بدعت قرآن، حدیث، صحابہ اور آئمہ اہلسنت کی نظر میں
یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی کی کتاب اسلام مصطفٰی علیہ الصلاۃ والسلام سے ماخوذ ہے۔

بدعت کی لغوی تعریف:

علامہ مجد الدین یعقوب بن محمد فیروز آبادی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«بدعة بالكسر: الحدث فى الدين بعد الأكمال أو ما استحدث بعد النبى من الأهواء والأعمال»
القاموس المحيط: 3/3
”بدعت: باء کے کسرہ کے ساتھ: ایسی چیز جو تکمیل دین کے بعد نکالی جائے یا وہ چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خواہشات و اعمال کی صورت میں پیدا کی جائے۔“
علامہ محمد بن ابی بکر الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لبدعة: الحديث فى الدين بعد الإكمال»
مختار الصحاح ، ص: 44
”بدعت: تکمیل دین کے بعد کسی چیز کو دین میں نیا ایجاد کرنا ہے۔ “
امام ابو اسحٰق الشاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اصل مادہ اس کا ”بدع“ ہے۔ جس کا مفہوم کسی سابقہ نمونے کے بغیر کسی چیز کا ایجاد کرنا ہے۔ اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ ”یعنی آسمانوں اور زمین کو کسی سابقہ نمونے کے بغیر بنانے والا۔“
❀ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ﴾
[الأحقاف: 9]
”آپ کہہ دیں! میں اللہ کی طرف سے رسالت لے کر آنے والا پہلا آدمی نہیں ہوں بلکہ مجھ سے پہلے بھی بہت رسول آچکے ہیں۔“
اسی طرح جب کہا جاتا ہے! «ابتدع فلان بدعة» ، تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ”اس نے
ایسا طریقہ شروع کیا جس کی طرف پہلے کسی نے سبقت نہیں کی۔“
الاعتصام: 36/1
ان ائمہ لغات کی توضیحات سے معلوم ہوا کہ بدعت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی ایسی چیز کو ایجاد کرنا جس کی مثال یا نمونہ پہلے موجود نہ ہو۔

بدعت کی اصطلاحی تعریف:

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ ﴿بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ﴾ کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی آسمانوں اور زمین کو کسی سابقہ مثال اور نمونے کے بغیر پیدا کرنے والا ہے اور یہیں لغوی تقاضا ہے۔ اس لیے کہ لغت میں ہر نئی چیز کو بدعت کہتے ہیں اور بدعت کی دو اقسام ہیں:

(1) بدعت شرعی:

جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ”ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ “

(2) بدعت لغوی:

جیسے امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے جمع ہو کر تراویح پڑھنے کے متعلق فرمایا کہ ”یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے۔ “
تفسير ابن كثير: 328/1، بتحقيق عبد الرزاق المهدى . تفسير سورة البقرة آيت: 117
امام عبد الرحمن بن شباب المعروف ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والمراد بالبدعة: مما لا أصل له فى الشريعة يدل عليه فأما ما كان له أصل من الشرع يدل عليه فليس ببدعة شرعا وإن كان بدعة لغة»
جامع العلوم والحكم: 127/2
”بدعت سے مراد وہ نو ایجاد چیز جس کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو جو اس پر دلالت کرے۔ بہر کیف جس کی شریعت میں کوئی اصل ہو جو اس پر دلالت کرے وہ شرعی بدعت نہیں اگرچہ وہ لغت کے اعتبار سے بدعت ہو۔ “
مولوی عبد الغنی خان حنفی اپنی کتاب ”الجنة لأهل السنة“ ص: 161 میں ”البحر الرائق“ اور ”در مختار“ فقہ حنفی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
”بدعت وہ چیز ہے جو ایسے حق کے خلاف ایجاد کی گئی ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کیا گیا ہو۔ علم ، عمل یا حال اور کسی شبہ کی بنیاد پر اسے اچھا سمجھ کر دین قویم اور صراط مستقیم بنا لیا گیا ہو۔“
ان ائمہ اور حنفی اکابر کی توضیحات سے معلوم ہوا کہ ہر وہ نیا کام جسے ثواب و عبادت سمجھ کر دین میں داخل کر لیا گیا ہو وہ بدعت ہے۔

قرآن کریم کی روشنی میں بدعت کی مذمت:

اللہ تعالیٰ نے علمائے یہود کے لیے وعید کا ذکر فرمایا کہ جو تورات کی آیات اور اس کے احکام کو دنیا کی حقیر متاع کی خاطر بدل دیتے تھے اور تحریف کردہ کلام کے بارے میں لوگوں کو باور کراتے تھے کہ یہ کلام اللہ ہے۔ اور اپنی حرکتوں کی وجہ سے ناجائز طور پر لوگوں پر دو قسم کا ظلم کرتے تھے، ان کا دین بدل دیتے تھے، اور ان کا مال بھی ناجائز طور پر کھا جاتے تھے:
1: ﴿فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِندِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ﴾
[البقرة: 79]
”پس خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھ لیتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس کے بدلے کچھ مال حاصل کریں، پس ان کے لیے خرابی ہے، اپنے ہاتھوں سے لکھی ہوئی (کتاب) کے سبب، ان کے لیے خرابی ہے ان کی اپنی کمائی کے سبب ۔“
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگرچہ اللہ تعالی نے اس آیت میں ان یہود علماء کی مذمت کی ہے جو تورات کی آیات کو بدل دیتے تھے ، لیکن دین اسلام آنے کے بعد ان لوگوں کو بھی شامل ہے جو بدعتوں کو صحیح ثابت کرنے کے لیے قرآن وسنت میں تحریف کرتے ہیں ۔ اس میں ان یہود کی مذمت کی گئی ہے جو تورات کا علم نہیں رکھتے تھے، صرف ان کے پاس چند بے بنیاد تمنائیں تھیں، اور اب اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو قرآن کریم میں غور و فکر نہیں کرتے صرف حروف کی تلاوت کرتے ہیں، اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو دنیاوی مقاصد حاصل کرنے کے لیے قرآن کریم کے خلاف کوئی دوسری بات اپنے ہاتھ سے لکھ کر لوگوں میں رائج کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی شریعت اور اللہ کا دین ہے۔ اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو قرآن وسنت کو چھپاتے ہیں، تاکہ ان کا مخالف حق بات پر ان سے استدلال نہ کرے۔
اور قرآن پاک کی سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
2: ﴿وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾
[الأنعام: 153]
”اور بے شک یہی میری سیدھی راہ ہے، پس تم لوگ اس کی پیروی کرو، اور دوسرے طریقوں پر نہ چلو جو تمھیں اس کی (سیدھی) راہ سے الگ کر دیں، اللہ نے تمھیں ان باتوں کا حکم دیا ہے، تاکہ تم تقوی کی راہ اختیار کرو ۔“
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ”کہ اس آیت میں اسلام کے لیے لفظ سبل مفرد آیا ہے اور دیگر مذاہب اور فرقوں کے لیے سبل جمع آیا ہے۔ اس لیے کہ حق ایک ہے، اور تقلیدی مذاہب اور عقائدی فرقے متعدد اور گونا گوں ہیں ۔“ (تفسیر ابن کثیر، تحت الآیة)
ابن عطیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ”سبل“ کا لفظ یہودیت ، نصرانیت، مجوسیت اور دیگر تمام حلقوں، بدعتوں اور گمراہیوں کو شامل ہے جنھیں اہل ہوا و ہوس نے پیدا کیا ہے، اسی طرح علم کلام کے وہ تمام فرقے اس لپیٹ میں آجاتے ہیں جو خواہ مخواہ کی تفصیلات میں داخل ہوتے ہیں۔
امام قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں، جان لو کہ راستہ صرف ایک ہے، اور اہل ہدایت کی جماعت اور اس کا انجام جنت ہے، اور ابلیس نے مختلف راستے پیدا کر دیے ہیں جو گمراہوں کی جماعتیں ہیں اور ان کا انجام جہنم ہے۔
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ امت اسلامیہ کا اتحاد صرف ایک ہی صورت میں وجود میں آسکتا ہے کہ وہ سارے فرقوں اور مذاہب کو چھوڑ کر صرف صحیح اسلام کی متبع بن جائے ، جو صرف قرآن وحدیث کا نام ہے۔ اس کے بغیر اہل اسلام کا متحد ہونا محال ہے جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ یہ اُمت کسی بھی زمانے میں اسی راہ پر چل کر اصلاح پذیر ہوسکتی ہے، جسے اپنا کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اصلاح پذیر ہوئے ۔
3: بدعت افترا علی اللہ اور افترا علی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مترادف ہے۔ مفتری کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا ، اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿قُلْ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ﴾
[يونس: 69]
”آپ کہہ دیجیے کہ بے شک جو لوگ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔ “
4: کسی بھی معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کا حکم صادر ہو جائے تو کسی مومن مرد یا عورت کے لیے یہ اختیار باقی نہیں رہتا کہ اس کی مخالفت کرے اور اپنی یا کسی اور کی رائے پر عمل کرے، اس لیے کہ ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول کی سراسر نافرمانی اور کھلم کھلا گمراہی ہوگی۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:
﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا﴾
[الأحزاب: 36]
”اور جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے میں فیصلہ کر دے، تو کسی مسلمان مرد اور عورت کے لیے اس بارے میں کوئی اور فیصلہ قبول کرنے کا اختیار باقی نہیں رہتا، اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلی گمراہی میں مبتلا ہو جائے گا۔ “
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: کہ اس آیت میں مذکور حکم تمام امور کو شامل ہے یعنی کسی بھی معاملے میں جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم صادر ہو جائے ، تو کسی کے لیے بھی اس کی مخالفت جائز نہیں ہے، اور نہ کسی کے قول یا رائے کی کوئی حیثیت باقی رہ جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء آیت (65) میں فرمایا ہے:
5: ﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾
[النساء: 65]
”آپ کے رب کی قسم ! اوہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو اپنے اختلافی امور میں اپنا فیصل نہ مان لیں، پھر آپ کے فیصلہ کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تکلیف نہ محسوس کریں، اور پورے طور سے تسلیم کر لیں ۔ “ (تفسير ابن كثير، تحت الآیة)
6: بدعت ایجاد کرنا شریعت سازی کے مترادف ہے۔ قرآن مجید کی اس آیت کریمہ میں اس چیز کی مذمت کی گئی ہے۔ چنانچہ مشرکین کے خلاف اللہ تعالی کے غیظ و غضب کا اعلان ہوا کہ:
﴿أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾
[الشورى: 21]
”کیا ان کے ایسے شرکاء ہیں جنھوں نے ان کے لیے ایسا دین مقرر کر دیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی ہے، اور اگر اللہ کی جانب سے یہ بات طے نہ ہو گئی ہوتی (کہ ان کا فیصلہ قیامت کے دن ہوگا) تو اس دنیا میں ہی اُن کے درمیان فیصلہ کر دیا جاتا ، اور بے شک ظالموں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔“
مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں شرک باللہ کا شدید انکار اور مشرکین کے خلاف اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب کا اعلان ہے۔ اسی لیے اس کے بعد کہا گیا ہے کہ اگر یہ فیصلہ نہ ہو چکا ہوتا کہ ان کی سزا قیامت کے دن کے لیے مؤخر کر دی گئی ہے، تو ان کے جرم کا تقاضا تو یہ تھا کہ انھیں فوراً ہلاک کر دیا جاتا ، اور ایسے ظالموں کو قیامت کے دن دردناک عذاب دیا جائے گا۔
تيسر الرحمن، ص: 1359
7: اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام جیسا دین برحق دے کر دُنیا میں بھیجا، جس نے حق و باطل کو واضح کر دیا ہے، اب اگر کوئی اس سے چشم پوشی کرے اور اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی کرے تو اس سے بڑا ظالم کون ہوگا، جیسا کہ مشرکین کا حال تھا کہ وہ اللہ کے لیے بیٹا اور شریک ٹھہراتے ، اور اس کی حرام کردہ چیزوں کو حلال ، اور حلال چیزوں کو حرام بناتے ، اور کہتے کہ اگر اللہ کی مرضی نہ ہوتی تو پھر ہم بتوں کی پرستش نہ کرتے۔
﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُوَ يُدْعَىٰ إِلَى الْإِسْلَامِ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾
[الصف: 7]
”اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کے خلاف جھوٹ باندھے، حالانکہ اسے اسلام کی دعوت دی جا رہی ہو، اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ “

سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں بدعت کی مذمت:

بدعت ، سنت کی ضد ہے، بدعت دین میں اضافہ کے مترادف ہے، جس سے قرآن وسنت میں انتہائی سخت الفاظ میں منع کیا گیا ہے، چنانچہ سیدنا سمرة بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
1: «إذا حدثتكم حديثا فلا تزيدن عليه»
مسند احمد: 11/5، حدیث نمبر: 2007 ۔ احمد شاکر نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
”جب میں تمھیں کوئی بات بیان کروں تو تم اس پر اضافہ ہرگز نہ کرنا۔ “
2: «عن البراء بن عازب رضي الله عنهما قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم: إذا أتيت مطجعك فتوضأ وضوءك للصلاة ثم أضطجع على شقك الأيمن، ثم قل: اللهم أسلمت وجهي إليك، وفوضت أمرى إليك، وألجأت ظهري إليك، رغبة ورهبة إليك، لا ملجأ ولا منجى منك إلا إليك اللهم آمنت بكتابك الذى أنزلت، ونبيك الذئ أرسلت. فإن مت من ليلتك، فأنت على الفطرة، واجعلهن آخر ما تكلم به. قال: فرددتها على النبى صلى الله عليه وسلم ، فلما بلغت: اللهم آمنت بكتابك الذى أنزلت قلت: ورسولك، قال: لا ، ونبيك الذى أرسلت»
صحيح البخاری، کتاب الوضوء ، رقم: 247
براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: جب تم اپنی خوابگاہ میں جاؤ تو پہلے نماز کا سا وضو کرو اور اپنے دائیں پہلو پر لیٹ کر یہ دعا پڑھو۔ اے اللہ ! تیرے ثواب کے شوق میں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہوئے میں نے اپنے آپ کو تیرے سپرد کر دیا اور تجھے اپنا پشت پناہ بنا لیا، تجھ سے بھاگ کر کہیں پناہ نہیں مگر تیرے ہی پاس ، اے اللہ ! میں اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے اتاری اور تیرے اس نبی پر یقین کیا جسے تو نے بھیجا۔ اب اگر تو اس رات مر جائے تو فطرت اسلام پر مرو گے، نیز یہ دعائیہ کلمات سب باتوں سے فارغ ہو کر پڑھو، سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ کلمات آپ کے سامنے دہرائے، جب میں اس جگہ پہنچا: «آمنت بكتابك الذى انزلت» اس کے بعد میں نے «ورسولك» کہہ دیا، تو آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ یوں کہو «ونبيك الذى ارسلت» ۔
3: «عن العر باض بن سارية، قال: وعظنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما بعد صلاة الغداة موعظة بليغة ذرفت منها العيون ووجلت منها القلوب، فقال رجل: إن هذه موعظة مودع فماذا تعهد إلينا يا رسول الله؟ قال أوصيكم بتقوى الله والسمع والطاعة، وإن تأمر عليكم عبد حبشي، فإنه من يعش منكم فسيرى اختلافا كثيرا وإياكم ومحدثات الأمور فإنها ضلالة فمن أدرك منكم ذالك فعليه بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين، عضوا عليها بالنواجذ»
سنن ترمذی، کتاب العلم، رقم: 2676 ۔ سنن ابوداؤد، رقم: 4607 ۔ سنن ابن ماجه رقم: 42۔ امام ترمذی نے اسے حسن صحیح اور محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے ۔
”سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک دن صبح کی نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسا مؤثر وعظ فرمایا کہ جس سے آنکھیں بہہ پڑیں اور دل کانپ اٹھے۔ ایک شخص نے کہا: یہ الوداعی نصیحت ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کس بات کا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، احکامات سنو اور اطاعت کرو خواہ تم پر حبشی غلام ہی کیوں نہ امیر مقرر کر دیا جائے۔ اس لیے جو تم میں سے زندہ رہیں گے۔ وہ دیکھ لیں گے کہ میری امت میں بڑا اختلاف پیدا ہوگا اور دیکھو دین میں پیدا کردہ نئی بدعات سے بچنا اس لیے کہ یہ گمراہی ہے۔ جو شخص ایسا زمانہ پائے وہ میری اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ ڈاڑھوں سے پکڑے رکھے۔“
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب جامع العلوم والحکم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان «فان كل بدعة ضلالة» کی شرح کرتے ہوئے رکھا ہے کہ آپ کا مذکورہ فرمان ان جامع کلمات میں سے ہے جن سے کوئی چیز خارج نہیں ہے۔ وہ اصول دین میں ایک عظیم اصل ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان «من أحدث فى أمرنا هذا ما ليس منه فهورة» کے مشابہ ہے لہذا جس نے بھی کوئی نئی بدعت ایجاد کی اور دین کی طرف اس کی نسبت کی اور دین میں اس کی کوئی اصل مرجع نہیں ہے تو وہ گمراہی ہے اور دین اس سے بری، الگ ہے، خواہ وہ اعتقادی مسائل ہوں یا ظاہری و باطنی اعمال و اقوال ہوں۔
بدعت مردود ہے اور بدعتی بھی مردود ہے۔
چنانچہ اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من أحدث فى أمرنا هذا ما ليس فيه فهورد»
صحيح البخارى، كتاب الصلح، باب اذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود ، رقم الحديث: 2697۔ صحیح مسلم، کتاب الأقضية، باب نقض الأحكام الباطلة ورده محدثات الأمور: 1718
”جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں نہیں ہے وہ مردود ہے۔ “
صحیح مسلم میں یہ حدیث ان الفاظ سے مروی ہے کہ:
«من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهورة»
”جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں وہ مردود ہے۔“
اور امام بغوی رحمہ اللہ نے اسے یوں روایت کیا ہے کہ:
«من أحدث فى ديننا ما ليس منه فهورد»
شرح السنة، باب رد البدع والأهواء: 211/1 ، رقم: 103
یعنی اس حدیث میں «امرنا» کی تفسیر «ديننا» سے ہے۔ امر سے مراد دین ہے جس نے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی وہ مردود ہے۔
اس تفسیر کی رو سے دنیاوی ایجادات بدعت شرعی کی تعریف سے خارج ہوگئیں اور اہل بدعت کے شبہات کا ازالہ ہو گیا جو کہتے ہیں کہ گھڑی پہننا ، لاؤڈ سپیکر ، گاڑیاں وغیرہ بھی تو بدعت ہیں ۔ حدیث مذکورہ بالا سے معلوم ہوا کہ بدعت مردود ہے جو دین میں نئی ایجاد کی گئی ہو اور اسے عبادت سمجھ کر تقربِ الہی مراد ہو اور یہی بات امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ نے ”جامع العلوم والحكم“ حدیث نمبر 176/15 کے تحت ذکر کی ہے۔
بدعتی پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت ہے۔
4: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«لعن الله من أحدث فى الإسلام حدثا»
مسند الربيع، رقم: 372
”اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت فرمائے جس نے اسلام میں کوئی نئی بات ایجاد کی۔ “
5: ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من أحدث فيها حدثا أو أوى فيها محدثا فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين، لا يقبل منه صرف ولا عدل»
مسند أحمد: 22/1
”جس نے اس ”مدینہ“ میں بدعت ایجاد کی یا بدعتی کو اپنے ہاں ٹھکانہ دیا اس پر اللہ کی، اس کے فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اس سے فرض یا نفل عبادت قبول نہیں کی جائے گی ۔“
6: سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”مدینہ اس طرح حرام ہے، اس کے درخت نہ کاٹے جائیں اور نہ ہی اس میں کوئی بدعت نکالی جائے ۔ جس نے اس میں بدعت نکالی اس پر اللہ تعالیٰ فرشتوں اور تمام بنی نوع انسان کی لعنت ہو ۔ “
صحيح البخارى، كتاب فضائل المدينة، رقم: 1867 و كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، رقم: 7306۔ صحیح مسلم: 441/1
بدعتی کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر بدعت والے آدمی سے توبہ کو روک دیا ہے۔“
اس حدیث کو امام طبرانی نے اوسط میں بیان کیا ہے۔
مجمع الزوائد: 192/10 – طبرانی اوسط: 113/5

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار کی روشنی میں بدعت کی مذمت:

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سنت سے محبت کرنے والے اور بدعت سے شدید نفرت کرنے والے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس چیز کا درس دیا تھا۔

(1) سیدنا ابو بکر صدیق رضی الله عنہ :

علامہ ابن سعد رحمہ اللہ نے اپنی سند سے ذکر کیا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
”لوگو! میں متبع سنت ہوں، بدعتی نہیں ہوں ، لہذا اگر درست کروں تو میری مدد کرو اور اگر انحراف کروں تو میری اصلاح کرو۔ “
الطبقات الکبری از ابن سعد: 136/3

(2) سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ:

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”اصحاب الرائے (بدعتیوں) سے بچو کیونکہ یہ سنتوں کے دشمن ہیں، ان سے حدیثیں نہ یاد ہو سکیں تو انھوں نے اپنی من مانی (جو دل میں آیا) کہنا شروع کر دیا، خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا ۔ “
سنن دارمی: 47/1

(3) سیدنا علی المرتضى رضی اللہ عنہ:

امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ ”اللہ تعالی کی لعنت ہو ایسے آدمی پر جس نے غیر اللہ کے لیے ذبح کیا اور اس کی لعنت بر سے ایسے آدمی پر جس نے زمین کی حدود چوری کر لیں اور اللہ کی لعنت ہو ایسے آدمی پر جس نے اپنے والد پر لعنت کی اور ایسے آدمی پر بھی اللہ کی لعنت ہو جس نے کسی بدعتی کو پناہ دی ۔ “
صحيح مسلم، کتاب الأضاحی، باب تحريم الذبح لغير الله ، رقم: 1978 – مسند احمد: 118/1
سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں بدعت ایجاد کرنے والے اور بدعتی کی عزت و تکریم کرنے والے شخص کے متعلق فرماتے ہیں:
«من أحدث فيها حدثا أو أوى فيها محدثا، فعليه لعنة الله، والملئكة، والناس أجمعين لا يقبل منه صرف ولا عدل»
صحیح بخاری، رقم: 3172۔ صحیح مسلم، رقم: 3327
”پس اس مدینہ میں جو کوئی نئی بات نکالے گا یا کسی بدعتی کو پناہ دے گا، اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اس سے فرض یا نفل عبادت قبول ہی نہیں کی جائے گی۔“

(4) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا:

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«من أحدث فى أمرنا هذا ما ليس منه فهورد»
صحیح بخاری: 132/9 صحیح مسلم: 1344/3
”جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود اور ناقابل قبول ہے۔ “
دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
«من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهورد»
صحیح مسلم: 1344/3
”جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پہ ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ “
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: یہ حدیث اسلام کا ایک عظیم قاعدہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جامع کلمات میں سے ایک ہے۔ یہ ہر طرح کی بدعت اور خود ساختہ امور کی تردید میں صریح ہے۔ دوسری روایت میں مفہوم کی زیادتی ہے اور وہ یہ کہ بعض پہلے سے ایجاد شدہ بدعتوں کو کرنے والے کے خلاف اگر پہلی روایت بطور حجت پیش کی جائے تو وہ بطور عناد کہے گا کہ میں نے تو کچھ ایجاد نہیں کیا، لہذا اس کے خلاف دوسری روایت حجت ہوگی ، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ہر نئی چیز مردود ہے، خواہ کرنے والے نے اسے از خود ایجاد کیا ہو یا اس سے پہلے اسے کوئی ایجاد کر چکا ہو۔
شرح مسلم للنووی: 16/12

(5) سیدنا عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ:

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«اتبعوا ولا تبتدعوا فقد كفيتم»
سنن دارمی، رقم: 211
”اتباع کرو بدعت اختیار نہ کرو، تمہاری کفایت کی جاچکی یعنی تمھیں خود رائی کی ضرورت نہیں۔ “
عمر و بن یحی اپنے والد سے روایت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم لوگ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازے پر صبح کی نماز سے پہلے بیٹھے ہوئے تھے کہ وہ باہر نکلے تو ہم سبھی لوگ ان کے ساتھ مسجد چلے ، اتنے میں سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ آئے اور کہا کہ کیا ابھی ابو عبد الرحمن نہیں نکلے؟ ہم نے کہا کہ نہیں ، تو وہ بھی ان کے نکلنے تک بیٹھ گئے ، جب وہ نکلے تو ہم سبھی لوگ کھڑے ہو گئے۔ ابو موسیٰ نے کہا: اے ابو عبد الرحمن! میں نے ابھی مسجد میں ایک ایسی چیز دیکھی ہے جو مجھے بہت ناگوار گزری، اور الحمدللہ خیر ہی دیکھی ہے، انھوں نے پوچھا وہ کیا ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ اگر زندہ رہے تو آپ دیکھ لیں گے، انھوں نے کہا: میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو حلقہ لگا کر بیٹھے ہوئے دیکھا ، وہ نماز کی انتظار میں تھے، ہر حلقے میں ایک آدمی تھا، اور ان کے ہاتھ میں کنکریاں تھیں جب وہ کہتا کہ سو بار «الله اكبر» کہو تو سب لوگ سو بار «الله اكبر» کہتے ، اور جب وہ کہتا کہ سو بار «لا إله إلا الله» کہو، تو سو بار «لا إله إلا الله» کہتے ، جب وہ کہتا کہ سو مرتبہ «سبحان الله» کہو تو وہ سو مرتبہ «سبحان الله» کہتے ۔ انھوں نے کہا، کیوں نہیں تم نے انھیں اپنے گناہوں کو شمار کرنے کو کہا اور تم ضمانت لے لیتے کہ تمھاری کوئی نیکی ضائع نہیں ہوگی۔ پھر وہ چلے ہم بھی ان کے ساتھ چل پڑے یہاں تک کہ ان حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس کھڑے ہوئے اور کہا یہ کیا میں تمھیں کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ اے ابو عبدالرحمن ! کنکریاں ہیں جن سے ہم تکبیر و تہلیل، تسبیح اور تحمید کا شمار کرتے ہیں ۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: تم لوگ اپنی اپنی خطائیں شمار کرو، تمھارے لیے اس بات کا ضامن ہوں کہ تمھاری کوئی نیکی برباد نہیں ہوگی۔ اے امت محمد ! تمھاری تباہی و بربادی ہو، کتنی جلدی تمھاری ہلاکت آگئی یہ صحابہ کرام کی جماعت موجود ہے، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے اور نہ ہی آپ کے برتن ٹوٹے۔
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کیا تم لوگ ایسے طریقے پر ہو جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے زیادہ بہتر ہے، یا گمراہی کے دروازے کھولنے والے ہو۔ تو ان لوگوں نے کہا کہ اللہ کی قسم ! اے عبدالرحمن ہمارا مقصد صرف خیر کا ہی ہے، انھوں نے کہا کہ: کتنے خیر کے متلاشی اسے ہرگز نہیں پا سکتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ایک حدیث بیان کی کہ ایک قوم قرآن مجید پڑھے گی لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، اور اللہ کی قسم ! مجھے معلوم نہیں ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ زیادہ تر تم میں سے ہوں یہ کہہ کر وہاں سے واپس چلے گئے۔
عمر و بن سلمہ کہتے ہیں کہ: ”ہم نے انھیں نہروان کے دن دیکھا کہ وہ خوارج کے ساتھ ہم سے نیزہ زنی کر رہے تھے ۔“
سلسلة احادیث صحیحه، رقم: 2005 – سنن دارمی، حدیث ، رقم 210
علامه مروزی رحمہ اللہ سیدنا ابن مسعود اور ابی ابن کعب رضی اللہ عنہما کا قول نقل کرتے ہیں کہ:
«الاقتصاد فى السنة خير من الاجتهاد فى البدعة»
السنه للمروزى، حدیث رقم: 76، 77
”سنت کے مطابق تھوڑا عمل کرنا بدعت پر چلتے ہوئے زیادہ عمل کرنے سے بہتر ہے۔ “

(6) سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما:

حضرت نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے:
«ان رجلا عطس إلى جنب ابن عمر فقال: الحمد لله والسلام على رسول الله. قال ابن عمر وأنا أقول: الحمد لله والسلام على رسول الله وليس هكذا علمنا رسول الله ما علمنا أن تقول الحمد لله على كل حال»
سنن ترمذی، کتاب الأدب، رقم: 2738 – محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بغل میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو چھینک آئی اس پر اس نے الحمد لله والسلام على رسول الله کہا، اس پر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں بھی کہتا ہوں الحمد لله والسلام على رسول الله، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس طرح نہیں سکھایا بلکہ ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہمیں جب چھینک آئے تو الحمد لله کہیں۔ “
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا کا فرمان ہے کہ:
كل بدعة ضلال وان رآها الناس حسنة
السنة للامام المروزی، رقم: 82- شرح اصول اعتقاد اهل السنة والجماعة للالكائي: 92/1 – الابانة: 92/1
”ہر بدعت گمراہی ہے اگرچہ لوگ اسے اچھا سمجھیں۔ “

(7) سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما:

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
”لوگوں پہ کوئی سال ایسا نہ گزرے گا جس میں وہ کوئی بدعت ایجاد نہ کریں گے اور کسی سنت کو مردہ کر چکے ہوں گے۔ یہاں تک کہ بدعتیں زندہ و پائندہ ہوتی رہیں گی اور سنتیں مردہ ہوتی چلی جائیں گی ۔ “
المعجم الكبير از امام طبرانی: 319/10
عثمان بن حاضر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ہاں گیا ، ان سے نصیحت کی درخواست کی تو انھوں نے مجھے نصیحت فرمائی کہ اللہ سے تقویٰ کو لازم پکڑو، استقامت اختیار کرو، اتباع کرو اور بدعت سے دور رہو۔
سنن دارمی، رقم: 141
اللہ تعالیٰ کے فرمان عالیشان: ﴿يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ﴾
[آل عمران: 106]
”جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے اور بعض چہرے سیاہ۔ “ کی تفسیر میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
”یعنی اہل سنت والجماعت کے چہرے سفید ہوں گے اور اہل بدعت و افتراق کے چہرے سیاہ ہوں گے ۔ “
اجتماع الجيوش الاسلامية على غزو المعطلة والجهمية، از امام ابن قیم رحمہ الله: 39/2
کسی نے کیا خوب کہا ہے:
خير الأمور السافلات على الهدى
وشر الأمور المحدثات البدائع

”بہترین کام وہ ہیں جو راہ ہدایت پر چلتے ہوئے کیے جائیں اور بدترین کام وہ ہیں جو نئے اور انوکھے ہوں۔ “
سیدنا یزید بن عمیرہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں سے تھے، یہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کا معمول ذکر کرتے ہیں کہ وہ جب بھی محفل ذکر میں بیٹھتے تو فرماتے: اللہ حکمت اور عدل والا ہے، اور شک کرنے والے ہلاک ہو گئے، ایک دن سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمھارے بعد بہت سارے فتنے ظہور پذیر ہوں گے، جن میں سے ایک فتنہ کثرتِ مال کا ہے اور قرآن کو کھول دیا جائے گا، یہاں تک کہ اس کو مومن و منافق ، مرد اور عورت ، چھوٹے اور بڑے، غلام اور آزاد، سب دیکھیں گے، قریب ہے کہ ایک کہنے والا کہے کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ میری اتباع نہیں کرتے حالانکہ میں نے قرآن ہی پڑھا ہے؟ وہ لوگ ہرگز ہرگز اس کی پیروی نہیں کریں گے ، جتنی کہ (اس قاری قرآن) کے علاوہ کوئی اور شخص ان کے لیے بدعت ایجاد کرے گا (یہ اس کی پیروی کریں گے) تم اس بدعت سے بچتے رہو جس کو وہ گھڑے گا، یقینا جو اس نے بدعت ایجاد کی ہے وہ گمراہی ہے، اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمھیں حکیم (دانا) کے گمراہ کرنے سے ڈراتا ہوں، کیونکہ کبھی کبھار شیطان دانا آدمی کی زبان سے بھی گمراہی کا کلمہ کہلوا دیتا ہے، اور کبھی کبھار منافق حق بات کہہ دیتا ہے؟ (یزید کہتے ہیں) میں نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اللہ آپ پر رحم کرے، آپ ذرا مجھے پہچان کرا دیں کہ دانا آدمی بھی گمراہی کا کلمہ کہتا ہے اور منافق بھی کلمہ حق کہہ سکتا ہے؟ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: کیوں نہیں! دانا کے اس کلام سے بچ اور جس کے بارے میں اسے یوں کہا جائے کہ یہ کیا ہے؟ وہ اس گمراہی کو تیرے لیے حق سے علیحدہ بیان نہیں کرے گا، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے اس حکم سے رجوع کر لے یا پھر جب وہ حق کو سنے تو اس کو قبول کرلے، یقیناً حق پر نور اور تابناک ہوتا ہے ۔
سنن ابی داؤد، کتاب السنة، رقم: 4611 محدث البانی نے اسے ”صحیح الاسناد“ کہا ہے۔

(8) سیدنا انس رضی الله عنہ:

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
جاء ثلاثه رهط إلى بيوت أزواج النبى صلى الله عليه وسلم يسألون عن عبادة النبى صلى الله عليه وسلم فلما أخبروا كأنهم تقالوها فقالوا: وأين نحن من النبى صلى الله عليه وسلم قد غفر له ما تقدم من ذنبه وما تأخر قال أحدهم: أما أنا فإني أصلى الليل أبدا، وقال آخر: أنا أصوم الدهر ولا أفطر، وقال آخر: أنا أعتزل النساء فلا أتزوج أبدا فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم إليهم، فقال: أنتم الذين قلتم كذا وكذا ، أما والله! إني لأخشاكم لله وأتقاكم له ، لكني أصوم وأفطر ، وأصلي وأرقد، وأتزوج النساء فمن رغب عن سنتي فليس مني
صحیح بخاری، صحیح مسلم
ازواج مطہرات کے پاس تین آدمی آئے ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے سلسلہ میں دریافت کیا، جب ان کو اس کی خبر دی گئی تو انھوں نے اس کو کم تصور کیا اور کہنے لگے: ہماری نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا نسبت اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ سب بخش دیے ہیں۔ ان میں سے ایک نے کہا: میں ساری رات نماز پڑھوں گا، دوسرے نے کہا: میں ہمیشہ دن میں روزے سے رہوں گا اور تیسرے نے کہا: میں عورتوں سے الگ رہوں گا کبھی شادی نہ کروں گا (یعنی ہمیشہ عبادت میں مصروف رہوں گا) اچانک نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہنچ گئے، اور فرمایا: ”کیا تمھیں لوگوں نے ایسا ایسا کہا ہے؟ خبردار، اللہ کی قسم ! میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور زیادہ تقویٰ اختیار کرنے والا ہوں، نفلی روزہ بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ہوں، رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں لہذا جس نے میری سنت سے اعتراض کیا وہ مجھ سے نہیں۔“

(9) غضيف بن حارث رضی الله عنہ:

جناب غضیف بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی قوم بدعت ایجاد کرتی ہے تو ان سے ایک سنت اٹھائی جاتی ہے۔
مسند أحمد: 105/4

(10) ابراہیم بن میسرۃ رضی اللہ عنہ:

جناب ابراہیم بن میسرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے صاحب بدعت کی توقیر کی ، اس نے اسلام کی عمارت ڈھا دینے میں معاونت کی ۔
شعب الايمان: 61/7 ، رقم: 9464

ائمہ کرام اور اہل علم کے اقوال کی روشنی میں بدعت کی مذمت:

ائمہ کرام اور اہل علم نے بھی بدعت کی مذمت بیان کی ہے۔ ذیل میں دیے گئے اقوال و فتاویٰ ائمہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں۔

(1) امام مالک بن انس رحمہ اللہ:

امام شاطبی رحمہ اللہ نے اپنی مایہ ناز کتاب ”الاعتصام“ میں امام دار الہجرہ سے نقل فرمایا ہے:
جو شخص اسلام میں کوئی بدعت متعارف کراتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ یہ بدعت حسنہ ہے، تو اس شخص کا یقینا یہ عقیدہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اللہ کا پیغام پہنچانے میں جو کہ ان کی ذمہ داری تھی ، خیانت کی ہے: (العیاذ باللہ) اور اگر تم دلیل چاہو تو
اللہ تعالی کا کلام پڑھو:
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾
[المائدة: 3]
”آج کے دن میں نے تمھارا دین تمھارے لیے مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور اسلام کو تمھارے لیے بطور دین پسند کر لیا۔“
آپ نے مزید فرمایا:
”اور اس امت کے آخری (لوگوں) کی اصلاح نہیں ہو سکتی مگر صرف اس طریقے سے جس سے اس امت کے پہلے (لوگوں) کی اصلاح ہوئی تھی۔ پس جو چیز اس وقت دین کا حصہ نہ تھی وہ آج بھی دین کا حصہ نہیں بن سکتی ۔ “
الشفا للقاضی عیاض: 676/2
پھر امام شاطبی (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں: ”ہم اس روایت کو جو امام مالک (رحمہ اللہ) امام دار الہجرہ سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے، بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ دین میں کوئی بدعت ایجاد کرے، چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی اور معمولی کیوں نہ ہو، اور چاہے وہ کردار وسلوک میں ہو یا عبادات و اعتقادات میں اور ہم اس روایت کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں قرآن کریم کی اس آیت پر اعتماد کرتے ہوئے کہ جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے دین یعنی اسلام کو تمام کر کے اس نے ہم پر اپنی نعمت تمام کر دی ۔“
الاعتصام: 35/2
فضيلۃ الشيخ صالح بن فوزان الفوزان حفظ اللہ اپنی کتاب ”بدعت“ میں امام مالک رحمہ اللہ کا یہ قول لائے ہیں کہ ایک آدمی امام مالک بن انس رحمہ اللہ کے پاس آ کر کہنے لگا کہ میں احرام کہاں سے باندھوں؟ تو آپ نے جواب دیا کہ اس میقات سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کی ہے آدمی نے کہا، اگر اس سے دور سے احرام باندھوں تو؟ امام مالک رحمہ اللہ نے کہا: یہ میں اچھا نہیں سمجھتا، تو اس آدمی نے کہا: اس میں آپ کیا برا سمجھتے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ تمھارے فتنے میں پڑنے کا مجھے خوف ہے، اس آدمی نے کہا کہ خیر کے چاہنے میں فتنہ ہوسکتا ہے؟ تو امام مالک نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾
[النور: 63]
”پس چاہیے کہ ڈریں وہ لوگ جو مخالفت کرتے ہیں اور رسول کے حکم کی اس (بات) کہ انھیں دُنیا میں کوئی آزمائش یا آخرت میں دردناک عذاب پہنچے ۔ “

(2) امام شافعی رحمہ اللہ:

امام شافعی رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ: ”اہل کلام کے بارے میں میرا فیصلہ یہ ہے کہ کھجور کی شاخ سے ان کی پٹائی کی جائے ، انھیں اونٹ پر سوار کر کے علاقوں اور قبیلوں میں گھمایا جائے اور اعلان کیا جائے کہ یہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر علم کلام سے جڑ جانے کا انجام ہے۔ “
الحليه: 116/9

(3) امام احمد بن حنبل رحمہ الله:

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ”سنت کے اصول ہمارے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عقیدہ منہج کو لازم پکڑنا ، بدعات سے اجتناب کرنا کہ ہر بدعت گمراہی ہے جھگڑے اور بےجا مباحاثات سے دور رہنا اور اہل بدعت کی ہم نشینی سے احتراز کرنا نیز دین میں اختلاف اور جنگ وجدال سے بچنا ہے۔“
شرح أصول اعتقاد اهل السنة والجماعة از لالکائی: 176/1
مزید امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:
أصول السنة عندنا التمسك بما كان عليه أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم والاقتداء بهم وترك البدع وكل بدعة ضلالة
القول الرسمي، ص: 13
”اصول سنت ہمارے ہاں یہ ہے کہ صحابہ کرام کے طریقے کو لازم پکڑیں اور ان کی اقتداء کریں اور بدعت کو ترک کر دیں کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔“

(4) امام سفیان ثوری رحمہ الله:

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
البدعة أحب إلى إبليس من المعصية لان المعصية يتاب منها، والبدعة لايتاب منها
منهج سلف صالحين، ص: 111
”شیطان کو بدعت نافرمانی و گناہ سے زیادہ محبوب و پسند ہے کیونکہ گناہ و نافرمانی سے توبہ کر لی جاتی ہے مگر بدعت سے توبہ اکثر طور پر نہیں کی جاتی۔ “
مؤرخ اسلام علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے سفیان ثوری رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ: ”جو شخص جان بوجھ کر بدعتی آدمی کی بات توجہ سے سنے وہ اللہ تعالیٰ کی (حفاظت) سے نکل گیا اور اپنے نفس کے سپر د کر دیا گیا۔ “
سير أعلام النبلاء: 261/7
سفیان ثوری رحمہ اللہ کا ہی ایک اور قول ہے: لکھتے ہیں ”جو شخص کسی بدعت کے بارے میں سنے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے ساتھیوں کو اس بدعت کے متعلق مت بتائے ، ان کی توجہ اس طرف مبذول نہ کروائے۔ “
پھر امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
”اکثر اسلاف اس قدر ڈراتے ہیں؛ ان کا خیال ہے کہ دل کمزور ہوتے ہیں اور شبہات ان میں جلدی داخل ہو جاتے ہیں۔ “

(5) سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ:

سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے کسی آدمی کو خط لکھا:
سلام عليك … ”تجھ پر سلام و سلامتی ہو ۔“ اس کے بعد میں تجھے اللہ کے دین پر کاربند رہنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع پر اکتفا کرنے کی نصیحت کرتا ہوں اور اس سے بچنے کی جسے بعد والوں نے گھڑا ہے، آپ کی سنت جاری ہو چکی اور اس پر ہی تکلیف اُٹھانا کافی ہے، پھر یہ بات بھی تجھے ذہن نشین ہو جائے کہ جب بھی کوئی بدعت آتی ہے تو اس (بدعت) سے پہلے سنت چلی جاتی ہے، کیونکہ سنت وہ چیز ہے جس پر وہ لوگ چلے جو یہ جانتے تھے کہ اس (سنت) کے برعکس اور مقابل ومعارض جو چیز ہے وہ گمراہی غلطی، جہالت اور حماقت و بے وقوفی ہے، اپنے نفس کو اس چیز پر راضی کر جس پر صحابہ نے اپنے نفسوں کو راضی کیا، بے شک انھوں نے علم کی بنا پر توقف اختیار کیا اور گہری بصیرت کی وجہ سے رکے رہے۔ اور معاملات کا پردہ چاک کرنے پر زیادہ قادر تھے اور اگر اس میں فضیلت ہوتی تو وہ اس کے زیادہ مستحق و حق دار تھے، وہ تم سے پہلے گزرے ہیں اور اگر ہدایت وہ چیز ہے جس پر تم ہو تو کیا تم ہدایت میں ان سے بھی سبقت لے گئے ہو (اور ایسا نہیں ہوسکتا) تو پھر تم عذر پیش کرو کہ یہ معاملات ان کے بعد پیش آئے ہیں تو لامحالہ ان اُمور کو انھوں نے ہی گھڑا ہو گا، جو ان کے راستے کے علاوہ دوسرے راستے کی پیروی کرتے ہیں اور خود کو ان سے بیزار سمجھتے ہیں۔ پس تحقیق ہم نے صفات کے بارے میں کلام کیا جو ان کے کلام کے علاوہ تھا تو وہ تقصیر وکمی اور توہین ہے اور کچھ ان سے آگے بڑھنے لگے یہ ان کے لیے قیامت کے دن حسرت ہوگی اور کچھ لوگوں نے ان سے کمی کی تو وہ (صراط مستقیم پر) قرار نہ پا سکے اور کچھ لوگوں نے ان سے نظریں پھیریں تو انھوں نے غلو کیا۔
اس کے باوجود کہ وہ صراط مستقیم پر تھے اگر تو یہ کہے فلاں فلاں آیت کہاں جائے گی؟ اور اللہ نے ایسے ایسے کیوں کہا؟ تحقیق انھوں نے بھی وہی پڑھا جو تم نے پڑھا اور ان کی تفسیر کو جانا جس کی تفسیر و تاویل سے تم ناآشنا و جاہل ہو پھر ان ساری باتوں کے بعد انھوں نے کہا ”ہدایت یافتہ وہی ہو سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت کی توفیق دے کیونکہ ہدایت کی توفیق دینا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور وہی جانتا ہے کہ ہدایت کے قابل کون ہے ۔ “
منهج سلف صالحین، ص: 115 ، 116

(6) حسان بن عطیہ رحمہ اللہ:

تابعی جلیل حضرت حسان بن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ما ابتدع قوم بدعنى دينهم إلا نزع من سنتهم مثلها
سنن الدارمی: 58/1، رقم: 98
”جب بھی کوئی قوم دین میں بدعت ایجاد کرتی ہے تو ان میں سے اس کے مثل سنت اٹھالی جاتی ہے۔“

(7) احمد بن سنان الواسطی رحمہ اللہ:

امام احمد بن سنان الواسطی (متوفی 259ھ) فرماتے ہیں:
”دنیا میں جو بھی بدعتی ہے وہ اہل حدیث سے بغض رکھتا ہے اور آدمی جب بدعتی ہو جاتا ہے تو حدیث کی مٹھاس اس کے دل سے نکل جاتی ہے ۔ “
معرفة علوم الحديث للحاكم، ص: 4

(8) ابو الفضل الھمدانی رحمہ اللہ:

الشيخ ابو الفضل الھمدانی نے فرمایا:
”بدعتی ٹولہ اسلام کے لیے ملحدین سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے کیونکہ ملحدین دین کو بیرونی ذرائع سے بگاڑنا چاہتے ہیں جب کہ بدعتی ٹولہ دین کو اندرونی طور پر بگاڑنا چاہتا ہے، ان کی مثال اس شہر والوں کی سی ہے جو شہر کے حالات کو بگاڑنا چاہتے ہیں اور ملحدین کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو باہر سے آ کر ان کا ساتھ دیتے ہیں، تو اہل قلعوں اور شہر کا دروازہ کھولتے ہیں، (تاکہ بیرونی مددگار بھی اندر داخل ہو سکیں) لہذا یہ ٹولہ اسلام کے لیے اندرونی دشمن ہونے کی وجہ سے زیادہ خطرناک ہے (یہ آستین کے سانپ ہیں) ۔ “
الموافقات: 51/1

(9) امام ابو محمد حسن بن علی البر بہاری رحمہ اللہ:

امام بر بہاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
وهم أهل السنة والجماعة، فمن لم يأخذ عنهم فقد ضل وابتدع، وكل بدعي ضلالة، والضلالة و أهلها فى النار
منهج سلف صالحین، ص: 66
”صحابہ کرام ہی اہل السنہ والجماعت ہیں جو ان سے دین کے معاملات میں رہنمائی نہیں لیتا ، وہ گمراہ ہو گیا اس نے بدعت گھڑی ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور گمراہی اور گمراہ دونوں جہنمی ہیں۔“
علامہ بر بہاری رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ یہ بات آپ کے علم میں ہونی چاہیے کہ جب کبھی بھی لوگ بدعت گھڑتے ہیں تو نتیجتاً وہ اس کے بدلے میں اس جیسی ایک سنت کو چھوڑ دیتے ہیں ، تو آپ من گھڑت امور سے بچئے کیونکہ ہر نیا کام من گھڑت اور بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا مرتکب جہنم میں جائے گا۔
منهج سلف صالحین، ص: 110
علامہ بر بہاری رحمہ اللہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ:
واحذر صغار المحدثات من الأمور فإن صغير البدع يعود حتى بصير كبيرا
منهج سلف صالحین، ص: 112
”چھوٹی چھوٹی بدعتوں سے بھی بچو کیونکہ چھوٹی بدعتیں ہی چلتے چلتے بڑی ہو جاتی ہیں۔ “
امام بر بہاری رحمہ اللہ آگے مزید فرماتے ہیں کہ:
”اسی طرح ہر وہ بدعت جو اس امت کے اندر پیدا ہوتی ہے وہ ابتدا میں چھوٹی تھی اور حق کے متشابہ تھی جو اس میں داخل ہوا، اس نے اس سے دھوکہ کھایا پھر اس بدعت سے نکلنے کی اس میں ہمت نہ رہی، پھر یہ بڑھتے بڑھتے ایک الگ دین بن گیا جس کو اس نے اختیار کیا تو اس نے صراط مستقیم کی مخالفت کی ۔ “
منهج سلف صالحین ، ص: 114 ، 115

(10) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ:

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اہل بدعت کی یہ عادت ہے کہ وہ کتاب وسنت اور آثار صحابہ و تابعین پر کاربند نہیں ہوتے ، بلکہ ان کا اعتماد وبھروسہ عقل اور لغت عرب پر ہے، ان کا اعتماد ایسی کتب تفسیر پر نہیں ہوتا جو احادیث اور آثار صحابہ اور تفسیر بالماثور پر مشتمل ہیں بلکہ اس کی بجائے ان کا بھروسہ کتب ادب و کتب کلام پر ہے جن کتب کو ان کے بڑوں نے لکھا ہے، یہ طریقہ تو ملحد و بےدین لوگوں کا ہے جو کتب فلسفہ و کلام اور کتب لغت کی باتوں کو لیتے ہیں، لیکن کتب احادیث و آثار صحابہ حتی کہ قرآن کی طرف بھی التفات تک نہیں کرتے ، یہ لوگ نصوصِ انبیاء علیہم السلام سے بھی انحراف و اعراض کرتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک تو یہ نصوص (بے فائدہ ہیں) علم کا فائدہ تک نہیں دیتیں ۔ “
منهج سلف صالحین، ص: 138

(11) علامہ ابن قیم رحمہ الله:

علامہ ابن القیم نے لکھا ہے: ”کہ شیطان کا ایک مکر یہ بھی ہے کہ اس نے عوام کو ایک مذہبی لباس، ایک ہیئت اور ایک ہی قسم کے چال چلن اور ایک ہی متعین شیخ اور متعین مذہب کی پابندی کا ایسا عادی بنا دیا ہے کہ لوگ اسے دینی فریضہ کی طرح اختیار کر چکے ہیں اور اس متعین دائرے سے نکلنے کو دین سے نکل جانے کے برابر سمجھتے ہیں اور جو لوگ اس تنگ مذہبی دائرے سے نکلنا چاہتے ہیں یا نکل جاتے ہیں، یہ انھیں خارجی اور بےمذہب ہونے کا طعنہ دیتے ہیں، جیسے مقلدین مذاہب اور صوفیاء کے مریدوں کا حال ہے کہ وہ اپنے سلسلوں آسمان سے اترا ہوا دائرہ سمجھتے ہیں اور نقش بندی یا سہروردی یا شاذلی یا تیجانی یا قادری سلسلہ سے باہر رہنے والوں کو دائرہ حق سے باہر سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں نے شریعت وطریقت کے نام پر چند موہوم اور من گھڑت رسوم و عادات کو دین کا نام دے کر اپنا لیا ہے۔ جن کا دینی حقائق اور کتاب وسنت سے دور کا واسطہ بھی نہیں، جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو تلاش کریں گے اور ان خرافات سے اس کا مقابلہ کریں گے ان پر روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور شریعت ربانی کے درمیان اہل بدعت و ضلالت کے من گھڑت رسم و رواج میں زمین و آسمان اور سیاہ وسفید بلکہ رات اور دن کا فرق ہے۔ “
اغاثة اللهفان: 165/1
علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
”مقصود و مطلوبِ شریعت یہ ہے کہ آلاتِ موسیقی اور شراب کے برتنوں کو توڑنے کی بنسبت ان کتب کو جلانا ، تلف کرنا اور ختم کرنا زیادہ افضل ہے جن میں جھوٹ اور بدعات بھری پڑی ہیں کیونکہ ان کا نقصان ان سے زیادہ ہے اور جس طرح آلاتِ موسیقی ، شراب کی بھٹی اور برتنوں کے توڑنے پر کوئی کفارہ اور تاوان نہیں اسی طرح ان کتب کے ختم کرنے پر بھی کوئی کفارہ وتاوان نہیں ہے۔ “
الطرق الحكميه، ص: 284

(12) امام شاطبی رحمہ الله:

امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”یہ بات (روز روشن کی طرح) ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تک موت نہیں آئی کہ جب تک انھوں نے ان تمام دینی و دنیاوی امور کو بیان نہیں کر دیا ، جن کی طرف (بندہ) محتاج ہو سکتا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ اہل السنہ میں سے اس کی مخالفت کرنے والا کوئی نہیں ہے اگر معاملہ اس طرح مانیں، اس طرح بدعتی لوگ کہتے ہیں تو گویا وہ اپنی زبان حال یا واضح طور پر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ شریعت مکمل نہیں ہے، بلکہ شریعت میں کچھ ایسی چیزیں باقی رہ گئی ہیں جن کا جاننا واجب یا مستحب ہے کیونکہ اگر ان کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ شریعت مکمل و اکمل اور اتم ہے تو یہ دین میں بدعتیں نہ گھڑتے اور نہ ہی استدراک کی ہر لحاظ سے کوششیں کرتے ، جو شخص یہ بات کہتا ہے وہ صراط مستقیم سے بھٹک چکا ہے ۔ “
منهج سلف صالحین ، ص: 87
علامہ شاطبی مزید فرماتے ہیں کہ:
یہ شریعت کے مخالف اور دشمن ہیں کیونکہ اللہ رب العزت نے بندے کے لیے مخصوص مطالب و طرق خاص وجوہات کی بنا پر متعین کیے ہیں اور اللہ نے مخلوق کو پابند کر دیا ہے امر (حکم) دینے کے (ذریعے) اور نہی کے ذریعے اور وعدہ (جنت کی بشارت) کے ذریعے اور وعید (عذاب سے ڈرانے) کے ذریعے اور پھر بتا دیا کہ خیر اس میں ہے اور شر اس سے آگے بڑھ کر دوسروں کی طرف متوجہ ہونے میں ہے کیونکہ اللہ ذوالجلال والاکرام جانتا ہے ہم نہیں جانتے اور اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ مگر بدعتی ان تمام باتوں کو ٹھکرا کر یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے علاوہ کچھ اور بھی یہاں طرقِ خیر موجود ہیں۔
الاعتصام: 29/1 – منهج سلف صالحین، ص: 88

(13) فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ الله:

فضیلتہ الشیخ اپنی کتاب ”بدعت“ میں رقمطراز ہیں:
✿ بعض بدعتیں صراحتاً کفر ہیں، جیسے صاحب قبر سے قرب حاصل کرنے کے لیے قبروں کا طواف کرنا اور ان پر ذبیحے اور نذرو نیاز پیش کرنا ، ان سے مرادیں مانگنا اور فریادرسی کرنا ۔
✿ اور بعض بدعتیں وسائل شرک میں سے ہیں جیسے قبروں پر عمارتیں تعمیر کرنا اور وہاں نماز پڑھنا اور دعائیں مانگنا۔
✿ اور بعض بدعتیں معصیت و نافرمانی کی ہیں جیسے شادی وبیاہ سے کنارہ کشی اور دھوپ میں کھڑے ہو کر روزہ رکھنے کی بدعت اور شہوت جماع ختم کرنے کی غرض سے خصی کرنے کی بدعت۔

(14) الشیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ:

علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ بدعت کی حقیقت و شناعت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
1: ہر وہ قول و فعل و اعتقاد جو سنت کے معارض و مخالف ہو۔
2: ہر وہ کام جو اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کیا جائے حالانکہ شریعت نے اس سے منع کیا ہو۔
3: ہر وہ عقیدہ جس کی شرعی دلیل موجود نہ ہو۔
4: ہر وہ عبادت جس کی کیفیت صرف کسی ضعیف یا موضوع روایت میں پائی جاتی ہو۔
5: ہر وہ عبادت جسے شریعت نے مطلق رکھا ہو مگر لوگوں نے اس پر قیود مثلاً زمان و مکان یا ہیئت و عدد کا اضافہ کر دیا ہو۔
6: ہر وہ کام جو شرعی دلیل ہی سے ثابت ہو سکتا ہو مگر اس کی شرعی دلیل موجود نہ ہو، البتہ عمل صحابہ اس سے مستثنی ہے۔
7: بعض علماء خصوصاً متاخرین نے جن اعمال کو بلا دلیل مستحب قرار دیا ہے۔
8: عبادت میں غلو ۔
ملا حظہ ہو: أحكام الجنائز للألباني ص: 142

 

اہل بدعت کے ساتھ تعلق کا حکم:

اہل بدعت کے ساتھ میل جول گمراہی کا باعث ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
﴿وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ﴾
[الأنعام: 116]
”اور اگر (اے پیغمبر!) آپ زمین میں بسنے والے اکثر لوگوں کی بات مانیں گے تو وہ آپ کو اللہ کی راہ سے گمراہ کر دیں گے۔ “
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ اپنی کتاب ”بدعت“ میں رقمطراز ہیں:
بدعتیوں کے پاس آنا جانا ، ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا حرام ہے، ہاں! اگر مقصد ان کو نصیحت کرنا اور ان کے اس فعل پر نکیر ہو تو جائز ہے۔ اس لیے کہ بدعتی سے ملنا جلنا ملنے والے پر بہت برا اثر چھوڑتی ہے جس کی برائیاں دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں اور جب انھیں بدعت سے روکنے اور گرفت کرنے کی طاقت نہ ہو تو ان سے اور ان کی برائیوں سے ڈرانا ضروری ہے۔ اور ممکن ہونے کی صورت میں مسلم علماء کرام اور ان کے اولی الامر پر ان کی گرفت کرنا ، ان کی برائیوں سے انھیں باز رکھنا اور انھیں بدعتوں سے روکنا واجب ہے اس لیے کہ اسلام پر ان کے خطرات بہت سخت ہیں۔
پھر یہ جاننا ضروری ہے کہ کافر ممالک بدعت کی نشر و اشاعت میں بدعتیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں مختلف طریقوں سے ان کی مدد کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اس میں اسلام کا خاتمہ نظر آتا ہے اور اس کی صورت دوسروں کی نظریں بگاڑنا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ہم سوال کرتے ہیں کہ وہ اپنے دین کی مدد فرمائے اور اپنے کلمے کو بلند کرے اور دشمنوں کو رسوا کرے۔
امام اسماعیلی سلف صالحین کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ويرون أهل الحديث مجانية البدعة والآثام وترك الغيبة إلا لمن أظهر بدعة وهو يدع إليها فالقول فيها ليس بعيبة عندهم
اعتقاد آلمه الحديث: 78
”گناہ اور غیبت سے بچتے تھے ہاں اس شخص کے بارے میں بات چیت کرتے جس کا بدعتی ہونا واضح ہو جاتا، اور وہ شخص اس بدعت کی دعوت بھی دیتا ہو۔ ایسے شخص (کی غیر موجودگی میں اس) کے بارے میں بات چیت کرنا اہل السنہ کے نزدیک غیبت نہیں ہے۔ “
امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”یقینا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اُمت کے فرقوں میں بٹ جانے اور ان میں خواہشات و بدعات کے پیدا ہو جانے کی بھی خبر دے دی ہے، اور نجات کا فیصلہ اس جماعت کے حق میں کر دیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقے پر چلے گی۔ اب یہ بات ایک مسلمان پر لازم ہے کہ جب کوئی شخص بدعات و خواہشات کو عقیدہ بنا کر سرانجام دے یا پھر وہ ایسا کرم کرے جو سنت کو کمزور کر دے تو اس سے قطع تعلقی کرے اور اس سے برأت و بیگانگی کا اظہار کرے اور اس کو زندگی و موت دونوں صورتوں میں چھوڑ دے (یعنی اس کے خوشی و غمی کے معاملات میں شریک نہ ہو) جب کبھی ملاقات ہو تو سلام بھی نہ کہے اور اگر وہ پہلے سلام کہے تو اس کا جواب نہ دے یہاں تک کہ وہ اس بدعت کو چھوڑ کر حق کی طرف لوٹ آئے ، امام بغوی نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا: تین دن سے زیادہ بات چیت چھوڑنا اس وقت حرام ہے جب اس کی وجہ سے محبت اور معاشرت پر منفی اثر ہو، مگر جب دین کے معاملہ میں ہو اور دین کے حق میں ہو تو تب یہ گناہ نہیں بلکہ خواہشات پرست لوگوں سے اس وقت تک بات چیت بند رکھی جائے جب تک وہ توبہ نہ کرلیں ۔“
شرح السنة: 223/1 ، 227
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں زمانہ ماضی میں اہل سنت اقلیت میں تھے، آئندہ بھی وہ اقلیت میں ہی رہیں گے۔ یہ وہ ہیں جو نہ تو تکبر میں متکبر لوگوں کے ساتھی بنے اور نہ بدعت میں اہل بدعت کے ساتھی ہے بلکہ سنت پر رہ کر صبر کرتے رہے، یہاں تک کہ اپنے رب سے جا ملے اور تم بھی ایسے ہی ہو جاؤ۔
بحواله نجات یافته کون؟ ص: 149
امام فضیل بن عیاض رحمہ اللہ (متوفی 187ھ) نے فرمایا:
”یقینا اللہ کے فرشتے ذکر کے حلقے تلاش کرتے رہتے ہیں، لہذا دیکھو کہ تمھارا اُٹھنا بیٹھنا کس کے ساتھ ہے؟ بدعتی کے ساتھ نہ ہو کیونکہ اُن (بدعتیوں) کی طرف (رحمت سے) نہیں دیکھتا اور نفاق کی علامت یہ ہے کہ آدمی کا اٹھنا بیٹھنا بدعتی کے ساتھ ہو۔ “
الطيوريات: 318/2، ح: 258- حلية الاولياء: 104/8
قاضی فضیل بن عیاض رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
”کہ میں کسی یہودی یا عیسائی کے ہاں کھانا کھاؤں یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ کسی بدعتی کے ہاں سے کھانا کھاؤں، کیونکہ جب میں یہودی و عیسائی کے ہاں کھانا کھاؤں گا تو اس بات میں میری پیروی نہیں کی جائے گی لیکن جب میں کسی بدعتی کے ہاں کھانا کھاؤں گا تو لوگ اس میں میری پیروی کریں گے، میں تو یہ چاہتا ہوں کہ میرے اور بدعتی کے درمیان لوہے کا قلعہ (یا پردہ) ہو، سنت کے مطابق تھوڑا سا عمل کرنا یہ بدعتی کے بہت سارے اعمال سے بہتر ہے، اور جو شخص بدعتی کے ساتھ بیٹھتا ہے تاکہ وہ اس بدعتی کو اللہ سے ڈرائے تو یہ صحیح ورنہ اس کو ڈرنا چاہیے کہ کہیں یہ بھی عذاب کی لپیٹ میں نہ آ جائے، اور بدعتی کو اپنے دین کے بارے میں نہ بتاؤ اور اپنے معاملات میں اس سے مشورہ بھی نہ لو ۔ “
حلية الأولياء: 301/8
ابن مفلح حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”متوکل نے اپنے دور حکومت میں فتویٰ پوچھنے کے لیے امام احمد رحمہ اللہ کے پاس آدمی کو بھیجا کہ ہم حکومتی کاموں کے لیے عیسائیوں کو مزدور، ملازم رکھیں یا پھر بدعتی اور خواہش پرست لوگوں کو ملازم رکھیں؟ امام احمد بن حنبل نے فتوی دیا کہ عیسائیوں کو ملازم رکھنا بدعتیوں کو ملازم رکھنے سے بہتر ہے، پھر جب متوکل کا قاصد چلا گیا تو امام احمد کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں نے آپ سے سوال کیا۔ امام صاحب نے جواب دیا کہ یہود و نصاری تو ذلیل و رسوا کیے ہوئے ہیں اور ان کی برائی واضح ہے لیکن یہ اہل بدعت لوگوں پر ان کے دین کو غلط ملط کرتے ہیں اور ان سے ان کے صحیح دین کو چھپاتے ہیں ۔ “
الأدب الشرعية: 165

اہل بدعت کے شبہات اور ان کا ازالہ:

اہل بدعت اپنی ایجاد کردہ بدعات کو تقویت دینے کے لیے، بلکہ انھیں دین کا حصہ ثابت کرنے کے لیے چند شبہات پیش کرتے ہیں، جن کا ازالہ انتہائی ضروری ہے تاکہ سادہ لوح عوام ان خبیث لوگوں کی خباثت سے محفوظ رہ سکیں۔

پہلا مغالطہ اور شبہ:

بدعت سنت حسنہ ہے، جس کے شروع کرنے والے کو ماجور قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من سن فى الإسلام سنة حسنة فعمل بها بعده كتب له مثل أجر من عمل بها ولا ينقص من أجورهم شيء و من سن فى الإسلام سنة سيئة فعمل بها بعده كتب عليه مثل وزر من عمل بها ولا ينقص من أوزارهم شي
صحیح مسلم: 704/2، 705
”جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا خود اسے اس کا اجر ملے گا اور ان تمام لوگوں کا اجر بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے اجر میں کسی قسم کی کمی واقع ہو اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ شروع کیا تو اس کے اوپر اس کا اپنا گناہ ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جنھوں نے اس کے بعد اس پر عمل کیا بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے گناہ میں کسی قسم کی کمی واقع ہو۔“
جواب: اسلام مکمل بھی ہے اور محفوظ بھی ہے۔ اسلام میں اگر کسی نے قرآن وسنت کے طریقے کو اپنایا متروکہ سنت کو دوبارہ شروع کیا یہ حدیث اس کے لیے خوشخبری ہے اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ یا بدعت اختیار کی اُس کے لیے وعید ہے۔
دوسری بات یہ حدیث کا ٹکڑا ہے مکمل حدیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ قبیلہ مضر کے لوگوں کے فقر وفاقہ کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو صدقہ کی ترغیب دی ، صحابہ کرام نے اتنا صدقہ کیا کہ سب سے پہلے ایک انصاری صحابی ایک تھیلی لائے جس کی وجہ سے اُن کے ہاتھ تھک گئے ، اس کے بعد یکے بعد دیگرے غلے اور کپڑوں کے دو ڈھیر لگ گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اُس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث مبارک ارشاد فرمائی تھی ۔ لہذا اس کو بدعت ایجاد کرنے کے لیے دلیل بنانا جہالت اور شریعت اسلامیہ سے ناواقفیت کے علاوہ کچھ نہیں ۔

دوسرا مغالطہ اور شبہ:

بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ کی تقسیم اور مزید سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا لوگوں کو ایک امام کے پیچھے تراویح پر جمع کرنا اور علیحدہ علیحدہ ائمہ کے پیچھے تراویح کو بدعت حسنہ قرار دینا اس امر کی دلیل ہے کہ بدعت حسنہ بھی ہوتی ہے اور مذمت تو بدعت سیئہ کی ہے نہ کہ حسنہ کی ۔
جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد میں باجماعت تراویح پڑھانا، صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ لہذا اسے بدعت کہنا جہالت پر مبنی ہے۔
اور اگر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ایک امام پر جمع کیا تو وہ بھی قابل تعریف اور قابل عمل بات ہے۔ انھوں نے شریعت اسلامیہ میں کوئی بدعت ایجاد نہیں کی تھی، بلکہ سنت ہی سے باجماعت نماز پڑھنا ثابت تھی، اسی سنت کا احیاء کیا تھا تاکہ مسجد میں زیادہ جماعتوں کے بجائے ایک جماعت کروائی جائے ، اور یہی سنت طریقہ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
عليكم بستني وستة الخلفاء الراشدين المهديين
مسند أحمد: 127/4 – سنن ابو داؤد: 13/5 – 15- سنن ترمذی، رقم: 2671۔ محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔“
پس سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا باجماعت تراویح پڑھنے کا حکم دینا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہو جانا ہمارے لیے حجت ہے۔
بعض لوگ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قول نعمت البدعة هذه سے دھوکہ دیتے ہیں، کہ بات اچھی بھی ہوتی ہے۔ حالانکہ جس عمل کی نص قرآن وسنت میں موجود ہو، وہ بدعت کیسے ہوسکتی ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ لغوی طور تھے نہ کہ شرعی بدعت کے معنی میں کیونکہ شریعت میں بدعت سیئہ ہی ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہر خطبہ میں ارشاد فر مایا کرتے تھے:
وكل يد عي ضلالة
صحیح مسلم کتاب الجمعة، رقم: 2005
”اور ہر بدعت گمراہی ہے۔“
اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں:
وكل بدعة ضلالة وإن رآها الناس حسنة
شرح السنة للمروزی، ص: 58، بتحقيقنا
”ہر بدعت گمراہی ہے، اگرچہ لوگ اس کو اچھا تصور کریں۔ “
اس اثر کی روشنی میں بدعت کی تقسیم سیئہ اور حسنہ کے لحاظ سے کرنا قطعی درست نہیں ہے۔

تیسرا مغالطہ اور شبہ:

بدعتی لوگ قرآن مجید کے ایک مصحف میں جمع کو بھی بدعت حسنہ کہہ کر بدعت کی ترویج کرنا چاہتے ہیں۔
جواب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ:
لا تكتبوا عني غير القرآن
صحیح مسلم: 2298/4
”میری طرف سے قرآن کے سوا کچھ نہ لکھو۔ “
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفائے راشدین کے طریقے کو اپنانے کا حکم فرمایا ہے، لہذا انھوں نے قرآن مجید کو کتابی شکل میں جمع فرمایا اور اس پر تمام صحابہ کرام کا اجماع ہے۔ اور ہم پر فرض ہے کہ خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع پر عمل کریں، لہذا جمع قرآن کو بدعت قرار دینا کسی لحاظ سے بھی صحیح نہیں اور نہ ہی اس کو دلیل بنا کر دین اسلام میں نئی نئی بدعات و
خرافات ایجاد کرنے کی جرات کرنی چاہیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے