داڑھی کترانے سے متعلق ایک ضعیف حدیث کا تجزیہ
سوال
خطیب نے ابو سعید خدری سے مرفوعاً ایک حدیث نقل کی ہے:
"کوئی اپنی داڑھی کے طول سے ہر گز نہ کترے لیکن کنپٹی سے کتر سکتا ہے”
اس حدیث کا مطلب اور صحت کیا ہے؟
— فیروز، 11 ربیع الاول 1415ھ، بروز بدھ
الجواب
الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول اللہ، أما بعد:
حدیث کا مراجع و مآخذ میں ذکر
یہ حدیث مختلف کتب حدیث میں اس طرح ذکر ہوئی ہے:
❀ خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد (ج5، ص187) میں بیان کی ہے۔
❀ علی المتقی نے اسے کنز العمال (ج6، ص663، حدیث نمبر 1781) میں اپنے الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
❀ ابن عدی نے اسے الکامل (ج5، ص2018) میں روایت کیا ہے۔
حدیث کی سند کا تجزیہ
اس روایت کی سند میں عُفَیر بن مَعْدان نامی راوی شامل ہے، جس کے بارے میں محدثین کی رائے درج ذیل ہے:
❀ ابو حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس کی حدیث میں مشغول نہیں ہونا چاہیے۔”
❀ یحییٰ رحمہ اللہ کی رائے:
"کچھ بھی نہیں” یعنی اس راوی کی کوئی حیثیت نہیں۔
❀ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"عطاء کی حدیث غریب ہے، اور مجھے معلوم نہیں کہ عفیر بن معدان کے علاوہ کسی اور نے یہ حدیث روایت کی ہو۔”
نتیجہ
محدثین کی ان تصریحات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے۔
لہٰذا، کنپٹیوں سے بال کترنے کا عمل اس حدیث کی بنیاد پر جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ما عندی واللہ أعلم بالصواب