دیوبندی عقائد کا تحقیقی جائزہ قرآن و حدیث کی روشنی میں
ماخوذ : فتاوی علمیہ – جلد 3، توحید و سنت کے مسائل – صفحہ 37

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے ایک(دیوبندی) دوست نے مجھے ایک پرچہ(عقائد علمائے اہلسنت دیوبند) کے نام سے فوٹو سٹیٹ کرواکردیا) جس میں عقیدہ نمبر 3 تا7،عقیدہ نمبر9 اور عقیدہ نمبر 24 لکھے ہوئے ہیں) اور (اس دیوبندی نے ) کہا:یہ عقائد صحیح ہیں اور اہل حدیث حضرات ان کو نہیں مانتے۔”

میں نے سوچا کہ آپ کو خط لکھ کر آپ سے پوچھ لوں۔میں وہ پرچہ بھی آپ کو روانہ کررہا ہوں۔اور آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ ان عقائد کو قرآن وصحیح احادیث کی کسوٹی پر پرکھ کر ان کا جواب تحقیق کے ساتھ دیں۔(محمد عرفان ،نئی آبادی مورگاہ۔راولپنڈی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عقائد و مسائل ایمان کی بنیاد چار دلائل پر ہے:

  • 1۔قرآن مجید۔
  • 2۔احادیث صحیحہ مرفوعہ۔
  • 3۔ثابت شدہ اجماع اُمت۔
  • 4۔آثار سلف صالحین۔

قرآن و حدیثِ صحیحہ سے مراد

قرآن مجید اور احادیث صحیحہ مرفوعہ سے مراد وہ نصوص صریحہ واضحہ ہیں جن میں اہل حق یعنی اہل سنت کے نزدیک کوئی تاویل نہیں بلکہ ظاہری معنی ہی مراد ہے،مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نبی ہونا،اس پر ایمان، فرشتے اللہ تعالیٰ کی نوری مخلوق ہیں، اور قیامت سے پہلے سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا(آسمان سے) نزول وغیرہ۔

آثارِ سلف صالحین سے مراد

آثار سلف صالحین سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین، تابعین رحمۃ اللہ علیہ، تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہ، اور اتباع تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہ، یعنی خیر القرون کے وہ آثار ہیں جو صحیح یا حسن لذاتہ سندوں کے ساتھ ثابت ہیں اور ان کے مدلول پر اہل حق کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔

زمانہ بندی

  • خیر القرون کا زمانہ 300 ہجری تک ختم ہے۔
  • خیر القرون کےبعد تدوین حدیث کا زمانہ تقریباً 600 ہجری تک ہے۔
  • تدوین حدیث کے بعد شارحین حدیث کا زمانہ 900ہجری تک ہے۔

سلف صالحین کون؟

سلف صالحین سے مراد صحیح العقیدہ، ثقہ وصدوق عند الجمہور علمائے اہل سنت ہیں اور تمام اہل بدعت اس جماعت حقہ سے خارج ہیں۔

قاعدۂ فیصلہ

جو عقیدہ یا ایمانیات کا مسئلہ ان ادلہ اربعہ سے ثابت نہیں، اہل حدیث یعنی اہل سنت کے نزدیک وہ عقیدہ باطل اور مردود ہے۔


دیوبندی عقائد کی تحقیق

اس تفصیل کے بعد اب دیوبندی عقائد کی تحقیق پیش خدمت ہے:

دیوبندی عقیدہ نمبر 3

متنِ عقیدہ

“وہ حصہ زمین جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعضاء مبارکہ کو مس کیے ہوئے ہے(یعنی چھوئے ہوئے ہے) علی الاطلاق افضل ہے۔یہاں تک کہ کعبہ اور عرش وکرسی سے بھی افضل ہے۔” (المہند ص 11،ذبدۃ المناسک از رشید احمد گنگوہی)

تحقیق

رشید احمد گنگوہی اور الہمند والے خلیل احمد سہارنپوری انبیٹھوی کے اس عقیدے کی کوئی دلیل قرآن، حدیث، اجماع اور خیر القرون کے آثار سلف صالحین میں موجود نہیں اور نہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، قاضی ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ، ابن فرقد شیبانی یا طحاوی سے ثابت ہے۔

دیوبندی رسائل میں ذکر کردہ متاخرین کے حوالے

دیوبندی رسالے بینات کراچی اور الیاس گھمن کے قافلے(ج 1شمارہ:1) میں یہ عقیدہ درج زیل علماء کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے:

  • 1۔قاضی عیاض المالکی (متوفی 544ھ)
  • 2۔ابوالولید الباجی (متوفی 474ھ)
  • 3۔علی بن احمد السہجودی، صاحب وفاء الوفاء (متوفی 911ھ)
  • 4۔ابو الیمن ابن عساکر (متوفی 686ھ) ھو عبدالصمد بن عبدالوہاب واللہ اعلم (دیکھئے اتحاف الزائر ص 36 ج1، ابوالیمن ابن عساکر کی عبارت میں عرش اور کرسی کا ذکر نہیں ہے)
  • 5۔التاج السبکی (متوفی 771ھ)
  • 6۔ابن عقیل الحنبلی
  • 7۔التاج الفاکہی
  • 8۔ملا علی قاری (متوفی 1014ھ)
  • 9۔ابن عابدین شامی (متوفی 1252ھ)

یہ سب لوگ خیر القرون کے بہت بعد میں گزرے ہیں۔

قاضی عیاض کی عبارت (الشفاء)

قاضی عیاض مالکی کا قول اس کی کتاب “الشفاء” میں نہیں ملا، بلکہ قاضی صاحب نے تو یہ لکھا ہے:

"ولا خلاف أن موضع قبره صلى الله عليه وسلم أفضل بقاع الأرض”

اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی جگہ روئے زمین(کے ٹکڑے) سے افضل ہے۔ (الشفاء ج2/91)

اس میں کرسی اور عرش کا نام ونشان تک نہیں اور محمد یوسف بنوری تقلیدی نے بغیر کسی سند کے بذریعہ الشفاء امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے:

"ان البقعة التي فيها جسد النبي صلى الله عليه واله وسلم أفضل من كل شيء حتى الكرسي والعرش…..”

(معارف السنن 3/323 دیوبندی قافلہ1/48/49)

تمام آل دیوبند وآل بنوری سے مطالبہ ہے کہ یہ قول صحیح سند کے ساتھ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ثابت کردیں اور اگر نہ کرسکیں تو علانیہ توبہ کریں۔

مزید تنقیدی نکات

  • ابوالولید الباجی کا قول بھی ثابت نہیں اورسمہودی کی عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قاضی عیاض کے قول جیسا ہے، یعنی “أفضل بقاع الأرض” والا قول ہے۔ واللہ اعلم۔
  • سمہودی تو دسویں صدی ہجری کا ایک عالم تھا۔
  • ابوالیمن ابن عساکر کا حوالہ نہیں ملا اور عین ممکن ہے کہ یہ قاضی عیاض کے مذکور قول “أفضل بقاع الأرض” جیسا ہی ہو جیسا کہ سمہودی کی عبارت سے ظاہر ہے۔ (دیکھئے وفاء الوفاء ج1ص 31)
  • سبکی کا اصل حوالہ بھی مطلوب ہے اور سمہودی کی عبارت سے ظاہر ہے کہ تاج سبکی نے ابن عقیل حنبلی سے یہ قول: “أن تلك البقعة أفضل من العرش” نقل کیا ہے۔ واللہ اعلم۔
  • ابن عقیل الحنبلی کے تعین میں نظر ہے اور اس کا اصل حوالہ بھی باسند صحیح مطلوب ہے۔ (المطالب اولی النھی فی شرح غایۃ المنتہیٰ 2/384 میں کتاب الفنون سے نقل)
  • تاج فاکہی کے تعین میں بھی نظر ہے۔

دعویٰ ہائے اجماع کی نوعیت

مذکورہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اس مسئلے پر دو قسم کے اجماعوں کا دعویٰ کیا گیا ہے:

  • اول: افضل بقاع الارض
  • دوم: افضل من العرش

حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی تردید

اجماع کے ان دعووں کے مقابلے میں حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 729ھ) نے فرمایا:

"الحمد لله ، أما نفس محمد صلى الله عليه وسلم فما خلق الله خلقا أكرم عليه منه ، وأما نفس التراب فليس هو أفضل من الكعبة البيت الحرام ، بل الكعبة أفضل منه ، ولا يعرف أحد من العلماء فضل تراب القبر على الكعبة إلا القاضي عياض ، ولم يسبقه أحد إليه ، ولا وافقه أحد عليه ، والله أعلم” انتهى”

الحمدللہ۔اللہ تعالیٰ نے(سیدنا) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے افضل کوئی مخلوق پیدا نہیں کی اور رہی مٹی تو یہ کعبہ سے افضل نہیں بلکہ کعبہ اس سے افضل ہے۔ قاضی عیاض کے علاوہ علماء میں سے کوئی بھی ایسا معلوم نہیں جو قبر کی مٹی کو کعبہ پر فضیلت دیتا ہو… واللہ اعلم۔ (مجموع فتاویٰ ج27 ص 38۔الفتاویٰ الکبریٰ ج4 ص 411 مسئلہ 1013)

حافظ ابن عبدالبر نے بھی مدینے اور مکے کی افضلیت کے بارے میں اختلاف کا ذکر کیا ہے۔ (دیکھئے الاستذکار ج8 ص 221 کتاب الجامع، باب ماجاء فی سکنی المدینہ والخروج منھا)

مکہ کی فضیلت پر حدیث

سیدنا عبداللہ بن عدی بن الحمراء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے(بیت اللہ) کے بارے میں فرمایا:

"وَاللهِ إِنَّكِ لَخَيْرُ أَرْضِ اللهِ، وَأَحَبُّ أَرْضِ اللهِ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَلَوْلَا أَنِّي أُخْرِجْتُ مِنْكِ مَا خَرَجْتُ "

ترجمہ: اللہ کی قسم! تو اللہ کی زمین میں سب سے بہتر ہے اور اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ ہے۔ اگر مجھے یہاں سے نکالا نہ جاتا تو میں نہ نکلتا۔

(سنن ابن ماجہ 3108 وسندہ صحیح، سنن ترمذی :3925 وقال:”حسن غریب صحیح” وصححہ الحاکم علی شرط الشیخین 3/7 ووافقہ الذھبی)

خلاصۂ تحقیق (عقیدہ 3)

آل دیوبند کا مذکور عقیدہ نہ تو قرآن مجید سے ثابت ہے، نہ صحیح حدیث سے، نہ صحابہ و تابعین و خیر القرون سے، اور حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے اختلاف کے بعد اس پر اجماع کا دعویٰ بھی غلط ہے۔ لہٰذا اس مسئلے میں سکوت کرنا چاہیے۔

میری طرف سے تمام آل دیوبند سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنا یہ عقیدہ اپنے مزعوم امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے ثابت کریں یا خیر القرون کے کسی صحیح العقیدہ موثق عند الجمہور سے ثابت کردیں، ورنہ ایسے مسائل میں خاموشی اختیار کرنا ہی بہتر ہے۔ واللہ اعلم۔

تنبیہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر(حجرہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) "رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ” (جنت کے باغوں میں سے ایک باغ) ہے۔ (دیکھئے صحیح بخاری:1196 صحیح مسلم:1390۔1391)


دیوبندی عقیدہ نمبر 4

متنِ عقیدہ

“ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک دعاؤں میں انبیاء علیہ السلام اور صلحاء واولیاء شہداء صدیقین کا توسل جائز ہے اُن کی حیات میں بھی اور اُن کی وفات کے بعد بھی…” (المہند ص13 فتاویٰ رشیدیہ ص112)

تحقیق

مذکورہ عقیدے میں اموات اور مقتولین کی ذاتوں کا وسیلہ پکڑنا جائز قرار دیا گیا ہے، حالانکہ اموات ومقتولین کا وسیلہ نہ تو قرآن مجید سے ثابت ہے اور نہ حدیث سے، نہ اجماع سے اور نہ آثار صالحین سے۔ بلکہ بعض علماء نے اس کے رد پر کتابیں لکھی ہیں، مثلاً حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے "قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة” لکھی ہے اور انھوں نے اس وسیلے کی ممانعت جمہور علماء سے نقل کی ہے۔ (دیکھئے ص63)

مُردوں کا وسیلہ پکڑنا امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ثابت نہیں، بلکہ بطور الزامی دلیل عرض ہے کہ کتب فقہ حنفیہ میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے:

"لا ينبغي لأحد أن يدعو الله إلا به”

ترجمہ: کسی کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اللہ سے غیر اللہ کے ذریعے سے دعا مانگے۔ (ملخصاً مفہوما از درمختار 2/630 التوسل واحکامہ للالبانی ص50)

ہدایہ میں لکھا ہوا ہے کہ دعا میں بحق فلان اور بحق انبیائک ورسلک کہنا مکروہ ہے، کیونکہ خالق پر مخلوق کا کوئی حق نہیں۔ (دیکھئے ہدایہ اخیرین 4/475 کتاب الکراھیۃ)

بلکہ مرتضیٰ زبیدی نے بحق فلان وغیرہ کا مکروہ(حرام) ہونا امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، قاضی ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ، اور ابن فرقد تینوں سے نقل کیا ہے۔ (دیکھئے اتحاف السادۃ المتقین ج2 ص285 سطر 13)[1]

خلاصۂ تحقیق (عقیدہ 4)

ثابت ہوا کہ آل دیوبند کا مذکورہ عقیدہ نہ تو ادلہ شریعہ سے ثابت ہے اور نہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے۔ لہٰذا ان لوگوں کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بغیر وسیلے کے دعا مانگیں، جس طرح انبیاء ورسل اور صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین و تابعین رحمۃ اللہ علیہ دعائیں مانگتے تھے۔


دیوبندی عقیدہ نمبر 5

متنِ عقیدہ

“آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کے پاس حاضر ہوکر شفاعت کی درخواست کرنا… اور یہ کہنا بھی جائز ہے کہ حضرت میری مغفرت کی شفاعت فرمائیں۔” (فتاویٰ رشیدیہ ص 112، فتح القدیر ج1ص 338 اور طحاوی علی المراقی ص400)

تحقیق

  • گنگوہی، ابن ہمام اور طحاوی ادلہ شرعیہ کے نام نہیں، بلکہ آل تقلید کے چند غالی علماء کے نام ہیں۔
  • مذکورہ عقیدہ قرآن، حدیث، اجماع اور آثار سے ثابت نہیں اور نہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے ثابت ہے۔
  • آل دیوبند کے اس عقیدے نے واضح کردیا کہ بریلویوں اور دیوبندیوں میں کوئی فرق نہیں بلکہ دونوں ایک ہی راستے کے راہی ہیں۔

دیوبندی عقیدہ نمبر 6

متنِ عقیدہ

“اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس سے صلوٰۃ وسلام پڑھے تو اس کو آپ خود بنفس نفس سنتے ہیں اور دُور سے پڑھے ہوئے صلوٰۃ وسلام کو فرشتے آپ تک پہنچاتے ہیں۔”

تحقیق

  • فرشتوں کا (مجمل طور پر بغیر کسی کا نام لیے) سلام پہنچانا صحیح ہے، جیسا کہ قاضی اسماعیل بن اسحاق کی کتاب فضائل درود سے ثابت ہے۔ (دیکھئے میری کتاب فضائل درودوسلام ص 64 فضل الصلوٰۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ح21 وسندہ صحیح)
  • قبر کے پاس درود سننے والی روایت سخت ضعیف ومردود ہے۔ (دیکھئے فضائل درود وسلام ص16)
  • آل دیوبند کا یہ عقیدہ بھی ادلہ شرعیہ بلکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ثابت نہیں۔

دیوبندی عقیدہ نمبر 7

متنِ عقیدہ

“ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں زندہ ہیں اور آپ کی حیات دنیا کی سی ہے… اور یہ حیات مخصوص ہے… برزخی نہیں ہے…”

تحقیق

یہ عقیدہ بھی (حیاۃ دنیویہ غیر برزخیہ کی صراحت کے ساتھ) نہ تو ادلہ شرعیہ سے ثابت ہے اور نہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے، بلکہ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ وغیرہما کی عبارات سے ثابت ہے کہ یہ زندگی برزخی ہے۔ (دیکھئے تحقیقی مقالات ج1ص 23)

صحیح بخاری کی ایک حدیث سے ثابت ہے کہ:

"خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم من الدنيا” (صحیح بخاری:5414)

لیکن آل دیوبند کہتے ہیں کہ آپ کی زندگی برزخی نہیں بلکہ دنیاوی ہے۔ سبحان اللہ۔ یہاں بطور تنبیہ عرض ہے کہ اشاعتی، مماتی اور پنج پیری دیوبندیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں اور آپ کی زندگی اب دنیاوی نہیں بلکہ برزخی ہے۔

اس کے بعد عقیدہ نمبر 8 کا کوئی ذکر موجود نہیں، بلکہ عقیدہ نمبر 9 لکھا ہوا ہے۔


عقیدہ نمبر 9

متنِ عقیدہ

“ہمارے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (اسی طرح جملہ انبیاء علیہ السلام) اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ نماز پڑھتے ہیں… آپ پر اُمت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں…”

تحقیق

  • قبروں میں زندہ ہونے سے اگر برزخی زندگی مراد ہے تو ہم بھی اسی کے قائل ہیں، اور اگر دنیاوی زندگی مراد ہے تو اس کا کوئی ثبوت کسی دلیل سے نہیں ملا۔ اگر آل دیوبند کے پاس دنیاوی زندگی کے بارے میں کوئی جدید ثبوت آ گیا ہے تو پیش کریں۔
  • نماز پڑھتے ہیں کے بارے میں دو روایتیں ہیں:
    • 1۔یہ حدیث صحیح ہے اور اس سے دنیاوی زندگی ثابت کرنے والوں کا استدلال غلط ہے۔
    • 2۔مسند ابی یعلیٰ والی روایت… حجاج مجہول الحال کی وجہ سے ضعیف ہے، اور اگر یہ حدیث صحیح بھی ہوتی تو دنیاوی زندگی والوں کا اس سے استدلال غلط ہے۔
  • ایک اہم سوال: آل دیوبند کے نزدیک نمازی کو سلام نہیں کہنا چاہیے تو کیا ان کے نزدیک نماز پڑھنے والے انبیاء ورسل کو حالت نماز میں سلام کہنا جائز ہے؟!
  • یہ کہنا کہ اعمال پیش کیے جاتے ہیں، کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔

اس کے بعد عقیدہ نمبر 10 میں سے کچھ بھی درج نہیں کیا گیا۔


عقیدہ نمبر 24

متنِ عقیدہ

“مشائخ(اور بزرگوں) کی روحانیت سے استفادہ اور اُن کے سینوں اور قبروں سے باطنی فیوض کا پہنچنا سو بے شک صحیح ہے…” (المہند ص18)

تحقیق

  • المہند نہ تو قرآن ہے اور نہ صحیح حدیث کی کوئی کتاب ہے، لہٰذا اس کتاب کو بطور دلیل ذکر کرنا غلط ہے۔
  • قبروں سے باطنی فیوض پہنچنے کا عقیدہ نہ قرآن سے ثابت ہے، نہ حدیث سے، نہ اجماع سے، نہ آثار سلف صالحین سے، بلکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ثابت نہیں۔

اسی نوعیت کے مشترکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محمد یوسف لدھیانوی دیوبندی نے لکھا ہے:

"میری لیے دیوبندی بریلوی اختلاف کا لفظ ہی موجب حیرت ہے… لیکن دیوبندی بریلوی اختلاف کی کوئی بنیاد میرے علم میں نہیں ہے۔” (اختلاف اُمت اور صراط مستقیم، ج1 ص25 قدیم، جدید ص28)


اہل حدیث کے نزدیک ائمۂ ہدیٰ کون؟

اہل حدیث کے نزدیک تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین، ثقہ وصدوق عند الجمہور صحیح العقیدہ تابعین رحمۃ اللہ علیہ، تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہ اور اتباع تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہ ائمہ ہدیٰ ہیں اور ہم ادلہ شریعہ کی پیروی انہی کے فہم کی روشنی میں کرتے ہیں۔ والحمدللہ۔


حاصلِ کلام

عرفان صاحب! آپ نے دیکھ لیا کہ آل دیوبند کے مذکورہ تمام عقائد بشمول “قبروں سے باطنی فیوض کا پہنچنا” نہ تو ادلہ شرعیہ سے ثابت ہیں اور نہ خیر القرون کے ائمہ ہدیٰ سے ثابت ہیں، بلکہ ان بنیادی عقائد میں دیوبندیوں نے سمہودی، ملا علی قاری، ابن ہمام، طحاوی اور ابن عابدین جیسے لوگوں کا دامن مضبوطی سے پکڑ رکھا ہے جو کہ شر القرون کی پیداوار تھے۔

اصل بات یہ کہ آل دیوبند کو سلف صالحین پر اعتماد نہیں بلکہ خلف خالفین اور معتزلہ وجہمیہ پر اندھا دھند اعتماد ہے۔ وہ اپنے عقائد ومسائل ادلہ شرعیہ سے نہیں لیتے بلکہ خیر القرون کے صدیوں بعد والے خلف خالفین سے لیتے ہیں اور پروپیگنڈا یہ کرتے ہیں کہ اہل حدیث ائمہ ہدیٰ کو نہیں مانتے۔


چیلنج (اثباتِ عقائد کا معیار)

میری طرف سے تمام آل دیوبند کو عموماً اور محمد تقی عثمانی ومحمد الیاس گھمن کو خصوصاً چیلنج ہے کہ وہ اپنے دوورتی عقائد مذکورہ صراحت کے ساتھ درج ذیل علماء میں سے کسی ایک سے ثابت کردیں:

  • 1۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین
  • 2۔تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہ
  • 3۔تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہ
  • 4۔اتباع تابع تابعین رحمۃ اللہ علیہ
  • 5۔خیرالقرون کے سلف صالحین رحمہم اللہ

اگر ان سے ثابت نہ کرسکیں تو اپنے تسلیم کردہ درج ذیل علماء میں سے کسی ایک سے ثابت کردیں:

  • 1۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ
  • 2۔قاضی ابویوسف
  • 3۔ابن فرقد الشیبانی اور طحاوی

اور اگر نہ ثابت کرسکیں تو علانیہ توبہ کریں۔

آخر میں بطور تنبیہ عرض ہے کہ آلِ دیوبند کا اپنے آپ کو اہل سنت قراردینا، ان کا نرا دعویٰ ہے اور اس کے رد کے لیے دیکھئے میری کتاب: تحقیقی مقالات (ج4 ص 426۔438) وما علینا الاالبلاغ (18/رجب 1432ھ بمطابق 9/جون 2012ء)


حاشیہ

[1] ۔سرفراز خان صفدر دیوبندی نے کہا: "دعا میں بحق نبی یا بحق فلاں کہنا مکروہ ہے،یہاں ایک مسئلہ ہے کہ دعا میں بحق نبی یا بحق فلاں کہے تو مکروہ ہے صاحب ہدایہ نے دلیل دی ہےکہ اللہ پر کسی کا حق نہیں ہے۔” (فوائدصفدریہ محل 217) ندیم ظہیر۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمیہ
جلد3۔توحید و سنت کے مسائل-صفحہ37

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے