دو بیویوں میں سے صرف ایک کو تحفہ دینا
جس کی دو یا دو سے زائد بیویاں ہوں، اس کے لیے ان کے درمیان عدل کرنا ضروری ہے اور صرف ایک بیوی کو خرچے، رہائش، یا رات بسر کرنے کے لیے خاص کرناجائز نہیں۔
جس کی دو بیویاں ہوں لیکن وہ ان کے درمیان عدل نہ کرے ایسے شخص کے متعلق سخت وعید وارد ہوئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”جس کی دو بیویاں ہوں وہ ایک کی نسبت دوسری کی طرف زیادہ میلان رکھے، وہ قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کے جسم کا ایک حصہ فالج زدہ ہوگا۔“ [سنن ابن ماجه، رقم الحديث 1969]
ایک روایت میں ہے:
”وہ اپنے ایک جھکے ہوئے یا مفلوج پہلو کو گھسیٹتا آئے گا۔“
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کی طرف مائل ہو، روز قیامت وہ اس حالت میں آئے گا کہ اس کا ایک حصہ جھکا ہوا ہوگا۔“ [سنن النسائي، رقم الحديث 3942]
یہ دلائل سوتنوں کے درمیان عدل قائم کرنے کی تاکید کرتے ہیں، تاہم دل پر زور نہیں چلتا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے درمیان مساویانہ تقسیم کرتے اور فرماتے تھے۔
”اے اللہ ! یہ میری تقسیم ہے جس کا میں مالک ہوں، اور اس پر میرا مؤاخذہ نہ کرنا جس کا تو مالک ہے، میں نہیں۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 2134]
اس بنا پر اس خاوند کے لیے جائز نہیں کہ وہ دوسری بیویوں کے سوا اپنی ایک بیوی کو اپنی ملکیت میں سے کوئی چیز تحفتا دے، اگر ایک بیوی کو گھر وغیرہ دے تو اس پر لازم ہے کہ دوسری بیویوں کے ساتھ بھی مساویانہ سلوک کرے اور ہر ایک کو اس جیسا گھر دے یا اس کی قیمت دے، الا یہ کہ دوسری بیوی اس کی اجازت دے دے۔
[اللجنة الدائمة: 19695]