خنثی اور ٹرانس جینڈر کے فقہی احکام و سماجی حقوق
تحریر: مولانا مشرف بیگ اشرف

دو امور میں فرق

فقہاء نے "خنثی” کے لیے واضح معیارات مقرر کیے ہیں۔ اگر کسی کا خنثی ہونا ثابت ہو جائے تو اس کے بعد نرمی برتی جاتی ہے، کیونکہ بنیادی طور پر انسان یا تو مرد ہوتا ہے یا عورت۔

خنثی کی تعریف فقہاء کے ہاں

خنثی وہ فرد ہوتا ہے جس میں دونوں جنسی اعضا موجود ہوں۔ فقہاء کے نزدیک جنس کا تعین تولیدی نظام سے کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے درج ذیل وضاحتیں ملتی ہیں:

وضاحتی نکات:

  • اگر کسی فرد کا جینیاتی ڈھانچہ تولیدی نظام سے ہم آہنگ نہ ہو لیکن جسمانی طور پر وہ ایک جنس کے عضو رکھتا ہو، تو اسے خنثی نہیں سمجھا جائے گا۔
  • عورت میں مردانہ ہارمونز کی زیادتی یا جسم پر زائد بالوں کی موجودگی، اسے خنثی نہیں بناتی بلکہ وہ بدستور عورت ہی رہے گی۔
  • "خصی” (eunuch) یعنی جس کے خصیے نکال دیے گئے ہوں، بھی خنثی نہیں بلکہ مرد ہی رہتا ہے۔
  • پیدائشی طور پر نفسیاتی طور پر جنس مخالف محسوس کرنے والا فرد (Transgender)، فقہی لحاظ سے اپنی پیدائشی جنس کے مطابق شمار کیا جاتا ہے۔
  • عملِ جراحی کے ذریعے جنسی اعضاء کی تبدیلی بھی فقہی طور پر جنس کو تبدیل نہیں کرتی۔

بین الاقوامی عرف میں خنثی کا تصور

اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے 2013 میں "LGBTI” کے لیے ایک مہم شروع کی جس میں خنثی کی تعریف یوں کی گئی:

"خنثی افراد وہ ہوتے ہیں جن کے جنسی خصائص (جن میں جنسی اعضاء، غدود اور کروموسومز شامل ہیں) روایتی طور پر مرد یا عورت کے تصور سے ہم آہنگ نہیں ہوتے۔”

اہم نکات:

  • خنثی خصوصیات پیدائش کے وقت ظاہر ہو سکتی ہیں یا بعد میں بلوغت کے دوران۔
  • دنیا کی 0.05% سے 1.7% آبادی خنثی خصوصیات کے ساتھ پیدا ہوتی ہے۔
  • خنثی ہونے کا تعلق حیاتیاتی جنسی خصوصیات سے ہے نہ کہ جنسی رجحان یا صنفی شناخت سے۔

فقہاء کے نقطہ نظر سے خنثی کے احکام

خنثی کے دو مرحلے

بچپن کا مرحلہ:

  • فقہاء جنس کے تعین کے لیے پیشاب کی جگہ کو بنیاد بناتے ہیں۔
  • اگر بچہ مردانہ عضو سے پیشاب کرے تو وہ لڑکا اور اگر زنانہ عضو سے کرے تو لڑکی قرار دیا جاتا ہے۔
  • اگر دونوں اعضاء برابر ہوں تو اسے "خنثی مشکل” کہا جاتا ہے اور اس کا حتمی فیصلہ بلوغت پر کیا جاتا ہے۔

بلوغت کا مرحلہ:

  • بلوغت کے بعد خنثی کا حتمی فیصلہ علامات جیسے حیض، قرار حمل، جسمانی تبدیلیوں یا جنسی رجحان کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔

جنسی رجحان کی بنیاد پر فیصلہ

اگر کوئی خنثی مردوں کی طرف جھکاؤ رکھے تو عورت اور اگر عورتوں کی طرف جھکاؤ رکھے تو مرد شمار ہوگا۔ فقہاء کے مطابق جنسی رجحان جنس کے تعین میں اہمیت رکھتا ہے لیکن یہ ذاتی صنفی شناخت (Gender Identity) کے مترادف نہیں ہے۔

عملِ جراحی اور تغییر فی خلق اللہ

فقہاء کا کہنا ہے کہ علاج معالجے کی غرض سے جسم میں تبدیلی جائز ہے، جیسے اگر کسی کا ناک یا عضو خراب ہو جائے تو اسے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

خنثی کے لیے عملِ جراحی

  • خنثی افراد کے لیے جنس کے حتمی تعین کے بعد غیر ضروری عضو کو ہٹانے کی اجازت دی جاتی ہے۔
  • یہ عمل، اللہ کی تخلیق میں غیر فطری تبدیلی کے زمرے میں نہیں آتا، کیونکہ شریعت ایک متعین معیار کو فطرت تسلیم کرتی ہے۔

ٹرانس جینڈر افراد کے مسائل اور اسلامی نقطۂ نظر

اسلام ایسے افراد کے لیے صبر اور استقامت کو ایک فضیلت قرار دیتا ہے۔ اگر کسی فرد کو نفسیاتی طور پر اپنی صنفی شناخت میں الجھن محسوس ہو تو اسے گناہ تصور نہیں کیا جاتا جب تک کہ وہ اس پر عمل نہ کرے۔

وسوسے کے حوالے سے حدیث

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ کچھ صحابہؓ نے نبی کریمؐ سے وسوسوں کے بارے میں پوچھا تو آپؐ نے فرمایا:

"یہ خالص ایمان کی علامت ہے۔”
(صحیح مسلم)

مسلمان معاشرے کی ذمہ داری

  • خواجہ سرا اور ٹرانس جینڈر افراد کو سمجھنا اور ان کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اپنانا ضروری ہے۔
  • تبلیغی جماعت اور تصوف جیسے ادارے ایسے افراد کی نفسیاتی بحالی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
  • معاشرتی مسائل کو مکالمے کے ذریعے حل کرنے اور اصلاحی اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

خلاصہ

خنثی افراد کے بارے میں اسلامی فقہ میں واضح اصول موجود ہیں جو ان کی جسمانی اور نفسیاتی حالت کے مطابق ان کے حقوق و فرائض کا تعین کرتے ہیں۔ معاشرے پر لازم ہے کہ ان افراد کے ساتھ حسنِ سلوک کرے اور انہیں معاشرتی کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1