سوال:
کیا دینی تعلیم اور تدریس (خاص طور پر تعلیمِ قرآن) پر اجرت لینا جائز ہے؟ اس بارے میں دلائل کے ساتھ وضاحت کریں۔
الجواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے کا حکم صحیح حدیث سے واضح ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللهِ»
"تم جن چیزوں پر اجرت لیتے ہو، ان میں سب سے زیادہ حق دار کتاب اللہ (قرآن) ہے۔”
(صحیح بخاری: 5737)
امام بخاری نے یہ حدیث کتاب الاجارہ میں باب: ما یعطی فی الرقیۃ علی احیاء العرب بفاتحۃ الکتاب کے تحت بھی بیان کی ہے
(قبل حدیث 2276)۔
حدیث کی شرح میں علماء کا مؤقف:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا:
"واستدل به للجمهور فی جواز اخذ الاجرة علی تعلیم القرآن”
"جمہور علماء نے اس حدیث سے قرآن کی تعلیم پر اجرت لینے کے جواز پر استدلال کیا ہے۔”
(فتح الباری، جلد 4، صفحہ 453)
صحابہ و تابعین کے آثار:
➊ حکم بن عتیبہ (تابعی صغیر) رحمہ اللہ:
"ما سمعت فقیها یکرهه”
"میں نے کسی فقیہ کو معلم کی اجرت کو مکروہ کہتے نہیں سنا۔”
(مسند علی بن الجعد: 1105، سند صحیح)
➋ معاویہ بن قرۃ رحمہ اللہ:
"انی لارجو ان یکون له فی ذلک خیر”
"مجھے امید ہے کہ معلم کے لیے اس میں خیر اور اجر ہوگا۔”
(مسند علی بن الجعد: 1104، سند صحیح)
➌ ابو قلابہ رحمہ اللہ:
تعلیم دینے والے معلم کو اجرت (تنخواہ) لینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 6، صفحہ 220، حدیث 20824، سند صحیح)
➍ طاووس رحمہ اللہ:
وہ بھی تعلیم پر اجرت لینے کو جائز سمجھتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث 20825، سند صحیح)
➎ محمد بن سیرین رحمہ اللہ:
ان کا قول بھی تعلیم پر اجرت کے جواز کی تائید کرتا ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 6، صفحہ 223، حدیث 20835، سند صحیح)
➏ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ:
"کانوا یکرهون اجر المعلم”
"سلف صالحین معلم کی اجرت کو مکروہ سمجھتے تھے۔”
(مسند علی بن الجعد: 1106، سند قوی)
امام شعبہ اور امام ابو الشعثاء جابر بن زید رحمہما اللہ:
ان کے مطابق بہتر اور افضل یہی ہے کہ تعلیم پر اجرت نہ لی جائے، لیکن اگر لی جائے تو جائز ہے۔
اہم تنبیہات:
تنبیہ 1:
تمام آثار کو مدنظر رکھتے ہوئے، ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے قول "یکرهون” میں کراہتِ تنزیہی مراد ہے، اور حکم بن عتیبہ کے قول "یکرهه” میں کراہتِ تحریمی مراد نہیں۔
واللہ اعلم
تنبیہ 2:
بعض آثار صحیح بخاری
(قبل حدیث 2276)
میں اختلاف کے ساتھ بھی مذکور ہیں۔
اجرت تعلیم القرآن کا انکار کرنے والوں کا استدلال:
اجرت تعلیم القرآن کے منکرین دو قسم کی نصوص سے استدلال کرتے ہیں، جن کی وضاحت ضروری ہے:
➊ تبلیغ پر اجرت لینا:
اس سے مراد وہ تبلیغ ہے جو فرض عین یا فرض کفایہ ہے، جیسے کہ قرآن کی آیات:
﴿لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا﴾
﴿وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا﴾
ان آیات کا تعلق فرضی تبلیغ پر اجرت لینے سے ہے، تعلیم و تدریس سے نہیں۔
➋ قراءت قرآن پر اجرت لینا:
مثلاً حدیث:
"اقرؤا القرآن ولا تأكلوا به”
"قرآن پڑھو لیکن اس سے روزی مت کماؤ۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 2، صفحہ 400، باب: فی الرجل یقوم بالناس فی رمضان فیعطی، حدیث 7742)
اس کا مطلب ہے کہ محض قراءت (تلاوت) پر اجرت لینا درست نہیں، تعلیم دینا اس میں شامل نہیں۔
خلاصہ:
قرآن و سنت اور آثارِ صحابہ و تابعین سے یہ بات واضح ہے کہ:
◈ دینی تعلیم و تدریس (خصوصاً تعلیم القرآن) پر اجرت لینا جائز ہے۔
◈ اجرت لینا اصلاً مباح ہے، البتہ بغیر اجرت تعلیم دینا افضل ہے۔
◈ تبلیغ (جو کہ فرض ہے) یا صرف تلاوتِ قرآن پر اجرت لینا دوسری بحث ہے اور اس پر الگ دلائل موجود ہیں۔
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب