دوسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت ہاتھوں کی کیفیت
سوال:
ماہنامہ "شہادت” نومبر 2002 کے شمارے میں "آپ کے مسائل” کے تحت خالد سیف حفظہ اللہ نے ایک سوال کے جواب میں یہ تحریر کیا کہ:
سجدوں سے اگلی رکعت کے لیے آٹا گوندھنے کی طرح بھی اٹھ سکتے ہیں۔
اس پر میں نے الشیخ ابو جابر حفظہ اللہ سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا:
اس طرح اٹھنا ثابت نہیں۔
اسی طرح الشیخ خواجہ محمد قاسمؒ نے اپنی کتاب "قد قامت الصلوٰۃ” میں تلخیص الجبیر للحافظ ابن حجرؒ کے حوالے سے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔
لیکن دوسری طرف شیخ عبداللہ ناصر الرحمانی حفظہ اللہ اس روایت کو حسن قرار دیتے ہیں اور بیان فرماتے ہیں کہ:
علامہ البانیؒ نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے۔
محترم! ان متضاد آراء کی روشنی میں وضاحت فرما دیں کہ درست موقف کس کا ہے؟ اور اس کی تفصیلی دلیل اور حوالہ بھی عنایت فرمائیں۔
(از طرف: ایک سائل)
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آٹا گوندھنے کی طرح اٹھنے والی روایت کا جائزہ:
اس روایت میں جس انداز سے دوسری رکعت کے لیے اٹھنے کی بات کی گئی ہے (یعنی آٹا گوندھنے کی طرح)، اس کا ایک راوی "ہیثم بن عمران الدمشقی” ہے۔
اس روایت کا ماخذ:
الاوسط للطبرانی: حدیث نمبر 4019
اس راوی کی حیثیت:
اگرچہ ثقہ راویوں کی ایک جماعت اس سے روایت کرتی ہے،
لیکن توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے۔
دیگر محدثین کی طرف سے اس کی کوئی توثیق نہیں ملی،
لہٰذا اصولِ حدیث کے مطابق:
"ہیثم بن عمران الدمشقی” مجہول الحال راوی ہے۔
اصول حدیث کی روشنی میں حکم:
اصول حدیث کے مطابق:
"مجہول الحال راوی کی روایت، اگر اس کی متابعت نہ ہو، تو وہ روایت ضعیف شمار ہوتی ہے۔”
اس بنیاد پر، یہ روایت:
"ضعیف ہے اور اسے حسن قرار دینا درست نہیں۔”
نتیجہ:
لہٰذا آٹا گوندھنے کی طرح اٹھنے کا عمل
جس روایت سے ثابت کیا جا رہا ہے،
وہ روایت ضعیف ہے۔
اور اس پر حسن کا حکم لگانا غلط ہے۔
ماہنامہ شہادت، مارچ 2003
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب