دارالندوہ میں کفار کی میٹنگ اور شیخ نجدی کی شرکت
تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

دار الندوہ :
ابن اسحاق رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ جب قریش نے اس بات پر غور کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں غیر شہروں کے لوگ بکثرت داخل ہو گئے ہیں اور یہاں سے بھی بہت سے با مروت اصحاب نے اپنے دین کی خاطر دنیا اور مال و اسباب سے قطع نظر کر کے ہجرت اختیار کی اور خداوند تعالیٰ نے ان کے واسطے مقام امن مہیا کر دیا جہاں وہ اطمینان اور فراغت سے زندگی بسر کرتے ہیں اور اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی عنقریب وہیں جا کر ان میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو قریش کو اس فکر نے نہایت متردد کیا اور اس کے انجام پر اس کی نظر گئی اور سوچا کہ مسلمانوں کی اس قوت کا مجتمع ہونا ہمارے اسباب زوال و فنا کا قائم ہونا ہے۔ بس یہ فکر کر کے انہوں نے قصٰی بن کلاب کے مکان میں جس کو دارالندوہ کہا جاتا تھا، ایک مجلس مشاورت کے انعقاد کا انتظام کیا۔ یہ وہی مکان ہے جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ قریش کو جس امر مہم کی بابت مشورہ کرنا ہوتا تھا اسی مکان میں مجتمع ہوتے تھے اور اسی مکان میں ان کے کل امور کے فیصلے کیے جاتے تھے۔ غرضیکہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو ان کو یہ اندیشے لاحق ہوئے تو اس مکان میں مشورہ کی مجلس قائم ہوئی۔

ابلیس کی مجلس شوریٰ :

ابن اسحاق بہ سلسلہ معتبر راویوں کے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ جس روز یہ مجلس قرار پائی ہے اس روز کا نام یوم الزحمۃ رکھا گیا ہے اور جس وقت یہ لوگ اس مکان کی طرف متوجہ ہوئے تو ابلیس ایک بوڑھے ضعیف العمر شخص کی صورت بنا کر دروازہ پر کھڑا ہو گیا۔ جب یہ لوگ آئے تو اس بوڑھے کو دیکھ کر پوچھا کہ بڑے میاں آپ کون ہیں؟ اس نے کہا : میں اہل نجد سے ہوں اور تم لوگوں کی تشویش اور تفکر کو سن کر میں نے مناسب سمجھا کہ تمہاری مجلس میں حاضر ہو کر اپنی رائے ظاہر کروں۔ یقین ہے کہ اس سے تم کو نفع پہنچے گا۔ قریش نے کہا بہت بہتر ہے آیئے اندر تشریف رکھیے۔ پس وہ ملعون ان کے ساتھ مکان کے اندر داخل ہوا۔ راوی کا بیان ہے کہ اس مجلس میں اشراف اور سرداران قریش میں سے یہ لوگ حاضر تھے۔

مجلس کے شرکاء :

بنی عبد شمس میں سے عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ اور ابو سفیان بن حرب۔ بنی نوفل بن عبد مناف میں سے طعیمہ بن عدی اور جبیر بن مطعم اور حرث بن عامر بن نوفل۔ بنی عبد الدار بن قصی میں سے نظر بن حرث بن کلاہ۔ اور بنی اسد بن عبد العزیٰ میں سے ابو النجتری بن ہشام اور زمہ بن اسود بن مطلب اور حکیم بن حزام بنی مخزوم میں سے ابوجہل بن ہشام اور بنی سہم میں سے حجاج کے دونوں بیٹے نبیہ اور منبہ اور بنی جمیع میں سے امیہ بن خلف اور ان کے علاوہ اور بہت لوگ تھے۔

مختلف تجاویز :

چنانچہ ان سب سے یہ بات کہی کہ اس شخص کی تم حالت دیکھ رہے ہو کہ ہم میں سے اور ہمارے علاوہ غیر لوگوں میں سے اس کے ساتھی کثرت کے ساتھ ہو گئے ہیں اور دن بدن بڑھتے جاتے ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ ایک روز ہم پر یہ غالب ہو جائیں گے اور ہمارے دین و مذہب کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔ اس لیے ایسا مشورہ کرنا ضروری ہے جس سے اپنے واسطے پورا انتظام ہو جائے اور آئندہ برا وقت دیکھنا نہ نصیب ہو۔
ایک شخص بولا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قید کر دو اور دروازہ پر پہرہ مقرر کرو جیسا کہ پہلے شاعروں زہیر اور نابغہ کے ساتھ کیا گیا ہے کہ قید ہی میں ان کا دم نکل گیا۔ شیخ نجدی نے کہا : واللہ ! یہ رائے تمہاری درست نہیں ہے۔ اگر تم نے ایسا کیا تو ضرور ان کے اصحاب اس حال کو سن کر یکبارگی تم پر ایک ایسا سخت حملہ کریں گے کہ تم کو قتل کر کے صاف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چھڑا لے جائیں گے اور تم سے کچھ نہ ہو سکے گا لہذا اور کوئی بات سوچو۔
ایک شخص بولا کہ ہم ان کو یہاں سے نکال دیں۔ یہ حیران و پریشان ہو کر خدا جانے کہاں سے کہاں چلے جائیں گے اور ان کے غائب، ہونے کے بعد ہماری آپس میں پھر ویسی ہی الفت اور محبت ہو جائے گی جیسی کہ تھی اور جو لوگ مسلمان ہو گئے ہیں وہ بھی پھر ہم میں مل جائیں گے۔
شیخ نجدی نے کہا : واللہ ! یہ رائے تمہاری پہلی رائے سے بھی زیادہ ناقص ہے تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شیریں زبانی اور خوش اخلاقی سے واقف نہیں ہو کہ جس سے وہ ایک دفعہ بات کر لیتے ہیں وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ اگر تم نے ایسا کیا یعنی یہاں سے ان کو شہر بدر کر دیا تو یاد رکھو کہ وہ عرب کے کسی قبیلہ سے جا ملیں گے اور اپنی خوش کلامی سے اس کو مطیع کر کے تمہاری طرف رجوع کریں گے اور تم کو اپنے گھوڑوں کے سموں سے ایسا روندیں گے کہ تمہارا نام و نشان چھوڑیں گے اور تمہارے تمام اختیارات اپنے قبضہ میں کر لیں گے۔ لہٰذا تم کوئی ایسی رائے نکالو جو ہر پہلو سے صحیح اور درست ہو۔

ابوجہل کی ناپاک تجویز :

ابوجہل بن ہشام نے کہا : واللہ ! میری اس کے بارے میں ایک رائے ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ اب تک کسی نے ایسا سوچا ہو۔ قریش نے کہا اے ابو الحکم ! جلد بیان کر کہ وہ کیا رائے تیرے ذہن میں آئی ہے؟ اس نے کہا میں نے یہ تدبیر سوچی ہے کہ ہم اپنے کل قبائل میں سے ایک ایک جوان چھانٹ کر مسلح تیار رکھیں اور جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے ہوں تو وہ سب جوان یکبارگی ایک ہاتھ تلوار کا ان پر ماریں اس طرح انہیں قتل کر دیں۔ پھر اگر ان کی قوم قصاص لینا چاہے گی تو ہمارے اتنے قبائل سے نہ لڑ سکے گی۔ لامحالہ خون بہا پر راضی ہو گی لہٰذا ہم خون بہادے کر اس قصہ کا فیصلہ کر دیں گے اور ہمیشہ کے واسطے اس خدشے سے نجات پائیں گے۔ شیخ نجدی بولا۔ واقعی ابو الحکم کے کیا کہنے ہیں۔ بس یہی رائے نہایت قوی اور ہر پہلو سے صحیح ہے اسی پر عملدرآمد کرو۔ اس رائے کے مقرر ہونے کے بعد لوگ اس مکان سے اٹھ کر چلے گئے اور ادھر جبرائیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ آج رات کو آپ اس جگہ نہ سوئیں جہاں ہمیشہ سویا کرتے ہیں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم :

راوی کہتا ہے کہ جب رات خوب اندھیری ہو گئی۔ یہ سب لوگ اس انتظار میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو جائیں تو ہم اپنا وار کریں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ اطلاع ہوئی کہ دشمن اس بات کے منتظر ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم میرے بستر پر میری سبز چادر اوڑھ کر سو جاؤ اور کچھ فکر نہ کرو تم کو یہ کچھ ایذا نہ پہنچائیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تھے تو اسی چادر میں سوتے تھے۔

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی :

ابن اسحان کہتے ہیں کہ جب قریش کے یہ سب لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر جمع ہوئے ابوجہل بھی ان میں تھا۔ اس نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتا کہ اگر تم میری اتباع کرو گے تو عرب کے بادشاہ ہو جاؤ گے۔ اور مرنے کے بعد پھر زندہ ہو کر تم کو ایسے باغ ملیں گے جیسے اردن میں ہیں۔ اور اگر میری اتباع نہ کرو گے تو دنیا میں قتل و غارت ہو گے اور مرنے کے بعد زندہ ہو کر آگ میں جلو گے۔ وہ یہ کہہ رہا تھا کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بڑے برتن میں خاک بھر کر لیے ہوئے باہر تشریف لائے اور فرمایا ہاں میں یہی بات کہتا ہوں مگر ان لوگوں کی آنکھیں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اندھی کر دیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ یٰسین کے شروع کی آیتیں لايبصرون تک پڑھتے جاتے تھے اور ان کے سروں پر خاک ڈالتے جاتے تھے یہاں تک کہ جب آپ فارغ ہوئے تو اپنے کام کو تشریف لے گئے اور ان لوگوں کو کچھ خبر نہ ہوئی۔
پھر ان کے پاس ایک اجنبی شخص آیا اور کہنے لگا : تم لوگ یہاں کھڑے ہوئے کس کا انتظار کر رہے ہو ؟ انہوں نے کہا ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر ہیں۔ اس نے کہا : واللہ ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم کو ذلیل کر کے تشریف لے گئے اور تم میں سے کسی کو محروم نہیں چھوڑا۔ سب کے سروں پر خاک ڈال گئے ہیں تم کو خبر نہیں کہ تمہارے سروں پر کیا پڑا ہوا ہے۔ اب جو ان لوگوں نے اپنے سروں کو دیکھا تو واقعی ان کو خاک آلودہ پایا۔ پھر ان لوگوں نے جھانک جھانک کر اندر دیکھنا شروع کیا تو دیکھا کہ واقعی کوئی شخص سوتا ہے اور وہی چادر اوڑھے ہوئے ہے جو آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم اوڑھتے تھے۔ کہنے لگے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سوتے ہیں اور صبح تک اسی انتظار میں کھڑے رہے۔ جب صبح ہوئی تو دیکھا کہ حضرت علی رضی اللہ رضی اللہ عنہ بستر پر سے اٹھے تب کہنے لگے واللہ رات کو وہ شخص ہم سے سچ کہتا تھا۔

الله تعالیٰ كے ارشادات :

ابن اسحاق کہتے ہیں کہ کفار کے اس دن کی کاروائی اور مکہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی ہیں :
«وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ ۚ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ» [8-الأنفال:30]
”اور اسے رسول وہ وقت یاد کرو جبکہ کفار تمہارے ساتھ مکر کرنے کے فکر میں تھے تا کہ تم کو قید کر دیں یا قتل کریں یا شہر بدر کریں اور یہ بھی مکر کر رہے تھے اور خدا بھی مکر کر رہا تھا اور خدا بہتر مکر کرنے والا ہے۔“

سورۃ یٰسین کے فضائل و خواص:

سورۃ یٰسین کی پہلی تینوں آیات کا اگر خوف زدہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کے سب سے ذکر کریں تو ان کو امن نصیب ہو۔ چنانچہ حرث بن اسامہ نے اپنے مسند میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ یٰسین کے فضائل میں بیان فرمایا کہ اگر خوف زدہ اس کو پڑھے گا اس کو امن نصیب ہو گا اور اگر بھوکا پڑھے گا اس کو روزی نصیب ہو گی۔ اور اگر برہنہ پڑھے گا اس کو لباس ملے گا۔ اور اگر پیاسا پڑھے گا اس کو پانی ملے گا۔ اور اگر بیمار پڑھے گا اس کو شفاء ہو گی۔ یہاں تک رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے خواص اس کے بیان فرمائے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یہ آیت بھی نازل فرمائی۔
«أَمْ يَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ ‎۔ ‏ قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُتَرَبِّصِينَ» [52-الطور:30]
”(اے رسول) کیا یہ لوگ تمہارے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے ہم اس کے بارے میں گردش زمانہ کا انتظار کر رہے ہیں تم ان سے کہہ دو کہ انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں۔“
ابن اسحاق کہتے ہیں پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کی اجازت ہوئی۔

تحقیق الحدیث :

اسناده ضعيف۔

[دلائل النبوة بيهقي 343/2 – رقم : 765، 766، 767، ورواه الطبري فى تفسيره 227/9، من طريق محمد بن اسحاق به، و ابن حبان فى الثقات 113/1، والصٰبري فى تاريخه 566/1، من طريق ابن اسحاق به]
اس کی کوئی سند صحیح نہیں ہر کسی میں کوئی نہ کوئی ضعیف پایا جا تا ہے۔
اس کو صفی الرحمان مبارکپوری نے بھی الرحیق المختوم صفحہ : 223 – تا 229 پر نقل کیا ہے. [ذكره ابن جوزي فى صفة الصفوة 124/1 و قال : قال ابن اسحاق ………. به۔]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے