سوال
بہت سے لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ وہ مسلسل دعائیں کرتے ہیں لیکن اللہ کی طرف سے کوئی جواب نہیں آتا، اور اس بنا پر وہ دعا کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ سوچنا کہ خدا ہماری دعاؤں کا جواب نہیں دیتا، دراصل دعا اور اسباب کی حقیقت کو سمجھے بغیر ایک غلط فہمی ہے۔
دعا کی قبولیت کا معیار
اللہ نے اس دنیا کو ایک نظام اور اصول کے تحت بنایا ہے جسے "دار الاسباب” کہا جاتا ہے۔ اسباب اختیار کرنا اس نظام کا حصہ ہے اور دعا ان اسباب میں سے ایک ہے۔
دعا کی قبولیت کا معیار صرف دعا مانگنے تک محدود نہیں بلکہ یہ اسباب کے اختیار کرنے اور صحیح طریقہ کار اپنانے کے ساتھ جڑی ہے۔
مسائل کی وجوہات
➊ غلط نظریہ
دعا کو ایک معجزہ سمجھنا کہ فوراً مسائل حل ہوجائیں گے، ایک غلط نظریہ ہے۔ دعا کے ساتھ محنت اور اسباب کی تلاش بھی ضروری ہے۔
➋ بے عملی
دعا کے ساتھ عمل اور جدوجہد کرنا ضروری ہے، ورنہ دعا بے اثر رہتی ہے۔
➌ معجزے کی امید
خدا سے معجزات کی توقع کرنا اور اسباب کو اختیار نہ کرنا دعا کی قبولیت میں رکاوٹ ہے۔
➍ غلط طریقہ کار
دعاؤں کے قبول نہ ہونے کا ایک سبب غلط طریقہ دعا بھی ہوسکتا ہے، مثلاً دعا کے ساتھ نیک نیت اور صحیح عمل کا ہونا ضروری ہے۔
➎ جائز اسباب کا اختیار نہ کرنا
دعا کے ساتھ عملی اسباب کا اختیار کرنا لازم ہے، ورنہ دعا کی قبولیت میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
دعا کے ساتھ اسباب کی اہمیت
اللہ تعالی دنیا میں اسباب کا نظام بنا چکا ہے، اور اسباب کے بغیر دعا کی قبولیت کی امید رکھنا غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ اگر فرض کریں کہ خدا دنیا میں بغیر اسباب کے سب کچھ عطا کرنا شروع کردے، جیسے ہر غریب کو دولت دے یا ہر بیمار کو بغیر دوا کے شفا دے، تو دنیا کا نظام بگڑ جائے گا۔ معجزات کے ذریعے سب کچھ ممکن تو ہے، لیکن اللہ نے دنیا میں اسباب کو اہمیت دی ہے۔
دعا اور عمل کا باہمی تعلق
مثال کے طور پر، ایک شخص اپنی بیٹی کے لیے نیک رشتہ مانگتا ہے لیکن جب کوئی رشتہ آتا ہے تو اسے رد کر دیتا ہے اور پیسوں والا رشتہ چاہتا ہے۔ پھر اللہ سے شکایت کرتا ہے کہ اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔
اسی طرح، ایک اور شخص اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود نوکری تلاش کرنے کے لیے کوئی خاص محنت نہیں کرتا، اور پھر اللہ سے گلہ کرتا ہے کہ دعا کا جواب نہیں ملتا۔
دعا اور اسباب کا توازن
دعا اور اسباب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ جیسے کوئی شخص محنت کرتا ہے لیکن کامیابی نہیں ملتی، تو وہ اللہ سے مدد مانگتا ہے اور دعا کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ محنت بیکار ہوگئی، بلکہ دعا اور اسباب دونوں مل کر کامیابی کا سبب بنتے ہیں۔
قرآن اور حدیث میں دعا کے ذریعے اللہ سے مدد طلب کرنے کی تعلیم دی گئی ہے، لیکن یہ تعلیم بھی ساتھ دی گئی ہے کہ اسباب کو بھی اختیار کیا جائے۔
خلاصہ
دعا کا مذاق اڑانا غلط ہے، کیونکہ دعا ایک موثر ذریعہ ہے لیکن اس کے ساتھ اسباب کا اختیار کرنا ضروری ہے۔
اللہ تعالی کی مدد غیب سے آتی ہے، لیکن یہ اسباب کے ساتھ ہوتی ہے، اور جہاں اسباب مکمل طور پر ختم ہوجائیں، وہاں اللہ بغیر اسباب کے بھی مدد فرماتا ہے۔
دعا اسباب کی دنیا سے الگ کوئی چیز نہیں بلکہ یہ اسباب میں سے ایک سبب ہے جو دوسرے اسباب کے ساتھ مل کر موثر ہوتی ہے۔
لہذا، دعا کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ ہم دعا کے ساتھ صحیح اسباب اور عمل کو بھی اختیار کریں تاکہ ہماری دعائیں قبول ہوں۔