سوال
آیت "وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا” میں دَسَّاهَا اصل میں کیا تھا؟ کیا اس میں تعلیل ہوئی ہے اور یہ کس قاعدے کے تحت ہوئی ہے؟
جواب از فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ ، فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
علم الصیغہ کے آخر میں بہت سے مشکل صیغے اور ان کا حل پیش کیا گیا ہے، وہاں یہ بھی مذکور ہے۔ لہٰذا اس کا رجوع وہیں کرنا چاہیے۔
یہ اصل میں دَسَّسَ تھا، جس میں سین کو الف سے بدل دیا گیا، جیسا کہ قَصَصْتُ سے قَصِيتُ اور لَبَّبْتُ سے لَبِيتُ وغیرہ میں ہوتا ہے۔
بطور نکتہ اور علمی فائدہ کے یہ بات بھی عرض کی جا سکتی ہے کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اس صیغے کی وضاحت سیر أعلام النبلاء میں امام ابن حزم رحمہ اللہ کے حالات کے ضمن میں بھی کی ہے۔ عبارت اس طرح ہے:
«فَمَنْ طَلَبَ العِلْمَ لِلعمل كَسره العِلْمُ، وَبَكَى عَلَى نَفْسِهِ، وَمِنْ طلب العِلْم لِلمدَارس وَالإِفتَاء وَالفخر وَالرِّيَاء، تحَامقَ، وَاختَال، وَازدرَى بِالنَّاسِ، وَأَهْلكه العُجْبُ، وَمَقَتَتْهُ الأَنْفُس {قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا … وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا} أَي دسَّسَهَا بِالفجُور وَالمَعْصِيَة قُلِبَتْ فِيْهِ السِّينُ أَلِفاً»
📖 [سیر أعلام النبلاء، 18/193، ط الرسالة]