دوا سے علاج
انسان کے بیمار ہو جانے کی صورت میں شریعت اسلامیہ نے اس کی راہنمائی اس طرف فرمائی ہے کہ اسے دعا اور دوا سے اپنا علاج کرانا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دواؤں کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کو بھی انسان کے لیے روحانی اور جسمانی طور پر باعث شفا قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ﴾
”اور قران مجید میں ہم نے ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت والی ایات نازل فرمائی ہیں۔“
(17-الإسراء:82)
بلکہ خاص طور پر ایمان والوں کو تو قرآن مجید سے کسب فیض ضرور کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ﴾
”(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) آپ لوگوں کو بتائیے کہ یہ قران ایمان والوں کے لیے راہنمائی اور شفا کا باعث ہے۔“
(41-فصلت:44)
بلکہ خاص طور پر دل اور سینے کے امراض میں تو قرآن حکیم کا خصوصی اثر بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ﴾
”تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہے ان کے لیے شفا ہے۔“
(10-يونس:57)
حضرت ابراہیم الخواص رحمة اللہ عليه کا فرمان ہے:
دل کی دوا پانچ چیزیں ہیں:
● غور و فکر کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کی جائے۔
● پیٹ زیادہ نہ بھرا جائے۔
● رات کا قیام کیا جائے۔
● سحر کے اوقات میں اللہ تعالیٰ کے سامنے آہ و زاری کی جائے۔
● صالحین کی صحبت اختیار کی جائے۔ (انتخاب از تقویم سعودی عرب)
اسی طرح حدیث میں دوا سے بھی علاج کی ترغیب دی گئی ہے۔
دوا سے علاج:
بخاری شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مرض نازل کیا اس کی شفا بھی نازل فرمائی۔ (صحیح بخاری، ح 5678)
اسی طرح مسلم شریف میں اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہر مرض کی دوا ہے، جب کسی مرض کی دوا اس کے مطابق منتخب ہو جاتی ہے تو اللہ کے حکم سے شفا ہو جاتی ہے۔ (صحیح مسلم، ح 2204)
دوا استعمال کرنا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں بنائی جس کی دوا نازل نہ کی ہو سوائے ایک بیماری کے، وہ بڑھاپا ہے۔ (سنن ابوداود، ح 3855)
اس لیے انسان کو بیماری کی صورت میں دوا ضرور استعمال کرنی چاہیے۔
حرام میں شفا نہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبیث، پلید یا ناپاک دوا سے علاج کرنے سے منع فرمایا۔ (سنن ابن ماجہ، ح 3523)
لہذا تمام مسلمانوں کو حرام اشیا (منشیات وغیرہ) سے علاج کرنے سے بچنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حرام میں تمہارے لیے شفا نہیں رکھی۔ (موارد النظمان، ح 1397)
دوا کی مقدار
شریعت اسلامیہ میں دوا سے علاج کی صورت میں دوا کی مقدار اور اس کی بتدریج خوراک لینے کی طرف بھی راہنمائی فرمائی گئی ہے۔ اس سلسلے میں صحیح بخاری میں مذکور واقعہ دلیل کے لیے کافی ہے:
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور گویا کہ اس کے بھائی کے پیٹ میں تکلیف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شہد پلانے کا حکم دیا۔ کچھ دیر بعد وہ آیا اور افاقہ نہ ہونے کی بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مزید شہد پلانے کا حکم دیا۔ تیسری بار اس نے آ کر پھر وہی شکوہ دہرایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اسے وہی مشورہ دیا۔ وہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکوہ لے کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا کہنا سچ ہے، تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ اسے مزید شہد پلاؤ۔“ (صحیح بخاری، ح 5684)
اس حدیث مبارکہ سے یہ بات بخوبی سمجھ آ جاتی ہے کہ مکمل افاقہ پانے کے لیے دوا کی مناسب مقدار مریض کو دی جائے۔
دوا کھانے سے پہلے دعا:
بسم الله
ترجمہ: اللہ کے نام کے ساتھ (کھاتا ہوں)۔
دعا بھول جانے کی صورت میں پڑھیں:
بسم الله أوله وآخره
ترجمہ: اللہ کے نام کے ساتھ (کھاتا ہوں) اس کے شروع اور آخر میں۔ (ترمذی، ح 1858)
دوا کھانے کے بعد کی دعا:
الحمد لله
ترجمہ: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ (صحیح مسلم، ح 2734)