دعا میں منہ پر ہاتھ پھیرنا
امام بخاری نے فرمایا:
حدثنا إبراهيم بن المنذر قال: حدثنا محمد بن فليح قال أخبرني أبى عن أبى نعيم، وهو وهب، قال: رأيت ابن عمر وابن الزبير يدعوان يديران بالراحتين على الوجه
ابو نعیم وہب بن کیسان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو دیکھا، آپ دونوں دعا کرتے تھے (پھر) اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے منہ پر پھیرتے تھے۔ [الادب المفرد للبخاری ص 214، حدیث 609، باب 276]
اس روایت کی سند حسن ہے۔ اور اس پر بعض لوگوں کی جرح مردود ہے۔
فوائد
(1)دعا میں دونوں ہاتھ اٹھانا متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ [ظم المتناثر من الحدیث التواتر للہندی ص 190]
درج بالا حدیث سے دعا کے بعد منہ پر ہاتھ پھیرنا ثابت ہوتا ہے۔
(2)فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اگر بغیر التزام ولزوم کے کبھی کبھار اجتماعی دعا کر لی جائے تو کوئی حرج نہیں۔
(3)فرض نماز کے بعد انفرادی دعا کا ثبوت کئی احادیث میں ہے۔ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی ایک روایت سے انفرادی طور پر ہاتھ اٹھانا معلوم ہوتا ہے۔ [مجمع الزوائد ج 10 ص 169]
حافظ ہیثمی نے اس کے راویوں کو ثقہ کہا ہے، مگر ہمیں اس کی سند نہیں ملی تاکہ حافظ صاحب کے بیان کی تحقیق کی جا سکے۔
(4)درخواست پر دعا کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
(5)مجمع الزوائد والی روایت طبرانی کی سند امام ابن کثیر کی جامع المسانید (529/8) میں موجود ہے۔ اس کے راوی سلیمان بن الحسن العطار کے حالات مطلوب ہیں۔
تنبیہ: سلیمان بن الحسن العطار بقول راجح: صدوق ہے، لیکن فضیل بن سلیمان جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ [دیکھیے السلسلہ الصحیحہ للشیخ الالبانی رحمہ اللہ 56/6 ح 2544]
محترم مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے فضیل کے بارے میں تقریب التہذیب میں صدوق وله خطاء كثير کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ [العلل المتناهیہ لابن الجوزی کا حاشیہ: 366/2 ح 1419 حاشیہ نمبر 3]
اور جس کی خطاء کثیر (زیادہ) ہو، وہ ضعیف راوی ہوتا ہے۔ فضیل کی صحیحین میں روایات متابعات و شواہد کی وجہ سے صحیح ہیں، والحمد للہ۔