دست شناسی کا شرعی حکم: قرآن و حدیث اور فقہی دلائل کی روشنی
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ ج1ص182

سوال

بعض لوگ دست شناسی کے جواز کے قائل ہیں ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب مطلب ہے۔

جواب 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دست شناسی کا حکم (اصولی بات)

دست شناسی کو جائز سمجھنا کتاب و سنت کی واضح نصوص کے سراسر خلاف ہے، کیونکہ اس کا تعلق علمِ غیب سے جڑتا ہے، اور علمِ غیب صرف اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ اسی لئے ارشاد فرمایا گیا:

﴿وَعِندَهُ مَفاتِحُ الغَيبِ لا يَعلَمُها إِلّا هُوَ…﴿٥٩﴾… سورة الأنعام

اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں، (خزانے) ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے۔

﴿قُل لا يَعلَمُ مَن فِى السَّمـوتِ وَالأَرضِ الغَيبَ إِلَّا اللَّهُ وَما يَشعُرونَ أَيّانَ يُبعَثونَ ﴿٦٥﴾… سورة النمل

کہہ دیجئے کہ آسمانوں والوں میں سے زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا، انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کب اٹھا کھڑے کیے جائیں گے؟ –

﴿ إِنَّ اللَّهَ عِندَهُ عِلمُ السّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الغَيثَ وَيَعلَمُ ما فِى الأَرحامِ وَما تَدرى نَفسٌ ماذا تَكسِبُ غَدًا وَما تَدرى نَفسٌ بِأَىِّ أَرضٍ تَموتُ إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ خَبيرٌ ﴿٣٤﴾… سورة لقمان

بے شک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے۔ کوئی (بھی) نہیں جانتا کہ کل کیا (کچھ) کرے گا؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا۔ (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ ہی پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے –

﴿يَسـَٔلونَكَ عَنِ السّاعَةِ أَيّانَ مُرسىها قُل إِنَّما عِلمُها عِندَ رَبّى لا يُجَلّيها لِوَقتِها إِلّا هُوَ ثَقُلَت فِى السَّمـوتِ وَالأَرضِ لا تَأتيكُم إِلّا بَغتَةً يَسـَٔلونَكَ كَأَنَّكَ حَفِىٌّ عَنها قُل إِنَّما عِلمُها عِندَ اللَّهِ وَلـكِنَّ أَكثَرَ النّاسِ لا يَعلَمونَ ﴿١٨٧﴾… سورة الأعراف

یہ لوگ آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا؟ آپ فرما دیجئے کہ اس کا علم صرف میرے رب ہی کے پاس ہے، اس کے وقت پر اس کو سوا اللہ کے کوئی اور ظاہر نہ کرے گا۔ وه آسمانوں اور زمین میں بڑا بھاری (حادثہ) ہوگا وه تم پر محض اچانک آپڑے گی۔ وه آپ سے اس طرح پوچھتے ہیں جیسے گویا آپ اس کی تحقیقات کرچکے ہیں۔ آپ فرما دیجئے کہ اس کا علم خاص اللہ ہی کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔

﴿قُل لا أَملِكُ لِنَفسى نَفعًا وَلا ضَرًّا إِلّا ما شاءَ اللَّهُ وَلَو كُنتُ أَعلَمُ الغَيبَ لَاستَكثَرتُ مِنَ الخَيرِ وَما مَسَّنِىَ السّوءُ إِن أَنا۠ إِلّا نَذيرٌ وَبَشيرٌ لِقَومٍ يُؤمِنونَ ﴿١٨٨﴾… سورةالأعراف

آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لیے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہو اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں –

تشریح

پہلی آیت کی تفصیل تیسری آیت میں واضح کر دی گئی ہے کہ "مفاتیح الغیب” سے مراد وہ پانچ امور ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی انہی کو مفاتیح الغیب قرار دیا ہے:

مفاتیح الغیب: پانچ امور جن کا علم صرف اللہ کو ہے

قیامت کب آئے گی؟

قربِ قیامت کی علامات تو رسول اللہ ﷺ نے ضرور بیان فرمائی ہیں، مگر قیامت کے وقوع کا قطعی علم اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کسی فرشتے کو ہے اور نہ کسی نبیِ مرسل کو۔

بارش کب آئے گی؟

آثار و علامات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور لگایا جاتا ہے، لیکن ہر شخص کے مشاہدے اور تجربے میں آ چکا ہے کہ یہ اندازے کبھی درست نکلتے ہیں اور کبھی غلط۔ حتیٰ کہ محکمۂ موسمیات کے اعلانات کے باوجود بھی بارش کی ایک بوند نہیں برستی۔ اس سے واضح ہے کہ بارش کے یقینی وقت کا علم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں۔

ماؤں کے رحموں میں کیا ہے یا کیا نہیں؟

آج کے مشینی آلات سے رحمِ مادر میں مذکر یا مؤنث کا ایک ناقص اندازہ شاید ممکن ہو کہ بچہ ہے یا بچی؛ مگر یہ کہ وہ زندہ پیدا ہوگا یا مردہ؟ طویل عمر پائے گا یا مختصر؟ ناقص ہوگا یا کامل؟ خوب رو ہوگا یا بدصورت؟ خوش بخت ہوگا یا بدبخت؟ امیر ہوگا یا قلاش؟ صاحبِ اولاد ہوگا یا بے اولاد؟ مومن ہوگا یا کافر؟ عالم ہوگا یا جاہل؟—ان تمام باتوں کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔

انسان کل کیا کرے گا؟

یہ دین کا معاملہ ہو یا دنیا کا؛ کتنے نکاح کرے گا یا مجرد رہے گا؛ کیا پائے گا اور کیا کھوئے گا؛ اس کی دنیاوی تگ و دو کا انجام کیا ہوگا—کسی دست شناس یا فٹ پاتھ پر بیٹھے علمِ نجوم کے نام نہاد پروفیسروں کو آنے والے کل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔
سیدنا قتادہ؀ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ستارے تین مقاصد کے لیے بنائے: (i) آسمان کی زینت، (ii) راہنمائی کا ذریعہ، (iii) ابلیس کو گولہ مارنے کے لیے۔ لیکن جاہل نجومیوں اور نام نہاد دست شناسوں نے انہی سے غیب دانی (کہانت) کا ڈھونگ رچایا: مثلاً فلاں ستارہ سعد ہے، فلاں نحس ہے؛ فلاں ستارے کے طلوع پر پیدا ہونے والا بچہ خوش نصیب ہوگا، اور فلاں وقت میں پیدا ہونے والی بچی بدنصیب—وغیرہ۔ یہ سب ڈھکوسلے ہیں اور ان کے قیاسات کے خلاف اکثر ہوتا رہتا ہے۔ ستاروں، پرندوں اور جانوروں سے علمِ غیب آخر کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟ جبکہ سورۂ نمل کی آیت 5 میں فیصلہ یہ ہے کہ آسمان و زمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ خود علمِ نجوم کے ٹھیکیداروں اور دست شناسی کے دعوے داروں کو یہ تک معلوم نہیں کہ آنے والا کل ان کی زندگی میں آئے گا یا نہیں؛ اور اگر آئے گا تو وہ کیا کریں گے، کیا پائیں گے اور کیا کھوئیں گے؟

موت کہاں اور کیسے آئے گی؟

گھر میں یا گھر سے باہر؟ دیس میں یا پردیس میں؟ حسرتوں کے پورا ہونے کے بعد یا حسرتیں دل میں لیے؟ — یہ سب پوشیدہ ہے۔ اور سورۂ اعراف کی آیت 188 واضح کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ عالم الغیب نہیں؛ عالم الغیب اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ پھر بھی ظلم و جہالت کی انتہا یہ ہے کہ شرک و بدعت کے رسیا لوگ رسول اللہ ﷺ کو عالمِ غیب باور کراتے پھرتے ہیں۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ غزوۂ اُحد میں آپ ﷺ کے دندانِ مبارک زخمی ہوئے؟ سیدہ عائشہ؀ پر تہمت لگی اور آپ ﷺ اس سبب سے پورا مہینہ رنجیدہ رہے؟ زینب نامی یہودیہ عورت نے آپ ﷺ اور صحابۂ کرام؀ کو زہر ملا کھانا کھلایا، جس کی تکلیف آپ ﷺ عمر بھر محسوس فرماتے رہے، اور ایک صحابی اسی زہریلے کھانے کی وجہ سے وفات پا گئے؟ اس نوعیت کے کئی واقعات کتبِ حدیث و سیر میں مذکور ہیں، جن سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تکلیفیں اور نقصانات عدمِ علم کی بنا پر پیش آئے۔ یہ اسی قرآنی حقیقت کی شہادت ہے کہ: "اگر میں غیب جانتا ہوتا تو بہت سے منافع سمیٹ لیتا اور کوئی نقصان مجھے نہ پہنچتا”۔

سیدہ عائشہ؀ کا وضاحتی بیان (نصیحت)

من حدثك ان محمدا رأى ربه فقد كذب وهو يقول (لاترركه الابصار ) ومن حدثك انه يعلم الغيب فقد كذب وهو يقول لا يعلم الغيب الاالله. (صحيح البخارى)

کہ جو شخص آپ سے یہ کہے کہ محمد ﷺ نے رب تعالیٰ کو دیکھا ہے تو اس نے جھوٹ بالا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ آنکھیں اس کو نھیں پاتیں اور اسی طرح جو شخص یہ کہےکہ آپﷺ غیب جانتے تھے تو اس نے جھوٹ بولاکیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا

حنفی فقیہ اور مفتی کردری کا فتویٰ (اہم تنبیہ)

نجومیوں، دست شناسوں اور رسول اللہ ﷺ کو غیب دان باور کرانے والوں کے متعلق امام محمد بن المعروف ابن البزار الکردی المتوفیٰ 847ھ کا فتویٰ قابلِ غور ہے:

ان تزوجها بشهادة الله ورسوله اعلم لا ينعقد ويخاف عليه الكفر لانه يوهم انه عليه السلام ﴿وعنده مفاتيح الغيب …. الاية ﴾ وما اعلم الله الخيار عباده بالوحى او الالهام الحق لم بيق بعد الاعلام غيبا فخرج عن الحصرين الستفادين من تقديم المسند والحصير بالا. (كتاب النكاح فصل سادس فى الشهود حاشيه فتاوىٰ عالم گیری ج4ص119)

کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو گواہ بنا کر نکاح کرے گا تو ایسا نکاح منعقد نہیں ہو گا اور ڈر ہے کہ یہ شخص عنداللہ کافر ہو جایئے گاکیونکہ اس طرھ وہ باور کروا رھا ہےکہ رسول اللہﷺ غیب جانتے تھے جبکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: غیب کی چابیاں اللہ ہی کے پاس ہیں اور انہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو کچھ وحی یا سچے الہام کیساتھ اپنے پسندیدہ بندوں کو جتلا دیا ھے وہ بتلا دینے کے بعد علم غیب کی تعریف میں داخل نہیں کیونکہ مسند کو مقدم لانے اور کلمہ حصرالاً کیوجہ سے علم غیب کی تعریف سے خارج ہے۔

خلاصۂ دلائل اور وعیدات (کاہن، نجومی، دست شناس)

قرآن مجید کی ان پانچوں نصوصِ صریحہ اور احادیثِ صحیحہ سے یہ بات واضح ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ کے حق میں غیب دانی کا عقیدہ رکھنے والے اہلِ بدعت نجومی اور دست شناس کذاب اور مفتری ہیں، اور حنفی فقیہ علامہ کردری کے مطابق یہ اندیشہ ہے کہ ایسے عقیدے کی وجہ سے عند اللہ کافر قرار پائیں۔ آخر میں، نجومیوں، کاہنوں اور دست شناسوں کی تصدیق کرنے والوں کے لیے یہ وعیدیں یاد رکھیں:

(1) عن حفصة رضى الله عنها قالت رسول اللهﷺ من اتى عرافا فسالة عن شىء لم يقبل له صلوة اربعين ليلة . (رواه مسلم بات الكهانة ص233)
کہ جو شخص کاہن اور نجومی کے پاس گیا اس سے آئندہ کے بارے میں کچھ پوچھا اور اس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں ہوں گی۔

(2) صلح حدیبیہ کے موقع پر بارش ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
هل تدرون ماذا قال ربكم قالوا الله ورسوله أعلم قال قال أصبح من عبادي مؤمن بي وكافر فأما من قال مطرنا بفضل الله ورحمته فذلك مؤمن بي كافر بالكوكب وأما من قال مطرنا بنوء كذا وكذا فذلك كافر بي مؤمن بالكوكب .(متفق عليه)

(3) عن ابى هريره ان رسول اللهﷺ قال من اتى كاهنا فصدقه بما يقول …. فقد برى مما انزل على محمد ﷺ . (رواه احمد و ابوداؤد)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص کاہن دست شناس اور نجومی وغیرہ کے پاس گیا اور اس کی بات کی تصدیق کی تو وہ اس شریعت سے بیزار ہو چکا ہے جو محمد ﷺ پر نازل کی گئی ہیں۔

یہ ہے کاہنے نجومیوں اور دست شناسوں کی حقیقت اور ان کے پاس جانے والوں کا انجام بد۔ اللہ تعالیٰ ایسے عقائدِ باطلہ اور افکارِ فاسدہ سے تمام مسلمانوں کو محفوظ رکھے۔ آمین۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے