درست نیت کے ساتھ شرعی الفاظ کا خیال بھی ضروری ہے
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

نیت صحیح ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ زبان سے جو چاہو کہہ سکتے ہو

سوال:

کیا نیت کی خلوص کے ساتھ الفاظ کی صحت کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر دل میں اخلاص ہو تو الفاظ کا درست ہونا اتنا ضروری نہیں۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

  • اگر الفاظ کی صحت سے مراد یہ ہے کہ انہیں عربی زبان کے قواعد و ضوابط کے مطابق ہونا چاہیے، تو اس حد تک یہ بات درست مانی جا سکتی ہے کہ اس کا تعلق عقیدے کی درستگی سے زیادہ نہیں ہے۔
  • یعنی اگر کسی جملے کا مفہوم درست ہو، لیکن اس میں عربی زبان کے مطابق الفاظ استعمال نہ کیے گئے ہوں، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

کفریہ یا شرکیہ الفاظ سے اجتناب ضروری ہے

  • لیکن اگر الفاظ کی درستگی سے مراد ایسے الفاظ کو چھوڑنا ہے جو کفر یا شرک کی طرف اشارہ کرتے ہوں، تو پھر یہ کہنا کہ "نیت درست ہو تو جو چاہو کہہ سکتے ہو” درست نہیں ہے۔
  • ایسے کفریہ یا شرکیہ الفاظ کو ترک کرنا بہت ضروری اور انتہائی اہم ہے۔

الفاظ بھی شریعت کے مطابق ہونے چاہییں

  • اس لیے یہ کہنا نامناسب ہے کہ "اگر نیت صحیح ہو تو زبان سے جو چاہو کہہ لو”۔
  • درست رویہ یہ ہے کہ نیت کے ساتھ الفاظ بھی شریعتِ اسلامی کے مطابق ہوں، تب ہی بات مکمل اور درست ہوگی۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1