دباغت سے پہلے مردار یا جھٹکا کی کھال بیچنا ناجائز ہے
ماخوذ : فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری، جلد نمبر 1، صفحہ نمبر 181

مردار یا جھٹکا کی کھال کی خرید و فروخت کا شرعی حکم

سوال:

مردار یا جھٹکا کی کھال کی خرید و فروخت جائز ہے یا نہیں؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مردار یا جھٹکا کی کھال کے متعلق شرعی حکم یہ ہے کہ:

دباغت (چمڑے کی صفائی و پاکی) سے پہلے اس کی خرید و فروخت ناجائز اور ممنوع ہے۔
لیکن دباغت کے بعد اس کی خرید و فروخت جائز اور درست ہے۔

حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں:

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

"عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: تُصُدِّقَ عَلَى مَوْلَاةٍ لِمَيْمُونَةَ بِشَاةٍ فَمَاتَتْ فَمَرَّ بِهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «هَلَّا أَخَذْتُمْ إِهَابَهَا فَدَبَغْتُمُوهُ فَانْتَفَعْتُمْ بِهِ؟» فَقَالُوا: إِنَّهَا مَيْتَةٌ فَقَالَ: «إِنَّمَا حَرُمَ أَكْلُهَا "

(صحیح مسلم، كتاب الحيض، باب طهارة جلود الميتة بالدباغ، حدیث 363، 1/277)

اس حدیثِ مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ مردار جانور کی کھال کا کھانا حرام ہے، لیکن اگر اس کو دباغت دی جائے تو اس سے فائدہ اٹھانا، یعنی استعمال یا خرید و فروخت جائز ہو جاتا ہے۔

فتویٰ:

شیخ الحدیث مبارکپوری رحمہ اللہ نے فرمایا:

دباغت سے پہلے خریدوفروخت ناجائز اورممنوع ہے، اور دباغت کے بعد جائز اوردرست ہے۔

(محدث، جلد: 9، شمارہ: 8، ذی القعدہ 1360ھ / دسمبر 1941ء)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1