درود شریف سن کر کھڑے ہونا کیسا ہے؟
یہ اقتباس شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری کی کتاب ذکر مصطفےٰﷺ سے ماخوذ ہے۔

درود کے لیے قیام

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کے لیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر سن کر یا میلاد کا ذکر کرتے ہوئے کھڑے ہو جانا بے اصل اور بے ثبوت عمل ہے۔ شرعی احکام، قرآن و حدیث اور اجماع امت سے فہم سلف کی روشنی میں ثابت ہوتے ہیں۔ ان مصادر میں کہیں بھی اس کا ثبوت نہیں، لہذا یہ قیام بدعت ہے۔
ایک دوست کہتے ہیں:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کھڑے ہو کر پڑھنا انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔
اس حوالے سے اہل علم کا بیان ملاحظہ ہو:
❀ علامہ محمد بن یوسف صالحی شامی رحمہ اللہ (م: 942ھ) لکھتے ہیں:
جرت عادة كثير من المحبين إذا سمعوا بذكر وصفه صلى الله عليه وسلم أن يقوموا تعظيما له صلى الله عليه وسلم، وهذا القيام بدعة، لا أصل له
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے بہت سے دعوے داروں میں یہ عادت رواج پا گئی ہے کہ وہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صفت کا ذکر سنتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ قیام ایسی بدعت ہے، جس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں۔
(سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد: 1/415)

کیا قیام تعظیم کا جائز طریقہ ہے؟

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہر مؤمن کے ایمان کا جزو لازم ہے، لیکن اس تعظیم کی حدود کون متعین کرے گا؟ یقیناً یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی حق ہے۔
❀ علامہ بشیر احمد سہسوانی رحمہ اللہ (1250-1326ھ) فرماتے ہیں:
نحن معاشر أهل الحديث نعظم رسول الله صلى الله عليه وسلم بكل تعظيم جاء فى الكتاب والسنة الثابتة، سواء كان ذلك التعظيم فعليا أو قوليا أو اعتقاديا، والوارد فى الكتاب العزيز والسنة المطهرة من ذلك الباب فى غاية الكثرة… وأهل البدع؛ فمعظم تعظيمهم تعظيم محدث كشد الرحال إلى قبر الرسول، والفرح بليلة ولادته، وقراءة المولد، والقيام عند ذكر ولادته صلى الله عليه وسلم، وتقبيل الإبهام عند قول المؤذن: أشهد أن محمدا رسول الله، والتمثل بين يديه قياما، وطلب الحاجات منه صلى الله عليه وسلم، والنذر له، وما ضاهاها، وأما التعظيمات الثابتة؛ فهم عنها بمراحل
ہم تمام اہل حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر وہ تعظیم بجا لاتے ہیں، جو قرآن کریم اور سنت ثابتہ میں وارد ہے، خواہ وہ تعظیم فعلی ہو، قولی ہو یا اعتقادی۔ قرآن عزیز اور سنت مطہرہ میں اس طرح کی بہت زیادہ تعظیم موجود ہے.لیکن بدعت کے خوگر لوگوں کی طرف سے زیادہ سے زیادہ تعظیم یہ ہوتی ہے کہ وہ کوئی بدعت جاری کر لیتے ہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف شد رحال، ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رات جشن، مولد کی قرائت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے ذکر کے وقت قیام کرنا، اذان میں مؤذن کے أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ کہنے کے وقت انگوٹھے چومنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے سامنے بت بن کر کھڑے ہونا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاجات طلب کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی نیاز دینا وغیرہ۔ رہی قرآن و سنت میں ثابت شدہ تعظیمات تو وہ ان سے کوسوں دور ہیں۔
(صيانة الإنسان عن وسوسة دحلان: ص 244)
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) فرماتے ہیں:
إنما تعظيم الرسل بتصديقهم فيما أخبروا به عن الله، وطاعتهم فيما أمروا به، ومتابعتهم، ومحبتهم، وموالاتهم
رسولوں کی تعظیم تو بس ان کی دی ہوئی خبروں کی تصدیق کرنے، ان کے احکام میں ان کی اطاعت کرنے، ان کی پیروی کرنے اور ان سے محبت و مودت کرنے میں ہے۔
(كتاب الرد على الأخنائي: ص 24-25)
❀ نعیمی صاحب ذرا دوسری طرف نکل گئے ہیں، لکھتے ہیں:
تعظیم میں کوئی پابندی نہیں، بلکہ جس زمانہ میں اور جس جگہ جو طریقہ بھی تعظیم کا ہو، اس طرح کرو، بشرطیکہ شریعت نے اس کو حرام نہ کیا ہو، جیسے تعظیمی سجدہ و رکوع۔ اور ہمارے زمانہ میں شاہی احکام کھڑے ہو کر بھی پڑھے جاتے تھے۔ لہذا محبوب کا ذکر بھی کھڑے ہو کر ہونا چاہیے۔ دیکھو ﴿كُلُوا وَاشْرَبُوا﴾ [الأعراف: 31] میں مطلقاً کھانے پینے کی اجازت ہے کہ ہر حلال غذا کھاؤ پیو، تو بریانی، زردہ، قورمہ سب ہی حلال ہوا خواہ خیر القرون میں ہو یا نہ ہو۔
(جاء الحق: جلد 1، ص 254)
اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے وقت کھڑا ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ہے، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام رحمہم اللہ، تبع تابعین رحمہم اللہ، ائمہ دین رحمہم اللہ اور سلف صالحین رحمہم اللہ اس سے محروم کیوں تھے؟ کہاں ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم جو کہ دین و ایمان ہے اور کہاں کھانے پینے کے دنیاوی مسائل۔ قرآن و سنت کی روشنی میں مسلم اصول ہے کہ دینی معاملات میں کرنے کی دلیل ضروری ہے، جبکہ دنیاوی معاملات میں منع کی دلیل۔

کسی کی تعظیم میں کھڑا ہونا جائز نہیں:

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ما كان أحد من الناس أحب إليهم شخصا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكانوا إذا رأوه لا يقومون له، لما يعلمون من كراهيته لذلك
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں کوئی بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب نہ تھا۔ ان میں سے کوئی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کھڑا نہ ہوتا، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ناپسند کرتے ہیں۔
(مسند أحمد: 3/134، وسنده صحيح؛ سنن الترمذي: 2754، وقال: حسن صحيح)
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) فرماتے ہیں:
لم تكن عادة السلف على عهد النبى صلى الله عليه وسلم وخلفائه الراشدين أن يعتادوا القيام كلما يرونه صلى الله عليه وسلم، كما يفعله كثير من الناس
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے عہد میں سلف صالحین رحمہم اللہ کی یہ عادت نہ تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور بزرگ شخصیت کو جب دیکھیں کھڑے ہو جائیں، جیسا کہ بہت سے لوگ اب کرتے ہیں۔
(مجموع الفتاوى: 1/374)
❀ ابو مجلز لاحق بن حمید رحمہ اللہ تابعی بیان کرتے ہیں:
جاء معاوية على ابن الزبير وابن عامر، فقام ابن عامر وجلس ابن الزبير، فقال معاوية لابن عامر: اجلس، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من أحب أن يتمثل له الرجال قياما، فليتبوأ مقعده من النار
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ، سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو ابن عامر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے، جبکہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیٹھے رہے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کہا: بیٹھ جاؤ، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ آدمی اس کے لیے بت بن کر کھڑے ہوں، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھے۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 8/586؛ مسند الإمام أحمد: 4/91, 93, 100؛ مسند عبد بن حميد: 413؛ الأدب المفرد للبخاري: 977؛ سنن أبي داود: 5229؛ سنن الترمذي: 2755، وقال: حسن؛ تهذيب الآثار للطبري: 2/568-569، وسنده صحيح)
❀ تهذيب الآثار للطبري (2/568-569، وسنده حسن) میں یہ الفاظ ہیں:
خرج معاوية ذات يوم، فوثبوا فى وجهه قياما، فقال: اجلسوا، اجلسوا، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من سره أن يستخم بنو آدم قياما؛ دخل النار
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ایک دن باہر تشریف لائے، تو لوگ ان کے سامنے جلدی سے کھڑے ہو گئے۔ فرمایا: بیٹھ جاؤ، بیٹھ جاؤ، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص یہ پسند کرے کہ لوگ اس کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، وہ آگ میں داخل ہو گا۔
❀ محدث البانی رحمہ اللہ (م: 1420ھ) اس کی تشریح میں لکھتے ہیں:
دلنا هذا الحديث على أمرين: الأول تحريم حب الداخل على الناس القيام منهم له، وهو صريح الدلالة بحيث أنه لا يحتاج إلى بيان، والآخر كراهة القيام من الجالسين للداخل، ولو كان لا يحب القيام، وذلك من باب التعاون على الخير، وعدم فتح باب الشر، وهذا معنى دقيق دلنا عليه راوي الحديث معاوية رضي الله عنه، وذلك بإنكاره على عبد الله بن عامر قيامه له، واحتج عليه بالحديث، وذلك من فقههم فى الدين، وعلمهم بقواعد الشريعة التى منها سد الذرائع
اس حدیث سے ہمیں دو باتوں کا علم ہوتا ہے: پہلی یہ کہ داخل ہونے والے کا اپنے لیے لوگوں کے کھڑے ہونے کو پسند کرنا حرام ہے۔ یہ بات تو بالکل صریح ہے کہ اس کی شرح کی ضرورت ہی نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ بیٹھنے والوں کا باہر سے آنے والے کے لیے کھڑا ہونا ناپسندیدہ عمل ہے، اگرچہ داخل ہونے والا بھی اس عمل کو پسند نہ کرتا ہو، یہ خیر پر تعاون کرنا اور شر کے دروازے کو بند کرنا ہے، اس پیچیدہ معنی کی خبر ہمیں راوی حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے دی ہے، کیونکہ انہوں نے عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو اپنے لیے کھڑے ہونے سے منع کیا اور انہیں حدیث سے دلیل دی۔ یہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی دینی فقاہت ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ وہ قواعد شریعت سے واقف تھے۔ سد ذرائع بھی انہی قواعد میں سے ایک ہے۔
(السلسلة الصحيحة: 1/629)
اس وعید کا تعلق اس شخص سے ہے جو تعظیماً کھڑا ہوتا ہے۔ کسی کے آنے پر اس کے استقبال کے لیے کھڑا ہونا اس وعید میں داخل نہیں۔
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) ان الفاظ کا مطلب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
إن ذلك أن يقوموا له وهو قاعد، ليس هو أن يقوموا لمجيئه إذا جاء، ولهذا فرقوا بين أن يقال: قمت إليه، وقمت له، والقائم للقادم ساواه فى القيام بخلاف القائم للقاعد
اس وعید سے مراد وہ لوگ ہیں، جو کسی بیٹھے ہوئے کے لیے کھڑے ہوں۔ کسی آنے والے کے لیے کھڑے ہونا اس سے مراد نہیں۔ اسی لیے علمائے کرام نے کسی کی طرف کھڑے ہونے اور کسی کے لیے کھڑے ہونے میں فرق کیا ہے۔ کسی باہر سے آنے والے کی طرف کھڑا ہونے والا کھڑے ہونے میں اس کے برابر ہوتا ہے، برعکس اس شخص کے جو بیٹھنے والے کے لیے کھڑا ہو۔
(مجموع الفتاوى: 1/375)
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق بیان فرماتی ہیں:
كانت إذا دخلت عليه قام إليها، فأخذ بيدها، فقبلها، وأجلسها فى مجلسه، وكان إذا دخل عليها؛ قامت إليه، فأخذت بيده فقبلته، وأجلسته فى مجلسها
وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف کھڑے ہوتے، ان کے ہاتھ کو پکڑتے، اسے بوسہ دیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ اسی طرح جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے جاتے، تو آپ رضی اللہ عنہا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کھڑی ہوتیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑتیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو بوسہ دیتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔
(سنن أبي داود: 5217؛ سنن الترمذي: 3872، وسنده صحيح)
اس روایت کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (6952) اور امام حاکم رحمہ اللہ (4/264) نے صحیح کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ یعنی استقبال کے لیے قیام جائز ہے۔ اگرچہ بظاہر یہ روایت ان احادیث کے مخالف و معارض ہے، جن میں کھڑے ہونے سے منع کیا گیا ہے، لیکن ان کے درمیان جمع و تطبیق ہو سکتی ہے:
❀ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (691-751ھ) لکھتے ہیں:
المنهي عنه القيام للرجل، وأما القيام إليه للتلقي إذا قدم؛ فلا بأس به، وبهذا تجتمع الأحاديث
کسی آدمی کے لیے (تعظیماً) کھڑا ہونا مذموم عمل ہے، البتہ جب کوئی آئے، تو اس کی طرف اس کے استقبال کے لیے کھڑا ہونے میں کوئی حرج نہیں۔ اس سے تمام احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے۔
(شرح ابن القيم لسنن أبي داود مع عون المعبود: 14/127)
❀ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
اشتكى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلينا وراءه وهو قاعد، وأبو بكر يسمع الناس تكبيره، فالتفت إلينا فرآنا قياما، فأشار إلينا، فقعدنا، فصلينا بصلاته قعودا، فلما سلم؛ قال: إن كدتم آنفا لتفعلون فعل فارس والروم، يقومون على ملوكهم، وهم قعود، فلا تفعلوا، انتموا بأئمتكم إن صلى قائما فصلوا قياما، وإن صلى قاعدا؛ فصلوا قعودا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں اس طرح نماز ادا کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکبیر کی آواز لوگوں تک پہنچا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف توجہ کی اور ہمیں کھڑے محسوس کیا، تو اشارے کے ذریعے بیٹھنے کا حکم دیا۔ ہم بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں بیٹھ کر نماز ادا کی۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی آپ نے ایرانیوں اور رومیوں جیسا طرز عمل اپنا رکھا تھا، یعنی وہ اپنے بادشاہوں کے سامنے کھڑے رہتے ہیں اور بادشاہ بیٹھے رہتے ہیں، آپ اپنے امام کے ساتھ اس طرح کا سلوک نہ کرو۔ اگر وہ کھڑے ہو کر نماز ادا کرے، آپ بھی کھڑے ہو کر نماز ادا کریں اور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھائے، تو آپ بھی بیٹھ کر نماز ادا کریں۔
(صحيح مسلم: 413)
❀ شارح صحیح مسلم حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676ھ) فرماتے ہیں:
فيه النهي عن قيام الغلمان والتباع على رأس متبوعهم الجالس لغير حاجة، وأما القيام للداخل إذا كان من أهل الفضل والخير؛ فليس من هذا، بل هو جائز قد جاءت به أحاديث، وأطبق عليه السلف والخلف
حدیث میں مذکورہ ممانعت اس قیام کے متعلق ہے، جو چھوٹے بچے اور خادم بغیر ضرورت کے اپنے آقاؤں کے سر کی جانب کھڑے ہوتے ہیں اور وہ (بادشاہ وغیرہ) بیٹھے ہوتے ہیں۔ باقی جو قیام اہل فضل و خیر کی آمد پر ہوتا ہے، وہ اس میں شامل نہیں ہے، بلکہ وہ تو جائز ہے۔ اس بارے میں احادیث بیان ہوئی ہیں اور سلف و خلف کا اس (کے جواز) پر اتفاق ہے۔
(شرح صحیح مسلم: 4/135)
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) فرماتے ہیں:
في هذا الحديث أنه أمرهم بترك القيام الذى هو فرض فى الصلاة، وعلل ذلك بأن قيام المأمومين مع قعود الإمام يشبه فعل فارس والروم بعظمائهم، فى قيامهم وهم قعود، ومعلوم أن المأموم إنما نوى أن يقوم لله لا لإمامه، وهذا تشديد عظيم فى النهي عن القيام للرجل القاعد، ونهي أيضا عما يشبه ذلك، وإن لم يقصد به ذلك، ولهذا نهي عن السجود لله بين يدي الرجل، وعن الصلاة إلى ما قد عبد من دون الله، كالنار ونحوها، وفي هذا الحديث أيضا نهي عما يشبه فعل فارس والروم، وإن كانت نيتنا غير نيتهم، لقوله: فلا تفعلوا
اس حدیث میں جس قیام کے ترک کا حکم ہے، وہ نماز میں فرض ہے، اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ امام کے بیٹھے ہونے کے باوجود مقتدیوں کا کھڑا رہنا فارسیوں اور رومیوں سے مشابہت رکھتا ہے، کیونکہ وہ اپنے معززین کی تعظیم میں کھڑے ہوتے ہیں اور ان کے بادشاہ بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ تو پکی بات ہے کہ مقتدی اللہ کے لیے کھڑا ہوتا ہے، اس کا قیام امام کے لیے نہیں ہوتا۔ بیٹھے ہوئے شخص کے لیے کھڑا رہنے کے حوالے سے یہ بہت سخت ممانعت ہے، نیز اس ممانعت کی وجہ فارسیوں اور رومیوں کے ساتھ مشابہت بھی ہے، اگرچہ ان جیسا مقصود نہ بھی ہو۔ اسی لیے کسی بندے کے سامنے اللہ تعالیٰ کو بھی سجدہ کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے علاوہ معبودان باطلہ کی طرف منہ کر کے نماز سے بھی روکا گیا ہے، جیسا کہ آگ اور اس جیسی دوسری چیزیں ہیں، چنانچہ اس حدیث میں جو ممانعت مذکور ہے، اس سے مراد فارسیوں اور رومیوں سے مشابہت رکھنا ہے، اگرچہ ہماری نیت ان جیسی نہ بھی ہو، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔
(اقتضاء الصراط المستقيم: 1/226)
❀ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (691-751ھ) لکھتے ہیں:
حمل أحاديث النهي على مثل هذه الصورة ممتنع، فإن سياقها يدل على خلافه، وأنه صلى الله عليه وسلم كان ينهى عن القيام له إذا خرج عليهم، ولأن العرب لم يكونوا يعرفون هذا، وإنما هو من فعل فارس والروم، ولأن هذا لا يقال له قيام للرجل، إنما هو قيام عليه ففرق بين القيام للشخص المنهي عنه، والقيام عليه المشبه لفعل فارس والروم، والقيام إليه عند قدومه الذى هو سنة العرب، وأحاديث الجواز تدل عليه فقط
ممانعت والی احادیث کو ایسی صورت پر محمول کرنا ممکن نہیں، کیونکہ اس حدیث کا سیاق اس کے خلاف ہے، نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منع فرماتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کے پاس تشریف لاتے اور عربوں کے ہاں یہ طریقہ معروف نہیں تھا۔ یہ صرف فارسیوں اور رومیوں کا وطیرہ تھا۔ نیز اسے کسی آدمی کے لیے کھڑا ہونا نہیں کہا جائے گا، بلکہ یہ تو کسی آدمی کے پاس کھڑے رہنا ہے۔ لہذا کسی بندے کے لیے کھڑے ہونا، جس سے منع کیا گیا ہے اور فارس و روم کے فعل سے مشابہ قیام، دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، جبکہ کسی آدمی کی آمد پر قیام عربوں کا طرز عمل ہے اور جو احادیث قیام کو جائز ثابت کرتی ہیں، وہ صرف اسی (دوسرے) قیام کے متعلق ہیں۔
(تهذيب السنن: 8/93)

تنبيهات:

عمرو بن السائب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی باپ آگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اپنی چادر کا بعض حصہ بچھا دیا۔ وہ اس پر بیٹھ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی والدہ آئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر کی دوسری جانب ان کے لیے بچھا دی۔ وہ اس پر بیٹھ گئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی آگئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر انہیں اپنے سامنے بٹھا لیا۔
(سنن أبي داود: 5145)
مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
❀ سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
أتى النبى صلى الله عليه وسلم، فلما رآه أى العباس، قام إليه وقبل ما بين عينيه، ثم أقعده عن يمينه
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آئے۔ جب سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، تو استقبال کے لیے کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر بوسہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دائیں جانب بٹھا لیا۔
(المعجم الكبير: 1/235؛ المعجم الأوسط للطبراني: 9246؛ تاريخ بغداد: 1/63)
جھوٹی روایت ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے باطل قرار دیا ہے۔
❀ احمد بن رشدین ہلالی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
هو الذى اختلقه بجهل
اس نے جہالت کی بنا پر یہ روایت گھڑی ہے۔
(ميزان الاعتدال: 1/97)
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے الثقات (8/40) میں ذکر کیا ہے۔ یہ ان کا تساہل ہے۔

شہبات ضعیفہ اور ان کا ازالہ:

یہ جو کہا جاتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں کھڑے ہو جاتے تھے۔
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجلس معنا فى المسجد يحدثنا، فإذا قام قمنا قياما حتى نراه قد دخل بعض بيوت أزواجه
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ مسجد میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے، تو ہم بھی کھڑے ہو جاتے اور اس وقت تک کھڑے رہتے، جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی زوجہ مطہرہ کے گھر میں داخل ہوتا نہ دیکھ لیتے۔
(سنن أبي داود: 4775؛ السنن الكبرى للنسائي: 4780؛ سنن ابن ماجه مختصراً: 2093؛ شعب الإيمان للبيهقي: 8930)
سند ضعیف ہے۔ ہلال بن ابی ہلال مدنی کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا أعرفه
میں اسے نہیں پہچانتا۔
(العلل: 1476)
امام ابن شاہین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا أعرفه
میں اسے نہیں جانتا۔
(الثقات: 1245)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
لا يعرف
غیر معروف ہے۔
(ميزان الاعتدال: 4/317)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے مقبول (مستور الحال) کہا ہے۔
(تقريب التهذيب: 7351)
صرف امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے الثقات (5/503) میں ذکر کیا ہے، لہذا مجہول الحال ہے۔
❀ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (773-852ھ) فرماتے ہیں:
الذي يظهر لي فى الجواب أن يقال: لعل سبب تأخيرهم حتى يدخل لما يحتمل عندهم من أمر يحدث له حتى لا يحتاج إذا تفرقوا أن يتكلف استدعاءهم، ثم راجعت سنن أبى داود، فوجدت فى آخر الحديث ما يؤيد ما قلته، وهو قصة الأعرابي الذى جبذ رداءه صلى الله عليه وسلم، فدعا رجلا فأمره أن يحمل له على بعيره تمرا وشعيرا، وفي آخره: ثم التفت إلينا، فقال: انصرفوا رحمكم الله تعالى
جو بات میرے ذہن میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہونے تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کھڑے رہنے کا سبب شاید یہ ہو کہ پیش نظر یہ احتمال ہوتا تھا کہ ان کے چلے جانے کے بعد کسی ضرورت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہیں بلانے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔ پھر میں نے سنن ابوداؤد کی طرف رجوع کیا، تو اس حدیث کے آخر میں مجھے وہ الفاظ مل گئے جو میری اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ وہ اعرابی کا واقعہ ہے جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مبارک کو کھینچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بلایا اور حکم دیا کہ وہ اس اعرابی کے اونٹ پر کھجور اور جو لاد دے۔ اس حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اللہ آپ لوگوں پر رحم کرے، اب آپ جا سکتے ہیں۔
(فتح الباري: 11/52)
❀ ملا علی قاری رحمہ اللہ (م: 1014ھ) لکھتے ہیں:
لعلهم كانوا ينتظرون رجاء أن يظهر له حاجة إلى أحد منهم، أو يعرض له رجوع إلى الجلوس معهم، فإذا أيسوا؛ تفرقوا، ولم يقعدوا لعدم حلاوة الجلوس بعده عليه السلام
وہ اس امید سے انتظار کرتے تھے کہ شاید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی سے کام پڑ جائے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوبارہ آنے کا ارادہ ہو۔ جب وہ ناامید ہو جاتے تو چلے جاتے۔ دوبارہ نہ بیٹھتے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد محفل کی حلاوت ختم ہو جاتی تھی۔
(مرقاة المفاتيح: 13/488)
لہذا یہ کہنا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں کھڑے ہوتے تھے، درست نہ ہوا۔ نیز اسے دلیل بنا کر درود کے لیے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی تعظیم میں کھڑا ہونا غلط در غلط ہے۔
❀ سیدنا ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
لما قدم جعفر من هجرة الحبشة؛ تلقاه النبى صلى الله عليه وسلم فعانقه، وقبل ما بين عينيه، وقال: ما أدري بأيهما أنا أسر؛ بفتح خيبر أو بقدوم جعفر؟
جب جعفر رضی اللہ عنہ ہجرت حبشہ سے واپس آئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا استقبال کیا، ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور فرمایا: مجھے معلوم نہیں کہ دو چیزوں میں زیادہ خوشی مجھے کس بات کی ہے، فتح خیبر کی یا جعفر رضی اللہ عنہ کی آمد کی؟
(المعجم الكبير: 2/108؛ المعجم الأوسط: 2003؛ المعجم الصغير للطبراني: 30)
❀ سند ضعیف ہے۔ احمد بن خالد حرانی کے بارے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضعيف، ليس بشيء، ما رأيت أحدا أثنى عليه
ضعیف ہے۔ کسی کام کا نہیں۔ میں نے کسی کو اس کی تعریف کرتے نہیں دیکھا۔
(سؤالات حمزة السهمي: ص 148)
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
واه
کمزور ہے۔
(المغني: 1/65)
اس کے متابع انس بن مسلم کے بارے میں حافظ قشمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
لم أعرفه
میں اسے پہچان نہیں سکا۔
(مجمع الزوائد: 9/271)
اس کی متابعت ایک اور راوی عثمان بن محمد بن عثمان نے بھی کی ہے۔
(تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 11/292)
اس کے بارے میں بھی توثیق کا کوئی قول ثابت نہیں، لہذا یہ روایت بھی ضعیف ہے۔
❀ عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے:
لما بلغ باب رسول الله صلى الله عليه وسلم استبشر، ووثب له رسول الله صلى الله عليه وسلم قائما على رجليه، فرحا بقدومه
جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور ان کے آنے کی خوشی میں جلدی سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے۔
(المغازي للواقدي: 2/850؛ المستدرك للحاكم: 3/269)
جھوٹ کا پلندہ ہے۔ محمد بن عمر واقدی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ضعیف اور متروک ہے۔ اس کا استاذ ابوبکر بن عبداللہ بن ابوسبرہ وضاع اور کذاب ہے۔
❀ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يضع الحديث
یہ حدیثیں گھڑتا تھا۔
(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 7/306)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بینہ آئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری قیام گاہ میں تشریف فرما تھے۔ انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا:
قام إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم عريانا يجر ثوبه، والله، ما رأيته عريانا قبله ولا بعده، فاعتنقه وقبله
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکمل لباس کے بغیر کپڑے سنبھالتے ہوئے استقبال کو کھڑے ہوئے۔ اللہ کی قسم! اس سے پہلے اور بعد کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکمل لباس کے بغیر کسی سے ملتے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے معانقہ کیا اور انہیں بوسہ دیا۔
(سنن الترمذي: 2732، وقال: حسن؛ شرح معاني الآثار للطحاوي: 4/92)
روایت ضعیف ہے۔
① ابراہیم بن یحیحی بن محمد شجری لین الحدیث ہے۔
(تقريب التهذيب لابن حجر: 268)
② یحییٰ بن محمد بن عباد مدنی شجری ضعیف ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
كان ضريرا يتلقن
نا بینا تھا اور لوگوں کی باتوں میں آ جاتا تھا۔
(تقريب التهذيب: 7637)
③ محمد بن اسحاق مدنی مدلس ہیں۔
④ امام زہری رحمہ اللہ بھی مدلس ہیں۔
دونوں نے سماع کی تصریح نہیں کی، لہذا روایت ضعیف ہے۔ تاريخ ابن عساكر (19/360) کی سند میں محمد بن عمر واقدی متروک ہے۔

ایک مسئلہ بتایا:

⑤ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بلایا:
فقمت إليه، فقلت له: بأبي أنت وأمي، أنت أحق بها
میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کھڑا ہوا اور عرض کی: میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ حق دار ہیں۔
(مسند الإمام أحمد: 1/6؛ مسند البزار: 4؛ مسند أبي يعلى: 24)
سند رجل مجهول کی وجہ سے ضعیف ہے۔
⑥ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا، تو وہ دراز گوش پر سوار ہو کر آئے۔ مسجد کے قریب پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا:
قوموا إلى سيدكم
اپنے سردار کے استقبال کو اٹھیں۔
(صحيح البخاري: 6262؛ صحيح مسلم: 1768)
یہ مطلب نہیں کہ سعد رضی اللہ عنہ جو اپنے قبیلے کے سردار ہیں، ان کی تعظیم میں کھڑے ہو جاؤ، بلکہ مطلب یہ تھا کہ کھڑے ہو کر ان کو سواری سے اتارو، کیونکہ اس وقت وہ زخمی تھے۔ اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قوموا إلى سيدكم فأنزلوه، فقال عمر: سيدنا الله عز وجل، قال: أنزلوه، فأنزلوه
اپنے سردار کی طرف لپکو اور انہیں سواری سے اتارو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: ہمارا سردار تو اللہ ہے۔ فرمایا: سعد رضی اللہ عنہ کو اتارو، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں نیچے اتارا۔
(مسند الإمام أحمد: 6/141-142، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (7028) نے صحیح کہا ہے۔
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سند کو حسن قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:
هذه الرواية تخدش فى الاستدلال بقصة سعد على مشروعية القيام المتنازع فيه
یہ زائد الفاظ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے واقعے سے تعظیمی قیام پر استدلال کو باطل قرار دیتے ہیں۔
(فتح الباري: 11/51)
❀ امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا أعلم فى قيام الرجل للرجل حديثا أصح من هذا، وهذا القيام على وجه البر لا على وجه التعظيم، أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم الأنصار أن يقوموا إلى سيدهم
میرے علم کے مطابق کسی آدمی کے لیے کھڑے ہونے کے متعلق یہ حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے۔ البتہ اس قیام سے مراد خوش اخلاقی کے طور پر کھڑا ہونا ہے، نہ کہ بطور تعظیم۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو حکم دیا تھا کہ اپنے سردار کی طرف لپکیں۔
(المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي: 708، وسنده صحيح)
❀ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا القيام يكون على وجه البر والإكرام، كما كان قيام الأنصار لسعد، وقيام طلحة لكعب بن مالك، ولا ينبغي للذي يقام له أن يريد ذلك من صاحبه، حتى إن لم يفعل يحقد عليه، أو يشكوه، أو يعاتبه
اس سے مراد حسن سلوک اور عزت کے لیے کھڑے ہونا ہے، انصار کا سیدنا سعد رضی اللہ عنہ اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کا سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے لیے کھڑا ہونا ثابت ہے۔ البتہ جو اپنے لیے پسند کرے کہ لوگ میرے لیے کھڑے ہوں، جو کھڑا نہ ہو اس پر برہمی کا اظہار کرے، اس کے لیے کھڑا ہونا درست نہیں ہے۔
(شعب الإيمان: 11/277)
❀ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ (م: 1176ھ) لکھتے ہیں:
عندي أنه لا اختلاف فيها فى الحقيقة، فإن المعاني التى يدور عليها الأمر والنهي مختلفة، فإن العجم كان من أمرهم أن تقوم الخدم بين أيدي سادتهم، والرعية بين أيدي ملوكهم، وهو من إفراطهم فى التعظيم، حتى كاد يتأخم الشرك، فنهوا عنه، وإلى هذا وقعت الإشارة فى قوله عليه السلام: كما يقوم الأعاجم
میرے مطابق ان احادیث میں کوئی اختلاف نہیں، کیونکہ جن معانی اور مقاصد پر امر اور نہی کا انحصار ہے، وہ مختلف ہیں۔ چنانچہ عجمیوں کا یہ دستور تھا کہ خدام اپنے آقاؤں کے سامنے اور رعایا اپنے بادشاہوں کے سامنے کھڑے رہتے تھے۔ یہ تعظیم میں افراط تھا اور اس کے شرک سے تعلق کے تانے بانے مل جاتے تھے۔ لہذا اس قسم کے قیام سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو منع کر دیا گیا۔ اسی کی طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں اشارہ ہے: عجمیوں کی مانند کھڑے نہ ہو جاؤ۔
(حجة الله البالغة: 2/306)
❀ علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ (م: 1329ھ) لکھتے ہیں:
قد أورد المؤلف فى هذا الباب حديثين دالين على جواز القيام، ثم ترجم بعد عدة أبواب بلفظ: باب الرجل يقوم للرجل يعظمه بذلك، وأورد فيه حديثين يدلان على النهي عن القيام، فكأنه أراد بصنيعه هذا الجمع بين الأحاديث المختلفة فى جواز القيام وعدمه، بأن القيام إذا كان للتعظيم مثل صنيع الأعاجم، فهو منهي عنه، وإذا كان لأجل العلم، والفضل، والصلاح، والشرف، والود، والمحبة، فهو جائز
امام ابوداؤد رحمہ اللہ اس باب کے تحت دو احادیث لائے ہیں جو قیام کے جواز پر دلالت کرتی ہیں۔ پھر کئی ابواب کے بعد انہوں نے باب قائم کیا: "آدمی کا آدمی کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونا” اور اس میں دو ایسی احادیث نقل کی ہیں جن سے کھڑے ہونے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ گویا وہ اس طرز عمل سے قیام کے جواز اور عدم جواز کے متعلق مختلف احادیث میں تطبیق کی یہ صورت بیان کرنا چاہتے ہیں کہ جب قیام تعظیم کی خاطر ہو، جیسا کہ عجمی لوگ کرتے ہیں، تو وہ منع ہے، اور جب قیام علم، فضل، نیکی، شرف، الفت اور محبت کی وجہ سے ہو تو جائز ہے۔
(عون المعبود شرح سنن أبي داود: 14/84)
❀ علامہ غزالی رحمہ اللہ (م: 505ھ) لکھتے ہیں:
القيام مكروه على سبيل الإعظام، لا على سبيل الإكرام
تعظیم کی نیت سے کھڑا ہونا مکروہ ہے، لیکن اکرام کے طور پر کھڑا ہونا مکروہ نہیں۔
(إحياء علوم الدين: 2/205)
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (م: 676ھ) فرماتے ہیں:
أما إكرام الداخل بالقيام، فالذي نختاره أنه مستحب لمن كان فيه فضيلة ظاهرة من علم أو صلاح أو شرف أو ولاية مصحوبة بصيانة، أو له ولادة أو رحم منه ونحو ذلك، ويكون هذا القيام للبر والإكرام والاحترام، لا للرياء والإعظام، وعلى هذا الذى اخترناه استمر عمل السلف والخلف
آنے والے کی تکریم کے لیے کھڑا ہونا ہمارے نزدیک مستحب ہے، جب کہ اس میں ظاہری فضیلت ہو، جیسے علم، نیکی، شرف، پرہیزگاری پر مبنی ولایت، عمر کی درازی، رشتہ داری یا اسی طرح کی کوئی اور خوبی۔ یہ قیام نیکی، اکرام اور احترام کے لیے ہو، نہ کہ ریاکاری یا تعظیم کے لیے۔ اسی پر سلف و خلف کا عمل رہا ہے۔
(الأذكار: ص 268)
❀ علامہ ابن الحاج رحمہ اللہ (م: 737ھ) فرماتے ہیں:
لو كان القيام المأمور به لسعد هو المتنازع فيه، لما خص به الأنصار، فإن الأصل فى أفعال القرب التعميم، ولو كان القيام لسعد على سبيل البر والإكرام، لكان هو صلى الله عليه وسلم أول من فعله، وأمر به من حضر من أكابر الصحابة، فلما لم يأمر به، ولا فعله، ولا فعلوه، دل ذلك على أن الأمر بالقيام لغير ما وقع فيه النزاع، وإنما هو لينزلوه عن دابته لما كان فيه من المرض، كما جاء فى بعض الروايات، ولأن عادة العرب أن القبيلة تخدم كبيرها، فلذلك حص الأنصار بذلك دون المهاجرين، مع أن المراد بعض الأنصار لا كلهم، وهم الأوس منهم، لأن سعد بن معاذ كان سيدهم دون الخزرج، وعلى تقدير تسليم أن القيام المأمور به حينئذ لم يكن للإعانة، فليس هو المتنازع فيه، بل لأنه غائب قدم، والقيام للغائب إذا قدم مشروع
اگر سعد رضی اللہ عنہ کے لیے قیام کا حکم تعظیمی قیام ہوتا، تو اس میں انصار کو خاص نہ کیا جاتا، کیونکہ نیکی کے کاموں میں اصل عموم ہوتا ہے۔ اگر سعد رضی اللہ عنہ کے لیے کھڑا ہونا نیکی اور اکرام کے لیے ہوتا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے خود ایسا کرتے اور وہاں موجود اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس کا حکم دیتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ حکم دیا، نہ خود کیا، اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیا، تو معلوم ہوا کہ قیام کا یہ حکم تعظیم کے لیے نہیں تھا، بلکہ صرف سعد رضی اللہ عنہ کو سواری سے اتارنے کے لیے تھا، کیونکہ وہ اس وقت بیمار تھے، جیسا کہ بعض روایات میں ہے۔ یہ عربوں کی عادت تھی کہ پورا قبیلہ اپنے بڑے کی خدمت کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم صرف انصار کو دیا، مہاجرین کو نہیں۔ پھر اس سے مراد سارے انصار بھی نہیں، بلکہ بعض انصار، یعنی قبیلہ اوس کے لوگ تھے، کیونکہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اوس کے سردار تھے، خزرج کے نہیں۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اس وقت قیام کا حکم اعانت کے لیے نہیں تھا، تو بھی یہ تعظیمی قیام نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ قیام ایک غائب کے آنے کی وجہ سے تھا، اور کسی آنے والے کے لیے کھڑا ہونا شرعاً جائز ہے۔
(المدخل: 1/248)
اگر اس قیام کو اکرام پر محمول کیا جائے، تو یہ بھی ہمارے نزدیک مشروع ہے۔
❀ امام حماد بن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كنا عند أيوب، فجاء يونس، فقال حماد: قوموا لسيدكم، أو قال: لسيدنا
ہم امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ کے پاس تھے۔ امام یونس رحمہ اللہ آئے، تو امام حماد رحمہ اللہ نے فرمایا: اپنے سردار کے لیے کھڑے ہو جائیں، یا فرمایا: ہمارے سردار کے لیے کھڑے ہو جائیں۔
(الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب: ص 302، وسنده حسن)
❀ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
قام إلى طلحة بن عبيد الله يهرول حتى صافحني وهنأني، والله، ما قام إلى رجل من المهاجرين غيره
سیدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ میرے استقبال کے لیے دوڑتے ہوئے آئے، مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارکباد دی۔ اللہ کی قسم! ان کے علاوہ مہاجرین میں سے کوئی بھی میرے استقبال کے لیے کھڑا نہیں ہوا۔
(صحيح البخاري: 4418؛ صحيح مسلم: 2769)
یہ قیام استقبال کی غرض سے تھا جو جائز و مباح ہے۔

جنازے کے لیے کھڑا ہونا:

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے پوچھا کہ کیا کافر کے جنازے کے لیے کھڑا ہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نعم، قوموا لها، فإنكم لستم تقومون لها، إنما تقومون إعظاما للذي يقبض النفوس
جی ہاں! اسے دیکھ کر کھڑے ہوا کرو، کیونکہ تم اس میت کی تعظیم میں کھڑے نہیں ہوتے، بلکہ اس ذات کی تعظیم میں کھڑے ہوتے ہو جو روحوں کو قبض کرتی ہے۔
(مسند الإمام أحمد: 2/168؛ مسند عبد بن حميد: 1340؛ المعجم الكبير للطبراني: 17/13، ح: 47، وسنده حسن)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (3035) اور امام حاکم رحمہ اللہ (1/357) نے صحیح کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ ہيثمي رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رجال أحمد ثقات
مسند احمد کے راوی ثقہ ہیں۔
(مجمع الزوائد: 3/27)
اس کا راوی ربیعہ بن سیف معافری جمہور کے نزدیک موثق، حسن الحدیث ہے۔
❀ امام طبرانی رحمہ اللہ کے الفاظ یہ ہیں:
إنما تقومون لمن معها من الملائكة
تم تو ان فرشتوں کی وجہ سے کھڑے ہوتے ہو جو اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔
(المعجم الكبير: 17/13)
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
مر على النبى صلى الله عليه وسلم بجنازة، فقام وقال: قوموا، فإن للموت فزعا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور فرمایا: کھڑے ہو جاؤ، کیونکہ موت کی ایک گھبراہٹ ہوتی ہے۔
(مسند الإمام أحمد: 2/287؛ سنن ابن ماجه: 1543، وسنده حسن)
حافظ ہيثمي رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔
(مجمع الزوائد: 3/27)
❀ حافظ بوصیری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
هذا إسناد صحيح، رجاله ثقات
سند صحیح ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔
(مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه: 2/37، ح: 556)
❀ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م: 852ھ) ان تمام احادیث میں تطبیق کرتے ہیں:
لأن القيام للفزع من الموت فيه تعظيم لأمر الله، وتعظيم للقائمين بأمره فى ذلك، وهم الملائكة
موت کی سختی کی وجہ سے کھڑا ہونا دراصل اللہ کے امر اور اس کے مامور کردہ فرشتوں کی تعظیم ہے۔
(فتح الباري شرح صحيح البخاري: 3/180)
جنازہ دیکھ کر کھڑا ہونا جائز اور مستحب ہے۔ اس کا وجوب منسوخ ہو چکا ہے، جبکہ استحباب باقی ہے۔

تنبيه:

❀ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ (م: 1391ھ) لکھتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر کھڑا ہونا سنت سلف صالحین ہے۔
(جاء الحق: جلد 1، ص 252)
کسی صحابی، تابعی یا تبع تابعی سے اس کا قطعاً ثبوت نہیں ملتا۔
نیز لکھتے ہیں:
شریعت نے اس کو منع نہیں کیا اور ہر ملک کے عام مسلمان اسے ثواب سمجھ کر کرتے ہیں اور جس کام کو مسلمان اچھا جانیں، وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے۔
(جاء الحق: جلد 1، ص 253)
یہ دلیل کسی طور قابل التفات نہیں کہ کوئی عمل چونکہ منع نہیں، اس لیے جائز ہے۔ شرعی احکام میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اذن اور اجازت ضروری ہوتی ہے۔
کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، ائمہ عظام رحمہم اللہ اور سلف صالحین رحمہم اللہ کا اس پر عمل ہے؟ کیا وہ بھی اسے اچھا سمجھتے تھے؟ اگر جواب ہاں ہے، تو یہ عمل اللہ کے ہاں اچھا ہو گا، ورنہ اس کے بدعت ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
عمومی دلائل سے بدعات کا ثبوت پیش کرنا درست نہیں، کیوں کہ بدعات عمومی دلائل کے تحت نہیں آتیں۔ دوسرے یہ کہ اس سے سلف کے بارے میں بدگمانی پیدا ہوتی ہے کہ وہ ان دلائل سے وہ نہ سمجھ پائے جو بعد والوں نے سمجھ لیا۔

تنبیہ

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر معراج بیان فرمایا:
مررت على موسى، وهو يصلي فى قبره
میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا، تو وہ قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔
(صحيح مسلم: 2375)
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
إذا إبراهيم قائم يصلي
ابراہیم علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔
(صحيح مسلم: 172)
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
إذا عيسى ابن مريم قائم يصلي
عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔
(صحيح مسلم: 172)
اس سے استدلال کیا گیا:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام کھڑے ہو کر پڑھنا انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔ لفظ صلوٰة کا معنی یہاں نماز نہیں، بلکہ درود و سلام پڑھنا ہے، کیونکہ صلوٰة کا لفظ صرف نماز کے لیے استعمال نہیں ہوتا، بلکہ رحمت بھیجنا، تعریف کرنا اور درود و سلام پڑھنے جیسے معانی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
گزارش ہے کہ بے شک لفظ صلوٰة کے کئی معانی ہیں، لیکن مذکورہ بالا احادیث میں درود و سلام کا معنی کرنا عربیت سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے، حدیث کی معنوی تحریف اور سلف صالحین رحمہم اللہ کی مخالفت بھی اس سے لازم آتی ہے۔ یہاں صلوٰة کا لفظ درود و سلام کے معنی میں ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ سلف صالحین رحمہم اللہ میں سے کسی نے بھی یہ معنی و مفہوم بیان نہیں کیا۔ وہ بھلا کیسے بیان کرتے، وہ تو اہل علم و تقویٰ تھے۔ صلوٰة کا لفظ اسی وقت درود و سلام کے معنی میں ہو گا جب اس کے بعد "علی” آئے۔ احادیث میں انبیائے کرام علیہم السلام کے بارے میں قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ کے الفاظ ہیں، قائم يصلي عليه فى قبره کے نہیں۔
❀ علامہ عبدالرؤف مناوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
أى يدعو ويثني عليه ويذكره، فالمراد الصلاة اللغوية، وهى الدعاء والثناء، وقيل المراد الشرعية، وعليه القرطبي
وہ دعا کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اس کا ذکر کر رہے تھے۔ لہذا یہاں مراد لغوی صلوٰة ہے، جو دعا اور حمد و ثنا کے معنی میں ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں شرعی نماز مراد ہے۔ علامہ قرطبی رحمہ اللہ اسی موقف پر ہیں۔
(فيض القدير: 5/519-520)
انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ دوسرے لوگوں کا بھی قبر میں نماز پڑھنا ثابت ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مؤمن کو قبر میں کہا جائے گا: بیٹھ جا، وہ بیٹھ جائے گا۔ اسے سورج غروب ہوتا دکھایا جائے گا۔ اسے کہا جائے گا: آپ کے ہاں جو مبعوث ہوئے، ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ گواہی مطلوب ہے؟ وہ کہے گا:
دعوني حتى أصلي، فيقولون: إنك ستفعل، فأخبرنا عما نسألك عنه
چھوڑو، میں نماز پڑھ لوں۔ فرشتے کہیں گے: پڑھ لینا، پہلے سوال کا جواب دے دو۔
(صحيح ابن حبان: 3113؛ المستدرك للحاكم: 1/379-380، وسنده حسن)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ حافظ ہيثمي رحمہ اللہ (مجمع الزوائد: 3/51-52) نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔
امام ثابت بنانی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:
اللهم إن كنت أعطيت أحدا أن يصلي لك فى قبره، فأعطني ذلك
اے اللہ! اگر تو نے کسی کو یہ توفیق دی کہ وہ اپنی قبر میں تیری عبادت کرے، تو مجھے بھی یہ توفیق عطا فرما۔
(مسند علي بن الجعد: 1379؛ المعرفة والتاريخ للفسوي: 2/59؛ شعب الإيمان للبيهقي: 3/155، ح: 1391، وسنده صحيح)
اس عظیم تابعی کے قول سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قبر میں صلوٰة سے مراد نماز ہی ہے، نہ کہ درود وغیرہ۔
قارئین! اب مسئلہ واضح ہو گیا ہے کہ واقعی اس سے سلف صالحین رحمہم اللہ کی مخالفت لازم آتی ہے، کیونکہ اگر ان دلائل سے درود مراد ہوتا، تو سلف صالحین رحمہم اللہ ضرور اسے بیان کرتے۔
❀ علامہ ابن الحاج رحمہ اللہ (م: 737ھ) لکھتے ہیں:
ما حدث بعد السلف رضي الله عنهم لا يخلو إما أن يكونوا علموه، وعلموا أنه موافق للشريعة ولم يعملوا به، ومعاذ الله أن يكون ذلك، إذ إنه يلزم منه تنقيصهم وتفضيل من بعدهم عليهم، ومعلوم أنهم أكمل الناس فى كل شيء، وأشدهم اتباعا، وإما أن يكونوا علموه وتركوا العمل به، ولم يتركوه إلا لموجب أوجب تركه، فكيف يمكن فعله؟ هذا مما لا يتحلل، وإما أن يكونوا لم يعلموه، فيكون من ادعى علمه بعدهم أعلم منهم، وأعرف بوجوه البر وأحرص عليها، ولو كان ذلك خيرا لعلموه ولظهر لهم، ومعلوم أنهم أعقل الناس وأعلمهم
جو چیزیں سلف صالحین رضی اللہ عنہم کے بعد ظاہر ہوئیں، وہ تین حالتوں سے خالی نہیں: یا تو سلف کو ان کا علم تھا اور وہ جانتے تھے کہ یہ شریعت کے موافق ہیں، لیکن انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا۔ معاذ اللہ! ایسا ہونا ممکن نہیں، کیونکہ اس سے سلف کی تنقیص اور بعد والوں کی ان پر فضیلت لازم آتی ہے، جبکہ یہ معلوم ہے کہ سلف ہر چیز میں سب سے کامل اور شریعت کی اتباع میں سب سے آگے تھے۔ یا پھر انہیں اس کا علم تھا، لیکن انہوں نے اس پر عمل نہ کیا، اور انہوں نے اسے کسی ایسی وجہ سے چھوڑا جو اس کے ترک کو واجب کرتی تھی، تو پھر اسے کرنا کیسے ممکن ہے؟ یہ ان چیزوں میں سے ہے جو حلال نہیں۔ یا پھر انہیں اس کا علم ہی نہ تھا، تو جو شخص ان کے بعد اس کے علم کا دعویٰ کرے، وہ سلف سے زیادہ عالم، نیکی کے طریقوں کو زیادہ جاننے والا اور اس پر زیادہ حریص ہو گا۔ اگر یہ خیر کا کام ہوتا، تو سلف اسے جانتے اور ان پر ظاہر ہوتا۔ یہ بات مسلم ہے کہ وہ سب سے زیادہ عقلمند اور عالم تھے۔
(المدخل: 4/278)

الحاصل:

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سن کر درود کے لیے کھڑا ہونا جائز نہیں، بلکہ بدعت ہے۔ اگر یہ نیکی کا کام ہوتا، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین رحمہم اللہ اور ائمہ دین رحمہم اللہ اس سے قطعاً غافل نہ رہتے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے