سوال
ہمارے مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ جو شخص پانچوں نمازیں باجماعت اہتمام سے ادا کرتا ہو، اگر وہ کبھی کسی مجبوری کی وجہ سے جماعت سے رہ جائے تو اس کے لیے دوسری جماعت کروانا جائز ہے، ورنہ عام طور پر دوسری جماعت کروانا جائز نہیں ہے۔ کیا یہ موقف درست ہے؟ اور دوسری جماعت کے لیے اقامت کہنی چاہیے یا نہیں؟
الجواب
مولوی صاحب کا یہ موقف درست نہیں ہے کہ دوسری جماعت صرف باقاعدہ جماعت سے نماز پڑھنے والوں کے لیے مخصوص ہو۔ اللہ تعالیٰ نے نماز باجماعت کے لیے عمومی حکم دیا ہے، جو سب مسلمانوں پر لاگو ہوتا ہے، چاہے وہ باقاعدگی سے جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے ہوں یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ”
(البقرہ: 2/43)
ترجمہ: "اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔”
اس آیت میں سب نمازی شامل ہیں، اور باجماعت نماز کا حکم کسی خاص گروہ کے لیے محدود نہیں ہے۔ لہذا، اگر کوئی شخص جماعت سے رہ جائے، تو اس کے لیے دوسری جماعت کروانا جائز ہے، اور یہ کسی خاص شخص کے لیے محدود نہیں۔
اقامت کے بارے میں
دوسری جماعت کے لیے بھی اقامت کہنی چاہیے۔ اقامت نماز کی سنت ہے اور اسے ترک کرنا درست نہیں۔
خلاصہ
◄ دوسری جماعت کروانا سب نمازیوں کے لیے جائز ہے، خواہ وہ باقاعدہ جماعت سے نماز پڑھتے ہوں یا کبھی کبھار۔
◄ دوسری جماعت کے لیے اقامت کہنی چاہیے۔
حوالہ جات
◄ قرآن کریم، سورہ البقرہ: 2/43