مابین السجود رفع سبابہ کے متعلق شرعی حکم
سوال:
دو سجدوں کے درمیان رفع سبابہ (انگلی سے اشارہ کرنا) کا کوئی ثبوت صحیح احادیث سے موجود ہے یا نہیں؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جو حضرات دو سجدوں کے درمیان رفع سبابہ (انگلی سے اشارہ) کو جائز قرار دیتے ہیں، ان کے نزدیک میرے علم کے مطابق صرف دو دلیلیں ہیں:
➊ پہلی دلیل:
"كان رسول الله ﷺ إذا قعد في الصلاة جعل قدمه اليسرى بين فخذه وساقه وفرش قدمه اليمنى ووضع يده اليسرى على ركبته اليسرى ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنى وأشار بإصبعه”
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ جب نماز میں (تشہد کے وقت) بیٹھتے تو اپنا بایاں پاؤں اپنی ران اور پنڈلی کے درمیان رکھتے اور دایاں پاؤں بچھا لیتے۔ بایاں ہاتھ گھٹنے پر اور دایاں ہاتھ ران پر رکھتے اور انگلی سے اشارہ کرتے۔
(صحیح مسلم: 579، ترقیم دارالسلام: 1307)
➋ دوسری دلیل:
"إن النبي ﷺ كان إذا جلس في الصلاة وضع يديه على ركبتيه ورفع إصبعه اليمنى التي تلي الإبهام فدعا بها۔۔۔الخ”
ترجمہ: نبی ﷺ جب نماز میں (تشہد کے وقت) بیٹھتے تو اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے اور دائیں ہاتھ کی وہ انگلی اٹھاتے جو انگوٹھے سے ملی ہوتی، پھر اس سے دعا کرتے۔
(صحیح مسلم: 114/580، ترقیم دارالسلام: 1309)
ان دلائل کا تجزیہ:
ان دونوں روایات میں جو الفاظ "إذا قعد في الصلاة” (جب آپ ﷺ نماز میں بیٹھتے) آئے ہیں، وہ بظاہر عام معلوم ہوتے ہیں اور ان سے تشہد اور دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا دونوں کا احتمال ہو سکتا ہے۔
لیکن اس استدلال کو تسلیم کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ:
پہلی روایت صحیح مسلم میں عثمان بن حکیم → عامر بن عبداللہ بن زبیر → ان کے والد کے واسطے سے مروی ہے۔
دوسری روایت محمد بن عجلان → عامر بن عبداللہ → ان کے والد سے ہے۔
اسی روایت کو سنن نسائی میں بھی درج ذیل سند اور وضاحت کے ساتھ نقل کیا گیا ہے:
"أن رسول الله ﷺ كان إذا قعد في التشهد وضع لفه اليسرى۔۔۔الخ”
یعنی رسول اللہ ﷺ جب تشہد میں بیٹھتے تو اپنا بایاں پاؤں رکھتے۔۔۔الخ
(سنن نسائی، باب موضع البصر عند الإشارة، تحریک السبابة، جلد 3، ص 39، حدیث: 1276، تعلیقات سلفیہ)
روایت ثانیہ کے الفاظ:
صحیح مسلم ہی میں دوسری روایت کے الفاظ بھی واضح کرتے ہیں کہ:
"كان إذا قعد في التشهد وضع يده اليسرى على ركبته اليسرى۔۔۔الخ”
(حدیث: 115/580، ترقیم دارالسلام: 1310)
لہٰذا معلوم ہوا کہ یہاں "في الصلاة” کا مطلب صرف "في التشهد” (تشہد کے وقت) ہے، کیونکہ:
"الحديث يفسر بعضه بعضاً”
یعنی: حدیث کا ایک حصہ دوسرے کی وضاحت کرتا ہے۔
دیگر عمومی روایات کا حکم:
اسی اصول کے مطابق اس باب کی دیگر عمومی روایات کو بھی صرف تشہد پر محمول کیا جائے گا۔
➌ ایک اور روایت کا تجزیہ:
عبدالرزاق نے روایت کیا:
"اخبرنا سفیان عن عاصم بن کلیب عن ابیہ عن وائل بن حجر قال:
رأيت النبي ﷺ سجد فوضع يديه حذو أذنيه ثم جلس فافترش رجله اليسرى ثم وضع يده اليسرى على ركبته اليسرى ووضع ذراعه اليمنى على فخذه اليمنى ثم أشار بسبابته… ثم سجد…”
ترجمہ: وائل بن حجر کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا، پھر جب آپ بیٹھے تو بایاں پاؤں بچھایا، بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھا، دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھا اور سبابہ (اشارہ والی انگلی) سے اشارہ کیا، پھر دوبارہ سجدہ کیا۔
(مسند احمد: 4/317، حدیث: 18858 – یہی الفاظ، نیز عبدالرزاق المصنف: 2/68، حدیث: 2522 – الطبرانی الکبیر: 22/34-35، حدیث: 81)
روایت کا حکم:
اس روایت میں اگرچہ دو سجدوں کے درمیان اشارہ کرنے کا ذکر ہے، لیکن سند کے اعتبار سے یہ روایت ضعیف ہے، کیونکہ:
راوی سفیان ثوری مشہور مدلسین میں سے ہیں۔
اس بارے میں تفصیل "نورالعینین” (ص 100-103، جدید طبع: 138-139)، عمدۃ القاری (جلد 3، ص 112)، الجواہر النقیہ (8/262)، ارشاد الساری (1/286) وغیرہ کتب میں موجود ہے۔
حدیث کے ضعف کی وجہ:
اگر کوئی مدلس راوی کسی روایت میں "عن” کہے اور سماع کی تصریح نہ کرے، اور ساتھ میں متابعت بھی نہ ہو تو اس کی روایت ضعیف مانی جاتی ہے۔
بعض محققین نے اسے عبدالرزاق (ثقہ حافظ) کے تفرد کی وجہ سے شاذ کہا ہے
(دیکھئے: تمام النسۃ ص216)، لیکن یہ جرح اصول حدیث کے اعتبار سے غلط و مردود ہے۔
یہاں ضعف کی وجہ صرف عنعنہ سفیان ثوری ہے۔
عبدالرزاق کا تفرد ہرگز مضر نہیں، کیونکہ اگر ہزار راوی کسی زیادت کا ذکر نہ کریں، اور ایک ثقہ راوی کرے تو یہ زیادتی معتبر ہوتی ہے، جب تک اس راوی کے وہم پر اجماع یا جمہور کی تضعیف نہ ہو، جو کہ یہاں موجود نہیں۔
نتیجہ:
مذکورہ تفصیل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ:
دو سجدوں کے درمیان سبابہ سے اشارہ کرنا ہی راجح (قابل ترجیح) موقف ہے۔
(ماخذ: ماہنامہ شہادت، مارچ 2004)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب