"خلقِ قرآن کا مسئلہ اور امام بخاری رحمہ اللہ کا مؤقف: ایک تحقیقی و تاریخی جائزہ”
ماخوذ : فتاویٰ شیخ الحدیث مبارکپوری جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 119

سوال

امام بخاری رحمہ اللہ پر خلقِ قرآن کے مسئلے میں ’’لفظی بالقرآن مخلوق‘‘ کی نسبت کی گئی ہے۔ اس مسئلہ پر علماء کے مابین کافی تنازعات اور اختلافات ہیں۔ حقیقت میں امام بخاری رحمہ اللہ کا اس بارے میں صحیح موقف کیا ہے؟

جواب

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله، أما بعد!

امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف :

امام بخاری رحمہ اللہ کی طرف یہ جملہ:

> **”لفظی بالقرآن مخلوق”**

منسوب کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں امام بخاری نے یہ الفاظ کبھی ادا نہیں فرمائے۔ ان سے صرف یہ منقول ہے کہ:

> **”افعالنا مخلوقة وألفاظنا من أفعالنا”**
> *(ہمارے افعال مخلوق ہیں اور ہمارے الفاظ ہمارے افعال میں سے ہیں۔)*

یعنی ان کا مؤقف تھا کہ:

– بندوں کے افعال (جن میں قرآن پڑھنے کے دوران زبان سے نکلنے والے الفاظ بھی شامل ہیں) مخلوق ہیں۔
– لیکن قرآن جو اللہ تعالیٰ کی صفت (کلام) ہے، وہ غیر مخلوق ہے۔

 امام بخاری پر الزام کی وجہ :

اس نسبت کی بنیادی وجوہات دو ہیں:

 ① پہلی وجہ:

– نیشاپور میں امام بخاری رحمہ اللہ سے جب "لفظی بالقرآن” کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے کہا:
> "افعالنا مخلوقة وألفاظنا من أفعالنا”
– اس پر اختلاف اور ہنگامہ برپا ہوا، کچھ لوگوں نے اسے "لفظی بالقرآن مخلوق” سے تعبیر کر لیا۔

 ② دوسری وجہ:

– معتزلہ اور جہمیہ جو قرآن کو مخلوق کہتے تھے، ان کے نزدیک "قرآن” (مقروء) اور "قرأت” (قاری کا فعل) دونوں ایک ہی چیز تھے۔
– اسی غلط فہمی کے پیش نظر بعض اہلِ حدیث نے بھی شدت اختیار کی اور جو شخص بھی "لفظی بالقرآن” کہتا اسے "قرآن کو مخلوق کہنے والوں” میں شامل کر لیا۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مؤقف:

– امام احمد رحمہ اللہ نے "لفظی بالقرآن مخلوق” کہنے والوں کا رد اس لیے کیا تاکہ قرآن کے مخلوق ہونے کا دروازہ بند ہو۔
– ان کے نزدیک "قرآن غیر مخلوق” تھا لیکن قاری کا فعل (تلاوت) مخلوق تھا۔ لیکن احتیاطاً اس بات کو کہنے سے بھی منع فرماتے تاکہ کوئی غلط مطلب نہ نکالے۔

 

 امام بخاری رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ میں اتفاق:

– دونوں اماموں کے درمیان اس مسئلہ میں کوئی حقیقی اختلاف نہیں تھا۔
– دونوں کا موقف یہی تھا کہ:
– **قرآن (متلو، اللہ کا کلام) غیر مخلوق ہے۔**
– **تلفظ بالقرآن (قاری کی تلاوت و آواز) مخلوق ہے۔**

امام بخاری رحمہ اللہ نے واضح طور پر فرمایا:

> **”القرآن كلام الله غير مخلوق وأفعال العباد مخلوقة”**
> *(قرآن اللہ کا کلام ہے، غیر مخلوق ہے اور بندوں کے افعال مخلوق ہیں۔)*

 نتیجہ اور خلاصہ:

– امام بخاری رحمہ اللہ نے "لفظی بالقرآن مخلوق” کبھی نہیں کہا۔
– لیکن معنوی طور پر وہ یہی عقیدہ رکھتے تھے کہ بندے کی تلاوت (تلفظ، قاری کا فعل) مخلوق ہے، جبکہ قرآن (متلو، اللہ کا کلام) غیر مخلوق ہے۔
– امام ذہلی اور دیگر لوگوں نے غلط فہمی اور سوء ظن کے باعث انہیں "لفظی بالقرآن مخلوق” کا قائل سمجھا اور ان پر الزام لگایا۔

**لہذا امام بخاری رحمہ اللہ پر یہ الزام لگانا درست نہیں۔ وہ اہلِ سنت کے صحیح عقیدہ پر تھے۔**

والله أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1