دشمن کے قاصد/ایلچی پر امان کا حکم و حرمت
تحریر: عمران ایوب لاہوری

دشمن کا قاصد امان پانے والے کی طرح ہی میں ہوتا ہے
➊ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیلمہ کذاب کے ایلچیوں کے لیے فرمایا:
لولا أنك رسول الله لضربت عنقك
”اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم ایلچی ہو تو میں تمہاری گردن مار دیتا ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2400 ، كتاب الجهاد: باب فى الرسل ، ابو داود: 2762 ، احمد: 390/1 ، نسائي: 9280]
➋ سنن ابی داود کی ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
أما والله لولا أن الرسل لا تقتل لضربت أعنا فكما
”الله كى قسم ! اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ایلچیوں کو قل نہیں کیا جاتا تو میں تم دونوں کی گردن کاٹ دیتا ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2399 أيضا ، ابو داود: 2761 ، احمد: 487/3]
➌ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنى لا أخيس بالعهد ولا أحبس البرد
”میں نہ تو عہد شکنی کرتا ہوں اور نہ ہی قاصدوں اور سفیروں کو قید کرتا ہوں ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2758 ، نسائي: 199/9 ، احمد: 8/6 ، موارد الظمان: ص / 393 ، حاكم: 598/3 ، بيهقي: 145/9]
(شوکانیؒ ) یہ احادیث ثبوت ہیں کہ کفار کے ایلچیوں کو قتل کرنا حرام ہے خواہ وہ کلمہ کفر ہی کہہ دیں ۔
[نيل الأوطار: 100/5]
(ابن قدامہؒ ) (سفراء کا قتل جائز نہیں ) کیونکہ ضرورت اس کی متقاضی ہے ، اگر ہم ان (کفار ) کے سفیروں کو قتل کریں گے تو وہ ہمارے سفیروں کو قتل کریں گے جس وجہ سے باہمی پیغام رسانی اور خط و کتابت کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا ۔
[المغني: 79/13]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے