سوال:
کیا یہ بات درست ہے کہ سب سے افضل دم سورۃ الفاتحہ ہے ؟
جواب :
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ﴿١﴾ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾
سب تعریف اللہ کے لیے ہے، جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔ بےحد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔ بدلے کے دن کا مالک ہے۔ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں۔ ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔ ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا، جن پر نہ غصہ کیا گیا اور نہ وہ گمراہ ہیں۔“ [ الفاتحة: 1-7]
صحیحین میں ہے، سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی کچھ نفری ایک سفر میں نکلی، یہاں تک کہ وہ عرب کے قبائل میں سے ایک قبیلے کے ہاں ٹھہرے، پھر ان سے حق مہمانی کا مطالبہ کیا، لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ خدا کا کرنا کہ قبیلے کے سردار کو سانپ نے ڈس دیا۔ قبیلے والوں نے لاکھ جتن کیے، مگر سردار کو آرام نہ آیا۔ پھر ان میں سے کسی نے کہا: اگر تم ان لوگوں کے پاس جاؤ، جو یہاں اترے ہیں، شاید ان میں سے کسی کے پاس کوئی چیز ہو؟ پھر وہ ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: قافلے والو! ہمارے سردار کو کسی چیز نے ڈس لیا ہے، ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اس کو آرام آ جائے، لیکن بے سود، کیا تم میں سے کسی کے پاس کوئی چیز ہے؟ (جو اس پر موثر ہو) ان میں سے ایک نے کہا: ہاں، اللہ کی قسم میں دم کرتا ہوں، لیکن اللہ کی قسم! ہم نے تم سے حق ضیافت طلب کیا، لیکن تم نے ہماری ضیافت نہیں کی، اب میں تمھارے لیے اس وقت تک دم نہیں کروں گا، حتی کہ تم ہمارے لیے کوئی عوضانہ مقرر کرو۔ انھوں نے ان سے بکریوں کے ایک ریوڑ پر مصالحت کی۔
پھر وہ صحابی گئے اور اس پر الحمد لله رب العليين پڑھ کر تھتکارا، تو وہ ایسے ہو گیا، جیسے رسیوں سے آزاد کیا گیا ہو اور ایسے چلنے گا، جیسے اسے کوئی بیماری ہے ہی نہیں۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: انھوں نے وہ عوضانہ پورا ادا کیا، جس پر انھوں نے مصالحت کی تھی۔ کچھ لوگوں نے کہا: اسے تقسیم کر لو، لیکن دم کرنے والے نے کہا: ایسے نہ کرو۔ ہم نبی مکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس معاملے کا ذکر کریں گے، پھر ہم دیکھیں گے کہ وہ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں۔ پھر وہ نبی کریم کے پاس آئے اور آپ کے سامنے بات چیت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وما يدريك أنها رقية ؟ ثم قال: قد أصبتم، أقسموا واضربوا لي معكم سهما فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم
تجھے کیسے پتا چلا کہ وہ دم ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے درست کیا ہے، ان بکریوں کو تقسیم کر لو اور اپنے ساتھ میرا حصہ بھی رکھنا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے۔“ [ صحيح البخاري، رقم الحديث 2156 كتاب الإجاره، رقم الحديث 16 صحيح مسلم، رقم الحديث 2201 ]
ایک روایت میں ہے کہ انھوں نے وہ سورت سات بار یا تین بار پڑھی تھی۔ دم میں تھوکنے کا محل قراءت کے بعد ہے، تا کہ ان اعضا میں قراءت کی برکت حاصل ہو جائے، جن پر وہ گزرتا ہے۔ [ نيل الأوطار 290/5/2]
فاتحہ درج ذیل مضامین کو متضمن ہے، عبادت کا خالص کرنا، اللہ کی تعریف کرنا، تمام کام اس کے سپرد کرنا، اس پر توکل کرنا، اس سے جامع کلمات میں سوال کرنا اور ان تمام باتوں کا مجموعہ وہ ہدایت ہے، جو تمام نعمتوں کے حصول اور تمام بیماریوں سے دوری کا سبب ہے۔ سورة الفاتحہ تمام ادویات میں سے بڑی دوا، شفا کا موجب اور کفایت کرنے والی ہے۔