خلع کا طریقہ اور اس کے بعض مسائل
تحریر: شیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

نکاح میاں بیوی کے درمیان عقد زواج کا نام ہے۔ جب کبھی شوہر کو شرعی عذر کی بنا پر بیوی سے الگ ہونا ہو تو بیوی کو طلاق دے کر عقد نکاح ختم کر سکتا ہے یا اگر بیوی کو شرعی عذر کی بنا پر شوہر سے جدائی حاصل کرنی ہو تو وہ حق خلع کا استعمال کر کے عقد نکاح ختم کر سکتی ہے۔ یعنی اسلام نے میاں بیوی میں سے ہر ایک کو عذر کے تحت الگ ہونے کا اختیار دیا ہے۔ مندرجہ ذیل سطور میں خلع، جو بیوی کا حق ہے، اس کا طریقہ اور اس کے بعض مسائل بیان کیے جائیں گے۔

خلع کا معنی:

میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے لباس کی طرح ہوتے ہیں اس لیے خلع کہتے ہیں اتارنے کو، اور شرعی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں بیوی کے مطالبہ پر اس سے معاوضہ لے کر شوہر اپنی بیوی کو عقد نکاح سے آزاد کر دے۔ معاوضہ میں مکمل مہر بھی ہو سکتا ہے یا مہر سے کم کوئی بھی معاوضہ ہو سکتا ہے جس پر شوہر راضی ہو جائے، اسے پیش کر کے زوجیت سے آزاد ہو جائے، اسی کا نام خلع ہے۔ چونکہ خلع میں فدیہ کے بدلے شوہر سے جدائی حاصل کی جاتی ہے اس لیے اسے فداء بھی کہا جاتا ہے اور اسے طلاق علی المال یا طلاق علی العوض بھی کہا جاتا ہے جو دراصل خلع ہے، طلاق نہیں ہے۔

خلع کے صحیح ہونے کی شرائط:

➊ خلع بیوی کا حق ہے اس لیے یہ مطالبہ صرف بیوی کر سکتی ہے، کوئی دوسرا اس حق کا استعمال نہیں کر سکتا۔
➋ خلع کی صحت کے لیے معاوضہ ہونا اور معاوضہ کا متعین ہونا ضروری ہے، یعنی بیوی مکمل مہر یا اس سے کم یا جس معاوضہ پر شوہر راضی ہو جائے وہ متعین و معلوم ہو، اس کے بدلے خلع حاصل کرے، یعنی خلع کے لیے معاوضہ کا ہونا اور معاوضہ متعین ہونا دونوں ضروری ہیں۔
❀ خلع کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ
(البقرہ: 229)
اگر تمہیں ڈر ہو کہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت رہائی پانے کے لیے کچھ دے ڈالے، اس پر دونوں پر گناہ نہیں۔
سنت سے دلیل یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں:
أن امرأة ثابت بن قيس أتت النبى صلى الله عليه وسلم، فقالت يا رسول الله، ثابت بن قيس ما أعتب عليه فى خلق ولا دين، ولكني أكره الكفر فى الإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أتردين عليه حديقته؟ قالت: نعم، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اقبل الحديقة، وطلقها تطليقة
ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے ان کے اخلاق اور دین کی وجہ سے ان سے کوئی شکایت نہیں ہے، البتہ میں اسلام میں کفر کو پسند نہیں کرتی (کیونکہ ان کے ساتھ رہ کر ان کے حقوق زوجیت کو نہیں ادا کر سکتی)۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ کیا تم ان کا باغ (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا) واپس کر سکتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ثابت رضی اللہ عنہ سے) فرمایا کہ باغ قبول کر لو اور انہیں طلاق دے دو۔
(صحیح البخاری: 5273)
یہاں پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں فدیہ و معاوضہ کے بدلے خلع حاصل کرنے کا واضح بیان ہے۔ اب یہاں ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر خلع میں معاوضہ نہ ہو تو کیا وہ خلع ہو گا یا نہیں؟ اس بارے میں اکثر اہل علم یہی کہتے ہیں کہ خلع کے لیے معاوضہ کا ہونا ضروری ہے، ورنہ خلع نہیں ہو گا اور یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے خلع لینے کی صورت میں شوہر کو کچھ نہ کچھ دینا چاہیے، کوئی ضروری نہیں کہ مکمل مہر دیا جائے، معمولی چیز بھی چل جائے گی اور اگر شوہر معاوضہ معاف کر دے تب بھی خلع واقع ہو جائے گا۔
لیکن معاوضہ میں شوہر کا مہر سے زیادہ کا مطالبہ کرنا غلط ہے کیونکہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے مذکورہ واقعہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فقط مہر لوٹانے کا حکم دیا ہے۔ بلکہ ابن ماجہ میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مہر میں دیا ہوا باغ ہی لینے کو کہا اور زیادتی سے منع فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ثابت بن قیس سے فرماتے ہیں:
أن يأخذ منها حديقته ولا يزداد
ترجمہ: کہ وہ اپنی بیوی (جمیلہ رضی اللہ عنہا) سے اپنا باغ لے لیں اور زیادہ نہ لیں۔
(صحیح ابن ماجہ: 1686)
گویا خلع میں دونوں طرف سے مطالبہ ہوتا ہے، بیوی کی طرف سے خلع کا مطالبہ ہوتا ہے اور شوہر کی طرف سے معاوضہ کا مطالبہ ہوتا ہے۔ دونوں جب ایک دوسرے کا مطالبہ پورا کر دیتے ہیں تو خلع واقع ہو جاتا ہے۔ ممکن ہے کبھی شوہر معاوضہ کا مطالبہ نہ کرے، پھر بھی بیوی خلع کے لیے کچھ نہ کچھ معاوضہ پیش کرے تاکہ خلع بعوض ہو جائے۔
❀ خلع کی صحت کے لیے ایک شرط اتحاد مجلس بھی بیان کی جاتی ہے، یعنی ایک ہی مجلس میں میاں بیوی کے درمیان خلع کے لیے ایجاب و قبول ہو۔ ایجاب شوہر کی طرف سے اور قبول بیوی کی طرف سے ہو گا، مثلاً شوہر کہے کہ میں نے ایک ہزار روپے میں تجھ کو خلع دیا اور بیوی کہے کہ میں نے قبول کیا تو اس سے خلع واقع ہو گا۔ لیکن اگر میاں بیوی کے درمیان ایجاب و قبول میں اتحاد مجلس نہ ہو، جیسے شوہر صبح میں ایجاب کرے اور بیوی دوسری مجلس میں یا شام میں یا بعد میں قبول کرے تو اس سے خلع واقع نہ ہو گا کیونکہ ممکن ہے کہ بیوی اپنے مطالبہ کو واپس لے لے اور خلع قبول نہ کرے۔ اس مسئلے پر ائمہ اربعہ کا اتفاق منقول کیا جاتا ہے۔
(دیکھیں: الموسوعة الفقہیة: 209/1)
❀ خلع میں شوہر یا بیوی یا زوجین کی طرف سے وکیل بنانا جائز ہے، یہ وکالت اس وقت درست ہو گی جب صاحب امر نے واقعی کسی کو وکیل بنایا ہو اور وکالت کے جواز پر اہل علم نے اجماع نقل کیا ہے۔ (تفصیل کے لیے المغنی لابن قدامہ رحمہ اللہ دیکھ سکتے ہیں)
❀ خلع کی صحت کے لیے مخصوص الفاظ کی ضرورت نہیں ہے، معاوضہ کے بدلے طلاق، خلع، آزادی، فراغت اور اس قسم کے کوئی بھی جملے سے خلع حاصل ہو جائے گا۔

خلع کے اسباب:

خلع بیوی کی طرف سے طلب کیا جاتا ہے اس لیے بیوی کے پاس خلع حاصل کرنے کے لیے شرعی عذر ہونا چاہیے، جیسے بیوی شوہر کو ناپسند کرے اس طرح کہ شوہر کی ناشکری میں واقع ہونے کا خطرہ ہو، جیسے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی کو محسوس ہوا۔ ہمیں معلوم ہے کہ شوہر کی ناشکری جہنم میں لے جانے کا سبب ہے، اس وجہ سے عورت شوہر سے خلع طلب کر سکتی ہے۔ اسی طرح اگر شوہر بیوی سے محبت نہ کرے جبکہ نکاح کی بنیاد ہی الفت و محبت پر قائم ہے، یا نان و نفقہ نہ دے، یا شوہر نامرد ہو، یا خطرناک بیماری میں مبتلا ہو، ظلم و تشدد برتنے والا ہو، بے دین، بد اخلاق، زانی یا شرابی ہو تو ایسے حالات میں بیوی اپنے شوہر سے خلع حاصل کر سکتی ہے۔
الہم خلع کے لیے شرعی عذر کا ہونا ضروری ہے۔ اگر بغیر شرعی عذر کے بیوی خلع حاصل کرتی ہے تو خلع واقع ہو جائے گا مگر وہ اس صورت میں گنہگار ہو گی۔ ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أيما امرأة سألت زوجها طلاقا فى غير ما بأس، فحرام عليها رائحة الجنة
جس عورت نے اپنے شوہر سے بغیر کسی ایسی تکلیف کے جو اسے طلاق لینے پر مجبور کرے طلاق کا مطالبہ کیا تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔
(صحیح ابی داؤد: 2226)
یہ حدیث خلع کے بارے میں ہے کیونکہ یہاں بیوی اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے، اس لیے امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب فى الخلع کا باب باندھا ہے۔ ایسی عورت کو ایک حدیث میں منافق بھی کہا گیا ہے۔ ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المختلعات من المنافقات
خلع لینے والی عورتیں منافق ہیں (جو بلا سبب خلع لیں)۔
(صحیح الترمذی: 1186)

خلع کا طریقہ:

(1) خلع کے لیے کسی حاکم و قاضی یا مفتی و عالم کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے، یہ معاملہ گھر میں ہی میاں بیوی کے درمیان طے پا سکتا ہے۔ جب بیوی شوہر میں کوئی شرعی خامی دیکھے اور اس کا اپنے شوہر کے ساتھ نباہ مشکل ہو تو وہ اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے۔ اگر وہ اپنی مرضی سے طلاق کی نیت سے طلاق دے دیتا ہے تو عورت طلاق کے ذریعے شوہر سے جدا ہو جائے گی۔ لیکن اگر وہ طلاق نہیں دیتا ہے تو معاوضہ (مہر یا کوئی چیز جو آپس میں طے ہو جائے) کے بدلے شوہر سے خلع طلب کرے۔ شوہر کو چاہیے کہ اگر اس کی بیوی کسی شرعی عذر کی وجہ سے اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اور خلع کا مطالبہ کر رہی ہے تو مہر یا کوئی معاوضہ (جو مہر مثل یا اس سے کم ہو) لے کر خلع دے دے۔ خلع کی شکل یہ ہو گی کہ شوہر معاوضہ لے کر اپنی بیوی سے کہے کہ میں فلاں مال کے بدلے تجھ کو آزاد کرتا ہوں یا خلع دیتا ہوں اور بیوی کہے کہ مجھے قبول ہے تو اس سے خلع ہو جائے گا۔ یہ معاملہ ایک ہی مجلس میں ہو کیونکہ ایجاب و قبول الگ مجلس میں ہو تو خلع نہیں ہو گا۔
(2) اسی طرح شوہر بیوی کے مطالبہ پر معاوضہ لے کر کہے کہ میں تجھے آزاد کرتا ہوں، میں تجھے طلاق دیتا ہوں، یا میں تجھ سے خلع کر لیا، ان سب باتوں سے خلع واقع ہو جائے گا، یعنی خلع کے وقوع کے لیے مخصوص الفاظ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس قسم کے کوئی بھی جملے خلع کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے خلع کے سلسلے میں تین قسم کی عورتوں کا ذکر ہے۔ ایک خاتون کا نام جمیلہ بنت عبد اللہ بن ابی رضی اللہ عنہا، دوسری خاتون کا نام مریم مغالیہ رضی اللہ عنہا، اور تیسری خاتون کا نام حبیبہ بنت سہل رضی اللہ عنہا ہے۔ یہ تینوں الگ الگ واقعات ہو سکتے ہیں اور ان تینوں قسم کی احادیث میں خلع کے لیے مختلف قسم کے صیغے وارد ہیں۔
ایک حدیث میں خلع کا یہ طریقہ مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت رضی اللہ عنہ کی زوجہ کو مہر میں دیا گیا باغ لوٹانے کا حکم دیا اور شوہر کو حکم دیا:
اقبل الحديقة، وطلقها تطليقة
باغ قبول کر لو اور انہیں طلاق دے دو۔
(صحیح البخاری: 5273)
یہی خلع ہو گیا۔
❀ دوسری حدیث میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کو باغ لوٹانے کا حکم دیا اور شوہر کو حکم دیا کہ بیوی کو جدا کر دو، پس انہوں نے جدا کر دیا۔ حدیث کے الفاظ ہیں:
فتردين عليه حديقته؟ فقالت: نعم، فردت عليه، وأمره ففارقها
ترجمہ: کیا تم ان کا باغ (جو انہوں نے مہر میں دیا تھا) واپس کر سکتی ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ چنانچہ انہوں نے وہ باغ واپس کر دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ثابت رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے سے جدا کر دیا۔
(صحیح البخاری: 5276)
ایک دوسری حدیث میں خلع سے جدائی کا ذکر اس طرح آیا ہے:
قال: فإني أصدقتها حديقتين، وهما بيدها، فقال النبى صلى الله عليه وسلم: خذهما ففارقها، ففعل
ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اسے دو باغ مہر میں دیے ہیں، یہ ابھی بھی اس کے پاس موجود ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں کو لے لو اور اس سے جدا ہو جاؤ، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔
(صحیح ابی داؤد: 2228)
❀ بعض روایات میں یہ ذکر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہر واپس دلا کر میاں بیوی کے درمیان خود سے جدائی کر دی، جیسے عدالت کے ذریعے جدائی کی جاتی ہے۔ چنانچہ ابن ماجہ کی روایت میں ہے:
فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أتردين عليه حديقته؟ قالت: نعم، فردت عليه حديقته، قال: ففرق بينهما رسول الله صلى الله عليه وسلم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم ان کا باغ واپس لوٹاؤ گی؟ کہا: ہاں، اور ان کا باغ انہیں واپس دے دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان جدائی کر دی۔
(ابن ماجہ: 2057)
اس حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے اور بیہقی میں اس طرح وارد ہے:
أتردين عليه حديقته؟ قالت: نعم، فأمرها أن ترد عليه ففرق بينهما
ترجمہ: کیا تم اس کا باغ لوٹاؤ گی؟ تو بیوی نے کہا: ہاں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو حکم دیا کہ ثابت رضی اللہ عنہ کو واپس کر دے اور دونوں کے درمیان تفریق کر دی۔
(السنن الکبری للبیہقی: 14840)
❀ بعض روایات میں خلع کے لیے کہا گیا ہے کہ دی ہوئی چیز لے کر بیوی کا راستہ چھوڑ دو۔ سنن نسائی کی روایت دیکھیں، جب جمیلہ بنت عبد اللہ بن ابی رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کی شکایت لے کر آتی ہیں تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت رضی اللہ عنہ سے کہا:
خذ الذى لها عليك، وخل سبيلها، قال: نعم، فأمرها رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تتربص حيضة واحدة، فتلحق بأهلها
ترجمہ: تمہاری دی ہوئی جو چیز اس کے پاس ہے اسے لے لو اور اس کا راستہ چھوڑ دو۔ انہوں نے کہا: اچھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (یعنی عورت جمیلہ رضی اللہ عنہا کو) حکم دیا کہ ایک حیض کی عدت گزار کر اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ۔
(صحیح النسائی: 3497)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت خلع کی عدت ایک حیض شوہر کے گھر گزار سکتی ہے پھر اپنے میکے چلی جائے، لیکن یہ ضروری نہیں ہے، وہ اپنے گھر بھی عدت گزار سکتی ہے۔
بہرحال، خلع دینے کے لیے شوہر عوض لے کر کسی بھی قسم کے آزادی والے الفاظ کہہ کر بیوی کو آزاد کر سکتا ہے اور خلع واقع ہو جائے گا، جیسا کہ میں نے مختلف قسم کی احادیث جمع کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب گھر میں آپسی رضامندی سے خلع کرنا ہو تو بہتر ہے کہ دو عادل گواہ بھی رکھ لیے جائیں کیونکہ بسا اوقات اس سلسلے میں نزاع پیدا ہو جاتا ہے۔ تاہم بغیر گواہ کے بھی خلع ہو جائے گا اور کاغذ پر تحریری صورت میں خلع درج ہو جائے تو اور بھی بہتر ہے تاکہ برہان و حجت تحریری طور پر محفوظ رہے، تاہم صرف زبانی طور پر بھی خلع ہو جائے گا۔
(3) جب شوہر نہ طلاق دینے پر راضی ہو اور نہ ہی خلع دینے پر، تب بیوی کے لیے مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ اس کا بھی حل موجود ہے۔ ایسی صورت میں بیوی شرعی عدالت میں خلع کا کیس کرے اور عدالت کے ذریعے خلع حاصل کرے۔ عدالت میاں بیوی دونوں کو حاضر کر کے پہلے اصلاح کی کوشش کرے اور اگر اصلاح کی گنجائش نہ ہو اور زوجین میں تفریق کا عذر موجود ہو تو شوہر کو طلاق کے لیے کہے۔ اگر وہ طلاق کے لیے راضی نہ ہو تو معاوضہ کے بدلے خلع کرا دے۔ جب شوہر نہ طلاق دے اور نہ خلع پر راضی ہو اور عدالت میں بھی حاضر نہ ہو تو عدالت کیا کرے؟ عدالت کو چاہیے کہ ہر ممکن طور پر شوہر تک خبر پہنچائے اور اسے عدالت میں حاضر ہونے کی مناسب مہلت بھی دے، حتیٰ کہ کئی بار شوہر کو باخبر کرے تاکہ بعد میں اس کے پاس بیوی کو یا عدالت کو مورد الزام ٹھہرانے کا کوئی عذر باقی نہ رہے۔ بار بار شوہر کو خبر کر کے اور مہلت دے کر بھی اگر شوہر عدالت میں حاضر نہ ہو جبکہ بیوی کے پاس شوہر سے جدائی حاصل کرنے کا شرعی عذر موجود ہو تو عدالت ایسی صورت میں شوہر کی حاضری اور رضامندی کے بغیر نکاح کو فسخ کر دے گی تاکہ بیوی اس مرد سے آزاد ہو جائے۔
(4) بہت ساری جگہوں پر شرعی عدالت اور دار القضاء نہیں ہوتے تو ایسی جگہ پر غیر شرعی عدالت میں غیر مسلم کے پاس خلع کا کیس نہ لے جائے کیونکہ یہ عدالت جمہوری دستور کے مطابق فیصلہ کرے گی، اس کو اسلامی شریعت سے کوئی واسطہ نہیں ہو گا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر عورت خلع کے لیے کہاں جائے؟ ایسی عورت خلع کے لیے مستند عالم کے ذریعے دونوں فریق کے ساتھ پنچایت بلائے یا قریب میں کوئی مستند علمی ادارہ اور دینی مرکز ہو تو اس کے ذمہ داروں کے ذریعے خلع کروائے۔ یہ پنچایت یا ادارہ و مرکز عدالتی کارروائی کی طرح خلع کا عمل انجام دے، یعنی پہلے مرحلے میں کوشش کرے کہ شوہر مجلس میں حاضر ہو اور اصلاح یا طلاق یا خلع جو صورت ممکن ہو اس پر عمل کرے۔ اگر شوہر کو خبر کرنے اور کوشش کرنے کے باوجود مجلس میں حاضر نہ ہو تو بغیر اس کی رضامندی کے نکاح فسخ کر دے، اس طرح عورت کا نکاح فسخ ہو جائے گا۔
ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ جب عورت شرعی عذر کی بنا پر شوہر کے ساتھ رہنا نہ پسند کرے تو اس سے جدائی حاصل کرنے کا ایک طریقہ تو طلاق ہے جو شوہر کا حق ہے، یعنی شوہر سے طلاق لے کر آزاد ہو جائے۔ دوسرا طریقہ خلع ہے جو عورت کا حق ہے، یعنی وہ شوہر کو معاوضہ دے کر اس سے خلع حاصل کر لے گی یا عدالت یا پنچایت کے ذریعے اپنا نکاح فسخ کر کے شوہر سے آزادی حاصل کر لے گی۔

خلع طلاق ہے یا فسخ؟

اہل علم کے درمیان اس معاملے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ خلع طلاق ہے یا فسخ نکاح۔ اس مسئلے میں راجح اور قوی موقف یہ ہے کہ خلع، فسخ نکاح ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی ایک سو انتیس نمبر آیت میں دو طلاقوں کے ذکر کے بعد خلع کا ذکر کیا، پھر اگلی آیت میں تیسری طلاق کا ذکر کیا ہے۔ اگر خلع کو طلاق مانا جائے تو جو تیسری طلاق کا ذکر ہے اسے چوتھی طلاق ماننا پڑے گا، جبکہ چوتھی طلاق کا کوئی قائل نہیں ہے۔ اسی لیے خلع طلاق نہیں ہے، فسخ ہے اور اسی سبب طلاق اور خلع میں کئی وجوہ سے فرق ہے، مثلاً طلاق کی عدت تین حیض جبکہ خلع کی عدت ایک حیض ہے اور پہلی و دوسری طلاق میں رجوع ہے جبکہ خلع میں رجوع نہیں ہے۔

خلع کی عدت:

❀ خلع چاہے میاں بیوی کے درمیان گھر میں طے پائے یا عدالت اور پنچایت کے ذریعے خلع یا فسخ نکاح ہو، ان تمام صورتوں میں عورت کی عدت ایک حیض ہو گی۔ خلع کے بعد ایک حیض آئے اور عورت اس سے پاک ہو جائے تو عدت ختم ہو گئی۔ ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:
أنها اختلعت على عهد النبى صلى الله عليه وسلم فأمرها النبى صلى الله عليه وسلم، أو أمرت أن تعتد بحيضة
ترجمہ: انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خلع لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا (یا انہیں حکم دیا گیا) کہ وہ ایک حیض عدت گزاریں۔
(صحیح الترمذی: 1185)
اسی طرح ابو داؤد کی ایک موقوف روایت میں ہے:
عن ابن عمر قال: عدة المختلعة حيضة
ترجمہ: عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ خلع کرانے والی عورت کی عدت ایک حیض ہے۔
(صحیح ابی داؤد: 2230)
شیخ البانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ روایت موقوفاً صحیح ہے۔
جنہوں نے خلع کو طلاق شمار کیا اور تین حیض عدت گزارنے کو کہا، یہ صحیح نہیں ہے۔ نہ خلع طلاق ہے اور نہ ہی خلع میں تین حیض عدت ہے۔ مختلعہ ایک حیض عدت گزاریں۔ طلاق میں تین حیض عدت کی حکمت یہ ہے کہ طویل مہلت میں ممکن ہے شوہر رجوع کر لے، جبکہ خلع میں رجوع نہیں ہے، ایک حیض فقط استبراء رحم کے لیے ہے۔
حیض یا حمل یا جماع والے طہر میں کبھی بھی خلع ہو سکتا ہے اور اگر حیض کی حالت میں خلع ہوا ہو تو وہ موجودہ حیض شمار نہیں ہو گا بلکہ اگلا حیض بطور عدت شمار ہو گا۔ اگر حمل میں خلع ہوا ہو تو وضع حمل عدت ہو گی۔ سابق شوہر کے گھر میں خلع کی عدت گزارنا ضروری نہیں ہے، کہیں بھی عدت گزار سکتی ہے، حتیٰ کہ شوہر کے گھر بھی عدت گزار سکتی ہے، لیکن چونکہ خلع سے دونوں میں اجنبیت قائم ہو گئی ہے اس لیے خلوت سے پرہیز کیا جائے گا اور سابق شوہر سے پردہ بھی کرنا ہے۔ حمل والی عورت کا خلع ہو تو شوہر اس کے لیے سکنیٰ اور نفقہ دونوں کا انتظام کرے یہاں تک کہ وضع حمل ہو جائے۔ مختلعہ عدت میں اپنے گھر سکونت پذیر رہے اور بلا ضرورت گھر سے باہر نہ جائے، ہاں ضرورت پڑنے پر وہ باہر جا سکتی ہے۔

خلع میں رجوع اور نکاح:

خلع کے ذریعے میاں بیوی کے درمیان جدائی حاصل ہو جاتی ہے، یہ بینونہ صغریٰ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس عورت کو خلع ہوا اس سے شوہر رجوع نہیں کر سکتا، لیکن اگر شوہر اسی بیوی کو منتخب کرنا چاہے تو خلع کی عدت گزر جانے کے بعد دوبارہ اس سے نیا نکاح نئے مہر کے ساتھ کر سکتا ہے۔ جس طرح پہلی یا دوسری طلاق کی عدت ختم ہو جائے اور شوہر، سابقہ بیوی کو اختیار کرنا چاہے تو نئے نکاح اور نئے مہر کے ذریعے اختیار کر سکتا ہے۔ ایک بینونہ کبریٰ ہے جو تیسری طلاق سے واقع ہوتی ہے، اس میں نہ رجوع ہے اور نہ میاں بیوی آپس میں نکاح کر سکتے ہیں جب تک کہ کسی دوسرے مرد سے شادی نہ ہو جائے اور وہ چھوڑ نہ دے۔

طلاق تفویض کا حکم:

عموماً دیکھا یہ جاتا ہے کہ جب شوہر بیوی کو چھوڑنا چاہے تو طلاق دے کر اسے جدا کر دیتا ہے، لیکن جب عورت کو شرعی عذر کے تحت اپنے شوہر سے جدائی حاصل کرنی ہو تو شوہر پریشان کرتا ہے، نہ اسے گھر میں سکون سے رہنے دیتا ہے، نہ اس کو طلاق دیتا ہے اور نہ ہی خلع دینے پر راضی ہوتا ہے۔ ایسی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے معاشرے میں ایک نیا رواج پیدا ہوا ہے، وہ ہے طلاق تفویض کا۔ طلاق تفویض کا مطلب یہ ہے کہ نکاح کے وقت مرد اپنی بیوی کو طلاق تفویض سونپ دیتا ہے جس کی بنیاد پر جیسے شوہر بیوی کو طلاق دے سکتا ہے، ویسے ہی بیوی بھی شوہر کو طلاق دے سکتی ہے، گویا اس طلاق تفویض کا استعمال کر کے عورت جب چاہے وہ شوہر کو طلاق دے کر اس سے آزاد ہو سکتی ہے۔ دراصل یہ طلاق تفویض دین میں نئی ایجاد ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا کیونکہ طلاق دینا صرف مرد کا حق ہے اور خلع حاصل کرنا عورت کا حق ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو طلاق تفویض کا من مانی طریقہ نہیں اختیار کرنا چاہیے اور اگر غلطی سے یا جبراً کسی عورت کو طلاق تفویض سونپ دی گئی ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا اور نہ ہی عورت کے طلاق دینے سے شوہر سے جدائی حاصل ہو گی۔

احناف اور خلع:

چونکہ ہمارے سماج میں احناف کی اکثریت ہے اور ان کے یہاں خلع کے سلسلے میں کئی مسائل بے دلیل ہیں اس لیے ان کو جان لینا ضروری ہے۔
(1) احناف خلع کو طلاق مانتے ہیں جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ خلع طلاق نہیں ہے بلکہ فسخ نکاح ہے، لہٰذا خلع والی عورت پر طلاق کا حکم نافذ نہیں ہو گا، فسخ نکاح کا حکم لگے گا۔
(2) احناف خلع کی عدت تین حیض مانتے ہیں جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ خلع کی عدت ایک حیض ہے، جس کی دلیل پہلے پیش کی جا چکی ہے۔
(3) شوہر کی رضامندی کے بغیر احناف خلع کو تسلیم نہیں کرتے ہیں، خواہ عدالت سے خلع ہو یا پنچایت سے خلع ہو، جبکہ اس بارے میں صحیح موقف یہ ہے کہ حالات اور ظروف کا مشاہدہ کر کے شوہر کی رضامندی کے بغیر بھی خلع یا فسخ نکاح ہو سکتا ہے کیونکہ بسا اوقات شوہر اپنی بیوی پر اس قدر ظلم کرتا ہے کہ اس سے محبت کرنا اور زوجیت کا حق ادا کرنا تو دور، اس کی معاشی کفالت تک نہیں کرتا، یعنی اس کی ذرہ برابر پرواہ نہیں کرتا اور اس حال میں وہ نہ طلاق دیتا ہے اور نہ ہی خلع پر راضی ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں بیوی عدالت یا پنچایت کا سہارا لے کر شوہر کی رضامندی کے بغیر بھی نکاح فسخ کر سکتی ہے اور اس ظالم مرد سے چھٹکارا حاصل کر سکتی ہے۔

خلاصہ مباحث:

اس بحث کے آخر میں خلع سے متعلق چند اہم اور موٹی موٹی باتیں درج کر دیتا ہوں تاکہ مضمون کا خلاصہ اور اصل مقصود واضح رہے۔
❀ خلع کہتے ہیں شوہر کا معاوضہ لے کر بیوی کو جدا کر دینا۔
❀ خلع بیوی کا حق ہے، جب بیوی کو شوہر سے علاحدگی کی شرعاً ضرورت پڑے تو بیوی معاوضہ دے کر اپنے شوہر سے خلع کے ذریعے الگ ہو سکتی ہے۔
❀ معاوضہ کے بدلے شوہر کا اپنی بیوی کو آزاد کرنا لفظ طلاق یا خلع یا فسخ یا جدائی یا آزادی جیسے کسی قسم کے الفاظ کے ذریعے خلع ہی مانا جائے گا۔
❀ خلع کا مطالبہ عورت اسی وقت کرے گی جب شوہر کے ساتھ کسی شرعی عذر کی وجہ سے نباہ مشکل ہو، لیکن معمولی تکلیف اور معمولی مشکل کی وجہ سے خلع حاصل نہ کرے بلکہ صبر کے ساتھ اسی شوہر کے ساتھ زندگی گزارے کیونکہ زندگی دکھ سکھ دونوں کے مجموعے کا نام ہے اور دنیا میں کوئی ایسا شوہر نہیں ملے گا جس کے پاس صرف آرام ہی آرام ہو اور کوئی تکلیف نہ ہو۔
❀ اصلاً خلع میاں بیوی کی رضامندی سے ہی منعقد ہو گا، لیکن ناگزیر حالات میں جب بیوی کے لیے الگ ہونا مباح ہو اور شوہر بیوی کو طلاق یا خلع کے ذریعے جدائی نہ دیتا ہو تو عدالت یا پنچایت کے ذریعے مکمل تحقیق و تفتیش اور شوہر کو آگاہی کے ساتھ بغیر شوہر کی رضامندی کے بھی نکاح فسخ کیا جا سکتا ہے۔
❀ خلع کے بعد عورت کو اپنی عدت اپنے گھر گزارنا ہے کیونکہ میاں بیوی کا رشتہ ختم ہو چکا ہے اور رجوع کا امکان نہیں ہے، تاہم شوہر کے گھر بھی عدت گزار سکتی ہے۔ خلع کی عدت ایک حیض ہے، عورت کو خلع کے بعد ایک حیض آجائے اور پاک ہو جائے تو اس کی عدت ختم ہو گئی۔
❀ خلع کی عدت میں رجوع نہیں ہے، لیکن اگر پھر سے میاں بیوی اکٹھا ہونا چاہیں تو عدت کے بعد نئے نکاح اور نئے مہر کے ساتھ دونوں اکٹھا ہو سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ نکاح شرعی طور پر اسی طرح منعقد کیا جائے گا جیسے پہلی بار کیا تھا کیونکہ یہ مستقل نکاح ہے، اس میں ولی، مہر، دو عادل گواہ اور نکاح کا اعلان سب کچھ ہونا چاہیے۔
❀ اگر کسی نے اپنی بیوی کو پہلے دو طلاقیں دے دی ہیں، اس کے بعد خلع ہوا ہے تو اس صورت میں بھی خلع کی عدت گزر جانے کے بعد نکاح کیا جا سکتا ہے کیونکہ خلع طلاق نہیں ہے، محض میاں بیوی میں جدائی اور نکاح فسخ کرنا ہے۔
❀ خلع کی عدت میں شوہر پر نفقہ یا سکنیٰ نہیں ہے، لیکن عورت اگر حاملہ ہو تو پھر وضع حمل تک نفقہ و سکنیٰ دینا پڑے گا۔
❀ طلاق تفویض دین میں نئی ایجاد اور ایک قسم کی بدعت ہے جس کا مسلم معاشرے سے خاتمہ ہونا چاہیے اور الحمد للہ شرعی عذر کے تحت عورت کو بھی شوہر سے آزادی حاصل کرنے کا مکمل حق حاصل ہے، لہٰذا کسی قسم کے خود ساختہ طریقے کی ضرورت نہیں ہے اور اصلاً ہمیں اس کی اجازت بھی نہیں ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے