خواتین کے مخصوص مسائل
ماہواری(Menstrual Period) یا حیض یا وہ مخصوص خون جو بالغ عورت کو ایام مخصوصہ میں آتا ہے۔ یہ خون ماں کے پیٹ میں بچے کی غذا کا بھی کام دیتا ہے۔اس لیے حاملہ کو حیض نہیں آتا۔ اس کا خروج عورت کی صحت کا ضامن ہے، اس کی بندش یا بے اعتدالی مضر اور کئی بیماریوں کا پیش خیمہ ہے۔
باب اول :
سوال (۱):
کیا ماہواری بلوغت کی نشانی ہے؟
جواب: اسلام ہر اس لڑکے یا لڑکی کو بالغ قرار دیتا ہے جسے احتلام ہونا شروع ہو جائے یا زیر ناف بال آجائیں۔ لڑکی کو حیض آنا بھی بلوغت کی نشانی ہے۔ (سورۃ الطلاق :۴)
سوال (۲):
کیا ایام مخصوصہ کی تعین ہو سکتی ہے؟
جواب: ایام ماہواری کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت متعین نہیں، اس کا انحصار فطرت و عادت پر ہے، بعض لوگ ماہواری کی کم سے کم مدت تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن بتاتے ہیں لیکن اس حوالہ سے کوئی بات ثابت نہیں ہے۔
❀علامہ نوویؒ فرماتے ہیں:
اس سلسلے کی تمام روایات ضعیف ہیں، ان کے ضعف پر محدثین کا اجماع ہے۔ (المجموع شرح المهذب : ۲/ ۳۸۳)
تو پتا چلا کہ عورت کے ایام کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کوئی حد مقررنہیں ہے۔
سوال (۳):
حیض کے خون کی پہچان کیسے ہوگی ؟
جواب: ایام مخصوصہ میں سیاہی مائل، زرد، مٹیالہ، سیاہ رنگ کا خون آئے ، تو وہ حیض ہی شمار ہوگا۔
عورتیں سیدہ عائشہؓ کے پاس ڈبیا بھیجتیں، جس میں روئی ہوتی تھی، اس میں زرد رنگ کا خون حیض ہوتا تھا، (سوال کرتیں کہ نماز پڑھ لیں ) تو آپؓ فرماتیں: جلدی نہ کریں خالص سفیدی دیکھ لیں۔
(صحیح البخاري تعليقاً ، كتاب الحيض باب : ۱۹ المؤطا للامام مالك : ۱۳۰ ، السنن الكبرى للبيهقي : ٣٣٦/١، وسنده حسن
سیدہ عائشہؓ عورتوں کو منع کرتی تھیں کہ رات کے وقت فیصلہ نہ کریں کہ حیض ختم ہو چکا ہے یا نہیں۔ خون (حیض) بھی زرد، مٹیالے رنگ کا ہوتا ہے۔ (الـمـصـنـف لابن أبي شيبة : ۱۰۰۱، وسنده حسن)
نوٹ… اگر ایام مخصوصہ سے فارغ ہو کر زرد یا مٹیالے رنگ کا خون آئے تو وہ حیض شمار نہیں کیا جائے گا۔ (صحیح البخاری : ٣٢٦)
سوال (۴):
جس عورت کو مسلسل پانی آتا ہو؟
جواب: ماہواری سے فارغ ہونے کے بعد اگر عورت کو مسلسل پانی آرہا ہو تو وہ ہر نماز کے لیے الگ وضو کرے گی کیونکہ یہ استحاضہ ہے (جس کی تفصیل آگے آئے گی )
سوال (۵):
کیا حاملہ عورت کو حیض آتا ہے۔
جواب: حاملہ عورت کو حیض نہیں آتا۔
◈سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی سیدنا عمرؓ نے اس سلسلے میں نبیﷺ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ”انہیں حکم دو کہ رجوع کر لیں۔ پھر طہر یا حمل میں طلاق دیں۔ (صحیح البخاری : ٥٢٥١)
ثابت ہوا حاملہ کو حیض نہیں آتا کیونکہ آپ ﷺ نے حمل کو طہر کے قائم مقام قرار دیا۔
◈قرآن کریم نے طلاق کی بحث میں غیر حاملہ کی عدت تین حیض بیان فرمائی ہے جبکہ حاملہ کی عدت وضع حمل ( حمل کا پیدا ہو جانا ) بتائی ہے۔ (الطلاق : ٤ )
اگر حاملہ کو بھی حیض آتا تو اس کی عدت بھی تین حیض مقرر کر دی جاتی۔
سوال (۶):
کیا عمر رسیدہ عورت کو حیض آتا ہے؟
جواب: عمر رسیدہ عورت کو حیض نہیں آتا۔ اگر اسے خون آئے تو وہ استحاضہ کا خون شمار ہوگا وہ ہر نماز کے لیے وضو کرے گی۔
◈امام دارمیؒ سے بوڑھی عورت کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا: وہ وضو کر کے نماز پڑھے، اگر طلاق ہو جائے تو تین ماہ مدت مکمل کرے۔
(سنن الدارمی : ٨٥٢)
سوال (۷):
کیا ایک ماہ میں دو یا تین بار حیض آسکتا ہے؟
جواب: ممکن ہے ۔ (واللہ اعلم)
سوال (۸):
کیا مانع حیض ادوایات استعمال کی جاسکتی ہیں؟
جواب: مانع حیض ادوایات کا استعمال مناسب نہیں ہے، کیونکہ طبعی لحاظ سے اس کے کئی ایک نقصانات ہیں، مثلاً
۱۔مانع حیض ادویات سے ماہواری کا عمل بگڑ جاتا ہے، اس کے نتیجے میں عورت کا ماں بننا مشکل ہو جاتا ہے، ہمارے ملک میں ۸۵ فیصد عورتیں اس نقصان میں مبتلا ہیں۔
۲۔ ہارمونز متاثر ہوتے ہیں اور کئی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
۳۔ مردوں سے مشابہت پیدا ہوتی ہے، مثلاً چہرے پر بال اُگ آتے ہیں۔
۴۔ چہرے پر چھائیاں پڑ جاتی ہیں۔
یہ نقصانات ان خواتین کا مقدر ہیں جو ایسے کام سرانجام دیتی ہیں۔
نوٹ… اگر مانع حیض دوائی سے خون بند ہو جائے تو عورت نماز روزہ طواف وغیرہ کر سکتی ہے۔
(دیکھیے المصنف لـعبد الرزاق : ۱۲۱۹ ، عن ابن جريج من قوله ، وسنده صحيح)
سوال (۹):
کیا ماہواری کا خون ناپاک ہوتا ہے؟
جواب: ماہواری (حیض ) کا خون ناپاک ہوتا ہے، یہ جسم یا کپڑے کو لگنے کی صورت میں دھویا جائے گا۔
سیدہ اسماء بنت ابی بکرؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک خاتون نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : کپڑوں کو حیض کا خون لگ جائے تو کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: ’’کھر چیں، پانی سے ملیں اور دھو دیں، پھر اس میں نماز پڑھ لیں ۔‘‘
(صحيح البخاري : ٢٢٧، صحیح مسلم : ۲۹۱)
سوال (۱۰):
کیا ہر مائع چیز میں دھونے کی صلاحیت ہوتی ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے نجاست زائل کرنے کی صلاحیت صرف پانی میں رکھی ہے، ارشاد باری تعالی ہے:
وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا (الفرقان : ٤٨)
’’اور ہم نے آسمان سے پاک کرنے والا پانی اُتارا۔“
سوال (۱۱):
کیا ماہواری والے کپڑوں میں نماز ہو جائے گی ؟
جواب: دوران ماہواری اگر کپڑے کو خون لگ جائے تو کپڑے کو دھو کر نماز ادا کریں، اگر یقین ہو کہ خون نہیں لگا تو بغیر دھوئے بھی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔
سیدنا معاویہ بن ابی سفیانؓ نے اُم حبیبہؓ سے پوچھا: کیا نبی ﷺ اس کپڑے میں نماز پڑھ لیتے تھے جس میں آپ صحبت کیا کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: جی ہاں، جب دیکھتے کہ اس میں نجاست نہیں لگی ہوئی۔ (سنن أبي داود : ٣٦٦ وسنده صحيح)
سوال (۱۲):
ماہواری کے بعد غسل اور اس کا طریقہ کیا ہے؟
جواب: ماہواری کے بعد غسل کرنا فرض ہے۔ (صحیح البخاري : ۳۲۰)
طریقہ غسل
غسل کی نیت کریں۔ مگر یادر ہے کہ نیت دل کے ارادے کا نام ہے، زبان سے الفاظ ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔
سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ غسل جنابت فرماتے تو شروع میں دونوں ہاتھوں کو دھوتے، پھر دائیں ہاتھ کے ساتھ بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے اور شرمگاہ دھوتے ، پھر نماز کے وضو کی مانند وضو کرتے پھر پانی لے کر اپنی انگلیاں، بالوں کی جڑوں میں داخل کرتے ، حتی کہ جب آپ سمجھتے کہ آپ نے اچھی طرح جڑوں میں پانی پہنچا دیا ہے تو اپنے سر پر دونوں ہاتھوں سے تین چلو ڈالتے ، پھر سارے جسم پر پانی ڈالتے، پھر آخر میں پاؤں دھو لیتے ۔(صحیح البخاري : ٢٤٨ – صحيح مسلم : ٣١٦)
نوٹ … غسل کرتے وقت پاؤں وضوء کے ساتھ بھی دھو سکتے ہیں اور آخر میں بھی دھو سکتے ہیں، دونوں طرح درست ہے۔
سوال (۱۳):
کیا حائضہ سر کے بال کھول کر غسل کرے؟
جواب: حائضہ بال کھولے بغیر سر پر تین چلو ڈال لے تو کافی ہے، بال کھولنا ضروری نہیں۔ سیدہ ام سلمہؓ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! میں ایک ایسی عورت ہوں کہ کس کر سر کے بالوں کی مینڈیاں بناتی ہوں، کیا غسل جنابت کے لیے انہیں کھولوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، بس سر پر تین چلو پانی ڈال اور سارے جسم پر پانی بہا، یہی کافی ہوگا۔“ (صحیح مسلم : ۳۳۰)
سوال (۱۴):
کیا حائضہ پانی نہ ملنے کی صورت میں تمیم کر سکتی ہے؟
جواب: بالکل، حائضہ ماہواری ختم ہونے پر اگر پانی نہ ملے تو تیم کر سکتی ہے۔ (سورۃ المائدة : ٦)
سوال (۱۵):
کیا عورت بیماری کی وجہ سے تمیم کر سکتی ہے؟
جواب: جی ہاں! بیماری کی وجہ سے اگر پانی سے غسل کرنے سے نقصان کا اندیشہ ہو تو تمیم کر سکتی ہے۔ (سورۃ المائدة :1)
سوال (۱۶):
حائضہ کے پسینے کا کیا حکم ہے؟
جواب: حائضہ کا پسینہ پاک ہے، حائضہ نجس نہیں ہوتی۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے: ” مومن ناپاک نہیں ہوتا۔‘‘ (صحيح البخاري : ٢٨٥)
امام نافع ؒ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے بیان کرتے ہیں کہ جنابت کی حالت میں آپ کو پسینہ آتا تو آپ انہیں کپڑوں میں نماز پڑھ لیتے۔
(المصنف لابن أبي شيبه : ۲۰۲۲ و سنده صحیح)
سوال (۱۷):
کیا حائضہ عورت کا جوٹھا استعمال کر سکتے ہیں؟
جواب: جی ہاں! حائضہ عورت کے ساتھ کھانا کھانا، اس کی جوٹھی چیزیں استعمال کرنا اور اس کا بنایا ہوا کھانا کھایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ مومن نجس نہیں ہوتا۔ زمانہ جاہلیت میں عورت کے مخصوص دنوں میں اسے الگ جگہ پر کر دیا جاتا تھا، اس کے ساتھ ہر طرح کا معاملہ منقطع کر دیا جاتا تھا جبکہ اسلام نے عورت کو عزت سے نوازا۔
سوال (۱۸):
ماہواری میں جماع کرنا کیسا ہے؟
جواب: حیض کے دنوں میں جماع کرنا حرام ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ (البقرة : ۲۲۲)
’’تم دوران حیض عورتوں سے الگ رہو اور ان سے ہم بستری نہ کرو یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں۔“
سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ یہودی، جب ان کی کوئی عورت حائضہ ہوتی تو نہ وہ اس کے ساتھ کھانا کھاتے اور نہ اس کے ساتھ گھر میں اکٹھے رہتے تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”جماع کے سوا سب کچھ کرو ۔“ (صحیح مسلم : ۳۰۲)
وضاحت ۔ اس حدیث میں نکاح کا لفظ جماع کے معنی میں بولا گیا ہے، طبی طور پر بھی ماہواری کے دنوں میں جماع کرنا مرد و عورت کے لیے انفیکشن (Infection) کا باعث ہے۔ اس بیماری کے علاج میں (High Potency Antibiotic) کا استعمال کروایا جاتا ہے۔ جس کے بہت سے (Side Effects) ہیں۔ مثلاً السر، آنتوں کی بیماریاں، یرقان وغیرہ۔
علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں : حیض کے دنوں میں جماع کرنے سے کوڑھ لگ جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ (زاد المعاد : ٤ / ٤٠٧)
سوال (۱۹):
کیا ماہواری کے بعد غسل سے پہلے جماع ہوسکتا ہے؟
جواب: جب تک عورت غسل نہ کر لے اس وقت تک اس سے جماع کرنا حرام ہے۔ (دیکھیے : سورۃ البقرۃ:۲۲۲)
سوال (۲۰):
کیا ایام مخصوصہ میں طلاق ہو جاتی ہے؟
جواب: ایام مخصوصہ میں طلاق دینا مکروہ ہے، لیکن طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ (صحيح البخاري : ٥٢٥٢)
سوال (۲۱):
کیا حیض والی عورت نماز پڑھے گی ؟
جواب: نماز دین اسلام کا بنیادی ستون ہے، دوران حیض نماز کی اجازت نہیں ہے۔ (صحيح البخاري : ٣٠٤)
سوال (۲۲):
کیا حائضہ عورت مسجد جاسکتی ہے؟
جواب: حائضہ عورت کے لیے مسجد میں داخل ہونا جائز نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ حائضہ اور جنبی کے لیے مسجد حلال نہیں ۔ (سنن ابی داؤد: ۲۳۲ وسنده حسن)
سوال (۲۳):
کیا حائضہ عورت دم کر سکتی ہے؟
جواب: حائضہ عورت دم کر سکتی ہے، سیدہ عائشہؓ سیدہ اسماءؓ کو ماہواری میں دم کر دیتی تھیں۔ (سنن الدارمی : ١٠٣٦ وسنده صحيح . ح)
سوال (۲۴):
کیا حائضہ عورت روزہ رکھے گی ؟
جواب: حائضہ عورت دوران حیض روزہ نہیں رکھے گی۔ البتہ پاکی حاصل کرنے کے بعد فرضی روزوں کی قضائی دے گی۔ (صحیح البخاري : ٣٢١، صحيح مسلم : ٣٣٥)
استحاضہ کے مسائل
استحاضہ ایک بیماری ہے۔ علامہ عبید اللہ مبارک پوریؒ فرماتے ہیں: یہ حیض اور نفاس کے علاوہ شرمگاہ سے نکلنے والا خون ہے، یہ خون ایک رگ سے نکلتا ہے، یہ رگ رحم کے اندر نہیں بلکہ رحم کے منہ کے پاس ہوتی ہے اس کو (عرق عازل) کہتے ہیں۔
(مرعاة المفاتيح : ٢/ ٢٥٥)
سوال (۲۵):
حیض اور استحاضہ کے خون میں فرق کیسے کیا جائے گا ؟
جواب: استحاضہ کا خون مسلسل جاری رہتا ہے۔ حیض اور استحاضہ کے خون میں فرق کرنے کے تین طریقے شریعت نے بتائے ہیں:
ا۔ ماہواری شروع ہونے کے بعد استحاضہ کا عارضہ لاحق ہو تو ماہواری کے دنوں کا اعتبار ہوگا جن دنوں ماہواری آتی تھی ان کے علاوہ استحاضہ کا خون شمار ہوگا۔
۲۔ استحاضہ کا خون پہلے جاری ہوا اور حیض کا خون بعد میں آیا تو دونوں میں فرق رنگت سے کرے گی حیض کا خون سیاہ ہوتا ہے۔ (سنن أبي داود : ٢٨٦ وسنده حسن) جبکہ استحاضہ کا خون سرخی مائل ہوتا ہے ۔ (صحیح مسلم : ٣٣٤)
۳۔ اپنے خاندان کی عورتوں سے پوچھے گی جن دنوں ان کو حیض آتا ہے اتنے دن خود کو حائضہ سمجھے۔ (سنن الدارمي : ٨٧٥ وسنده صحيح )
یہ قول عطاء بن ابی ریاح تابعیؒ کا ہے۔
سوال (۲۶):
مستحاضہ طہارت کیسے حاصل کرے؟
جواب: مستحاضہ ایام حیض میں نماز ، روزہ ، جماع سے رکی رہے گی البتہ حیض ختم ہونے کے بعد غسل ضروری ہے کہ باقی دنوں میں اس کا حکم عام عورتوں جیسا ہے۔ (دیکھئے:صحیح البخاری : ۲۲۸)
سوال (۲۷):
کیا مستحاضہ کے لیے ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا ضروری ہے؟
جواب: مستحاضہ ایک وضو کے ساتھ صرف ایک نماز پڑھ سکتی ہے۔ اسے ہر نماز کے لیے الگ وضو کرنا ہوگا۔ نبی ﷺ نے فاطمہ بنت حبیشؓ سے فرمایا تھا : ”ہر نماز کے لیے الگ سے وضو کرو ۔“ (صحیح البخاری : ۲۲۸)
سوال (۲۸):
کیا مستحاضہ سے جماع ہو سکتا ہے؟
جواب: مستحاضہ سے جماع ہو سکتا ہے۔ منع کی دلیل نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ(البقرة : ۲۲۳)
’’تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں اپنی کھیتی کو جیسے چاہو آؤ۔‘‘
نفاس کے احکام
خون نفاس کا بھی خون حیض والا حکم ہے۔
خونِ نفاس کے چند مسائل :
۱۔حیض کا خون نجس ہے، نفاس کا بھی نجس ہے۔
۲۔حیض کے بعد غسل واجب ہے، نفاس کے بعد بھی واجب ہے۔
۳۔حیض میں جماع حرام ہے نفاس میں بھی حرام ہے۔ (المغنی : ١/ ٣٦٢)
۴۔حیض میں نماز ، روزہ ، مسجد میں داخل ہونا ممنوع ہے اور نفاس میں بھی یہی حکم ہے۔
۵۔حیض میں غسل سے پہلے جماع جائز نہیں اور نفاس کا بھی یہی حکم ہے۔
۶۔چالیس دن بعد اگر خون جاری رہے تو پھر نماز، روزے کی ادائیگی کرے کیونکہ یہ کوئی بیماری ہے، نفاس نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)
۷۔اگر طبعی طور پر نفاس کا خون نہیں آیا تو غسل کر کے نماز پڑھے گی۔
۸۔اگر نفاس میں طلاق دی گئی ہو تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
عدت کے مسائل
عورت کا خاوند فوت ہو جائے یا اسے طلاق ہو جائے یا وہ خلع لے لے تو اسے ایک خاص عرصه مخصوص انداز سے گزارنا پڑتا ہے۔ اس دوران میں کسی دوسرے مرد سے منگنی یا نکاح نہیں کر سکتی۔ یہ عرصہ مختلف عورتوں کے لیے مختلف ہوتا ہے۔
حاملہ کی عدت :
حاملہ کا خاوند فوت ہو جائے یا طلاق دے دے تو اس کی عدت وضع حمل ہے، جب تک بچہ جنم نہ لے عدت میں رہے گی اور بچے کے پیدائش کے بعد عدت ختم ہو جائے گی خواہ چند دن یا چند لمحے ہی گزرے ہوں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ (الطلاق : ٤)
’’حاملہ کی عدت بچے کی پیدائش ہے۔“
مطلقہ کی عدت:
طلاق یافتہ کی عدت تین حیض ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ (البقرة : ۲۲۸)
’’طلاق یافتہ عورتیں تین حیض تک اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں ۔“
نوٹ :اگر عورت کو حیض نہیں آتا تو اس کی عدت تین ماہ ہے۔
خلع یافتہ کی عدت :
عورت نکاح سے نکلنا چاہے تو عدالت میں جا کر حق مہر واپس کر کے نکاح ختم کروا سکتی اسے خلع کہتے ہیں۔ خلع فسخ نکاح ہے، طلاق نہیں۔ خلع لینے والی عورت کی عدت ایک حیض ہے۔ (سنن النسائي : ٣٤٩٧، صحيح)
✩…………..✩