درود پاک کے مختلف الفاظ
تحریر: ابوعبد الله صارم

(1) عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی، کہنے لگے: کیا میں آپ کو عظیم الشان تحفہ نہ دوں، جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رکھا ہے، میں نے عرض کیا: جی ضرور! کہنے لگے: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے رسول! آپ کے اہل بیت پر کیسے درود بھیجا جائے، جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ پر سلام کے متعلق تو تعلیم دے دی ہے (درود کے متعلق نہیں) ؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: درود یوں پڑھا کرو:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ .
”اے اللہ! محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر رحمت نازل کر، جیسا کہ تو نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر رحمت نازل کی، یقینا تو قابل تعریف، بڑی شان والا ہے۔ اے اللہ! محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر برکت نازل کر، جیسا کہ تو نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر برکت نازل کی، یقینا تو قابل تعریف، بڑی شان والا ہے۔“ (صحیح البخاری : 3370؛ صحیح مسلم : 406)
(2) سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! آپ پر درود کیسے پڑھا جائے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ سکھائے :
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ .
”اے اللہ! محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر رحمت نازل کر، جیسا کہ تو نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر رحمت نازل کی، یقیناً تو قابل تعریف، بڑی شان والا ہے۔ اے اللہ محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر برکت نازل کر، جیسا کہ تو نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام برکت نازل کی، یقینا تو قابل تعریف، بڑی شان والا ہے۔“ (مسند الإمام أحمد : 162/2؛ سنن النسائي : 1290، وسنده حسن)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو ’’حسن“ قرار دیا ہے۔ (التلخيص الحبير :268/1)

(3) سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
اتانا رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏ونحن في مجلس سعد بن عبادة، ‏‏‏‏‏‏فقال له بشير بن سعد:‏‏‏‏ امرنا الله تعالى، ‏‏‏‏‏‏ان نصلي عليك يا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏فكيف نصلي عليك؟ قال:‏‏‏‏ فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏حتى تمنينا انه لم يساله، ‏‏‏‏‏‏ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ قولوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالسَّلَامُ كَمَا قَدْ عَلِمْتُمْ
”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے۔ ہم اس وقت سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں تھے۔ سیدنا بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : اللہ کے رسول ! الله تعالیٰ نے ”ہمیں آپ پر درود پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ ہم آپ پر کیسے درود پڑھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، حتی کہ ہم نے خواہش کی، کاش بشیر بن سعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال نہ کرتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یوں کہا کرو :
اے اللہ ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر رحمت نازل کر، جیسا کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام پر رحمت نازل کی، نیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر بركت نازل کر، جیسا کہ تو نے جہانوں میں سے ابراہیم علیہ السلام کی آل پر برکت نازل کی، یقیناً تو قابل تعریف، بڑی شان والا ہے۔ (پھر فرمایا : ) سلام اسی طرح ہے، جیسے تم جانتے ہو۔“ (الموطا للامام مالك : 179/1؛ صحيح مسلم : 405)

(4) سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
انهم، ‏‏‏‏‏‏قالوا:‏‏‏‏ يا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏كيف نصلي عليك؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
”صحابہ کرام نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں؟ اس پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : یوں کہو: اے ا اللہ ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کی ازواج اور آپ کی اولاد پر رحمت نازل کر، جیسا کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام کی آل پر رحمت نازل کی، نیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی ازواج اور آپ کی اولاد پر برکت نازل کر، جیسا کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام کی آل پر برکت نازل کی، یقینا تو قابل تعریف، بڑی شان والا ہے۔“ (الموطأ للامام مالك:165/1؛ صحيح البخاري: 3369؛ صحيح مسلم : 407)

(5) سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
قلنا يا رسول الله، ‏‏‏‏‏‏هذا التسليم، ‏‏‏‏‏‏فكيف نصلي عليك؟ قال: قُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ .
”ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول! سلام کا طریقہ تو یہ ہے (جو ہم جانتے ہیں) ، لیکن ہم آپ پر درود کس طرح پڑھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوں کہو: اے اللہ! تو اپنے بند ے اور رسول، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت نازل کر، جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام کی آل پر رحمت نازل کی۔ نیز تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر برکت نازل فرما، جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام پر برکت نازل فرمائی۔‘‘ (صحیح البخاري: 4798، 6358)

(6) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
قلنا يا رسول الله، كيف نصلي عليك ؟ قال : قولوا : اللهم صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏ ‏‏‏‏‏‏وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ وَبَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَآلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، والسلام كما قد علمتم .
”ہم نے عرض کیا : اللہ کے رسول! ہم آپ پر درود کس طرح پڑھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: یوں کہو: اے اللہ! تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر رحمت و برکت نازل فرما، جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر رحمت و برکت نازل فرمائی تھی، بلاشبہ تو قابل تعریف اور بڑی شان والا ہے۔“ (شرح مشكل الاثار للطحاوي : 75/3، و سنده صحيح)

اس حدیث کے بارے میں حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهذا الإسناد إسناد صحيح على شرط الشيخين .
”یہ سند امام بخاری و مسلم رحمها اللہ کی شرط پر صحیح ہے۔“ (جلاء الافهام في فضل الصلاة علي محمد خير الانام:44)

علامہ مقریزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهذا الاسناد صحيح على شرط البخاري و مسلم .
”یہ سند امام بخاری و مسلم رحمها اللہ کی شرط پر صحیح ہے۔“ (إمتاع الأسماع بما للنبي من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع : 37/11)

(7) خالد بن سلمہ بیان کرتے ہیں:
إن عبد الحميد بن عبدالرحمن دعا موسى بن طلحة حين عرس على ابنه، فقال : يا أبا عيسى، كيف بلغك في الصلاة على النبي صلى الله عليه و سلم ؟ فقال موسى : سألت زيد بن خارجة عن الصلاة على النبي صلى الله عليه و سلم، فقال زيد : انى سألت رسول الله صلى الله عليه و سلم نفسي : كيف الصلاة عليك ؟ قال : صلوا واجتهدوا، ثم قولوا : اللهم بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
”عبدالحمید بن عبدالرحمن نے جب اپنے بیٹے کا ولیمہ کیا تو موسیٰ بن طلحہ سے کہا: ابو عیسیٰ ! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کے حوالے سے آپ کے پاس کی تعلیم پہنچی ہے؟ موسیٰ کہنے لگے: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے بارے میں سیدنا ز ید بن خارجہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا۔ انہوں نے کہا تھا: میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا : آپ پر درود کیسے پڑھا جائے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نماز پڑھو اور (ذکر الہٰی میں) خوب کوشش کرو، پھر کہو: اے اللہ ! تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ان کی آل پر اس طرح برکت نازل فرما، جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام پر برکت نازل فرمائی تھی، بلاشبہ تو قابل تعریف اور بڑی شان والا ہے۔“ (مسند الإمام أحمد : 1 /199؛ سنن النسائي : 1292، وسنده صحيح)

سنن نسائی کے الفاظ یہ ہیں:
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ،‏‏‏‏ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ .

(8) سیدنا ابو مسعود انصاری بیان کرتے ہیں:
أقبل رجل حتى جلس بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن عنده، فقال: يا رسول الله، أما السلام عليك فقد عرفناه، فكيف نصلي عليك إذا نحن صلينا في صلاتنا صل الله عليك ؟ قال: فصمت حتى أحببنا أن الرجل لم يسأله . فقال: إذا صليتم علي، فقولوا: اللهم صل على محمد النبي الأمي، وعلى آل محمد، كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، وبارك على محمد النبي الأمي، وعلى آل محمد، كما باركت على إبراهيم وعلى وآل إبراهيم، إنك حميد مجيد .
ایک شخص آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی موجود تھے۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ پر سلام کا طریقہ تو ہم جان چکے ہیں لیکن جب نماز میں ہم آپ پر درود پڑھنا چاہیں تو کس طرح پڑھیں؟ اللہ آپ پر رحمت نازل فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے حتی کہ ہم نے خواہش کی، کاش یہ شخص آپ سے سوال نہ کرتا۔ (پھر) آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جب تم مجھ پر درود پڑھو تو یوں کہو : اے اللہ ! نبی امی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما، جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر رحمت نازل فرمائی تھی، نیز تو نبی امی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر برکت نازل فرما، جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر برکت نازل فرمائی تھی۔ بلاشبہ تو قابل تعریف اور بڑی شان والا ہے۔“ (مسند الامام احمد: 119/4؛ سنن الدارقطني :354/1، 355، و سندهٔ حسن)

اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (711) اور امام ابن حبان (1959) رحمها اللہ نے ”صحیح“ کہا ہے۔
امام حاکم رحمہ اللہ (268/1 ) نے اسے ”امام مسلم کی شرط پر ”صحیح“ کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا إسناد حسن متصل. ”یہ سند حسن اور متصل ہے۔“

(9) سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ ہی کا بیان ہے:
قيل : يا رسول الله، كيف نصلّي عليك؟ فقال : قولوا : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ في العالمين، ‏‏‏‏‏‏إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا : اللہ کے رسول ! ہم آپ پر درود کس طرح پڑھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوں کہو: اے اللہ! محمد صلى الله عليه وسلم اور ان کی آل پر رحمت و برکت نازل فرما، جس طرح تو نے جہانوں میں ابراہیم علیہ السلام پر برکت نازل فرمائی تھی۔ بلاشبہ تو قابل تعریف اور بڑی شان والا ہے۔“ (مسند الإمام أحمد: 118/4، و سنده صحيح)

(10) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
إذا صليتم على رسول الله صلى الله عليه وسلم فاحسنوا الصلاة عليه، ‏‏‏‏‏‏فإنكم لا تدرون لعل ذلك يعرض عليه، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فقالوا له:‏‏‏‏ فعلمنا، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ قولوا:‏‏‏‏ اللهم اجعل صلاتك، ‏‏‏‏‏‏ورحمتك، ‏‏‏‏‏‏وبركاتك على سيد المرسلين، ‏‏‏‏‏‏وإمام المتقين، ‏‏‏‏‏‏وخاتم النبيين محمد عبدك ورسولك، ‏‏‏‏‏‏إمام الخير، ‏‏‏‏‏‏وقائد الخير، ‏‏‏‏‏‏ورسول الرحمة، ‏‏‏‏‏‏اللهم ابعثه مقاما محمودا يغبطه به الاولون والآخرون، اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ .
”جب تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھو تو اچھے الفاظ میں درود پڑھا کرو، کیونکہ تمہیں معلوم نہیں کہ شاید وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کیا جائے۔ لوگوں نے کہا: پھر آپ ہمیں وہ الفاظ سکھا دیجیے۔ انہوں نے فرمایا: یوں کہا کرو: اے اللہ ! تو سید المرسلین، امام المتقین اور خاتم النبیین، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما، جو تیرے بندے و رسول، امام الخیر، قائد الخیر اور رسول رحمت ہیں۔ اے اللہ! تو انہیں اس مقام محمود پر فائز فرما، جس کی وجہ سے اولین و آخرین ان سے رشک کریں گے۔ اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر اس طرح رحمت فرما، جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر فرمائی تھی، بلاشبہ تو ہی قابل تعریف اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر اس طرح برکت نازل فرما، جس طرح تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر برکت نازل فرمائی تھی، بلاشبہ تو ہی قابل تعریف اور بزرگی والا ہے۔“ (سنن ابن ماجه :906؛ المعجم الكبير للطبراني : 115/9؛ ح : 8594، مسند الشاشي : 611؛ الدعوات الكبير للبيهقي: 177، وسنده صحيح)
حافظ مغلطائی نے اس کی سند کو ”صحیح“ کہا ہے۔ (شرح ابن ماجه : 1 /1529)

(11) تابعی کبیر یزید بن عبداللہ بن شخیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إنهم كانوا يستحبون أن يقولو: اللهم صل عليٰ محمد النبى الأمي، عليه السّلام.
’’وہ (صحابہ و تابعین) یہ الفاظ کہنا پسند کرتے تھے: اے اللہ! تو نبی امی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت نازل فرما۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی ہو۔‘‘ (فضل الصلاة على النبى للإمام إسماعيل بن إسحاق :60، وسنده صحيح)

(12) قصہ معراج میں منقول ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا جبرائیل علیہ السلام کے ہمراہ تیسرے آسمان پر گئے تو ان سے پوچھا گیا:
ومن معك؟ ”آپ کے ساتھ کون ہیں؟“
اس پر جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا:
محمد صلى الله عليه وسلّم.
”میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔“ (صحیح مسلم :162)

* صلى الله عليه وسلم کے الفاظ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا امت کا تواتر کے ساتھ اتفاقی عمل سے بھی ثابت ہے، جو کہ ایک مستقل دلیل کی حیثیت رکھتا ہے۔
* دیگر انبیاے کرام کے اسماے گرامی کے ساتھ بھی صلى الله عليه وسلم کہنا درست ہے جیسا کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فينزل عيسى ابن مريم صلى الله عليه وسلم.
”چنانچہ عیسیٰ بن مریم صلی اللہ علیہ وسلم (آسمان سے) اتریں گے۔“ (صحیح مسلم : 392/2، ح : 2897)

فائده 1 :
جب درود میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف آل کا ذکر ہو تو وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج اور مؤمن رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ تمام متبعین مؤمنین بھی مراد ہوں گے اور جب آل کے ساتھ ازواج وغیرہ کا الگ ذکر موجود ہو تو آل سے مراد صرف متبعین ہوں گے۔

فائدہ 2 :
سیدنا عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں :
علمني رسول الله صلى الله عليه وسلم وكفي بين كفيه التشهد، ‏‏‏‏‏‏كما يعلمني السورة من القرآن:‏‏‏‏ التحيات لله والصلوات والطيبات، ‏‏‏‏‏‏السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته، ‏‏‏‏‏‏السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، ‏‏‏‏‏‏اشهد ان لا إله إلا الله، ‏‏‏‏‏‏واشهد ان محمدا عبده ورسوله وهو بين ظهرانينا، ‏‏‏‏‏‏فلما قبض، ‏‏‏‏‏‏قلنا السلام، ‏‏‏‏‏‏يعني على النبي صلى الله عليه وسلم.
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تشہد اس حال میں سکھایا کہ میرا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ہاتھوں کے درمیان تھا اور یوں سکھایا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قرآن کریم کی سورت سکھاتے تھے : التحيات لله والصلوات والطيبات، ‏‏‏‏‏‏السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته، ‏‏‏‏‏‏السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، ‏‏‏‏‏‏اشهد ان لا إله إلا الله، ‏‏‏‏‏‏واشهد ان محمدا عبده ورسوله . السلام عليك ايها النبي (اے نبی آپ پر سلامتی ہو، والے الفاظ ہم اس وقت پڑھتے تھے) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو ہم یوں پڑھنے لگے : اَلسَّلامُ عَلَی النَّبِي اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی ہو۔“ (مسند الإمام أحمد:414/1، صحيح البخاري : 6265، واللفظ له)

* اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وأما هذه الزيادة، فظاهرها أنهم كانوا يقولون : السلام عليك أيها النبي بكاف الخطاب في حياة النبي صلى الله عليه وسلم، فلما مات النبي صلى الله عليه وسلم، تركوا الخطاب وذَكَرُوه بِلَفْظِ الغَيْبَة، فصاروا يقولون : السلام على النبي .
”حدیث میں ان زائد الفاظ کا ظاہر معني یہی ہے کہ صحابہ کرام، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں مخاطب کے صیغے کے ساتھ کہتے تھے : اے نبی! آپ پر سلامتی ہو۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو صحابہ کرام نے مخاطب کا صیغہ ترک کر دیا اور غائب کے صیغے کے ساتھ تشہد میں سلام پڑھنا شروع کر دیا، چنانچہ وہ یوں کہتے تھے : اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی ہو۔“ (فتح الباري شرح صحيح البخاري : 56/11)

* قاسم بن محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
كانت عائشة رضي الله عنها تعلمنا التشهد، وتشير بيدها، تقول: التحيات الطيبات الصلوات الزاكيات لله، السلام على النبي ورحمة الله، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله .
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہمیں تشہد سکھاتی اور ہاتھ کے ساتھ اشارہ کرتی تھیں، وہ کہتی تھیں: التحيات الطيبات الصلوات الزاكيات لله، السلام على النبي ورحمة الله، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله . یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی غائب کے صیغے کے ساتھ تشہد میں سلام پڑھتی تھیں۔‘‘ (المُخلصيات لأبي الطاهر المُخلص :2521، وسنده صحيح)

* سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ایک روایت مخاطب کے صیغے کے ساتھ یہ الفاظ ہیں:
التحيات لله والصلوات والطيبات، السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ (المُخلصيات لأبي الطاهر المُخلص :450، وسنده صحيح)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی غائب کے صیغے کے ساتھ بائیں الفاظ تشہد پڑھ لیا کرتے تھے:
بِسْمِ اللَّهِ، التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، الصَّلَوَاتُ لِلَّهِ، الزَّاكِيَاتُ لِلَّهِ، السَّلَامُ عَلَى النَّبِيِّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، شَهِدْتُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، شَهِدْتُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ . (المؤطأ للامام مالك :91/1، و سندهٔ صحيح)

عظیم تابعی، امام عطاء بن ابو رباح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إنّ الصّحَابة كانوا يَقُولُونَ وَالنبي صلى الله عليه وسلّم حي : السّلام عليك أيّها النبي، فَلَمَّا مَات قالوا: السّلام على النبي.
”صحابہ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں (تشہد پڑھتے ہوئے مخاطب کے صیغے کے ساتھ) السَّلامُ عَلَیْگ أيّها النَّبِیِ (اے نبی ! آپ پر سلامتی ہو) کہا کرتے تھے، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو صحابہ کرام نے (تشہد میں) یہ کہنا شروع کر دیا : اَلسّلام عَلَى النَّبِي اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی ہو۔“ (فتح الباري لابن حجر :314/2، 315، تحت الحديث :831، و سندهٔ صحيح)
حافظ ابن حجر نے اس کی سند کو ”صحيح“ کہا ہے۔

* امام طاؤس بن کیسان تابعی رحمہ اللہ بھی تشہد میں غائب کے صیغے کے ساتھ اَلسّلام عَلَى النَّبِي پڑھا کرتے تھے۔ (مسند السراج : 825، و سندهٔ صحيح)

علامہ سبکی کہتے ہیں:
إن صح هذا عن الصحابة، دلّ على أنّ الخطاب فى السّلام بعد النبى صلى الله عليه وسلم غير واجب، فيقال : السلام على النبي.
”اگر صحابہ کرام سے یہ غائب والا صیغہ ثابت ہو جائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے
کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تشہد میں پڑھے جانے والے سلام میں خطاب کا صیغہ استعمال کرنا واجب نہیں۔ چنانچہ نمازی (غائب کے صیغے کے ساتھ) یہ بھی کہہ سکتا ہے: اَلسَّلامُ على النبي ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی ہو“۔ (فتح الباري شرح صحيح البخاري لابن حجر: 314/2)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ،علامہ سبکی کی بات پر یوں تبصرہ کرتے ہیں:
قلت : قد صح بلا ريب
”میں کہتا ہوں کہ یہ بات بلاشک وشبہ ثابت ہو چکی ہے۔“ (فتح الباري شرح صحيح البخاري : 314/5)

ان دلائل سے واضح ہوا کہ تشہدر میں ’’ السلام عليك ايها النبي اور السلام على النبي دونوں الفاظ پڑھنے درست ہیں، البتہ اولی وہی الفاظ ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائے۔ صحابہ کرام سے منقول الفاظ جواز پر محمول ہیں۔

فائده 3 :

سلامہ کندی کا بیان ہے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ لوگوں کو یہ درود سکھایا کرتے تهے :
اللهم داحي المدحوات , وباري المسموكات , وجبار القلوب على فطرتها شقيها وسعيدها , اجعل شرائف صلواتك، ونوامي بركاتك، ورأفع تحيتك على محمد عبدك ورسولك، الخاتم لما سبق , والفاتح لما أغلق , والمعلوم الحق بالحق , والدامغ جيشات الأباطيل , كما كمل , فاضطلع بأمرك لطاعتك، مستوفرا فى مرضاتك بغير ملك فى قدم، ولا وهن فى عزم، واعيا لوحيك، حافظا لعهدك، ماضيا على نفاد أمرك حتَّى أورى تبسما لقابس به، هديت القلوب بعد خرصات الفتن والإثم، بموضحات الأعلام، ومسرات الإسلام , وماثرات الأحكام، فهو أمينك المأمون , وخازن علمك المخزون , وشهيدك يوم الدين، ومبعوثك نعمة، ورسولك بالحق رحمة، اللهم افسح له متفسحا فى عدلك , واجزه مضاعفات الخير من فضلك، له مهنيات غير مكدرات من فوز ثوابك المعلوم، وجزيل عطائك المجلول . اللهم أعل على بناء الباقين بنائه , وأكرم مثواه لديك ونزله، وأتمم له نوره وأجزه من ابتعائك له، مقبول الشهادة مرضي المقالة , ذا منطق عدل , وكلام فصل , وحجة وبرهان عظيم . (الاوسط للطبراني: 9089، الشريعة للآجري:420، كتاب الصلاة علي النبي صلي الله عليه وسلم لابن ابي عاصم:23)

اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ:
(1) سلامہ کندی راوی ”مجہول“ ہے، اسے امام ابو حاتم رازی نے ”مجہول“ کہا ہے۔ (الجرح والتعديل لابن أبى حاتم : 301/4)

(2) سلامہ کندی کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے، لہذا روایت ”مرسل“ بھی سے، جیسا کہ:
٭ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سلامة الكندي، روي عن على بن ابي طالب رضى الله عنه مرسل، حديث الصلاة على النبى صلى الله عليه وسلم .
”سلامہ کندی، انہوں نے سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑهے کے حوالے سے حدیث روایت کی ہے جو کہ مرسل ہے۔“ (الجرح والتعديل لابن أبى حاتم : 300/4)

* حافظ علائی رحمہ اللہ (۶۹۴۔ ۷۶۱ ھ) اہل علم سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
لا يعرف سماع سلامة عن علي، والحديث مرسل.
”سلامہ کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں اور یہ (درود والی) حدیث مرسل ہے۔“ (جامع التحصيل فى أحكام المراسيل : 183؛ تحفة التحصيل فى ذكر رواة المراسيل للحافظ أبى زرعة العراقي، ص: 142)

* حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (۷۰۰۔ ۷۷۴ ھ) فرماتے ہیں:
وقد تكلم عليه ابن قتيبة في مشكل الحديث، وكذا أبو الحسين أحمد بن فارس اللغوي في جزء جمعه في فضل الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم، إلا أن في إسناده نظرا، قال شيخنا الحافظ أبو الحجاج المزي : سلامة الكندي هذا ليس بمعروف، ولم يدرك عليا .
”اس روایت پر امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”مشکل الحدیث“ میں کلام کی ہے، اسی طرح ابوحسین، احمد بن فارس لغوی نے اپنے ایک رسالے میں بھی بات کی ہے، جو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے فضائل پر مرتب کیا تھا، لیکن اس کی سند محل نظر ہے۔ ہمارے استاذ حافظ ابوحجاج مزی رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ سلامہ کندی راوی مجہول ہے اور اس کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات بھی نہیں ہوئی۔“ (تفسير ابن كثير : 462/6، ت: سلامة)

* حافظ سخاوی رحمہ اللہ (ا۸۳۔۹۰۲ھ) نے اس روایت کو ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔ (القول البديع، ص: 34)

لطيفه :

صاحبزادہ مفتی اقتدار احمد خان نعیمی بریلوی لکھتے ہیں:
”اور یہ مسئلہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ نماز والا اور درود ابراہیمی صرف نماز میں پڑھ سکتے ہیں، نماز کے علاوہ پڑھنا گناہ اور ناجائز ہے، اس لئے کہ اس میں سلام نہیں ہے، حالانکہ بحکم قرآنی سلام پڑھنا بھی درود شریف کے ساتھ اسی طرح واجب ہے جس طرح درود شریف، وہ درود ناقص ہے جس میں سلام نہ ہو۔ درود ابراہیمی نماز میں اس لئے جائز ہے کہ تشہد میں سلام پڑھ لیا گیا وہاں آیتِ صلوۃ پر مکمل عمل ہو گیا، وہابی دیوبندی حضرات چونکہ سلام کے منکر اور دشمن ہیں، اس لئے وہ درود ابراہیمی پڑھنے پر زور دیتے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی بعض جاہل پیر اپنی حماقت سے درود ابراہیمی پڑھنے کا حکم دیتے ہیں مگر قرآن مجید کی آیت پر غور نہیں کرتے، ہر وظیفہ کے لئے سب سے مکمل اور مختصر درود شریف خضری ہے وہ پڑھنا چاہئے۔“ (تفسیر نعیمی، جلد : 16، ص 110 مطبوعہ نعیمی کتب خانہ، گجرات)

مذکورہ عبارت سے درج ذیل باتیں عیاں ہوتی ہیں:
(1) درود ابراہیمی نماز کے علاوہ کسی بھی دوسرے موقع پر پڑھنا گناہ اور ناجائز ہے اور وہاں بھی صرف اس لئے جائز ہے کہ تشہد میں درود سے پہلے سلام پڑھ لیا ہوتا ہے، ورنہ وہاں بھی اس درود کی کوئی جگہ نہیں بنتی۔
(2) سلام کے بغیر درود ثواب کی بجائے ناجائز اور گناہ کا سبب ہے گا۔
(3) اکیلے درود ابراہیمی سے سلام کا انکار لازم آئے گا، جو لوگ اکیلا درود پڑھتے ہیں، وہ سلام کے منکر اور دشمن ہیں۔
(4) اکیلے درود ابراہیمی کی تلقین کرنے والے لوگ احمق ہیں۔
(5) درود ابراہیمی کی بجائے درود خضری پڑھنا چاہئے۔

ہماری گزارش :
ہم نے اوپر صرف مفتی اقتدا احمد خان کی مراد کو کھول کر لکھ دیا ہے، کوئی بھی سادہ سے سادہ مسلمان بھی ذرا غور کرے تو بآسانی معلوم ہو جائے کہ صحیح احادیث اور اجماع کے خلاف مفتی اقتدار صاحب کی اختراع کیوں کر دین بن سکتی ہے؟ شاید اس مؤقف میں ان کا کوئی ہم خیال ہو۔

یاد رہے کہ اہل بدعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ذات گرامی پر اکتفا نہیں کرتے۔ نت نئے شرکیہ اور مبالغہ آمیزی پر مبنی درود بنا کر ان کے فضائل گھڑتے رہتے ہیں۔ اب لوگوں کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ مارکیٹ میں جا کر پوچھتے ہیں کہ نیا درود کونسا آیا ہے؟

اہل بدعت کے چند درودوں کے نام ملاحظہ فرمائیں، جن کے من گھڑت اور خانہ ساز فضائل ومناقب انہوں نے بنا رکھے ہیں:
(1) درود شفاعت، (2) درود غوثیہ، (3) درود لکھی، (4) درود تاج، (5) درود تنجینا، (6) درود ہزارہ، (7) درود ماہی، (8) درود عبدوسی، (9) درود خضری، (10) درود ناریہ، (11) درود کوامل، (12) درود زیارت

بعض کتابوں میں اور بھی بہت سے شرکی و بدعی الفاظ پر مشتمل درود اور ان کے من گھڑت فضائل موجود ہیں۔ ایسی کتابوں سے اجتناب کرنا چاہے۔

ایک صاحب نے درود و سلام کی فضیلت میں ”آب کوثر“ نامی کتاب لکھی ہے، جس میں جھوٹی اور بےسند و بے سروپا روایات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کی طرف منسوب کیا ہے۔ یہ اقدام انتہائی قبیح ہے۔

تنیبہ :

بعض لوگ الصلاة والسلام عليك يا رسول الله کے الفاظ سے خطاب کے عقیدے کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام پڑھتے ہیں کہ آپ حاضر و ناظر ہیں اور ان الفاظ کو سنتے ہیں۔

جناب حاجی امداد اللہ مکی صاحب کہتے ہیں:
الصلاة والسلام عليك يا رسول الله بصیغہ خطاب میں بعض لوگ کلام کرتے ہیں۔ یہ اتصال معنوی پر مبنی ہے۔ له الخلق والامر عالم امر مقید بجہت وطرف وقرب و بعد وغیرہ نہیں ہے۔ پس اس کے جواز میں شک نہیں ہے۔“ (امداد المشتاق از اشرف على تهانوي، ص :59)

گم راہ صوفیوں کی ”اتصال معنوی“ جیسی گم راہ کن اصطلاحات کا کوئی اعتبار نہیں۔ یہ نظریہ اس حدیث کے سراسر خلاف ہے، جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا ہے کہ اللہ کے فرشتے درود پہنچانے پر مامور ہیں۔

جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب کہتے ہیں:
”البتہ اگر اس خطاب سے عوام میں مفسدہ ہو تو اس کا اظہار ممنوع ہو گا۔“ (امداد المشتاق، :59)

جناب تقی عثمانی دیوبندی حیاتی صاحب کہتے ہیں:
”بہرحال درود و سلام میں الفاظ خطاب کا استعمال اگر کسی غلط عقیدہ سے نہ بھی ہو تو تب بھی موہم شرک و افترا ہونے کی وجہ سے ممنوع ہے۔ “(درس ترمذی 255/2)

درود و سلام اور ایک کفریہ حکایت :

اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب کے ایک مرید نے اپنا ایک واقعہ جناب تھانوی صاحب کو لکھ کر بھیجا۔ وہ واقعہ اور اس پر تھانوی صاحب کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیے :
”خواب دیکھتا ہوں کہ کلمہ شریف لا اله الا الله محمد رسول الله پڑھتا ہوں، لیکن محمد رسول الله کی جگہ حضور (اشرف على تهانوي) کا نام لیتا ہوں۔ اتنے میں دل کے اندر خیال پیدا ہوا کہ تجھے غلطی ہوئی کلمہ شریف کے پڑھنے میں۔ اس کو صحیح پڑھنا چاہیے۔ اس خیال سے دوبارہ کلمہ شریف پڑھتا ہوں۔ دل پر تو یہ ہے کہ صحیح پڑھا جاوے لیکن زبان سے بے ساختہ بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے اشرف علی نکل جاتا ہے، حالانکہ مجھ کو اس بات کا علم ہے کہ اس طرح درست نہیں، لیکن بے اختیار زبان سے یہی کلمہ نکلتا ہے۔ دو تین بار جب یہی صورت ہوئی تو حضور (اشرف علی) کو اپنے سامنے دیکتا ہوں اور یہی چند شخص حضور کے پاس تھے، لیکن اتنے میں میری یہ حالت ہو گئی کہ میں کھڑا کھڑا بوجہ اس کے کہ رقت طاری ہو گئی، زمین پر گر گیا اور نہایت زور کے ساتھ ایک چیخ ماری اور مجھ کو معلوم ہوتا تھا کہ میرے اندر کوئی طاقت باقی نہیں رہی۔ اتنے میں بندہ خواب سے بیدار ہو گیا، لیکن بدن میں بدستور بےحسی تھی اور وہ اثر ناطاقتی بدستور تھا، لیکن حالت خواب اور بیداری میں حضور ہی کا خیال تھا۔ لیکن حالت بیداری میں کلمہ شریف کی غلطی پر جب خیال آیا تو اس بات کا ارادہ ہوا کہ اس بات کو دل سے دور کیا جاوے۔ اس واسطے کہ پھر کوئی ایسی غلطی نہ ہو جاوے، بایں خیال بندہ بیٹھ گیا اور پھر دوسری کروٹ لیٹ کر کلمہ شریف کی غلطی کے تدارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھتا ہوں لیکن پھر بھی یہ کہتا ہوں : اللهم صل على سيدنا ونبينا ومولانا اشرف علي حالانکہ اب بیدار ہوں، خواب نہیں لیکن بے اختیار ہوں، مجبور ہوں، زبان اپنے قابو میں نہیں۔ اس روز ایسا ہی کچھ خیال رہا تو دوسرے روز بیداری میں رقت رہی، خوب رویا۔ اور بھی بہت سی وجوہات ہیں جو حضور ( تھانوی) کے ساتھ باعث محبت ہیں، کہاں تک عرض کروں؟
جواب:
اس واقعہ میں تسلی تھی کہ جس کی طرف تم رجوع کرتے ہو، وہ بعینہ تعالیٰ متبع سنت ہے۔ (الامداد، صفر 1336 ھ، ص: 35)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے