خلع کم اور زیادہ مال سے جائز ہے جب تک اس مقدار سے تجاوز نہ کرے جو خاوند نے اسے دی ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

خلع کم اور زیادہ مال سے جائز ہے جب تک اس مقدار سے تجاوز نہ کرے جو خاوند نے اسے دی ہے
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ! میں ثابت بن قیس کے اخلاق اور دین میں کوئی عیب نہیں لگاتی لیکن اسلام میں کفر کو نا پسند کرتی ہوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أتر دين عليه حديقته
”کیا تو اس کا باغ اسے واپس کر دے گی؟“
وہ بولی ہاں ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرمايا:
اقبل الحديقة وطلقها تطليقة
” (اے ثابت ! ) اپنا باغ لے لو اور اسے طلاق دے دو ۔ “
[بخاري: 5273 ، كتاب الطلاق: باب الخلع وكيف الطلاق فيه ، نسائي: 169/6 ، ابن ماجة: 2056 ، دارقطني: 46/4 ، بيهقي: 313/7]
اور صحیح بخاری کی ہی ایک روایت میں ہے کہ :
وأمره أن يطلقها
” (جب اس نے باغ واپس کر دیا ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ اسے طلاق دے دے۔“
[بخاري: 5274 أيضا]
➋ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
فامره رسول الله أن ياخذ منها حديقته ولا يزداد
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (یعنی ثابت کو) حکم دیا کہ وہ اس سے اپنا باغ وصول کر لے اور زیادہ کچھ نہ لے ۔ “
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1673 ، كتاب الطلاق: باب المختلفة تاخذ ما أعطاها ، إرواء الغليل: 2036 ، ابن ماجة: 2056 ، نسائي: 169/6]
➌ ایک روایت میں ہے کہ ثابت کی بیوی نے کچھ زیادہ بھی دینے کا ارادہ ظاہر کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أما الزياده فلا
”تم زیادہ مت دو ۔ “
لیکن شیخ البانیؒ نے اسے مرسل قرار دیا ہے۔
[إرواء الغليل: 104/7 ، دارقطني: 255/3]
➍ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”شوہر اپنے دیے ہوئے سے زیادہ وصول نہ کرے ۔“
[عبد الرزاق: 11844]
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ شوہر اپنے دیے ہوئے حق مہر سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ علاوہ ازیں جس روایت میں ہے کہ :
فردت عليه حديقته وزادته
”اس عورت نے اس کا باغ واپس کر دیا اور کچھ زیادہ بھی دیا ۔“ وہ ضعیف ہے۔
[بيهقي: 314/7]
(احمدؒ) مرد زیادہ کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ امام اسحاق ، امام شعبی ، امام زہری ، امام حسن ، امام عطا اور امام طاؤس رحمہم اللہ اجمعین بھی یہی موقف رکھتے ہیں۔
(جمہور ، شافعیؒ ، مالکؒ ، ابو حنیفہؒ) اگر نفرت کا اظہار عورت کی طرف سے ہو تو مرد کے لیے زیادہ لینا جائز ہے ۔ (ان کی دلیل آیت: فِيمَا افتَدَتْ بِهِ کا عموم ہے حالانکہ یہ عام ہے اور گذشتہ ثابت رضی اللہ عنہ کی حدیث: ولا بزداد اس کی تخصیص کرتی ہے، لٰہذا خاص پر عمل کرنا واجب ہے )۔
(ابن قدامہؒ) مرد کے لیے اپنے دیے ہوئے مال سے زیادہ کا مطالبہ کرنا مستحب نہیں ہے۔ اگر کوئی زیادہ وصول کرے گا تو وہ مکروہ ہے لیکن خلع واقع ہو جائے گا۔ اور اگر بغیر کسی معاوضے کے بھی مرد عورت کو خلع دے دے تو خلع ہو جائے گا ۔ (کیونکہ مقصود دونوں کی رضا مندی ہے جس پر بھی ہو جائے درست ہے ) ۔
[المغنى: 269/10 – 270 – 287 ، نيل الأوطار: 346/4 ، تفسير اللباب فى علوم الكتاب: 142/4]
(راجح) شوہر اپنی بیوی سے اپنے دیے ہوئے مہر سے زیادہ کا مطالبہ نہیں کر سکتا جیسا کہ حدیث کے ان الفاظ: ولا يزداد سے واضح ہوتا ہے لیکن اگر بیوی اپنی خوشی سے کچھ زیادہ دینا چاہے، (مثلا شوہر کی دی ہوئی گاڑی یا گھر وغیرہ ) جائز ہے ۔ کیونکہ شریعت میں اس کی ممانعت موجود نہیں اور جس روایت میں ہے:
أما الزياده فلا
وہ ضعیف ہے ۔ جیسا کہ گذشتہ سطور میں اس کا بیان گزر چکا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1