① دعا میں درود
دعا میں درود پڑھنا مستحب عمل ہے۔
❀ سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
سمع النبى صلى الله عليه وسلم رجلا يدعو فى صلاته، فلم يصل على النبى صلى الله عليه وسلم، فقال النبى صلى الله عليه وسلم: عجل هذا، ثم دعاه، فقال له أو لغيره: إذا صلى أحدكم، فليبدأ بتحميد الله والثناء عليه، ثم ليصل على النبى صلى الله عليه وسلم، ثم ليدع بعد بما شاء
ایک شخص نماز میں دعا مانگ رہا تھا، اس نے درود نہیں پڑھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: اس نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یا کسی اور کو بلا کر فرمایا: دعا سے پہلے حمد و ثنا اور درود پڑھ لیا کریں، اس کے بعد جو چاہیں مانگتے رہیں۔
(مسند أحمد: 6/18؛ سنن أبي داود: 1481؛ سنن الترمذي: 3477، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن صحیح، امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (710) اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (1960) نے صحیح کہا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ (1/230، 286) نے کہا کہ یہ امام بخاری رحمہ اللہ اور مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
❀ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كنت أصلي والنبي صلى الله عليه وسلم وأبو بكر وعمر معه، فلما جلست بدأت بالثناء على الله، ثم الصلاة على النبى صلى الله عليه وسلم، ثم دعوت لنفسي، فقال النبى صلى الله عليه وسلم: سل تعطه، سل تعطه
میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ تشہد میں بیٹھا تو میں نے اللہ کی ثنا اور درود سے آغاز کیا۔ دعا کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا: آپ سوال کیجیے، آپ کو عطا کیا جائے گا۔
(سنن الترمذي: 593، وسنده حسن)
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے۔
❀ خالد بن سلمہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
عبدالحمید بن عبدالرحمن رحمہ اللہ نے اپنے بیٹے کا ولیمہ کیا تو موسیٰ بن طلحہ رحمہ اللہ کو بلا کر کہا: ابو عیسیٰ! درود کے حوالے سے آپ کے پاس کیا تعلیم پہنچی ہے؟ موسیٰ رحمہ اللہ کہنے لگے: میں نے سیدنا زید بن خارجہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ درود کیسے پڑھیں؟ فرمایا: نماز ادا کریں اور ذکر الہی میں مشغول رہیں، اور پڑھیں:
اللهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر برکت فرما، جیسے تو نے ابراہیم علیہ السلام پر برکت فرمائی تھی، بلا شبہ تو قابل تعریف اور بڑی شان والا ہے۔
(مسند الإمام أحمد: 1/199؛ سنن النسائي: 1292، وسنده صحيح)
فائدہ:
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أيما رجل مسلم لم يكن عنده صدقة، فليقل فى دعائه: اللهم صل على محمد، عبدك ورسولك، وصل على المؤمنين والمؤمنات، والمسلمين والمسلمات، فإنها له زكاة
جس کے پاس صدقہ نہ ہو، وہ دعا کرے: اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت فرما، مؤمن اور مسلمان مردوں اور عورتوں پر بھی رحمت فرما۔ یہ الفاظ اس کے لیے صدقہ بن جائیں گے۔
(الأدب المفرد للبخاري: 640)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (903) نے صحیح کہا ہے۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ دراج ابو سمہ رحمہ اللہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہیں۔
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) لکھتے ہیں:
أجمع العلماء على استحباب ابتداء الدعاء بالحمد لله تعالى والثناء عليه، ثم الصلاة على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكذلك تختم الدعاء بهما
اہل علم کا اجماع ہے کہ دعا کو حمد اور درود کے ساتھ شروع کرنا اور اسی طرح اختتام کرنا مستحب ہے۔
(الأذكار: 99، وفي نسخة: 117)
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
الذين يتوسلون بذاته لقبول الدعاء عدلوا عما أمروا به وشرع لهم، وهو من أنفع الأمور لهم، إلى ما ليس كذلك، فإن الصلاة عليه من أعظم الوسائل التى بها يستجاب الدعاء، وقد أمر الله بها، والصلاة عليه فى الدعاء هو الذى دل عليه الكتاب والسنة والإجماع
جو قبولیت دعا کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا وسیلہ دیتے ہیں، وہ احکام خداوندی اور انتہائی مفید و نافع شریعت کو چھوڑ کر جس طرف چل دیے ہیں، وہ مامور و مشروع نہیں۔ قبولیت دعا کے بڑے اسباب میں سے ایک درود بھی ہے، اللہ نے اس کا حکم دیا ہے اور دعا میں درود کے استحباب پر قرآن و حدیث اور اجماع امت کی دلیل بھی موجود ہے۔
(مجموع الفتاوى: 1/347)
② قنوت میں درود
❀ سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ قنوت کرتے تو:
ثم يصلي على النبى صلى الله عليه وسلم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا کرتے تھے۔
(صحیح ابن خزيمة: 1100، وسنده صحيح)
فائدہ:
سنن نسائی (1747) میں دعا کے اختتام پر وَصَلَّى اللهُ عَلَى النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ کے الفاظ عبداللہ بن علی رحمہ اللہ نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے بیان کیے ہیں۔
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وأما روايته عن الحسن بن علي، فلم تثبت
حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے عبداللہ بن علی رحمہ اللہ کی روایت ثابت نہیں۔
(تهذيب التهذيب: 5/284)
لہذا حافظ نووی رحمہ اللہ (المجموع شرح المهذب: 3/441) کا اس کی سند کو صحیح قرار دینا درست نہیں۔
ایک خطا:
بعض علما نے لکھا ہے:
لا يصلي على النبى صلى الله عليه وسلم فى القنوت، وهو اختيار مشايخنا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قنوت میں درود نہ پڑھا جائے۔ ہمارے مشایخ کا پسندیدہ مسلک یہی ہے۔
(فتاوی عالمگیری: 1/117)
❀ علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ (م: 970ھ) لکھتے ہیں:
من العجيب ما وقع فى فتاوى قاضي خان فى آخر باب الوتر والتراويح، حيث قال: وإذا صلى على النبى صلى الله عليه وسلم فى القنوت، قالوا: لا يصلي فى القعدة الأخيرة، وكذا لو صلى على النبى صلى الله عليه وسلم فى القعدة الأولى ساهيا؛ لا يصلي فى القعدة الأخيرة
فتاوی قاضی خان میں وتر و تراویح کے بیان کے آخر میں عجیب بات لکھی ہے، جو شخص قنوت میں درود پڑھ لے تو ہمارے مفتی حضرات کہتے ہیں کہ وہ آخری تشہد میں درود نہ پڑھے۔ اگر بھول کر پہلے تشہد میں درود پڑھ لے تو دوسرے تشہد میں درود نہیں پڑھ سکتا۔
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق: 1/348)
③ خطبہ میں درود
❀ عون بن ابی جحیفہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
حدثني أبى أنه صعد المنبر، يعني عليا، فحمد الله تعالى وأثنى عليه، وصلى على النبى صلى الله عليه وسلم، وقال: خير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر، والثاني عمر، وقال: يجعل الله تعالى الخير حيث أحب
میرے والد بیان کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔ حمد و ثنا کی اور درود پڑھا، فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت کی بہترین شخصیت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں، ان کے بعد جناب عمر رضی اللہ عنہ، یہ فرمایا: اللہ تعالیٰ جہاں چاہتے ہیں، بھلائی رکھ دیتے ہیں۔
(زوائد مسند الإمام أحمد: 1/106، ح: 837، وسنده صحيح)
❀ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أقل ما يقع عليه اسم خطبة من الخطبتين؛ أن يحمد الله تعالى ويصلي على النبى صلى الله عليه وسلم، ويوصي بتقوى الله، ويدعو فى الآخرة؛ لأن معقولا أن الخطبة جمع بعض الكلام من وجوه إلى بعض، وهذا أوجز ما يجمع من الكلام
خطبہ اسے کہا جاتا ہے، جس میں اللہ کی حمد، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود، تقویٰ کی وصیت اور آخر میں دعا ہو۔ یہ بہترین خطبہ ہے کیوں کہ خطبہ مختلف پیرائے کی کلام کے مجموعہ کا نام ہے۔
(معرفة السنن والآثار للبيهقي: 6467، وسنده صحيح)
فائدہ:
❀ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے:
ليس من السنة الصلاة على النبى صلى الله عليه وسلم يوم الجمعة على المنبر
جمعہ کے دن منبر پر درود پڑھنا مسنون نہیں ہے۔
(المعجم الكبير للطبراني: 13/114، ح: 14863؛ جامع المسانيد والسنن لابن كثير: 6390؛ مجمع الزوائد للهيثمي: 2/188)
سند ضعیف ہے۔ لیث بن ابی سلیم رحمہ اللہ جمہور ائمہ حدیث کے نزدیک ضعیف ہیں۔ امام ابوالشیخ اصبہانی رحمہ اللہ کی کتاب ذکر الاقران (ح: 337) میں سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی جگہ ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ کا ذکر ہے۔
④ صفا و مروہ پر درود
❀ نافع بن جبیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ صفا پر تین مرتبہ یہ کہتے ہوئے تکبیر پڑھتے:
لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہت بھی اسی کی اور تعریف بھی۔ وہ ہر چیز پر قادر بھی ہے۔
پھر درود پڑھتے اور تادیر دعا کرتے رہتے۔ مروہ پر بھی اسی طرح کرتے۔
(فضل الصلاة على النبي للإمام إسماعيل بن إسحاق القاضي، ص: 185، بتحقيق عبد الحق التركماني، وسنده صحيح)
⑤ قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر درود
❀ عبداللہ بن دینار رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
رأيت عبد الله بن عمر يقف على قبر النبى صلى الله عليه وسلم، فيصلي على النبى صلى الله عليه وسلم، وعلى أبى بكر وعمر
میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر کھڑے ہو کر درود پڑھتے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کو سلام کہتے تھے۔
(المؤطّأ للإمام مالك: 1/166؛ السنن الكبرى للبيهقي: 5/245، وسنده صحيح)
یہ بعینہ وہی سلام ہے، جو قبرستان میں فوت شدگان کو کہا جاتا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سفر سے واپس آتے، تو قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جا کر کہتے:
السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ، السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا بَكْرٍ، السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَبَتَاهُ
اے اللہ کے رسول! آپ پر سلامتی ہو، اے ابوبکر! آپ پر سلامتی ہو اور ابا جان! آپ پر سلامتی ہو۔
(فضل الصلاة على النبي للقاضي إسماعيل بن إسحاق، ص: 81، ح: 99؛ السنن الكبرى للبيهقي: 5/245، وسنده صحيح)
⑥ اذان کے بعد درود
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
إذا سمعتم المؤذن؛ فقولوا مثل ما يقول، ثم صلوا علي، فإنه من صلى على صلاة؛ صلى الله عليه بها عشرا، ثم سلوا الله لي الوسيلة، فإنها منزلة فى الجنة، لا تنبغي إلا لعبد من عباد الله، وأرجو أن أكون أنا هو، فمن سأل لي الوسيلة؛ حلت له الشفاعة
مؤذن کو سنیں، تو وہی کلمات کہیں، جو مؤذن کہہ رہا ہے، پھر درود پڑھیں، جو مجھ پر ایک دفعہ درود پڑھتا ہے، اللہ اس پر دس رحمتیں نازل کرتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے میرے لیے الوسیلہ طلب کریں، الوسیلہ جنت میں ایک خاص مقام ہے، جو اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک کا نصیب ہے، امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں۔ میرے لیے الوسیلہ کی دعا مانگنے والے کو میری شفاعت ضرور نصیب ہوگی۔
(صحیح مسلم: 384)
ثابت ہوا کہ اذان کے جواب کے بعد درود پڑھنا مسنون ہے۔
⑥ مسجد میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت سلام
مسجد میں داخل ہوتے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجنا مسنون و مستحب ہے:
❀ سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب آپ مسجد میں داخل ہوں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجیں اور یہ دعا پڑھیں:
اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ
اللہ! میرے لیے رحمت کے دروازے کھول دے۔
مسجد سے نکلتے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجیں اور یہ دعا پڑھیں:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ
اللہ! میں آپ کے فضل کا سوالی ہوں۔
❀ ایک روایت میں ہے:
مسجد سے نکلنے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجیں اور یہ دعا پڑھیں:
اللَّهُمَّ اعْصِمْنِي مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
مولا! مجھے شیطان مردود سے محفوظ فرما۔
ایک روایت میں ہے:
جب آپ مسجد میں داخل ہوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجیں اور یہ دعا پڑھیں:
اللَّهُمَّ أَجِرْنِي مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
یا اللہ! مجھے شیطان مردود سے بچا۔
(سنن ابن ماجه: 773؛ عمل اليوم والليلة للنسائي: 90؛ عمل اليوم والليلة لابن السني: 87، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (452، 2706)، امام ابن حبان رحمہ اللہ (2047، 2050) نے صحیح اور امام حاکم رحمہ اللہ (1/207) نے امام بخاری رحمہ اللہ و مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
❀ حافظ بوصیری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ
سند صحیح اور راوی ثقہ ہیں۔
(مصباح الزجاجة: 1/97)