داڑھی کی لمبائی اور قبضہ والی حدیث کا صحیح حکم
ماخوذ : قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل، جلد 01، ص 519

سوال

داڑھی کتنی لمبی ہونی چاہیے؟
اور حدیثِ ابن عمر رضی اللہ عنہما، جس میں ذکر ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما قبضہ سے زیادہ داڑھی کٹوا دیتے تھے، اس کے بارے میں وضاحت کریں۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

داڑھی رکھنے کا حکم

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ داڑھی رکھنا فرض اور ضروری ہے۔

  • اسے منڈوانا یا کاٹنا درست نہیں۔
  • "قبضہ” (مٹھی بھر) والی تحدید کسی مرفوع صحیح حدیث میں وارد نہیں ہوئی۔

صحابہ کرام کا عمل اور نبی کریم ﷺ کا فرمان

کسی بھی امتی کا قول یا عمل، چاہے وہ کسی صحابی کا ہی کیوں نہ ہو، رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے قول یا عمل کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔

مثال:

  • حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، جو مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ، جلیل القدر صحابی اور فضیلت میں دوسرے درجے پر ہیں، نے فیصلہ فرمایا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی ہوں گی۔
    • لیکن ان کے اس فیصلے کو صرف اس لیے نہیں اپنایا جاتا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں ایسی طلاق ایک ہی شمار ہوتی تھی۔
  • حج تمتع سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منع فرمایا۔
    • جب کسی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا:
      "رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حج تمتع کیا ہے”۔
    • سائل نے کہا: "آپ کے والد تو اس سے منع کرتے ہیں”۔
    • حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
      "آیا میرے باپ کے امر کا اتباع کیا جائے گا یا رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے امر کا؟”
  • مسند امام احمد میں موجود ہے: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی حدیث بیان کی کہ:
    "عورتوں کو مساجد میں جانے سے نہ روکو”۔
    • حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ایک بیٹا کہنے لگا: "ہم تو انہیں ضرور روکیں گے”۔
    • اس پر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
      "میں تجھے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور تو کہتا ہے ہم انہیں ضرور روکیں گے”۔
    • پھر یہ فرمایا: "فَمَا کَلَّمَہُ عَبْدُاﷲِ حَتّٰی مَاتَ”
      (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس بیٹے سے اس وقت تک بات نہیں کی جب تک وہ فوت نہ ہو گیا)۔

قبضہ والے عمل پر حکم

کسی صحابی کا قول یا عمل رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی تقریر تب ہی شمار ہوگا جب:

  1. وہ کسی آیتِ قرآنی یا نبی کریم ﷺ کی کسی ثابت شدہ حدیث سے نہ ٹکرائے۔
  2. وہ عمل نبی کریم ﷺ کے زمانے میں سرزد ہوا ہو۔

قبضہ والے عمل میں یہ دونوں شرطیں موجود نہیں، لہٰذا اسے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی تقریر قرار دینا یا سمجھنا صحیح نہیں۔

صحابہ کرام کی حیثیت

  • صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معصوم نہیں تھے کہ ان سے کوئی خطا نہ ہو۔
  • ان کی شان یہ ہے کہ ان سے جو بھی چھوٹی موٹی خطا ہوئی، اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دی:

    {وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ}

لہٰذا کسی صحابی یا غیر صحابی کے قول و عمل کو بنیاد بنا کر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے فرامین اور اعمال کو چھوڑ دینا درست نہیں۔

روایت اور راوی کے عمل کا فرق

اگر کسی راوی کا عمل یا قول اس کی بیان کردہ روایت کے خلاف ہو، تو اس کے عمل یا قول کو لینا اور روایت کو چھوڑ دینا اہل تقلید کا شیوہ ہے، اہل تحقیق کا نہیں۔

محدثین نے اصولِ حدیث میں اس قاعدے کا رد کیا ہے۔ اس موضوع پر حافظ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ کا ایک تفصیلی مضمون جلد منظر عام پر آنے والا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے