داڑھی سے متعلق 6 شرعی احکام صحیح احادیث کی روشنی میں
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص، جلد 1، صفحہ 415

داڑھی رکھنا فرض ہے اور اس کی حد – ایک تفصیلی شرعی جائزہ

مقدمہ

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!داڑھی کو بڑھانا فرض ہے، اور اس کی مخالفت وہی کرتا ہے جو شریعت کے اصول و دلائل سے ناواقف ہے۔

اسلامی نصوص میں داڑھی کے بارے میں متعدد واضح دلائل موجود ہیں۔ داڑھی کا منڈانا قومِ لوط کا عمل تھا، اور اس امت کے فاسق لوگ انہی کی پیروی کرتے ہیں، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"تم اپنے سے پہلے امتوں کے طریقوں کی پیروی کرو گے”

کچھ جدید ڈاکٹرز نے داڑھی بڑھانے کو دین سے غفلت کی علامت قرار دینے کی کوشش کی ہے، لیکن سچے مسلمان ان کی بے بنیاد باتوں سے دھوکہ نہیں کھاتے اور اپنے نبی ﷺ کی پیروی کرتے ہیں۔

داڑھی چھوڑنے (معاف کرنے) کے دلائل

➊ حضرت ہارون علیہ السلام کا قول

﴿يَبنَؤُمَّ لا تَأخُذ بِلِحيَتى وَلا بِرَ‌أسى﴾ (سورة طه: 94)
"اے میرے ماں جائے بھائی! میری داڑھی نہ پکڑ اور میرے سر کے بال نہ کھینچ۔”
یہ آیت داڑھی کے وجود اور اس کے قابلِ گرفت ہونے کو ثابت کرتی ہے، جو انبیاء کی سنت ہے۔

➋ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کی ممانعت

﴿وَلَـٔامُرَ‌نَّهُم فَلَيُغَيِّرُ‌نَّ خَلقَ اللَّـهِ﴾ (سورة النساء: 119)
"اور میں انہیں ضرور حکم دوں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی صورتیں ضرور بگاڑ دیں گے۔”
یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ اللہ کی تخلیق میں بلا اجازت تبدیلی کرنا شیطان کی اطاعت ہے اور اللہ کی نافرمانی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرتی ہیں، اور اس میں حسن کے لئے داڑھی منڈانا بھی شامل ہے، کیونکہ علت دونوں کی ایک ہی ہے۔ (تمام المنع: ص 78–80)

➌ احادیث نبوی ﷺ – داڑھی معاف کرنے کا حکم

الف۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت:
"اَحْفُوْا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَى”
(بخاری: 2؍ 129، نسائی: 3؍ 1039)

ب۔ ایک اور روایت میں:
"اِنْهَكُوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَى”
(صحیح بخاری: 2؍ 875)

ج۔ مشرکوں کی مخالفت کا حکم:
"خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ، أَوْفِرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ”
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ حج یا عمرہ کرتے وقت داڑھی سے مٹھی بھر لیتے، اور جو زائد ہوتی، اسے کاٹ دیتے۔ جو داڑھی منڈاتا اور مونچھیں بڑھاتا ہے، وہ مشرکوں سے مشابہت اختیار کرتا ہے۔

➍ مرد و زن کی مشابہت پر لعنت

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"رسول اللہ ﷺ نے مردوں سے مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں اور عورتوں سے مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر لعنت فرمائی۔”
(بخاری، مشکاۃ: 2؍ 380)

➎ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت

"جُزُّوا الشَّوَارِبَ، وَأَرْخُوا اللِّحَى، خَالِفُوا الْمَجُوسَ”
(ابو عوانہ، مسلم: 1؍ 129)

➏ فطری خصائل میں داڑھی معاف کرنا

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"فطرت کے دس خصائل ہیں: مونچھیں کترنا، داڑھی چھوڑنا، مسواک کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، ناخن کاٹنا، انگلیوں کے جوڑ دھونا، بغلوں کے بال اکھیڑنا، زیر ناف بال مونڈنا، استنجا کرنا…”
(مسلم: 1؍ 129، مشکاۃ: 1؍ 44)

داڑھی معاف کرنے کا حکم – امر وجوب کے لیے ہے

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿فَليَحذَرِ‌ الَّذينَ يُخالِفونَ عَن أَمرِ‌هِ أَن تُصيبَهُم فِتنَةٌ أَو يُصيبَهُم عَذابٌ أَليمٌ﴾
(سورة النور: 63)
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے حکم کی مخالفت سنگین انجام کا باعث بن سکتی ہے۔

نبی کریم ﷺ کی داڑھی کا بیان

صحیح بخاری، مسلم اور نسائی میں باب "اتخاذ الجمہ” (جمہ رکھنا) میں بیان ہوا ہے کہ:
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ ﷺ درمیانہ قد، چوڑے سینے والے، گھنی داڑھی والے، کانوں کی لو تک پہنچنے والے بال رکھنے والے تھے…”
(آداب الزفاف: ص 135)

اہل کتاب اور مجوس کی مخالفت کا حکم

امام احمد نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اپنی داڑھیاں گھنی کرو، مونچھیں چھوٹی کرو، اور اہل کتاب کی مخالفت کرو”
(احمد: 5؍ 264، مجمع الزوائد: 5؍ 131)

داڑھی کی مقدار – مٹھی سے زائد کترنے کا حکم

➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت

"وہ حج یا عمرہ کرتے تو داڑھی سے مٹھی بھر لیتے، اور جو زائد ہوتی، اسے کاٹ دیتے۔”
(بخاری: 2؍ 875، ابو داؤد: 1؍ 328، نسائی، حاکم، دارقطنی، نصب الرایہ: 2؍ 457)

➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا عمل

"وہ داڑھی مٹھی میں لے کر زائد حصے کو کاٹتے تھے”
(ابن ابی شیبہ: 8؍ 373)

➌ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان

"ہم مونچھوں کو لمبا کرتے تھے مگر حج و عمرہ میں نہیں”
(ابو داؤد: 2؍ 225 – سند ضعیف ہے)

➍ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا عمل بھی ذکر ہوا ہے

(تحفة الاحوذی: 4؍ 11)

علماء کی آراء

زیلعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ آثار صحیح مرفوع احادیث کے مقابلے میں استدلال کے قابل نہیں، کیونکہ مرفوع احادیث کا عموم داڑھی معاف کرنے کے وجوب پر دلالت کرتا ہے۔

شیخ صالح بن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"بعض اہل علم نے مٹھی سے زائد داڑھی کا کترنا جائز قرار دیا ہے، لیکن بہتر وہی ہے جس پر سابقہ احادیث کا عموم دلالت کرتا ہے۔ نبی ﷺ نے اس بارے میں کوئی استثناء نہیں فرمایا۔”

غلط آراء کی تردید

درالمختار (5؍ 261) میں جو لکھا گیا کہ:
"داڑھی میں سفید بال نوچنا اور اطراف سے کترنا جائز ہے”،
یہ قول خطا پر مبنی ہے۔ کیونکہ:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"سفید بال نہ اکھیڑو”
(فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ: 31؍ 120)
داڑھی کے اطراف سے کترنے کو سنت کہنا بھی درست نہیں، کیونکہ سنت سے اس کی کوئی دلیل نہیں۔

ھٰذا ما عندي، واللہ أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1