دوسری شادی سے طلاق کے بعد پہلے شوہر سے نکاح، صحیح حدیث کی روشنی میں حکم
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال :

ایک یا دو طلاقیں ہوئیں ، عدت گزار کر دوسری جگہ شادی کر لی، اس نے بھی طلاق دے دی، کیا پہلے خاوند سے نکاح ہو سکتا ہے؟

جواب :

جی ہاں ، پہلے خاوند سے نکاح ہو سکتا ہے۔
سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا:
أيما امرأة طلقها زوجها، تطليقة، أو تطليقتين، ثم تركها، حتى تحل، وتنكح زوجا غيره، فيموت عنها، أو يطلقها، ثم ينكحها زوجها الأول، فإنها تكون عنده على ما بقي من طلاقها .
جس عورت کو اس کا خاوند ایک یا دو طلاقیں دے دے اور عدت ختم ہو جانے تک رجوع نہ کرے، عورت کسی اور سے شادی کر لے اور وہ فوت ہو جائے یا طلاق دے دے، پھر پہلے خاوند سے نکاح کرلے، تو یہ عورت پہلے خاوند کے پاس بقیہ طلاق کی بنا پر رشتہ ازدواج قائم رکھ سکتی ہے۔
(مؤطأ الإمام مالك : 586/2، وسنده صحيح)
سید نا عمران بن حصین رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔
(السنن الكبرى للبيهقي : 365/7، وسنده صحيح)
❀ طاؤس بن کیسان رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
عن ابن عباس رضي الله عنهما فى الرجل يطلق تطليقتين ثم يتزوجها رجل آخر فيطلقها أو يموت عنها فيتزوجها زوجها الأول قال : فتكون على طلاق جديد ثلاث .
”ایک شخص نے دو طلاقیں دیں، پھر اس عورت سے کسی اور نے شادی کر لی۔ دوسرے خاوند نے طلاق دے دی یا فوت ہو گیا ، تو وہ پہلے خاوند سے شادی کر لیتی ہے۔“
اس صورت حال کے متعلق سید نا عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:
وہ نئی تین طلاقوں کا مختار ہوگا۔
(السنن الكبرى : 365/7، وسنده صحيح)
رہا طلاق جدید کا مسئلہ، تو یہ مرجوح ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سید نا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کا موقف ہی راجح ہے۔
سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول ذکر کر کے امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
على ذلك السنة عندنا التى لا اختلاف فيها .
”اس مسئلہ میں ہمارے ہاں بغیر کسی اختلاف کے یہی طریقہ رائج ہے۔“
(مؤطأ الإمام مالك : 586/2)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے