داڑھی کی مقدار اور شرعی حکم: کم از کم ایک مٹھی داڑھی واجب ہے
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 858

سوال

داڑھی کی مقدار طول کیا ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات بالکل واضح ہے کہ داڑھی رکھنا انبیاء کرام ﷤ کی متوارث سنت ہے، جس کی تصریح قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں واضح طور پر موجود ہے۔

قرآنِ مجید سے استدلال

اللہ تعالیٰ کے کلام میں حضرت ہارون علیہ السلام کا قول نقل ہوا ہے جب انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا:

﴿قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي… ﴿٩٤﴾…طه﴾

"ہارون (علیہ السلام) نے کہا: اے میرے ماں جائے بھائی! میری داڑھی نہ پکڑو اور نہ ہی میرے سر کے بال کھینچو۔”

یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ انبیاء کرام علیہ السلام داڑھی رکھتے تھے۔

سنتِ نبوی ﷺ سے استدلال

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَقَصُّ الْأَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَالسِّوَاكُ، وَالِاسْتِنْشَاقُ، وَنَتْفُ الْإِبْطِ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ، وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ قَالَ مُصْعَبٌ: وَنَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةُ. (النسائي مع تعلیقات السلفیة، ج2، ص269)

یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دس چیزیں فطرت (سنت انبیاء) میں سے ہیں:

➊ مونچھیں کاٹنا
➋ ناخن تراشنا
➌ انگلیوں کی گرہیں دھونا
➍ داڑھی بڑھانا
➎ مسواک کرنا
➏ ناک میں پانی ڈالنا
➐ بغلوں کے بال اکھاڑنا
➑ زیر ناف کے بال مونڈنا
➒ استنجا کرنا
➓ کلی کرنا

اس حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ داڑھی رکھنا فطرتِ انسانی اور سنتِ انبیاء علیہم السلام میں شامل ہے۔

داڑھی بڑھانے کا واضح حکم

صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى (صحیح بخاری: ج2، ص875، صحیح مسلم: ج1، ص129)

"مونچھیں خوب کترواؤ اور داڑھی بڑھاؤ۔”

صحیح مسلم کی ایک روایت میں الفاظ ہیں: «أوفوا اللحى» یعنی "داڑھی کو مکمل ہونے دو۔”

داڑھی بڑھانے کے متعلق مختلف الفاظ

امام نووی لکھتے ہیں:

"احادیث میں داڑھی کے متعلق پانچ الفاظ آئے ہیں: اعفوا، اوفوا، ارخوا، ارجوا، وفروا۔ ان سب کا معنی ہے: داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑ دو۔ یہی الفاظ حدیث کے ظاہر مفہوم کو بیان کرتے ہیں۔” (نووی، ج1، ص129)

داڑھی منڈوانے یا کترانے کی ممانعت

ان تمام صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ داڑھی منڈوانا یا کترانا جائز نہیں، بلکہ داڑھی منڈوانا مجوسیوں (آتش پرستوں) کا عمل ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

خَالِفُوا الْمَجُوسَ (صحیح مسلم)

لہٰذا مسلمانوں کو ان کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔

ضعیف روایت کی وضاحت

ترمذی میں ایک روایت آتی ہے:

أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا. (ترمذی مع تحفة الأحوذی، ج4، ص11)

یعنی "نبی کریم ﷺ اپنی داڑھی کے عرض اور طول سے کچھ بال کاٹ لیتے تھے۔”

مگر یہ روایت ضعیف ہے۔

امام ترمذی نے خود فرمایا:

هذا حديث غريب، وسمعت محمد بن إسمعيل يقول: عمر بن هارون مقارب الحديث، لا أعرف له حديثا ليس له أصل، أو قال ينفرد به إلا هذا الحديث. (ترمذی مع تحفة الأحوذى، ج4، ص11)

اسی طرح علامہ عبدالرحمن مبارکپوری نے بھی وضاحت کی ہے کہ عمر بن ہارون متروک راوی ہے، لہٰذا یہ روایت قابلِ استدلال نہیں۔

صحابہ کرام کے عمل سے رہنمائی

صحیح بخاری میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مٹھی بھر سے زائد داڑھی کے بال کاٹ دیتے تھے۔

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کی داڑھی مٹھی سے زائد دیکھ کر وہ زائد حصہ کاٹ دیا تھا۔

اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی مٹھی بھر سے زیادہ داڑھی کٹوا دیتے تھے۔

فقہی حکم

علماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ:

کم از کم ایک مٹھی داڑھی رکھنا واجب ہے۔
اس سے کم داڑھی رکھنا یا منڈوانا ممنوع ہے۔
✿ مٹھی سے زائد داڑھی کاٹنے والے کو برا نہیں کہا جا سکتا، تاہم نہ کاٹنا افضل اور زیادہ محفوظ ہے۔

نتیجہ

خلاصہ یہ ہے کہ داڑھی کم از کم ایک مٹھی بھر رکھنا شرعاً واجب ہے، اور اس سے کم رکھنا داڑھی منڈوانے کے مترادف ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے