دنیا کے مظالم اور حقیقت کا ادراک
تحریر: مہران دریغ

بڑھتے ہوئے درد کا دورانیہ یہ صاف ظاہر کر رہا ہے کہ اب چیخ نکلنے کا وقت قریب ہے

میں بھی اسی دنیا کا حصہ ہوں، جتنا تم ہو، اور میرا دل بھی اتنے ہی وزن کا ہے جتنا تمہارا ہے۔ کوئی ماں کے پیٹ سے خونخوار پیدا نہیں ہوتا، پھر ہم کیوں اس کا شکار ہو گئے؟ ذرا قریب آ کر میری بات سنو۔ اچانک میرا دل ان لوگوں کے ساتھ کیوں دھڑکنے لگا جنہوں نے چارلی کو مارا تھا؟ آج میں اس عجیب احساس کی وجہ پوچھ رہا ہوں، اور اس بار کوئی جھجھک نہیں۔

میں تو ویسے ہی تیار بیٹھا ہوں کہ کوئی بولے تو سہی۔ میرے مصوروں نے کب رام، گوتم، عیسیٰ، مریم، موسیٰ، داود، سلیمان، لینن یا مارکس کے چہروں کے ساتھ مذاق کیا؟ کب ان کے خاکے بنا کر بازار میں نمائش کے لیے لگائے؟ تم میں سے کسی نے کب سوال اٹھایا کہ بھگوان رام چندر کی اتنی شادیاں کیوں تھیں؟ کب کسی نے کہا کہ مہابھارت بھائیوں کے آپس میں اقتدار کی جنگ تھی؟ کسی نے گوتم بدھ کے جنگل کی طرف دوڑنے کا راز بتایا؟ کب کسی نے کہا کہ کلاشنکوف ایک ملحد تھا؟ بلیک انڈینز کو ان کے بدصورت چہروں کی بھینٹ کیوں چڑھایا گیا؟ کس کے ہاتھوں؟ کلیسا میں عورت کی کیا حیثیت تھی؟ روم کے سیزر کب سے انسانوں کو آپس میں لڑانے لگے، جبکہ اس وقت تاریخ انسانیت کو کتوں کے جھگڑوں کا بھی علم نہ تھا؟ صلیب کے نام پر پانچ کروڑ انسانوں کو بارود میں لپیٹ کر ختم کیا گیا، کس نے کیا؟ کہاں کیا؟ کیوں کیا؟

نیلسن منڈیلا چالیس سال تک بندوق تھامے پھرتا رہا اور جب معاہدہ ہوا تو امن کا نوبل انعام اس کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔ رسول کو حدیبیہ، میثاق مدینہ اور معافی مکہ کا خمیازہ چودہ سو سال سے کیوں بھگتنا پڑ رہا ہے؟ کیا ہم ہی ہر جرم کے ذمے دار ہیں؟ کوئی الزام ان کے سر کیوں نہیں آتا؟

یہ صرف ایک ملحد کا قول نہیں ہے

ہر وہ شخص جو ظلم کے خلاف خون کھولنے کی طاقت رکھتا ہے، میرا ساتھی ہے۔ "چی گویرا” نے کہا تھا کہ اگر کسی کا خون کھولنے لگے تو کیا تم اس کی ماں کو گالی دو گے؟ اس دور کے انساں کو ہوا راس نہیں آئی، ہر سانس کو سگریٹ کے دھوئیں سے نکالا جا رہا ہے۔

دنیا میں ظلم اور استبداد کی تاریک راتیں صدیوں پر محیط ہیں، ریشم و اطلس میں لپٹے ہوئے جسم بازاروں میں بکتے رہے، خون میں نہائے ہوئے وجود خاک میں لتھڑے گئے۔ بہت کچھ ہے لکھنے کو، کہنے کو، دکھانے کو۔ لیکن دلیل کی موت کے بعد بندوق جنم لیتی ہے۔ جب تم نے دلیل کو ختم کر دیا، وہی لمحہ تھا جب تم نے زندہ رہنے کا حق بھی کھو دیا۔

نتیجہ

اب اگر مجھے دہشت گرد نہ کہا جائے، تو ان قاتلوں کے لیے یہ پیغام واضح ہے کہ ہر سانس کے ساتھ ان کا ظلم کھل کر سامنے آ رہا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!