داڑھی کی شرعی مقدار اور سنت کے مطابق اس کی لمبائی
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 510

سوال

داڑھی کی مقدار کتنی ہونی چاہئے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
داڑھی کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا حکم ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے، اس لیے داڑھی رکھنا فرض ہے۔

(الف) داڑھی کہتے کس کو ہیں؟

◈ داڑھی سے مراد وہ بال ہیں جو رخساروں اور ٹھوڑی پر ہوتے ہیں۔
◈ داڑھی کا حصہ یہ ہے:

➊ دائیں آنکھ کی دائیں جانب سے لے کر ٹھوڑی کے آخر تک۔

➋ بائیں آنکھ کی بائیں جانب سے لے کر ٹھوڑی کے آخر تک۔

➌ دونوں اطراف کے رخساروں اور جبڑے تک کے بال بھی داڑھی میں شمار ہوں گے۔

عربی لغت میں بھی یہی داڑھی کی حد مقرر ہے۔
لہٰذا:

◈ جو لوگ داڑھی کو سیدھا اور کھڑا دکھانے کے لیے خط بناتے ہیں یا رخساروں کے بال صاف کرتے ہیں، وہ ناجائز عمل کے مرتکب ہوتے ہیں۔
◈ اس طرح کا خط لینا ہرگز جائز نہیں۔

داڑھی کی لمبائی کتنی ضروری ہے؟

اس سلسلے میں اصولی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِى رَ‌سُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْ‌جُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ‌ وَذَكَرَ‌ اللَّـهَ كَثِيرً‌ا﴾ (الاحزاب:٢١)
"یعنی ہر بات، کام اور معاملے میں رسول اللہ ﷺ کا نمونہ بہترین نمونہ ہے، اس لیے اے مومنو! تم بھی ہر بات اور کام میں ان کا نمونہ اختیار کرو۔”

احادیث سے رہنمائی

◈ جب ہم احادیث میں نبی کریم ﷺ کا نمونہ دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی داڑھی مبارک سینے پر پڑتی تھی۔
◈ یہی داڑھی کی شرعی حد ہے، یعنی داڑھی اتنی ہونی چاہیے کہ وہ سینے تک پہنچے۔
◈ اس سے زیادہ بڑھ جائے تو اسے کاٹا جاسکتا ہے، کیونکہ اصل شرعی حد وہی ہے جو نبی ﷺ کی مبارک سنت سے ہمیں دکھا دی گئی ہے۔

لہٰذا نبی کریم ﷺ کی اتباع میں داڑھی کو اتنا رکھنا ہے کہ وہ سینے تک پہنچے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے