سوال
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ "بنام دودو” ایک عورت مسمات مکھن (جو کہ حاملہ تھی) کو بھگا کر لے گیا اور اس سے نکاح کیا۔ اس کے بعد دودو میں سے تین بیٹے: ننگر، جان اور بچایو اور ایک بیٹی مسمات بیگم پیدا ہوئے۔ اس کے بعد دودو کی نکاح والی بیوی مسمات آمنت بنام مٹھو کے ساتھ بھاگ گئی۔ مسمات آمنت کے گھر ایک بچی پیدا ہوئی۔ پھر مسمات آمنت کو دودو کچھ عرصے یعنی تقریباً 15 سال کے بعد اپنے گھر لے آیا۔ اس کے بعد دودو فوت ہوگیا جس نے وارث چھوڑے: ایک بیوی مسمات آمنت اور ایک بھائی گیلو۔
اب ننگر والے کہتے ہیں کہ دودو کی وراثت کے مالک ہم ہیں۔ وضاحت فرمائیں کہ دودو کی ملکیت کا حقیقی وارث کون ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
معلوم ہونا چاہیے کہ فوت ہونے والے کی ملکیت میں سے سب سے پہلے اس کے کفن دفن کا خرچ نکالا جائے۔
پھر اگر قرض ہو تو اسے ادا کیا جائے۔
پھر اگر کوئی وصیت کی ہو تو سارے مال کے تیسرے حصے تک سے ادا کی جائے۔
اس کے بعد باقی ملکیت (چاہے منقول ہو یا غیر منقول) کو ایک روپیہ قرار دے کر اس طرح تقسیم ہوگی:
تقسیم میراث
◈ فوت ہونے والا: دودو → ملکیت = 1 روپیہ
◈ وارثین:
• بھائی گیلو = 2 آنے
• بیوی مسمات آمنت = 4 آنے
قرآن کریم کی دلیل
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ﴾
وضاحت
◈ ننگر اور خان والے دودو کے وارث نہیں ہوسکتے۔
◈ اور مٹھو میں سے جو بچی پیدا ہوئی، اس کو بھی کچھ نہیں ملے گا کیونکہ جب نکاح ہی نہیں ہوا تو حصہ کیسے ملے گا۔
نتیجہ تقسیم
◈ کل ملکیت = 100
◈ بیوی = 4/1 = 25
◈ بھائی گیلو (عصبہ) = 75
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب