داڑھی کے خلال سے متعلق 12 شرعی احکام و تفصیلات
ماخوذ :(فتاویٰ الدین الخالص، جلد 1، صفحہ 373)

سوال

داڑھی کے خلال کا کیا حکم ہے؟ اس کا درست طریقہ کیا ہے؟ اور کتنی مرتبہ خلال کرنا چاہیے؟ تفصیل سے بیان کریں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

✦ داڑھی کے خلال کے بارے میں صحیح احادیث

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے تو پانی کا ایک چلو لے کر اپنی ٹھوڑی کے نیچے ڈالتے اور داڑھی کا خلال کرتے اور فرماتے:
"مجھے میرے رب نے ایسا ہی حکم دیا ہے”
(سنن ابو داؤد: 1/30، رقم: 145، بیہقی: 1/54، بطریق ولید بن زوران، حدیث حسن)

اس حدیث کی سندوں کو امام حاکم (1/149) نے صحیح کہا ہے، اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی تائید کی ہے۔ ابن قطان نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔

امام حاکم رحمہ اللہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کی ہے، اور حضرت عمار بن یاسر، انس، اور عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی کے خلال کی روایت موجود ہے۔

ابن ماجہ (1/72، رقم: 429) میں حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو داڑھی کا خلال کرتے ہوئے دیکھا۔”

ترمذی (رقم: 29، 30) میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی موجود ہے۔

ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے اور داڑھی کا خلال کرتے دیکھا۔

✦ دیگر اہم حوالہ جات

اروا الغلیل (1/130، رقم: 92)، طبرانی اوسط، دارقطنی، بیہقی اور ابن السکن نے ان روایات کو صحیح کہا ہے۔

وضو کے دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم رخسار ملتے اور نیچے سے انگلیوں کے ذریعے داڑھی کا خلال کرتے تھے۔
(نیل الاوطار: 1/185 – سند میں عبدالواحد مختلف فیہ ہے)

✦ داڑھی کے خلال کے وجوب کے بارے میں علماء کے اقوال

قول اول: وجوب

داڑھی کا خلال واجب ہے کیونکہ:

  • احادیث بکثرت موجود ہیں۔
  • بعض احادیث میں امر (حکم) آیا ہے، جیسے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث: "اسی طرح مجھے میرے رب نے حکم دیا ہے”
  • نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس عمل پر مداومت کرنا وجوب کی دلیل ہے۔

قول ثانی: استحباب

بعض علماء کے نزدیک داڑھی کا خلال مستحب ہے کیونکہ:

  • اگرچہ احادیث کثرت سے ہیں، لیکن ان میں بعض ضعیف بھی ہیں۔
  • علامہ شوکانی رحمہ اللہ (نیل الاوطار: 1/185-186) فرماتے ہیں کہ یہ احادیث افعال پر مشتمل ہیں، امر نہیں۔
  • "اسی طرح مجھے میرے رب نے حکم دیا ہے” والا قول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہو سکتا ہے۔

✦ بعض دیگر علماء کی آراء

امام احمد رحمہ اللہ: داڑھی کے خلال کے بارے میں کوئی صحیح چیز نہیں۔

ابن ابی حاتم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے داڑھی کے خلال کے بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں۔
(مراجعہ کریں: زاد المعاد: 1/68، نصب الرایہ: 1/26)

علامہ مبارکپوری (تحفۃ الاحوذی: 1/43): ترمذی، حاکم، ابن حبان وغیرہ کی تصحیح کی روشنی میں کہتے ہیں کہ داڑھی کے خلال کی احادیث کثرت سے ہیں، اور ان کا مجموعہ دلالت کرتا ہے کہ اس کی اصل ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کو حسن قرار دیا۔

✦ اسحاق رحمہ اللہ کا قول

وہ وجوب کے قائل ہیں:

  • اگر کوئی بھول کر یا تاویل کے تحت خلال ترک کرے، تو وضو درست ہے۔
  • اگر جان بوجھ کر ترک کرے تو وضو دوبارہ کرے۔

(ترمذی، منار للمقبلی: 1/50)

✦ دیگر صحابہ و تابعین سے روایت

ابن ابی شیبہ (1/12) نے درج ذیل حضرات سے داڑھی کے خلال کی روایت کی ہے:

  • عمار بن یاسر
  • ابن عمر
  • انس
  • علی
  • ابو امامہ
  • عثمان رضی اللہ عنہم
  • ابن سیرین
  • ابراہیم رحمہما اللہ

✦ خلال کی تعداد: دو یا تین بار؟

حدیث اول:

ابن ماجہ (رقم: 431) میں انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے تو اپنی انگلیاں کشادہ کر کے داڑھی کا دوبارہ خلال کرتے تھے۔”

یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ یحیٰ بن کثیر اور یزید الرقاشی ضعیف راوی ہیں۔
باقی حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، مگر دو بار کا ذکر ضعیف ہے۔

حدیث دوم:

امام حاکم (1/149) نے روایت کیا:
عامر بن شقیق کہتے ہیں: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کیا، منہ دھویا، استنشاق و مضمضہ کیا تین بار، کانوں کا مسح کیا، اور داڑھی کا خلال تین بار کیا۔
اور کہا: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا جس طرح تم نے مجھے کرتے دیکھا۔”

ذہبی رحمہ اللہ نے تلخیص میں کہا کہ ابن معین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، مگر اس حدیث کے شواہد ہیں، لیکن تین بار خلال کرنے کی تصریح کسی صحیح حدیث میں نہیں۔
(مراجعہ: تلخیص الحبیر: 1/85)

✦ داڑھی کے خلال کا طریقہ

پانی کا ایک چلو لیکر ٹھوڑی کے نیچے داخل کیا جائے۔
پھر انگلیوں کو نیچے سے داڑھی میں داخل کرکے خلال کیا جائے۔

✦ خلاصہ

اگرچہ داڑھی کے خلال کی احادیث میں کچھ اختلاف ہے، مگر:

"بہتر یہ ہے کہ داڑھی کا خلال کیا جائے تاکہ سنت کی پیروی ہو اور دین میں احتیاط کا پہلو اختیار کیا جائے۔”

خاص طور پر جب کئی صحابہ کرام اور تابعین سے اس عمل کا ثبوت ہے، تو اسے صرف بعض علماء کے فتووں کی بنیاد پر ترک نہ کیا جائے۔

(مراجعہ: المغنی: 1/116، تمام المنہ: ص 93)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1