دینی فلمیں دیکھنے کا حکم
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :
دینی فلمیں اور ڈرامے دیکھنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب :
متعدد اسباب کی بنا پر اسلام میں ڈرامے اور فلمیں مشروع نہیں ہیں ۔
چند اسباب درج ذیل ہیں :
➊ پہلا سبب : بلاشبہ ان میں کافروں کی تقلید ہے اور یہ کافروں کا عمل وطریقہ ہے ، جو انھی کے لائق ہے ، مسلمانوں کے لائق نہیں ہے ، کیونکہ کفار یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو ایسے سہاروں اور محرکا ت کی ضرورت ہے جو ان کو خیر و بھلائی کی طرف لے جائیں اور ان کے پاس وہ شریعت نہیں جو الحمد للہ ہمارے پاس ہے جس میں خیر و بھلائی کے وافر ذخائر موجود ہیں ، پس قرآن مجید کی ایک آیت کئی ڈراموں اور فلموں سے مستغنی و بے پرواہ کر دینے والی ہے ۔
لہٰذا وہ امت جو اللہ کے حرام کردہ کو حرام اور اس کے حلال کردہ کو حلال نہیں سمجھتی ہم ان کے طریقے ، ثقافت اور طور اطوار کیسے اختیار کرلیں ؟
پس یہ وسائل (جن کو وہ خیر و بھلائی اور ترقی کے وسائل سمجھتے ہیں) انھی کے لائق ہیں ہمارے لائق نہیں ہیں ، کیونکہ ہمارے پاس اس سے بہتر چیز موجود ہے ، جیسا کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے عمر بن خطاب دیا کے ہاتھ میں ایک کاغذ دیکھا اور سوال کیا : ”ما هذه ؟“ (یہ کیا ہے ؟ )
عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ ایک کاغذ ہے جو ایک یہودی نے مجھے تو رات سے لکھ کر دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے انہیں کہا:
أمتهوكون أنتم كما تهوكت اليهود والنصارى ؟ ! لو كان موسى حيا لما وسعه إلا اتباعي [حسن مسند أحمد 387/3 ]
➋ دوسرا سبب : لازمی طور پر ان ڈراموں اور فلموں میں ایسی جھوٹی باتیں ہوتی ہیں جن کی تاریخ اسلامی یا سیرت نبوی میں کوئی حقیقت و اصلیت موجود نہیں ہوتی ہے ۔
➌ تیسراسبب : لازمی طور پر ان ڈراموں اور فلموں میں مردوں کی عورتوں اور عورتوں کی مردوں کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے یا مردوں کا عورتوں
کے ساتھ اختلاط بایا جاتا ہے ۔
اور یہ حدیث ثابت شدہ ہے کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک سفر پر رواں دواں تھے ، ناگہاں وہ ایک درخت کے پاس سے گزرے جس پر مشرک اپنا اسلحہ لٹکا تے تھے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تم نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے لیے بھی ایک” ذات انواط“ (مشرکوں کے اس مذکورہ درخت کانام) مقرر کردو ، جیسے ان (مشرکوں) کا ”ذات انواط“ ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الله أكبر ! هذه السنن وفي رواية : السنن لقد قلتم كما قال قوم موسى الموسى : اجعل لنا الها كما لهم آلهة [صحيح ۔ مسند أحمد 218/5 ]
اللہ اکبر ! یہ تو وہی (بنی اسرائیل والی) عادات ہیں ۔ اور ایک روایت میں ہے ۔ یہ تو وہی (بنی اسرائیل والا ) انداز اور طرز ہے ، تم نے تو وہی بات کر دی جو قوم موسیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کی تھی ، انہوں نے ایک قوم کو بچھڑے کی پوجا کرتے ہوئے دیکھ کر کہا: تھا : اے موسیٰ ! ) ہمیں بھی کوئی اللہ بنا دو جیسے ان کے الہ ہیں ۔“
مگر یہودیوں کے موسیٰ علیہ السلام کو یہ کہنے : ”اجعل لنا إنها كما لهم آلهة “ (ہمیں کوئی معبود بنا دو جیسے ان کے معبود ہیں ) اور صحابہ کرام بانظام کے نبی سلام کو یہ کہنے : اجعل لنا ذات أنواط کما لہم ذات أنواط (ہمارے لیے کوئی ذات انواط مقرر کر دو جیسے ان کا ذات انواط ہے ) کے درمیان بہت بڑا فرق ہے ۔ یہودیوں نے موسیٰ علیہ السلام سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ ان کو ایک بت بنا دیں جس کی وہ عبادت کریں ، لیکن اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکوں کے درخت کی طرح ایک درخت مقرر کرنے کا مطالبہ کیا جس پر وہ اسلحہ لٹکا ئیں ، مگر اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بنی اسرائیل کے ساتھ ) لفظی مطابقت کا انکار کیا اور مسلمانوں کے کفار کی مشابہت اختیار کرنے کی جڑ کاٹ کر رکھ دی ۔ پھر یہ بات بھی محل غور ہے کہ کفار کو آخر یہ ڈرامے اور فلمیں بنانے اور دیکھنے پر کونسی چیز آمادہ کرتی ہے ؟ ! وہ چیز یہ ہے کہ بلاشبہ ان کے پاس روحانی غذا نہیں ہے ، جو ہمارے پاس ہے ، پس اس لیے جب ہم ان سے (جعلی ترقی و بہتری کے ) یہ وسائل اخذ کریں گے تو یہ ایک الگ چیز ہے ، اور ہمارا ان سے گاڑیاں اور ہوائی جہاز وغیرہ لینا ایک دوسری چیز ہے جو آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں داخل نہیں ہیں ۔
من تشبه بقوم فهو منهم [صحيح سنن أبى داود رقم الحديث 4031 ]
” جس نے کسی قوم کی مشابہت کی پس وہ ان ہی میں سے ہے ۔“
اور جب ٹیلی ویژن پر صرف ضروری اشیاء پیش کی جائیں تو (استفادے کا) یہ ایک جائز ذریعہ اور وسیلہ ہے ، لیکن جب ٹیلی ویژن پر (اچھا اور برا) سب کچھ پیش کیا جانے لگے تو یہ گزشتہ صورت سے مختلف صورت ہے اور ہمارے لیے یہ اہم نہیں کہ ہم مفروضے قائم کریں جبکہ ہماری واقعاتی زندگی اس کے خلاف ہو ۔ پس ہم یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ اس ٹیلی ویژن کا کیا حکم ہے جو آج ہم عالم عرب میں دیکھتے ہیں ؟ مثلاًً ہم صرف یہی کیوں نہیں پوچھا کرتے : علمی مجلسوں کا کیا حکم ہے ؟ پس ہم ایسی چیز کے متعلق ہی سوال کریں جس کے جائز ہونے کا امکان ہو ، اور ہم ان اشیاء سے چشم پو شی کر لیں جو یقیناً ناجائز ہیں ۔ حتی کہ مثلاًً کوئی ٹیلی ویژن کا چینل یہ کام کر پایا کہ وہ مسلمان علماء میں سے کسی عالم کو ( ٹیلی ویژن پر ) پیش کرے کہ وہ مناسک حج بیان کرے اور مسلمان ان کو سیکھ لیں ؟
بلکہ اس سے بھی زیادہ وسعت پیداکی جائے ، کیا کوئی عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھتا ہوا ٹیلی ویژن کی سکرین کے ذریعہ لوگوں کو دکھایا گیا تاکہ لوگ صحیح نماز نبوی کو جان سکیں ؟ پس ہم ایسی چیز کی فکر اور اہتمام کیوں نہیں کرتے جو یقینی طور پر مسلمانوں کے لیے مفید ہو ؟ بلکہ اس کے برعکس ہم بیٹھے یہی سوال پوچھے جاتے ہیں کہ کیا جائز ہے اور کیا جائز نہیں ہے ؟ !
(محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ )

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: