حصہ** میں شامل نہیں ہو سکتے، کیونکہ ان کے نزدیک وہ **مشرک** ہیں۔ ان کے بارے میں یہ عقائد بیان کیے گئے ہیں کہ وہ حضور ﷺ کو **نور** مانتے ہیں، **حاضر و ناظر** مانتے ہیں، **مختارِ کل**، **علمِ غیب** اور **نذر** وغیرہ کو تسلیم کرتے ہیں۔
اسی دوران ایک بریلوی مسلک کے شخص کے ساتھ **قربانی کے حصہ** میں شمولیت پر گفتگو ہوئی۔ اس نے اپنے عقائد کو یوں واضح کیا:
* ہم حضور ﷺ کی ہر چیز کو **عطائی** مانتے ہیں؛
* حضور ﷺ کے **نور** کو **اللہ کے حسن کی پہلی تجلی** مانتے ہیں؛
* **اختیار** کو **عطائی** سمجھتے ہیں؛
* **روحانی طور پر** حضور ﷺ کو **ہر جگہ حاضر و ناظر** مانتے ہیں؛
* **جسمانی طور پر** اگر حضور ﷺ چاہیں تو **متعدد مقامات** پر تشریف لے جا سکتے ہیں؛
* **علمِ ما کان و ما یکون** کا حضور ﷺ کا علم **اللہ تعالیٰ کے علم کے برابر نہیں**، بلکہ اتنا بھی نہیں جتنا **ایک سمندر میں سے ایک قطرے کا کروڑواں حصہ**۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسے عقائد رکھنے والا بریلوی **مشرک** کہلائے گا یا **صحیح العقیدہ مسلمان**؟
اور **نذر** کے بارے میں جب پوچھا گیا تو اس نے کہا: ہمارا عقیدہ اور نظریہ یہ ہوتا ہے کہ:
“**یا اللہ! ہمارا یہ کام پورا فرما دے، ہم آپ کے نام پر ایک دیگ پکا کر خیرات کریں گے اور اس کا ثواب فلاں بزرگ کو پہنچائیں گے۔**”
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مجموعی اصولی بات
* مذکورہ نظریات نہ صرف **کتاب و سنت** اور **سلف صالحین** کے عقائد سے میل نہیں کھاتے، بلکہ **فقہائے احناف** کی معتبر و متداول کتب—جیسے **شرح عقیدہ طحاویہ للامام ابن العز حنفی**، **فتاویٰ بزازیہ** اور دیگر کتبِ عقائد و فتاویٰ—کے بھی **برعکس** ہیں۔
* چونکہ یہ آراء **محبت و عقیدتِ رسول ﷺ** میں **غیر شرعی غلو** اور **تاویلاتِ فاسدہ** پر مبنی ہیں، اس لیے یہ **شرک** اور **بدعت** کی نوعیت رکھتی ہیں۔
* تاہم راقم کے نزدیک ایسے عقائد رکھنے والے افراد **درجہ بدرجہ بدعتی اور شرکیہ تاویلات** کے حامل ضرور ہیں، مگر پھر بھی **مسلمان** ہیں۔
تقلیدِ شخصی اور دونوں مسالک کی نسبت
* جس طرح **دیوبندی حضرات** تقلیدِ شخصی کو **واجب** سمجھتے اور حضرت **امام ابو حنیفہؒ** کے **جامد مقلد** ہیں، اسی طرح **بریلوی حضرات** بھی امام ابو حنیفہؒ کے **جامد مقلد** ہیں۔
* تقلیدِ شخصی کے اثر میں بعض حضرات **نصوصِ صریحہ** قرآن اور **احادیثِ صریحہ** کو **منسوخ** قرار دینے کے لیے **فرضی اور خود ساختہ اصول** بنا لیتے ہیں، جن کی آڑ میں **نصوصِ جلیہ** اور **احادیثِ صحیحہ مرفوعہ غیر معللہ ولا شاذ** کو رد کر دیا جاتا ہے۔
* **شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی** نے ان کے حسبِ ذیل **نو اصول** ذکر کیے ہیں:
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے نو اصول (نقلِ عبارت)
1: خاص خاص کے بارے میں حکم ہے کہ وہ صاف طور پر بیان کیا ہوا ھے تو اس کے معنی کے سوا دوسرا کوئی معنی نہیں لیا جا سکتا ۔
2۔ زیادت کتاب پر بمنزلہ نسخ کے ہے تو یہ زیادت نہ ہو گی مگر آیت صریح یا حدیث مشہور صریح سے۔
3۔ حدیث مرسل (جو کہ ضعیف ہے) مانند حدیث مسند کے ہے۔
4۔ ترجیح نہ ہوگی کسی حدیث کو بسبب کثرت راویوں کے بلکہ ترجیح بسبب راوی کے ہوگی۔
5۔ جرح قبول نہ ہوگی مگر جب اس کی تفسیر کی جائے۔
6۔ امام ابن ہمام نے اپنی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ جس روایت کو امام بخاری اور مسلم نے اور لوگوں نے جو ان کے مانند ہیں صحیح کہا ہو تو ہم لوگوں پر واجب نہیں کہ ہم اس کو قبول کریں ۔ (اللہ رے تیری لن ترانیاں)
7۔ کہا بعض اصحاب فتاویٰ نے کہ جب کسی مسئلہ میں قول امام ابو حنیفہ اور صاحبین ہو اور اس میں کوئی حدیث بھی ہو اور اس حدیث کے بارے میں حکم صحت دیا گیا ہو تو واجب ہے کہ امام ابو حنیفہ اور صاحبین کی اتباع کی جائے نہ کہ حدیث (صحیح ) کی ۔ ((استغفر الله من ذلك الجزأة))
8۔ جس روایت کو راوی غیر متفقہ نے روایت کیا ہو اور وہ ایسی روایت ہو کہ اس میں رائے کو دخل ہو سکے تو اس کو قبول کرنا واجب نہیں ۔
9۔ عام قطعی ہے مانند خاص کے تو تخصیص نہیں ہو سکتی ، عام میں خاص کے ذریعے ۔ \*
اصولِ کرخی کی تصریحات
یقین نہ آئے تو **شیخ ابو حسین کرخی** کے یہ **تین اصول** دیکھ لیجیے:
والاصل نمبر 28:
**ان كل آية تخالف قول اصحابنا فانها تحمل على النسخ او على الترجيح ……. الخ**
کہ ہر وہ آیت جو ہمارے اصحاب کے قول کے خلاف پڑتی ہے وہ منسوخ ہے۔
الاصل نمبر 29:
**ان كل خبر يجيء بخلاف قول اصحابنا فانه يحمل على النسخ او على النسخ….. الخ، (اصول كرخى ص11)**
ہر وہ حدیث صحیح جو ہمارے فقہاء کے قول کے خلاف ہو تو وہ منسوخ سمجھی جائے گی۔
الاصل نمبر 30:
**الأصل أن الحديث إذا ورد عن الصحابي مخالفا لقول أصحابنا فإن كان لا يصح كفينا مؤونة جوابه وإن كان صحيحا في مورده فقد سبق ذكر أقسامه إلا أن أحسن الوجوه وأبعدها عن الشبه أنه إذا ورد حديث الصحابي في غير موضع الإجماع أن يحمل على التأويل أو المعارضة بينه وبين صحابي مثله (اصول كرخى نمبر 30ص12،13)**
کسی صحابی کی کوئی حدیث اگر حنفی علماء کے قول کے خلاف ہو تو اگر حدیث صحیح نہیں تو اس کے جواب کی ضرورت نہیں ، اگر صحیح ہو تو اس کے رد کرنے کی اقسام (صورتیں) گزر چکی ہیں ، یعنی یا تو اس کی تاویل کی جائے گی (مذہب کی حمایت میں اس کا معنی اپنی مرضی سے کیا جائے گا یا اسے منسوخ کہا جائے گا اس کا معارض تلاش کیا جائے گا۔
حدیث کے باب میں سلف کا منہج
* **احادیثِ صحیحہ** کے حوالے سے یہ طرزِ عمل **صحابہ و تابعین** کے طریق سے **منافات** رکھتا ہے؛ ان کے زمانے میں رسول ﷺ کی حدیث کے مقابلے میں کسی فقیہ کے قول کی **کوئی حیثیت** نہ تھی۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی** رقم فرماتے ہیں:
**قد تواتر عن الصحابة والتابعين انهم كانوا اذا بلغهم الحديث يعملون به من غير ان يلاحظوا شرطا (الانصاف ص60)**
**صحابہ کرام و تابعین سے یہ بات تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ جب ان کو حدیث پہنچی تو اس پر عمل کرائے بغیر اس کے کسی شرط کی رعایت کریں۔ (فتاوى اهلحديث ج1ص65)**
* **حضرت ابن عباس ** نے ان لوگوں کے متعلق فرمایا جو **حدیثِ رسول ﷺ** کے مقابلے میں کسی **مجتہد یا فقیہ** کے قول کو ترجیح دیتے ہیں:
**قال ابن عباس اما تخافون ان تعذبوا او يخسف بكم ان تقولوا قال رسول الله ﷺ وقال فلان…. (سنن دارمى)**
یعنی عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ تم ڈرتے نہیں کہ عذاب کیے جاؤ یا زمین غرق کر دیے جاؤ ، اس بات پر کہ تم کہتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور فلاں نے کہا ، یعنی رسول اللہ ﷺ کے بالمقابل فلاں (فقیہ یا مفتی ) کا ذکر کرتے ہو۔
دیوبندی و بریلوی بابت خلاصہ موقف
* راقم کے نزدیک جس طرح **دیوبندی** مسلمان ہیں، اسی طرح **بریلوی** بھی **مسلمان** ہیں؛ دونوں میں **عقائد کی ہم آہنگی** اور **الغلو فی الدین** کی روش مشترک ہے۔
دونوں عملاً **خانقاہی نظام** سے مربوط ہیں:
* بریلوی دوستوں کی طرح دیوبندی حضرات بھی **تصرفِ اولیاء** اور **استمداد از فوت شدگان** کے قائل ہیں؛
* بریلویوں کی مانند دیوبندی بھی **وفات النبی ﷺ** کے **منکر** اور **حیات** کے **قائل** ہیں۔
* **قاری محمد طیب** (مہتمم دارالعلوم دیوبند) کے بقول، ہمارے اور بریلوی بھائیوں کے **عقائد ایک ہی** ہیں؛ جو کچھ وہ کرتے ہیں **وہی ہم بھی کرتے ہیں**—پھر بھی نا معلوم وہ ہم سے ناراض کیوں ہیں؟
* واقعہ یہ ہے کہ **سلفی العقیدہ جماعتِ حقہ** کے مقابلے میں دونوں مسالک **اکٹھے** دکھائی دیتے ہیں؛ ان کا **تقلیدی اتحاد** بارہا نمایاں ہوتا ہے—**عیاں راچہ بیاں**۔
* چنانچہ جب دونوں گروہ **اصولاً و فروعاً** امام ابو حنیفہؒ کے **جامد مقلد** اور **تقلیدِ شخصی کے وجوب** کے قائل ہیں، تو اس پس منظر میں **احسن الفتاویٰ** کا مذکورہ **فتویٰ**—کہ بریلوی حصۂ قربانی میں شامل نہیں ہو سکتے—واقعی **اعجوبتہ من الاعظم الا عاجیب** اور **بے جا گروہی تعصب** کی مثال ہے، تاکہ **دیوبندی تشخص** کا نام نہاد بھرم قائم رہے؛ یہ **ناروا تنگ نظری** کا اظہار ہے۔
نتیجۂ تحقیق
* ہمارے نزدیک **بریلوی** اور **دیوبندی** حضرات **برابر کے مقلد** اور **بدعات** کے خوگر ہیں، **تاہم دونوں مسلمان ہیں**۔
* جب دونوں مسلمان ہیں تو **احسن الفتاویٰ** کا مذکورہ بالا **فتویٰ** بہرحال **غلط** اور **فرقہ واریت** کی عکاسی کرتا ہے۔
لہٰذا:
**سبحانك هذا تعصب عظيم و تستغفر الله من التعصب المذهبى ونسئل الله سبحانه وتعالى سبحانه و تعالىٰ وتوفيق العمل بالكتاب والسنة بكرة واصيال**
**اصل دیں آمد کلام اللہ معظم داشتین
پس حدیث مصطفیٰ بر جاں مسلم داشتن**
**کسی کا ہور ہے کوئی نبی کے ہو رہے ہیں ہم**
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب