تحیۃ المسجد کا مفہوم
مسجد اس دنیا میں اللہ کا گھر ہے، بندوں کی عبادت و ریاضت کے لیے ایک اجتماع گاہ ہے، تعلق باللہ، توبہ و استغفار، خشوع و خضوع اور روح و نفس کی طہارت کا مقام ہے، اور جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک روئے زمین کا ایک پسندیدہ ٹکڑا ہے۔
"أحب البلاد إلى الله مساجدها” (مسلم)
مساجد تمام جگہوں میں اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں۔
ہر چیز کا ایک حق ہے اور مسجد کا حق یہ ہے کہ نماز کے ذریعے اس کو آباد کیا جائے اور اس میں داخل ہونے کے بعد بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز ادا کی جائے۔ اس کا نام شریعت کی اصطلاح میں "تحیۃ المسجد” ہے۔ یہ دو لفظ تحیہ اور مسجد سے مرکب ہے۔ تحیہ کا معنی سلامتی اور مبارکبادی ہے۔ مسجد کی سلامتی اور مبارکبادی یہ ہے کہ نماز کے ذریعے اسے سلامت اور آباد رکھا جائے اور داخل ہونے کے بعد تحیۃ المسجد کی دو رکعت ادا کی جائیں۔ مسجد کا معنی سجدہ کرنے کی جگہ ہے اور سجدہ نماز کے تمام افعال میں قربت الہی کا سب سے اعلیٰ ذریعہ ہے۔ اسی لیے اسی مادہ سے نماز کی ادائیگی کی جگہ "مسجد” مشتق کی گئی تاکہ سجدہ خدا کی طرف جائے۔ سجدہ بھی تقدس کی بولتی تصویر ہو۔ جب اس امت کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ساری امتوں اور سارے جہانوں کا نبی ہے اور ان کی امت سارے جہان کے داعی ہیں تو اس مناسبت سے ساری روئے زمین کو مسجد بنادی گئی تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور امتی کی کی طرح ان کی عبادت گاہ بھی ہمہ گیر ہو۔
"جعلت لي الأرض مسجدا” (البخاري)
ساری زمین میرے لیے مسجد بنادی گئی ہے۔
تحیۃ المسجد کا شرعی حکم
⋆ اہل ظاہر (امام داود اور ان کے اصحاب،) امام شوکانی اور امیر صنعانی کے نزدیک تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھنا مندرجہ ذیل احادیث کی روشنی میں واجب ہے، لیکن امام ابن حزم عدم وجوب کے قائل ہیں (بدایۃ المجتھد)
عن أبى قتادة السلمي رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إذا دخل أحدكم المسجد فليركع ركعتين قبل أن يجلس” (البخاري)۔
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔
عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال: كان لي على النبى صلى الله عليه وسلم دين فقضاه وزادني فدخلت المسجد فقال: صل ركعتين (مسلم)۔
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر میرا قرض تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا قرض ادا کیا اور ساتھ ہی کچھ زیادہ بھی دیا۔ پھر مسجد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو رکعت نماز پڑھ لو۔
عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال: جاء السليك الغطفاني يوم الجمعة ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم على المنبر فقعد السليك قبل أن يصلي فقال له: أصليت ركعتين؟ فقال: لا، فقال: قم فاركعهما (مسلم)۔
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پرکھڑے تھے کہ سلیک غطفانی آئے اور بغیر تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھے بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے دو رکعت پڑھ لی؟ انہوں نے کہا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اٹھو اور دو رکعت پڑھ لو۔
طریقہ استدلال:
مطلق امر کا صیغہ شریعت کی زبان میں وجوب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگر قرینہ صارفہ ہو تو مندوب یا مستحب مراد لیا جاتا ہے۔ چونکہ مذکورہ احادیث میں امر کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور بظاہر کوئی قرینہ صارفہ نہیں ہے، اس لیے تحیۃ المسجد کی دو رکعت واجب ہیں۔
⋆ تحیۃ المسجد جمہور علمائے کرام کے نزدیک ذیل کی احادیث کی روشنی میں سنت ہے۔ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ائمہ اہل فتویٰ کا اتفاق نقل کیا ہے کہ مذکورہ بالا احادیث میں امر کا صیغہ استحباب کے لیے ہے اور امام نووی رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں امت کا اجماع نقل کیا ہے (نیل الاوطار: ج 3 ص 83)۔
عن زيد بن أسلم رضى الله عنه قال: كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخلون المسجد ويخرجون ولا يصلون (البخاري)۔
زید بن اسلم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجد میں آتے جاتے تھے اور نماز نہیں پڑھتے تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول اس آدمی کے بارے میں جو مسجد کے اندر لوگوں کی گردن پھلانگتا تھا: "اجلس فقد آذيت” (فتح الباري: ج 1 ص 537) بیٹھ جاؤ، تم نے اذیت پہنچائی۔ نیز ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے سوال کیا کہ خدا نے کون سی اور کتنی نمازیں فرض کی ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الصلوات الخمس، فقال: هل على غيرها؟ قال: لا، إلا أن تطوع (نیل الاوطار: ج 3 ص 82)
پانچ وقت کی نماز فرض کی گئی ہیں۔ پھر سوال کیا کہ کیا اس کے علاوہ بھی میرے اوپر کوئی نماز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، الا یہ کہ تم نفل نماز ادا کرو۔
طریقہ استدلال:
مذکورہ احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تحیۃ المسجد کی دو رکعت واجب نہیں بلکہ سنت ہے۔ اگر واجب ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مسجد میں آنا جانا اور تحیۃ المسجد کی دو رکعت نہ پڑھنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گردن پھلانگنے والے کو بیٹھ جانے کا حکم دینا اور ضمام بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ کو صرف فرض نماز پڑھنے کا حکم دینا کیسے درست ہوتا؟
ان وجوہات کی امام شوکانی اور امام صنعانی نے تردید کی ہے اور تحیۃ المسجد کے واجب ہونے پر کافی زور دیا ہے۔ اہل علم حضرات مزید معلومات اور مسئلے کی تحقیق کے لیے "نیل الاوطار” اور "سبل السلام” کی طرف رجوع فرمائیں۔
تحیۃ المسجد خطبہ جمعہ کے درمیان
تحیۃ المسجد کی ہلکی دو رکعت خطبہ کے درمیان اس شخص کے لیے پڑھنا سنت ہے جو تاخیر سے مسجد میں آئے۔ ائمہ دین حسن، ابن عیینہ، شافعی، احمد، اسحاق، ملوح، ابوثور، ابن منذر اور محمد بن فقہائے کرام رحمہم اللہ کی رائے مندرجہ ذیل احادیث کے پیش نظر یہی ہے (نیل الاوطار: ج 3 ص 315)۔
عن أبى سعيد الخدري رضى الله عنه أن رجلا دخل المسجد يوم الجمعة ورسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب على المنبر فأمره أن يصلي ركعتين (البخاری)۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ دے رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا۔
ترمذی کی روایت میں "في هيئة بذة” کا اضافہ ہے یعنی بوسیدہ حالت میں مسجد میں داخل ہوا۔
عن جابر بن عبدالله رضي الله عنهما قال: جاء السليك الغطفاني يوم الجمعة ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم على المنبر فقعد السليك قبل أن يصلي فقال له: أصليت ركعتين؟ فقال: لا، فقال: قم فاركعهما (مسلم)۔
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جمعہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ سلیک غطفانی آئے اور تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھے بغیر بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے دو رکعت پڑھ لی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اٹھو اور دو رکعت پڑھ لو!
مسلم کی ایک دوسری روایت میں ہے:
إذا جاء أحدكم يوم الجمعة والإمام يخطب فليركع ركعتين وليتجوز فيها (مسلم)
جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن اس حالت میں آئے کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو دو ہلکی رکعت پڑھ لے۔
امام ترمذی روایت کرتے ہیں کہ:
إن أبا سعيد أتى ومروان يخطب فصلهما فأراد حرس مروان أن يمنعوه، أبى حتى صلهما، ثم قال: ما كنت لأدعها بعد أن سمعت رسول الله يأمر بهما (الترمذي)۔
مروان بن حکم خطبہ دے رہے تھے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھنی شروع کی۔ اس پر مروان بن حکم کے باڈی گارڈز نے روکنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے نماز ادا کی۔ پھر عرض کیا: ان دو رکعت کو میں ترک نہیں کر سکتا اس لئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے اس کے پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے سنا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مسبوق کو خطبہ کے درمیان دو رکعت ادا کرنے کا حکم دینا اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا حکومت وقت کی مخالفت کے باوجود اس سنت کو زندہ کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خطبہ کے درمیان تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھنا مسنون ہے۔
ائمہ دین قاضی شریح، ابن سیرین، نخفی ، قتادہ، مالک اور ابو حنیفہ رحمہم اللہ کے نزدیک مندرجہ ذیل دلائل کی روشنی میں خطبہ کے درمیان تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھنا مکروہ ہے (المغنی: ج 2 ص 319)۔
(1)قرآن مجید کی یہ آیت:
﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ﴾ (الأعراف: 204)
اور جب قرآن کی تلاوت کی جائے تو اسے سنو!
(2)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان:
إذا قلت لصاحبك أنصت والإمام يخطب فقد لغوت (البخاري)
درمیان خطبہ کسی نے اپنے ساتھی کو خاموش رہنے کو کہا تو اس نے لغو کام کیا۔
خطبہ میں قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے اور قرآن کی تلاوت کے وقت اس کی سماعت کا حکم مذکورہ آیت میں دیا گیا ہے، اس لیے تحیۃ المسجد کی دو رکعت خطبہ کے درمیان پڑھنا درست نہیں۔ فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر خطبہ کے درمیان معمولی بات کی تنبیہ، بلکہ امر بالمعروف کا فریضہ انجام دینے سے منع کیا گیا ہے تو تحیۃ المسجد کی دو رکعت کیسے ادا کی جا سکتی ہے؟ جس کی ادائیگی میں کچھ زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔
﴿3﴾ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اس شخص کے بارے میں جو لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آگے جا رہا تھا: "اجلس فقد آذيت” (البخاری) بیٹھ جاؤ، تم نے اذیت دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ جانے کا حکم دیا، تحیۃ المسجد کے پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔
﴿4﴾ اس طرح ابن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ روایت:
إذا دخل أحدكم المسجد والإمام على المنبر فلا صلاة ولا كلام حتى يفرغ الإمام (الطبراني)
امام منبر پر ہو اور کوئی آدمی مسجد میں داخل ہو تو کوئی نماز یا کسی قسم کی گفتگو اس وقت تک نہ کرے جب تک کہ امام خطبہ سے فارغ نہ ہو جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ خطبہ کی حالت میں قرآن مجید کی تلاوت ضرور کی جاتی ہے لیکن پورا خطبہ قرآن مجید کی آیتوں پر مشتمل نہیں ہوتا، اس لیے قرآن کی اس آیت کو تحیۃ المسجد کی عدم ادائیگی کے لیے بطور دلیل پیش کرنا درست نہیں، اور خطبہ کے درمیان کسی سامع کا کسی دوسرے سامع کو اس کی حرکت پر تنبیہ کرنا ایک لغو کام ہے لیکن یہ امر تحیۃ المسجد کے ادا کرنے کے مانع نہیں کیونکہ اس کے اندر ایک دوسرے سے بات کرنے سے روکا گیا ہے نہ کہ نماز ادا کرنے سے۔ رہی ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی حدیث تو وہ ضعیف ہے، اس کی سند میں ایک راوی ایوب بن نہیک آتے ہیں جن کے بارے میں ابو زرعہ اور ابو حاتم رحمہما اللہ نے منکر الحدیث کہا ہے اور اس طرح کی ضعیف حدیث صحیح حدیث کی معارض نہیں ہوتی جیسا کہ علمائے جرح و تعدیل کے نزدیک یہ بات معروف ہے۔
باقی رہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قول ”اجلس فقد آذيت“ نے خاص حالت میں خاص آدمی کے لیے زجر فرمایا تھا جس کا انطباق عام لوگوں پر کرنا مناسب نہیں۔
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطبہ کے درمیان کسی قسم کی تعلیم دینا اور بچوں سے پیار و محبت کرنا ثابت ہے۔
عن أبى بريده رضي الله تعالىٰ عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يخطبنا فجاء الحسن والحسين رضي الله تعالىٰ عنهما عليهما قميصان أحمران يمشيان ويعثران فنزل رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم من المنبر فحملهما ووضعهما بين يديه ثم قال صدق الله ورسوله ﴿إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ﴾ نظرت إلى هذين الصبين يمشيان ويعثران فلم أصبر حتى قطعت حديثي ورفعتهما. البخاری ومسلم
ابو بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان خطبہ دے رہے تھے کہ حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما گرتے پڑتے آگئے، ان کے جسم پر سرخ رنگ کے قمیص تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے اترے اور ان دونوں کو اٹھا کر اپنے سامنے رکھ دیا اور فرمایا: خدا اور اس کے رسول نے سچ کہا بے شک تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش کا سامان ہیں، دیکھو تو ذرا! میں ان دونوں کو گرتے پڑتے دیکھ نہ سکا، صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا، اپنی بات روک دی اور انہیں اٹھالیا۔
وعن أبى رفاعه العدوي رضي الله تعالىٰ عنه قال: انتهيت إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وهو يخطب فقلت يا رسول الله! رجل غريب يسأل عن دينه فأتى بكرسي من خشب قوائمه حديد فقعد عليه وجعل يعلمني مما علمه الله ثم أتى الخطبة فأتم آخرها. مسلم۔
ابو رفاعہ عدوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب گیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ایک اجنبی آدمی اپنے دین کے بارے میں پوچھتا ہے کہ اس کا دین کیا ہے؟ اور وہ اپنے دین کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے، اپنا خطبہ چھوڑا اور میرے نزدیک آگئے، پھر آپ کے لیے ایک لکڑی کی کرسی لائی گئی جس کے پاؤں لوہے کے بنے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بیٹھ گئے اور مجھے علم الٰہی کے ذریعے تعلیم دینے لگے، پھر خطبہ کے لیے واپس گئے اور اس کا بقیہ حصہ پورا کیا۔
چنانچہ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ضرورت کے وقت خطبہ ترک کر کے اس کی تکمیل کرنا درست ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سائل کے سوال کا جواب دینے اور حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو اٹھانے کے لیے خطبہ ترک کیا، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقتضائے وقت کے مطابق یہ ارشاد فرمانا: ”اجلس يا فلان بیٹھ جاؤ اے شخص!“ ”صل يا فلان نماز پڑھو اے شخص!“ شرعی حکم کے لیے دلیل نہیں بلکہ ایک طرح کی انفرادی تعلیم اور خاص فرد کے لیے زجر ہے۔ مختصر زاد المعاد/ ص 50
حاصل یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خطبہ کے درمیان گردن پھلانگنے والے کے بارے میں ”اجلس فقد آذيت“ کا جملہ فرمانا مقتضائے حال کے مطابق ایک زجری کلام تھا، اس لیے اس کو تحیۃ المسجد کی عدم ادائیگی کے لیے بطور دلیل پیش کرنا درست نہیں۔
مذکورہ مختصر بیان کے بعد امید ہے کہ کسی صاحب فکر و نظر پر یہ بات پوشیدہ نہ رہے گی کہ فریق اول کی رائے زیادہ قوی اور سنت رسول کے قریب تر ہے یعنی مسجد میں دیر سے آنے والے کے لیے خطبہ کے درمیان دو ہلکی رکعت پڑھنا سنت ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کو اپنا دستور العمل بنالیا جائے، خطبہ شروع ہونے کے بعد مسجد میں آیا جائے، دو رکعت تحیۃ المسجد کی پڑھی جائے اور زعم یہ ہو کہ میرا عمل سنت کے مطابق ہے، بلکہ سنت کا طریقہ تو یہ ہے کہ جمعہ کے دن صبح سویرے غسل کیا جائے، استطاعت کے مطابق اچھا کپڑا زیب تن کیا جائے، خوشبو لگائی جائے اور جتنا سویرے ہو سکے خدا کے گھر کا رخ کیا جائے اور اس میں داخل ہونے کے بعد دو رکعت تحیۃ المسجد کی ادا کی جائے، حسب استطاعت مزید نوافل پڑھی جائیں، قرآن مجید کی تلاوت کی جائے، خاص کر سورہ الکہف کی تلاوت کی جائے، کثرت سے اللہ کا ذکر کیا جائے اور جب امام خطبہ کے لیے منبر پر آ جائے تو ہر طرح کے ذکر و اذکار سے رخ موڑ کر خطبہ جمعہ سنا جائے۔
جمعہ کے دن صبح سویرے طہارت، قضائے حاجت اور غسل وغیرہ سے فارغ ہو کر مسجد جانے کی حدیثوں میں بڑی فضیلت آئی ہے، جمعہ ہفتے کی عید ہے، فرحت و انبساط کا انمول موقع ہے، اور گناہوں کی مغفرت کا بہترین ذریعہ ہے، جس شخص کے دل میں الٰہی قربت کے حصول کا نیک جذبہ ہوگا اور آخرت کے لیے توشہ جمع کرنے کا شوق ہوگا وہ یقیناً اللہ تعالیٰ کے دربار میں جلد از جلد حاضر ہونے کی کوشش کرے گا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
من اغتسل يوم الجمعة غسل الجنابة ثم راح فكأنما قرب بدنة ومن راح فى الساعة الثانية فكأنما قرب بقرة ومن راح فى الساعة الثالثة فكأنما قرب كبشا أقرن ومن راح فى الساعة الرابعة فكأنما قرب دجاجة ومن راح فى الساعة الخامسة فكأنما قرب بيضة فإذا خرج الإمام حضرت الملائكة يستمعون الذكر. البخاری۔
جس شخص نے اچھی طرح غسل (غسل جنابت کی طرح) کیا پھر سب سے پہلے خدا کے گھر گیا تو گویا اس نے اونٹ قربانی کی، اس کے بعد جو کوئی مسجد میں دوسرے لمحے آیا گویا اس نے گائے قربانی کرنے کا ثواب حاصل کیا، اس کے بعد جو شخص تیسرے لمحے آیا اس نے مینڈھا قربانی کرنے کا اجر حاصل کیا، اس کے بعد جو کوئی چوتھے لمحے آیا گویا اس نے راہِ الٰہی میں مرغی قربانی کی، اور جو شخص پانچویں لمحے آیا گویا اس نے انڈا قربانی کرنے کا ثواب حاصل کیا، لیکن جب امام خطبہ کے لیے آگئے تو فرشتے بھی ذکر الٰہی سننے لگے۔
اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:
إن الناس يجلسون يوم القيامة على قدر تراحهم إلى الجمعات الأول ثم الثاني ثم الثالث ثم الرابع أو كما قال. ابن ماجہ۔
قیامت کے دن لوگ جمعہ کی حاضری کی ترتیب سے بیٹھیں گے یعنی سب سے پہلے جمعہ کے دن مسجد میں حاضر ہونے والے پھر دوسرے نمبر، تیسرے نمبر، اور چوتھے نمبر پر مسجد میں حاضر ہونے والے یا جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا۔
تحیۃ المسجد ممنوعہ اوقات میں:
فجر اور عصر کے بعد، طلوع آفتاب، غروب آفتاب اور زوال کے وقت بغیر کسی وجہ کے کسی قسم کی نماز پڑھنا مکروہ ہے، اس بات پر امت کا اجماع ہے جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے تحریر کیا ہے، لیکن ان مذکورہ پانچ اوقات میں کسی سبب اور وجہ کی بنا پر نماز پڑھنے میں امت کا اختلاف ہے جیسے تحیۃ المسجد، سجدہ تلاوت، سجدہ شکر، صلاۃ کسوف و خسوف، عیدین کی نماز، جمعہ کی نماز اور فوت شدہ نمازیں، اس سلسلے میں امامان دین کے درمیان دو اہم خیالات پائے جاتے ہیں۔
(1 )پہلا خیال یا رائے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور علمائے کرام کی ایک جماعت کا ہے کہ ان اوقات میں نماز پڑھنا مکروہ ہے بلکہ درست نہیں ہے اور وہ عموم کی ان عام حدیثوں سے استدلال کرتے ہیں۔
عن ابن عباس رضي الله تعالىٰ عنهما قال: أن النبى صلى الله عليه وآله وسلم نهي عن الصلاة بعد الصبح حتي تشرق الشمس وبعد العصر حتي تغرب الشمس. البخاری۔
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز صبح کے بعد طلوع آفتاب تک اور نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔
عن أبى سعيد الخدري رضي الله تعالىٰ عنه قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: لا صلاة بعد الصبح حتي ترتفع الشمس، ولا صلاة بعد العصر حتي تغرب الشمس. البخاری۔
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فجر کے بعد بلندی سورج تک اور عصر کے بعد غروب آفتاب تک کسی قسم کی نماز نہیں ہے۔
عن ابن عمر رضي الله تعالىٰ عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إذا بدأ حاجب الشمس فأخروا الصلاة حتي تبرز وإذا غاب حاجب الشمس فأخروا الصلاة حتي تغيب. مسلم۔
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب سورج کی ٹکیہ نکلنا شروع ہو تو اچھی طرح نکلنے کے بعد نماز پڑھو! اسی طرح جب سورج غائب ہونے لگے تو اچھی طرح غائب ہونے کے بعد نماز پڑھو!
عن عقبه بن عامر رضي الله تعالىٰ عنه قال: ثلاث ساعات كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ينهانا أن نصلي فيهن أو نقبر فيها موتانا حين تطلع الشمس بازغة حتي ترتفع وحين يقوم قائم الظهيرة حتي تميل وحين تضيف الشمس للغروب حتي تغرب. مسلم۔
عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ تین اوقات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور مردے دفنانے سے روکتے تھے: (1 )طلوع آفتاب کے وقت یہاں تک کہ وہ کافی بلندی پر آ جائے۔
( 2) زوالِ آفتاب کے وقت یہاں تک کہ زوال کا وقت ختم ہو جائے۔
( 3) سورج کے آغاز زردی سے لے کر غروب کامل تک۔
عن عمرو بن عبسه رضي الله تعالىٰ عنه قال قلت يا رسول الله أخبرني عن الصلاة قال: صل صلاة الصبح ثم أقصر عن الصلاة حين تطلع الشمس حتي ترتفع فإنها تطلع بين قرني شيطان وحينئذ يسجد لها الكفار ثم صل فإن الصلاة محضورة مشهودة حتي يستضل الظل بالرمح ثم أقصر عن الصلاة فإنه حينئذ تسجر جهنم فإذا أقبل الفئ فصل فإن الصلاة مشهودة محضورة حتي تصلي العصر ثم أقصر عن الصلاة حتي تغرب الشمس فإنها تغرب بين قرني شيطان وحينئذ يسجد لها الكفار. مسلم۔
عمرو بن عبسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! نماز کے بارے میں کچھ بتلائیے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: صبح کی نماز پڑھ کر طلوع آفتاب کی بلندی تک نماز پڑھنے سے باز رہو، کیونکہ آفتاب شیطان کے دو سینگوں کے درمیان سے نکلتا ہے، طلوع اور غروب آفتاب کے وقت کفار اس کی پرستش کرتے ہیں، شیطان اپنا رخ سورج کی طرف کرتا ہے تا کہ اس کی پرستش ہو سکے، پھر زوال آفتاب تک نماز پڑھو کیونکہ فرشتے حاضر و ناظر ہوتے ہیں، پھر عین زوال کے وقت نماز پڑھنے سے رک جاؤ! کیونکہ اس وقت جہنم کی آگ جوش مارتی ہے، پھر زوال آفتاب سے لے کر عصر تک نماز پڑھو اس لیے کہ فرشتے حاضر و ناظر ہوتے ہیں، پھر غروب آفتاب تک نماز مت پڑھو کیونکہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان سے ڈوبتا ہے، نیز اس وقت کفار سورج کی عبادت کرتے ہیں۔
(2)دوسری رائے امام شافعی رحمہ اللہ اور ائمہ دین کی ایک عظیم اکثریت کی ہے، کیونکہ مذکورہ بالا احادیث خاص اوقات میں نماز پڑھنے کی نفی کرتی ہیں، اس لیے اس حکم کا انطباق عام ذو اسباب نماز جیسے تحیۃ المسجد، اور جنازہ کی نماز وغیرہ پر نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ان ممنوعہ اوقات میں ذو اسباب نماز ادا کی ہیں، ذیل میں اس قبیل کی بعض اور احادیث اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بعض آثار نقل کیے جاتے ہیں، تاکہ مسئلے کی وضاحت ہو سکے۔ فتح الباری: ج 2 ص 59۔
عن أبى هريره رضي الله تعالىٰ عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إذا أدرك أحدكم سجدة من صلاة العصر قبل أن تغيب الشمس فليتم صلاته وإذا أدرك سجدة من صلاة الصبح قبل أن تطلع الشمس فليتم صلاته. البخاری ومسلم۔
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آفتاب کے پہلے تم میں سے کوئی اگر نماز عصر کا ایک سجدہ پالے تو اپنی نماز مکمل کرے اور اسی طرح اگر نماز فجر کا ایک سجدہ طلوع آفتاب سے پہلے پالے تو اپنی نماز پوری کرے۔
من نام عن صلاة أو نسيها فليصلها إذا ذكرها. البخاری ومسلم۔
جو شخص سو گیا یا نماز پڑھنا بھول گیا تو اسے جب یاد آئے پڑھ لے۔
عن أم سلمه رضي الله تعالىٰ عنها قالت: صلى النبى صلى الله عليه وآله وسلم بعد العصر ركعتين وقال شغلني ناس من عبدالقيس عن الركعتين بعد الظهر. البخاری۔
ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعت نماز پڑھی پھر ارشاد فرمایا: عبدالقیس کے وفد نے نماز ظہر کی دو رکعت پڑھنے سے باز رکھا۔
عن عائشه رضي الله تعالىٰ عنها قالت: ركعتان لم يكن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يدعهما سرا ولا علانية ركعتان قبل صلاة الصبح وركعتان بعد العصر. البخاری۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کی نماز کے پہلے دو رکعت اور عصر کی نماز کے بعد دو رکعت نہیں چھوڑتے تھے۔
عن ابن عمر رضي الله تعالىٰ عنهما قال: أصلي كما رأيت أصحابي يصلون لا أنهي أحدا يصلي بليل ولا نهار ما شاء غير أن لا تحروا طلوع الشمس ولا غروبها. البخاری۔
ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت ہے کہ میں اپنے ساتھیوں کی طرح نماز پڑھتا ہوں، رات دن میں کسی وقت کسی کو نماز پڑھنے سے نہیں روکتا، غروب آفتاب اور طلوع آفتاب کی تلاش نہیں کرتا۔
عن أنس بن مالك رضي الله تعالىٰ عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إذا أنزل منزلا لم يرتحل حتي يصلي الظهر فقال له رجل وإن كان بنصف النهار؟ قال وإن كان بنصف النهار. أبو داؤد۔
انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے تھے تو بغیر ظہر کی نماز ادا کیے اس جگہ سے کوچ نہیں کرتے تھے، ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم( راوی حدیث حضرت انس) سے پوچھا: کیا دوپہر کے وقت بھی؟ تو انہوں نے کہا: گرچہ دوپہر کا وقت ہو۔
طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت فجر اور عصر کی بقیہ رکعتوں کا ادا کرنا، ظہر کی نماز زوال کے وقت پڑھنا، بھولنے اور سونے والے کا جس وقت یاد آئے یا بیدار ہو جائے اسی وقت نماز پڑھنا خواہ ممنوعہ اوقات ہی میں ہو، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عصر کے بعد ظہر کی دو رکعت سنت کی قضا کرنا بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت کی رو سے اس پر مداومت برتنا اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا ہر وقت نماز پڑھنا، یہ جملہ افعال کم از کم ممنوعہ اوقات میں ذو اسباب نمازوں کے پڑھنے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے، امام موصوف نے علمی اور فقہی انداز میں جس طرح اس مسئلے کی گرہ کشائی کی ہے، اسے پڑھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے، قارئین کے استفادہ کے لیے ذیل میں اس کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔
تمام ذو اسباب نمازیں تحیۃ المسجد، سجدہ شکر، صلاۃ کسوف و خسوف، صلاۃ جنازہ وغیرہ ممنوعہ اوقات یعنی عصر اور فجر کے بعد، زوال اور آفتاب کے طلوع و غروب کے وقت پڑھنا جائز ہے اور ائمہ کرام کی دو رائیوں میں یہی رائے مندرجہ ذیل دلائل و اسباب کی بنا پر راجح اور درست ہے۔
⋆ تحیۃ المسجد کی دو رکعت کا پڑھنا بخاری اور مسلم کی روایت سے ثابت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی آدمی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت تحیۃ المسجد کی ادا کر لے، اور ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان مسجد میں تشریف فرما تھے کہ میں داخل ہوا اور بیٹھ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیٹھنے سے پہلے تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھنے سے کون سی چیز مانع ہوئی؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو بیٹھ گیا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مسجد میں داخل ہو تو بغیر تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھے نہ بیٹھے۔
مذکورہ احادیث میں بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنے کا عام حکم ہے، اور بغیر پڑھے ہوئے بیٹھنے کی عام نہی ہے، اور یہ نہی تمام اوقات کو حاوی ہے، اس کے مقابلے میں کوئی ایسی حدیث موجود نہیں جو اس نہی عام کو خاص کرے اور نہ اس کے خاص کرنے پر امت کا اجماع ہے، سب جانتے ہیں کہ ممنوعہ اوقات میں نماز پڑھنے کی جو نہی وارد ہوئی ہے وہ عام نہیں ہے بلکہ خاص ہے، لہذا عام کو خاص پر ترجیح حاصل ہو گی۔
⋆ بخاری اور مسلم کی روایت ہے کہ ایک شخص خطبہ کے درمیان مسجد میں داخل ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے دو رکعت پڑھ لی؟ اس نے عرض کیا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دو رکعت پڑھ لو! اور مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کے دن خطبہ کی حالت میں کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو ہلکی سی دو رکعت پڑھ کر بیٹھے، اس حدیث کو تمام فقہائے حدیث امام شافعی رحمہ اللہ ، اسحاق رحمہ اللہ ، ابو ثور رحمہ اللہ اور ابن منذر رحمہ اللہ وغیرہم نے بلا خوف قبول کیا ہے، اور سلف کی عظیم اکثریت جیسے محول رحمہ اللہ اور حسن رحمہ اللہ وغیرہ نے اسے روایت کیا ہے۔
علمائے کرام کی ایک عظیم جماعت قاضی شریح،نخفی، ابن سیرین، ابو حنیفہ، مالک، لیث اور ثوری رحمہم اللہ کو اس حدیث کی اطلاع نہ ہو سکی، اور انہوں نے خطبہ کی حالت میں تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھنے سے منع فرمایا۔
در حقیقت ان علمائے کرام کی ممنوعہ اوقات میں عدم صلاۃ والی حدیث پر یہ ایک قیاس ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طلوع آفتاب، زوال آفتاب اور غروب آفتاب نیز عصر و فجر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا تو خطبہ کی حالت میں بدرجہ اولیٰ کسی قسم کی نماز پڑھنی ممنوع قرار پائی، کیونکہ خطبہ کی حالت میں کسی قسم کے شغل سے منع فرمایا گیا ہے، حتیٰ کہ اپنے بھائی کی کسی بے ہودہ حرکت پر اسے چپ رہنے کی تلقین کرنا ایک لغو حرکت ہے، ظاہر ہے حدیث رسول کے ہوتے ہوئے کسی قیاس پر عمل کرنا درست نہیں۔
تركت فيكم أمرين لن تضلوا ما تمسكتم بهما كتاب الله وسنة رسوله. مؤطا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دو مبارک امر تمہارے درمیان چھوڑے جا رہا ہوں، ہر گز گمراہ نہ ہو گے جب تک ان دونوں امر کتاب اللہ اور سنت رسول کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے۔
اور ایک دوسرے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
فعليكم بسنتي وسنة خلفائي الراشدين المهديين تمسكوا وعضوا عليها بالنواجذ ابو داؤد والترمذی۔
میری اور میرے خلفائے راشدین مہدیین کی سنت پر عمل کرنا، اسے مضبوطی سے پکڑنا بلکہ دانتوں سے پکڑنا تم سب پر لازم ہے۔ یقیناً کتاب اللہ اور سنت رسول کا صافی چشمہ ہی رشد و ہدایت کا ضامن ہے۔
⋆ ممنوعہ اوقات میں بعض نمازوں کا پڑھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فعل و حکم سے ثابت ہے جیسے فجر کی دو رکعت، طواف کی دو رکعت اور عصر کے بعد ظہر کی دو رکعت سنت کی قضا۔
اس بیان سے یہ امر کھل کر سامنے آتا ہے کہ ممنوعہ اوقات میں نماز پڑھنے کی دو صورتے ہیں، ایک یہ کہ ان اوقات میں نماز پڑھنی بالکل درست نہیں جیسے بلاوجہ فرض یا نفل نماز پڑھی جائے۔ دوسرے یہ کہ کسی معقول وجہ سے فرض یا نفل ادا کی جائے جیسے فوت شدہ نماز اور تحیۃ المسجد کی دو رکعت وغیرہ، اس طرح کی ذو اسباب نمازوں کا ممنوعہ اوقات میں پڑھنا جائز ہی نہیں بلکہ سنت ہے کیونکہ اگر کوئی شخص مسجد میں داخل ہوتا ہے اور بغیر تحیۃ المسجد پڑھے بیٹھ جاتا ہے تو گویا وہ اس کے اجر و ثواب سے محروم رہا، اسی طرح ممنوعہ اوقات میں سورج گرہن ہوا اگر نفی عام کی احادیث کے مطابق گرہن کی نماز نہ پڑھی جائے تو اس سنت کی ادائیگی سے آدمی محروم ہو گا۔
⋆ حدیث میں ممنوعہ اوقات میں نماز نہ پڑھنے کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان سے طلوع ہوتا ہے یعنی ان اوقات میں کفار سورج کی عبادت کرتے ہیں، شیطان اپنا رخ ان اوقات میں اس کی طرف کر دیتا ہے تا کہ اس کی پرستش ہو سکے، گویا ان اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت ذرائع شرک کے سد باب کے لیے ہے اور ذو اسباب نماز میں ان اوقات میں ایک اہم راجح مصلحت کی وجہ سے پڑھی جاتی ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی عین پیروی کی خاطر ادا کی جاتی ہیں، اور ایک نمازی ان نمازوں کو اسباب و وجوہات کی بنا پر ادا کرتا ہے مطلقاً ادا نہیں کرتا کہ کفار کی عبادت اور شرک سے مشابہ ہو جائے۔
⋆ بخاری کی روایت سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عصر کے بعد ظہر کی دو رکعت سنت کی قضا کی جو ممنوع وقت میں پڑھی گئی، یہ قضا نماز دوسرے وقت بھی پڑھی جا سکتی تھی، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ذو اسباب نماز جیسے تحیۃ المسجد اور نماز گرہن وغیرہ کا ان ممنوعہ اوقات میں پڑھنا درست ہے، کیونکہ ان نمازوں کی ادا کا وقت دخول مسجد اور سورج گرہن ہے، جب قضا نماز ممنوعہ وقت میں پڑھی جا سکتی ہے تو ادا نماز کے پڑھنے میں کیا مضائقہ؟
تحیۃ المسجد خانہ کعبہ میں:
خانہ کعبہ کی تحیۃ المسجد اس کا طواف ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد حرام میں داخل ہونے کے بعد بیت اللہ کا رخ کیا اور طواف کرنا شروع کر دیا کیونکہ تحیۃ المسجد تو بیٹھنے والوں کے لیے مشروع ہے، لہذا جو شخص مسجد حرام میں داخل ہو اور طواف سے پہلے تھکاوٹ یا کسی وجہ سے بیٹھنا چاہے تو بیٹھنے کے پہلے تحیۃ المسجد کی دو رکعت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عام حکم کی پیروی کرتے ہوئے ادا کر لے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ بارش کی وجہ سے عید کی نماز مسجد میں ادا کی لیکن تحیۃ المسجد نہیں پڑھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ مسجد میں داخل ہونے کے بعد فوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر بیٹھے عید کی نماز شروع کر دی، اور تحیۃ المسجد مسجد میں داخل ہو کر بیٹھنے والوں کے لیے مشروع ہے۔ مختصر زاد المعاد: ص 102۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا عام مساجد کی طرح خانہ کعبہ میں بھی ممنوعہ اوقات میں تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھی جا سکتی ہے؟ اس سلسلے میں ائمہ دین کے درمیان اختلاف ہے، ان میں سے دو اہم رائے کا ذکر دلائل کے ساتھ ذیل میں کیا جاتا ہے۔
(1)پہلی رائے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہما اللہ کی ہے کہ ممنوعہ اوقات میں عام مساجد کی طرح خانہ کعبہ میں بھی تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھنی مکروہ ہے اور ان کے دلائل وہی نفی عام کی مذکورہ احادیث ہیں جن کا مدلل بیان ”ممنوعہ اوقات میں تحیۃ المسجد “کے تحت ہو چکا ہے۔
(2)دوسری رائے عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن زبير، عبد اللہ بن عباس، حسن، حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم، طاؤس، مجاہد، قاسم بن محمد، عطاء، ابو ثور اور امام شافعی رحمہم اللہ کی ہے کہ ممنوعہ اوقات میں تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھنا سنت ہے جو ذیل کی احادیث و آثار سے استدلال کرتے ہیں۔
عن جبير بن مطعم رضي الله تعالىٰ عنه قال: أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: يا بني عبد مناف لا تمنعوا أحدا طاف بهذا البيت وصلي فى أى ساعة شاء من ليل ونهار. أبو داؤد والترمذی۔
جبير بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے بنو عبد مناف! اس بیت اللہ کے طواف سے کسی کو مت روکو اور رات دن میں جس وقت بھی نماز ادا کرنا چاہے کرنے دو!
عن أبى ذر الغفاري رضي الله تعالىٰ عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: لا صلاة بعد الصبح حتي تطلع الشمس ولا بعد العصر حتي تغرب الشمس إلا بمكة إلا بمكة. مسند أحمد۔
ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ فجر کے بعد سے طلوع آفتاب تک اور عصر کی بعد سے غروب آفتاب تک کسی قسم کی نماز نہیں ہے سوائے مکہ میں، سوائے مکہ میں۔
ابن شبیبہ نے اپنی کتاب” مصنف“ میں اس سلسلے کے چند آثار لائے ہیں جن کو ذیل میں نقل کیا جاتا ہے تاکہ مسئلے کی مزید وضاحت ہو سکے۔
عن عطاء قال: رأيت ابن عمر طاف بالبيت بعد الفجر وصليٰ ركتين قبل طلوع الشمس.
عطاء کا بیان ہے کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو فجر کے بعد بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے پھر طلوع آفتاب سے پہلے دو رکعت پڑھا ہوئے دیکھا۔
عن عطاء قال: رأيت ابن عمر وابن عباس رضي الله تعالىٰ عنهما طافا بعد العصر وصليا.
عطاء فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے عصر کے بعد بیت اللہ کا طواف کیا پھر نما پڑھی۔
وعن ليث عن أبى سعيد الخدري رضي الله تعالىٰ عنه أنه ر أى الحسن والحسين رضي الله تعاليٰما قدما مكة فطافا بالبيت بعد العصر وصليا.
لیث سے روایت ہے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو مکہ آتے ہوئے، عصر کے بعد طواف کرتے اور پھر نما پڑھا ہوئے دیکھ۔
عن الوليد بن جميع عن أبى الطفيل رضي الله تعالىٰ عنه أنه كان يطوف بعد العصر ويصليٰ حتي تصفر الشمس.
ولید بن جمیع روایت کرتے کہ ابو الطفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ عصر کے بعد طواف کرتے تھے اور سورج کے زرد ہونے تک نما پڑھا کرتے تھے۔
وعن عطاء قال: رأيت ابن عمر وابن زبير رضي الله تعاليٰهما طافا بالبيت قبل صلاة الفجر ثم صليا ركتين قبل طلوع الشمس.
عطاء بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبير رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو نماز صبح کے پہلے بیت اللہ کا طواف کرتے ہو ئے پھر طلوع آفتاب سے پہلے دو رکعت پڑھتے ہوئے دیکھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا بنو عبد مناف کو بیت اللہ میں کسی وقت کسی فرد کو طواف کرنے اور نماز پڑھنے سے نہ روکنے کا حکم دینا، صحابہ کرام عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس، اور عبداللہ بن زبير رضی اللہ تعالیہم کا اس سنت پر عمل، واضح دلیل ہے کہ بیت اللہ میں ہر وقت طواف کرنا اور نماز پڑھنا درست ہے۔
خانہ کعبہ جو اللہ تعالی کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ لوگوں کی عقیدت کا مرجع شروع ہی سے رہا ہے، دنیا کے گوشے گوشے سے اس کی زیارت، اس میں خدائے واحد کی عبادت اور اپنی روح کی پاکیزگی اور نفس کی طہارت کے لئے لوگ آتے رہتے ہیں، ہر وقت آنے جانے والوں کا تانتہ بندھا رہتا ہے، اگر کسی وقت بھی اس کے طواف اور اس میں نماز پڑھنے سے روکا جائے تو وقتی طور پر اس مقام مقدس کے زائرین اور عابدین کے مقاصد حسنہ کو ٹھیس پہنچے گی۔
لہذا بیت اللہ کا ہر وقت طواف کرنا، مسجد حرام میں ہر وقت نماز پڑھنا جائز ہی نہیں بلکہ سنت ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
جبير بن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے بنو عبد مناف کو اس بات سے روک دیا تھا کہ وہ کسی فرد کو کسی وقت بھی بیت اللہ شریف میں نماز پڑھنے اور طواف کرنے سے روکیں، اس حدیث کو ابو داود، نسائی، اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے، نیز ترمذی نے اسے روایت کر کے اس کی تصحیح فرمائی ہے، امام شافعی رحمہ اللہ ، امام احمد رحمہ اللہ ، اور ابو ثور رحمہ اللہ نے عصر اور فجر کے بعد طواف کرنے اور نما پڑہنے کے لئے مذکورہ حدیث کو بطور دلیل پیش کیا ہے، عبدالله بن زبير، عبدالله بن عمر رضی اللہ تعالی عنہم نیز دیگر صحابہ کرام اور تابعین عظام سے بھی اس قسم کی روایات منقول ہیں۔
لہذا طواف کی دو رکعت ممنوعہ اوقات میں پڑھنا مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر درست ہے۔
⋆ فرمان نبیﷺ : لا تمنعوا احدا طاف بهذا البيت وصلى أى ساعة شاء من الليل والنهار یعنی رات اور دن میں کسی وقت بھی بیت اللہ میں نماز پڑھنے اور طواف کرنے سے کسی کو مت روکو!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کا یہ حکم عام ہے جو تمام اوقات کو شامل ہے، پھر کوئی یہ کہنے کی کیسے جرات کرتا ہے کہ ممنوعہ اوقات میں طواف کی دو رکعت پڑہھنا درست نہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ کے اس مذکورہ حکم کو نہ کوئی نص اور نہ اجماع امت خاص کرتی ہے ، اس کے برعکس ممنوعہ اوقات میں نماز پڑھنے والی احادیث نص نبوی اور اجمع امت سے خاص ہیں، اور یہ عام قاعدہ ہے کہ حکم عام حکم خاص سے راجح ہوتا ہے۔
⋆ بیت اللہ کا طواف ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے ہوتا آرہا ہے، اور اسی زمانے سے اس مبارک گھر کے ارد گرد نماز ادا کی جا رہی ہے، خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثار ساتھی ہجرت سے پہلے اس گھر کا طواف کیا کرتے تھے، اس کے ارد گرد نماز پڑھتے تھے، جب مکہ فتح ہوا، نصرت خداوندی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدم بوسی کی اور لوگ جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے اور بکثرت اس گھر کا طواف کیا جانے لگا اور اس کے ارد گرد نما پڑہی جانے لگی۔ اگر طواف کی دو رکعت ممنوعہ اوقات میں پڑھنی درست نہ ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عام مسلمانوں کی ضرورت کا خیال کرتے ہوئے اس سلسلے میں کوئی عام حکم ارشاد فرماتے اور صحابہ کرام، تابعین، اور تبع تابعین سے یہ روایت منقول ہو کر ہم تک پہنچتی لیکن واقعہ اس کے خلاف ہے، کسی ایک مسلمان نے بھی آج تک یہ بات نہیں کہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ممنوعہ اوقات میں طواف کی دو رکعت پڑہنے سے منع فرمایا بلکہ صبح و شام طواف کرنا زیادہ آسان ہے اور بکثرت لوگ کرتے بھی ہیں۔
⋆ سد ذرائع کے لئے شریعت میں جو چیز ممنوع قرار دی گئی ہے وہی چیز راجح مصلحت کی خاطر جائز بھی قرار دی گئی ہے جیسے عورتوں کو غیر محرم کا دیکھنا شریعت میں حرام ہے جو سید ذریعہ یعنی مبادیات زنا، پھر فحش محرم میں واقع ہونے کے ڈر سے ممنوع قرار دیا گیا ہے لیکن راجح مصلحت کی خاطر یعنی شادی کا پیغام دیتے وقت ایک پیغامبر نکاح کے لئے جائز ہے بلکہ مستحب ہے کہ وہ اپنی ہونے والی رفیقہ حیات کا دیدار کرلے تاکہ مستقبل کی ازدواجی زندگی میں کسی قسم پیچیدگی واقع نہ ہو۔
اسی طرح طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت شرک سے محفوظ رہنے کے لیے نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ ان اوقات میں کفار شرک اور کفر کا بازار گرم کرتے ہیں، اپنے معبودان باطل کی پرستش کرتے ہیں، شیطان اپنا روئے منحوس آفتاب کی طرف، ان اوقات میں کر دیتا ہے تا کہ اس کی پرستش ہو سکے، لیکن راجح مصلحت کی خاطر ان اوقات میں نماز پڑھنی درست ہے جیسے اگر سورج یا چاند کو ان ہی ممنوعہ اوقات میں گرہن لگ جائے تو صلاۃ کسوف وخسوف ان ہی اوقات میں ادا کرنی ہوگی کیونکہ اس کی ادائیگی کا وہی وقت شریعت نے مقرر کیا ہے، اسی طرح تحیۃ المسجد کی دو رکعت مسجد میں داخل ہوتے ہوئے ادا کرنی شریعت نے مقرر کی ہے، لہٰذا اس نماز کے ادائیگی کا وقت دخول مسجد ہے، یہی راجح مصلحت ہے جس کو سد ذریعہ کے حکم پر فوقیت حاصل ہے۔ فتاویٰ ابن تیمیہ ج 23 ص 184-187
مذکورہ بیان سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ طواف کی دو رکعت طلوع آفتاب، زوال آفتاب، غروب آفتاب، عصر اور فجر کے بعد ان پانچ ممنوعہ اوقات میں پڑھنی درست ہی نہیں بلکہ سنت ہے۔
تحیۃ المسجد اقامت کے درمیان
اس بات پر علمائے کرام کا اتفاق ہے کہ فرض نماز کی اقامت کے بعد تحیۃ المسجد کی دو رکعت ادا کرنی خلاف سنت ہے، کیونکہ اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشادات موجود ہیں:
عن ابي هريره رضي الله تعالىٰ عنه قال: ان النبى صلى الله عليه وسلم قال: "إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة” (مسلم)
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب فرض نماز کے لیے اقامت کہی جانے لگے تو اس کے علاوہ کوئی دوسری نماز نہیں ہے۔
ایک دوسری روایت میں "فلا صلاة إلا التى أقيمت” کا جملہ آیا ہے یعنی جس نماز کے لیے اقامت کہی گئی ہے اس نماز کے علاوہ کوئی دوسری نماز نہیں ہے۔
عبداللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھا رہے تھے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہو کر فجر کی دو رکعت سنت پڑھنے لگا پھر آپ کے ساتھ جماعت میں شامل ہو گیا، سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"يا فلان ب أى الصلاتين اعتدت بصلاتك وحدك أم بصلاتك مضي” (مسلم)
اے شخص تم نے دونوں نمازوں میں سے کس نماز کو شمار کیا آیا اپنی تنہا پڑھی ہوئی نماز کو یا میرے ساتھ پڑھی ہوئی نماز کو۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ اسی بیچ مؤذن نے اقامت کہنی شروع کردی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جھنجھوڑتے ہوئے فرمایا: "اتصلي الصبح أربع” کیا تم صبح کی چار رکعت پڑھتے ہو؟ البیہقی ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو صبح کی دو رکعت اس وقت پڑھتے ہوئے دیکھا جب کہ مؤذن نے اقامت کہنی شروع کر دی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے موڈھے پر مارتے ہوئے فرمایا: "ألا كان هذا قبل هذا” کیا یہ نماز اس سے پہلے پڑھنی نہیں تھی؟ (طبرانی)
مذکورہ احادیث سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اقامت کے بعد فرض نماز کے علاوہ کوئی دوسری نماز نہیں پڑھنی چاہیے، یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے تحیۃ المسجد کے عام حکم سے اقامت کے بعد فرض نماز کی ادائیگی کو خاص کیا ہے۔ نیل الاوتار، ج 3 ص 84
لہٰذا! اگر اقامت ہوتی ہو یا ہو چکی ہو اور اس حالت میں کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو وہ بغیر تحیۃ المسجد کی دو رکعت پڑھے جماعت میں شامل ہو جائے یہی سنت کا طریقہ ہے جو شخص اس کے خلاف کرتا ہے گویا وہ سنت رسول کا تارک ہے، لیکن اقامت کے درمیان فجر کی دو رکعت سنت پڑھنے کے سلسلے میں فقہائے کرام کا شدید اختلاف ہے، اس سلسلے میں امام شوکانی نے اپنی کتاب "نیل الاوتار” میں نو اقوال درج کیے ہیں، یہ موضوع الگ ایک مستقل رسالے کا متقاضی ہے۔
بہرصورت ! اس سلسلے میں راجح اور درست قول یہی ہے کہ خواہ تحیۃ المسجد کی دو رکعت ہو یا نماز صبح کی دو رکعت سنت ہو اقامت کے بعد نہیں پڑھنی چاہیے کیونکہ فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم "إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة” کے اندر فرض نماز کے علاوہ جملہ نمازوں کی نفی کی گئی ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ فتاویٰ ابن تیمیہ ج 23 ص 264
تحیہ المسجد سفر سے واپسی کے بعد
در حقیقت سفر سے واپسی کے بعد کی نماز تحیہ المسجد نہیں بلکہ "نماز قدوم” ہے لیکن اس کے ذریعہ تحیۃ المسجد کی غرض و غایت اور اس کے مقاصد پورے ہوتے ہیں۔ سفر جو کبھی نمونہ سقر تھا، اب اگرچہ نئی ایجاد نے اسے نمونہ ظفر بنا دیا ہے، پھر بھی سفر سفر ہے، سچ ہے "السفر كالسقر” دراصل اسی سفر سے نجات یابی کے بعد خدا کے حضور حاضر ہو کر شکرانے کی دو رکعت پڑھی جاتی ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب بھی کسی سفر سے واپس آتے تو پہلے خانہ خدا میں حاضر ہو کر قدوم سفر کی دو رکعت پڑھتے۔
عن جابر بن عبدالله رضي الله تعالىٰ عنه قال كنت مع النبى صلى الله عليه وسلم فى سفر فلما قدمنا المدينة قال لي أدخل فصل ركعتين (البخاري)
جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مدینہ منورہ واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا پہلے مسجد جا کر دو رکعت پڑھ لو!
عن كعب بن مالك رضي الله تعالىٰ عنه قال أن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا قدم من سفر ضحى دخل المسجد فصلى ركعتين، قبل أن يجلس (البخاري)
کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر سے چاشت کے وقت تشریف لاتے تو مسجد میں داخل ہو کر بیٹھنے سے پہلےہ دو رکعت نماز پڑھتے۔
عن ابن شهاب قال النبى ﷺ لا يقدم من سفر الافي الضحي فيبدا المسجد فيصلي فيه ركعتين ويقعد مسند احمد
ابن شہاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کے وقت ہی سفر سے واپس آتے، پہلے مسجد جا کر دو رکعت پڑھا کرتے پھر بیٹھتے۔
عن عبدالله بن عمر رضي الله تعالىٰ عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم حين أقبل من حجته دخل المدينة فأناخ على باب مسجده ثم دخل فركع فيه ركعتين ثم انصرف إلى بيته (أبو داود)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ خدا حجۃ الوداع کے بعد مدینہ تشریف لائے تو اپنی اونٹنی کو مسجد کے دروازے پر بیٹھا کر مسجد میں داخل ہوئے اور دو رکعت نماز پڑھی پھر اپنے گھر کا رخ فرمایا۔
مشہور تابعی حضرت نافع کا بیان ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ (ابو داود)
مذکورہ احادیث سے قدوم سفر کی دو رکعت پڑھنے کا ثبوت فراہم ہوتا ہے، جس کا پڑھنا سنت رسول ﷺ ہے اور اس سے تحیۃ المسجد کی غرض و غایت بھی پوری ہوتی ہے۔
اللهم ارزقني التوفيق بطاعتك وطاعة رسولك محمد صلى الله عليه وسلم