خواتین اور روضہ مقدس کی زیارت
سوال: خواتین کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر کی زیارت کا کیا حکم ہے؟
جواب: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے مطلقا قبروں کی زیارت سے منع فرما دیا تھا اس وجہ سے کہ لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے تھے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یا تو غلو د افراط یا مردوں کی عبادت کے اندیشے سے منع فرمایا تھا یا پھر قبروں کے پاس بین کرنے اور جاہلانہ طریقے کے مطابق چیخنے چلانے کی وجہ سے منع فرمایا ۔
لیکن جب اسلام لوگوں کے دلوں میں جاگزیں ہو چکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو زیارت قبرستان کی اجازت دے دی اس لیے کہ قبروں کی زیارت سے زندوں کو آخرت کی یاد دہانی ہوتی ہے ، اور مردوں کے لیے دعا کی جاتی ہے البتہ اس حکم سے عورتوں کو مستثنیٰ کیا گیا ہے ، بلاشبہ عورتوں کے لیے قبرستان جانے پر نہی بھی ہے اور وحید بھی ہے ۔ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔
لعن الله زائرات القبور [مسند احمد 229/1 احمد شاکر نے حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ ح 2020 ۔ سنن التر مذى ابواب الصلاة ، كراهية ان يتخذ على القبر مسجدا ح 320]
”اللہ تعالیٰ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے ۔“
کسی کام پر شرعی لعنت کا مطلب ہے کہ وہ حرام ہے ، اور مندرجہ ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زیارت قبور کی اجازت صرف مردوں کے لیے ہے ، جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:
كنت نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها [سنن ابي داؤد ، كتاب الجنائز ، باب فى زيارة القبور ، ح 3635 صحيح مسلم ، كتاب الجنائز ، باب 36 ح 977]
”میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا (اب میں تمہیں اس کی اجازت دیتا ہوں) سو تم قبروں کی زیارت کیا کرو ۔“
مذکورہ بالا حدیث کے علاوہ بھی متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قبرستان کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کی گئی ہے اور یہ احادیث حضرت ابن عباس و حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح اسناد کے ساتھ منقول ہیں ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لعنت کی علت بھی بیان کی ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
فإنكن تفتن الحق وتؤذين الميت [شرح الصدور للسيوطى ، ص 399 وتاريخ بغداد للخطيب 201/2]
”بے شک تم عورتوں کا معاملہ یہ ہے کہ زندوں کو فتنہ میں مبتلا کرتی ہو اور مُردوں کو تکلیف پہنچاتی ہو ۔“
اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض عورتوں کو قبرستان کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:
ارجعن مأزورات غير مأجورات [سنن ابن ماجة كتاب الجنائز ، باب ماجاء فى اتباع النساء الجنائز ، ح 1578]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے حدیث کو ضعیف کہا ہے ۔
”کہ گناہوں کا بوجھ لے کر لوٹ جاؤ نہ کہ اجر و ثواب ۔“
اور سنن میں یہ ثابت ہے کہ رسولِ امین صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا:
لعلك بلغت معهم الكدى فقالت: معاذ الله وقد سمعتك تنهى عنه ، فقال: لو بلغت معهم الكدى ما دخلت الجنة – او: ما رايت الجنة – حتى يراها جد أبيك [مسند احمد 169/2 ح 6574 ۔ علامہ احمد شاکر نے حدیث کو حسن کہا ہے ۔ و سنن ابي داؤد ، كتاب الجنائز ، باب فى التعزية ح3123 وسنن النسائي ، كتاب الجنائز باب النعي ، ح 1879]
”اے فاطمہ ! شاید تم لوگوں کے ساتھ کدیٰ تک چلی گئی تھی ۔“ (الکدیٰ: یعنی جنت البقیع کے آخری کنارے تک) تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں کہا: اللہ کی پناہ ! اس لیے کہ میں نے سنا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) عورتوں کو قبرستان جانے سے منع فرماتے ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے فاطمہ ! اگر تو اُن کے ساتھ کدیٰ تک چلی جاتی تو جنت میں داخل نہ ہوتی ، یا تو جنت کو دیکھ بھی نہ پاتی ، یہاں تک کہ تیرے باپ کا دادا بھی اس کو دیکھ لیتا ۔“
جب یہ حکم لخت جگر رسول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے واسطے ہو ، جبکہ وہ افضل النساء (یعنی عورتوں میں سے سب سے بہتر عورت) تھیں ، تو اس کے بعد دوسری خواتین کے لیے کیا حکم ہو سکتا ہے ۔
اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اور ان کے دونوں ساتھیوں حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ کی قبروں کا شمار بھی عام قبروں میں ہوتا ہے ، لہٰذا عورتوں کا ان کے پاس کھڑے ہونا جائز نہیں ۔ عورت کے لیے یہی کافی ہے کہ مسجد نبوی شریف میں داخل ہونے کے بعد اپنی جگہ پر نماز پڑھے اور اپنی نماز میں ہی نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجے تاکہ عورت احادیث مندرجہ
بالا میں ذکر شدہ لعنت اور وعید کی زد میں نہ آ جائے ۔ واللہ اعلم !