سوال:
➊ کیا ایک مشت سے زیادہ داڑھی کٹوانے والا گناہگار ہے؟
➋ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک مشت سے زائد داڑھی کے بالوں کو کٹوا دیا کرتے تھے، اس کی وضاحت بھی کر دیں؟
➌ کیا کسی صحابی کا قول و فعل حجت ہے یا نہیں؟
➍ کیا داڑھی کا بڑھانا فرض ہے یا نہیں؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(1) ایک مشت سے زائد یا کم داڑھی کٹوانے کا حکم
ایک مشت سے زیادہ یا کم داڑھی کٹوانا گناہ ہے۔
(2) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل
ان کے اس عمل کا حکم اوپر نمبر 1 میں بیان ہو گیا ہے۔
(3) صحابی کے قول و فعل کی حیثیت
◈ اگر صحابی کا قول یا فعل حقیقتاً یا حکماً مرفوع روایت نہ ہو، یا مرفوع کے حکم میں نہ ہو، تو وہ دین میں حجت و دلیل نہیں۔
◈ اس بات کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿فَرُدُّوْہُ إِلَی اﷲِ وَالرَّسُوْلِ﴾ [النساء: 59، پ 5]
’’تو اس کو اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ‘‘
(4) داڑھی کا بڑھانا
◈ ہاں، داڑھی بڑھانا فرض ہے۔
◈ اس کی دلیل رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا داڑھی بڑھانے کا حکم ہے، کیونکہ اس حکم کو اس کی حقیقت یعنی وجوب سے پھیرنے والا کوئی قرینہ موجود نہیں۔
◈ روایت ﴿یَأْخُذُ مِنْ طُوْلِہَا وَعَرْضِہَا﴾ کمزور اور بے اصل ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معاملہ
◈ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ صحابہ کرام معصوم نہیں تھے کہ ان سے گناہ سرزد نہ ہو۔
◈ اگر وہ معصوم ہوتے تو:
➊ بعض کو سنگسار نہ کیا جاتا،
➋ بعض کے ہاتھ نہ کاٹے جاتے،
➌ اور بعض کو کوڑے نہ لگائے جاتے۔
◈ البتہ ان کا مقام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کو معاف فرما دیا ہے:
﴿وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ﴾
◈ اور انہیں اپنی رضا کی سند عطا کر دی ہے:
﴿رَضِیَ اﷲُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَأَعَدَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا أَبَدًا﴾
[اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں اور اللہ نے ان کے لیے بہشت تیار کیا ہے جن کے تلے نہریں جاری ہوں گی ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب