خضر حیات بکھروی اور صحیح بخاری کی حدیث پر اعتراضات کا تحقیقی جائزہ
تحریر: ابوالقاسم نوید شوکت

خضر حیات بکھر وی اور حدیث صحیح بخاری

نحمده ونصلى على رسوله الكريم، أما بعد!

منکرین حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو رد کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے بناتے ہیں، کبھی ان احادیث کو اپنی ناقص عقل کی بھینٹ چڑھاتے ہیں تو کبھی یہ بات کہہ کر انھیں کو رد کر دیتے ہیں کہ یہ قرآن کے خلاف ہیں۔ اس طرح کے لوگ پہلے بھی گزرے ہیں جنھوں نے اس سے متعلق کتابیں بھی لکھی ہیں، جن کا رد علماء نے با دلائل کیا ہے اور انھیں لوگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آج کل کچھ لوگ صحیح احادیث پر حملے کرتے ہیں جن میں سے ایک خضر حیات بکھروی صاحب ہیں وہ بخاری و مسلم کی کئی ایک احادیث کو یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ یہ قرآن کے خلاف ہیں ۔ ان احادیث میں سے ایک درج ذیل حدیث ہے:

سیدنا انس رضی الله عنه سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((العبد إذا وضع في قبره، وتولي وذهب أصحابه حتى إنه ليسمع فرع نعالهم))

’’جب بندے کو قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی (بعد از تدفین) واپس لوٹتے ہیں تو وہ ان کے قدموں کی آہٹ سنتا ہے۔‘‘

(صحيح البخاري: 1338، 1374، صحیح مسلم: 2870 وغیرہ)

صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی صحت پر امت کا اجماع ہے کہ ان کی تمام مرفوع روایات صحیح ہیں جیسا کہ امام ابن کثیر لکھتے ہیں:

ثم حكى أن الأمة تلقت هذين الكتابين بالقبول، سوى أحرف يسيرة، انتقدها بعض الحفاظ كالدارقطني وغيره، ثم استنبط من ذلك القطع بصحة ما فيها من الأحاديث؛ لأن الأمة معصومة عن الخطأ، فما ظنت صحته وجب عليها العمل به ، لا بد وأن يكون صحيحا في نفس الأمر ، وهذا جيد.

پھر (ابن الصلاح) نے بیان کیا کہ بیشک (ساری) امت نے ان دو کتابوں (صحیح بخاری و صحیح مسلم) کو قبول کر لیا ہے، سوائے تھوڑے حروف کے جن پر بعض حفاظ ، مثلاً: دار قطنی وغیرہ نے تنقید کی ہے، پھر اس سے ( ابن الصلاح نے ) استنباط کیا کہ ان دونوں کتابوں کی احادیث قطعی الصحت ہیں، کیونکہ امت (جب اجماع کر لے تو ) خطا سے معصوم ہے چنانچہ جسے امت نے (بالا جماع ) صحیح سمجھا تو اس پر عمل ( اور ایمان ) واجب ہے اور ضروری ہے کہ وہ حقیقی طور پر سیج ہی ہو اور ( ابن الصلاح کی ) یہ بات اچھی ہے۔
(اختصار علوم الحديث : 39)

علامہ زیلعی حنفی فرماتے ہیں:

((وأعلى درجة الصحيح عند الحفاظ ما اتفق عليه الشيخان))

’’اور حفاظ (حدیث) کے نزدیک اعلیٰ درجے کی صحیح حدیث وہ ہے جس پر بخاری و مسلم کا اتفاق ہو۔‘‘

(نصب الراية 1 / 421)

علامہ ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں:

((ثم اتفقت العلماء على تلقى الصحيحين تلقى بالقبول وأنهما أصح الكتب المؤلفة))

پھر (تمام) علماء کا اتفاق ہے کہ صحیحین کو تلقی بالقبول حاصل ہے اور یہ دونوں تمام کتابوں میں صحیح ترین ہیں۔

(مرقاۃ المفاتيح 1 / 58)

امام ابن ابی العز الحنفی لکھتے ہیں:

((وكفى بتصحيح البخاري ومسلم لها حجة))

کسی (حدیث) کے حجت ہونے کے لیے بخاری ومسلم کا اُسے صحیح قرار دینا ہی کافی ہے۔

(التنبيه على مشكلات الهداية 3/ 39 كتاب العتاق)

ہماری مطبوعہ و مذکورہ حدیث کی صحت پر امت کا اجماع ہے، تاہم بعض بطور خاص محدثین کے نام درج ذیل ہیں جنھوں نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے:

امام بخاری رحمتہ اللہ کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے، کیونکہ انھوں نے اسے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔

(ح 1338، 1374)

امام مسلم رحمتہ اللہ کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے، اسی لیے انھوں نے اس کو اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ (ح ٢٨٧٥)

امام ابن حبان رحمتہ اللہ کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے، کیونکہ انھوں نے اس کو اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ (ح۳۱۲۰)

حافظ بغوی رحمہ اللہ نے کہا:

’’هذا حديث متفق على صحته‘‘.

(شرح السنة 5 / 115)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحم اللہ نے اس حدیث کو ثابت قرار دیا ہے۔
(فتح الباري 373 كتاب الجنائز باب ما جاء في عذاب القبر)

علامہ بدر الدین العینی الحنفی رحمتہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا۔
(عمدة القاری شرح صحيح البخاري 8 / 210)

اس طرح کی ایک حدیث سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ سے بھی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((والذي نفسي بيده، إنه ليسمع خفق نعالهم حين يولون عنه))

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! بے شک وہ (مردہ) ان کے قدموں کی آہٹ سنتا ہے جب وہ (بعد از تدفین) واپس لوٹتے ہیں۔‘‘

(المستدرك 2 / 377 ح 1418، وقال هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه، وسنده حسن)

یہ ہے صحیحین کی صحت اور خاص کر اس حدیث کی صحت کے متعلق علمائے امت کے اقوال۔ اب ذرا بکھروی صاحب کی بھی سن لیں وہ کہتے ہیں:

”یہ روایت راویوں نے کہا ہے کہ رسول پاک کا فرمان نہیں۔ قرآن کہتا ہے مردے سنتے نہیں اور یہ روایت کہتی ہے سنتے ہیں ۔ یا اس روایت کو يسمع پڑھا جائے۔ بکھروی صاحب کہتے ہیں جو اس کو يسمع پڑھتا ہے تو وہ قرآن کا منکر ہے۔‘‘

اب اس پر غور کریں کہ پوری امت کا اجماع ہے کہ یہ روایت صحیح ہے اور اجماع شرعی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے، جبکہ بکھروی صاحب اس کو چھوڑ کر اپنی خواہش نفس کے پیچھے لگ کر اس روایت سے متعلق کیا کچھ کہہ رہے ہیں؟ اور اس کو قرآن کے خلاف کہہ کر رد کر رہے ہیں۔ یہاں ان پر ان کے اپنے ہی دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث کی بات فٹ آتی ہے، چنانچہ قاری طیب صاحب لکھتے ہیں: ’’اس لیے حدیث صحیح لذاتہ کا انکار در حقیقت قرآن کی سینکڑوں آیتوں کا انکار ہے۔ اس لیے کسی منکر حدیث جو اتباع قرآن کا نام نہاد مدعی ہے کم از کم اس روایت سے انکار کی گنجائش باقی نہیں رہتی جس کا نام صحیح لذاتہ ہے۔‘‘

(مقدمہ فضل الباری خاص 103)

قاری طیب صاحب کے قول کی روشنی میں بکھروی صاحب قرآن کی سینکڑوں آیتوں کا انکار کرنے والے منکر حدیث اور اتباع قرآن کے نام نہاد مدعی ہیں۔

بکھروی صاحب جو اس روایت کو گپ کہہ رہے ہیں، تو ان پر لازم تھا کہ یہ بھی بتادیتے کہ کس راوی کی گپ ہے؟ پھر دلائل سے اس کو ثابت کرتے ، لیکن انھوں نے ایسی کوئی دلیل نہیں دی اور یاد رہے کہ منکرین حدیث اور گمراہ لوگوں کا ہمیشہ سے یہی طریقہ رہا ہے کہ جب وہ دلائل کے میدان میں عاجز آ جاتے ہیں تو اسی طرح کی بونگیاں مارتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ یہ قرآن کے خلاف ہے تو یہ بات خود بکھروی صاحب کی قرآن سے بے خبری کی دلیل ہے، کیونکہ جہاں قرآن میں ہے:

(وما انت بمسمع من في القبور) (فاطر : 22)

وہاں اس سے قبل یہ بھی ہے:

(إن الله يسمع من يشاء)

’’بے شک اللہ تعالی سناتا ہے جس کو چاہتا ہے۔‘‘

پھر اس کے بعد فرمایا :

﴿وما انت بمسمع من فى القبور)

’’اور آپ انھیں نہیں سنانے والے جو قبروں میں ہیں۔ ‘‘

(فاطر : 22)

اور جو حدیث میں ہے کہ مردہ واپس لوٹنے والوں کے قدموں کی آہٹ سنتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ ہی سناتا ہے، لہذا قرآن و حدیث میں کوئی تعارض نہیں، بلکہ یہ تعارض بکھروی صاحب کے ذہن میں ہے۔

رہی یہ بات کہ اسے مجہول پڑھا جائے تو یہ بھی غلط ہے، کیونکہ محدثین نے اسے معلوم پڑھا ہے۔ چند مزید حوالے ملاحظہ فرمائیں کہ علمائے امت نے اس حدیث کے بارے میں کیا کہا ہے :

امام بخاری رحمتہ اللہ نے اس پر باب باندھا ہے :

(باب الميت يسمع قرع نعالهم)

امام ابن بطال (المتوفی ۴۴۹ھ) فرماتے ہیں:

قوله صلی اللہ علیہ وسلم في الميت: ((إنه ليسمع قرع نعالهم)) ، وكلامه مع الملكين يبين قوله: ﴿وما أنت بمسمع من في القبور) أنه على غير العموم . قال المهلب ولا معارضة بين الآية والحديث، لأن كل ما نسب إلى الموتى من استماع النداء والنوح، فهى في هذا الوقت عند الفتنة أول ما يوضع الميت في قبره أو شاء الله أن يرد أرواح الموتى ردها إليهم لما شاء: (لا يسئل عما يفعل وهم يسئلون) ثم قال بعد ذلك: لا يسمعون، كما قال تعالى: ﴿ إنك لا تسمع الموتى) (وما انت بمسمع من في القبور)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول میت کے بارے میں وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے اس (میت) کا فرشتوں (منکر نکیر) کے ساتھ کلام کرنا بھی واضح کرتا ہے۔ اس (اللہ تعالی) کے قول : ’’اور آپ سنانے والے نہیں ہیں ان کو جو قبروں میں ہیں‘‘ یہ عموم پر مبنی نہیں۔ مہلب نے کہا: آیت اور حدیث میں کوئی تعارض نہیں، کیونکہ جو کچھ مردوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے، آہ و بکا سننے سے متعلق ، جبکہ وہ (حدیث ) میت کو قبر میں رکھنے کے وقت ہے یا جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے یہ کہ وہ مردوں کی روح کو لوٹا دے تو وہ اسے ان کی طرف لوٹا دیتا ہے۔ ’’اس سے نہیں پوچھا جائے گا جو وہ کرتا ہے اور وہ (لوگ) سوال کیے جائیں گے ۔‘‘ اس کے بعد فرمایا: وہ نہیں سنتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بے شک تو مردوں کو نہیں سنا سکتا‘‘، ’’اور آپ سنانے والے نہیں ان کو جو قبروں میں ہیں۔‘‘
(شرح صحيح البخاري لابن بطال 3 / 320 ت 72)

امام قرطبی (التوفی ۲۵۶ھ) لکھتے ہیں:

قوله إن العبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه، وإنه ليسمع فرع نعالهم ، هذا نض في أن الميت يسمع .

’’یہ نص ہے کہ مُردہ آہٹ سنتا ہے۔‘‘

(المفهم ج 7 ص 147)

امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ (المتوفی ۷۲۸ھ) ایک سوال کے جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

فهذه النصوص وأمثالها تبين أن الميت يسمع في الجملة كلام الحي ولا يجب أن يكون السمع له دائما ، بل قد يسمع في حال دون حال كما قد يعرض للحي فإنه قد يسمع أحيانا خطاب من يخاطبه، وقد لا يسمع لعارض يعرض له ، وهذا السمع سمع إدراك ، ليس يترتب عليه جزاء، ولا هو السمع المنفي بقوله : (إنك لا تسمع الموتى) فإن المراد بذلك القبول والامتثال . فإن الله جعل الكافر كالميت الذي لا يستجيب لمن دعاه، وكالبهائم التي تسمع الصوت، ولا تفقه المعنى . فالميت وإن سمع الكلام وفقه المعنى فإنه لا يمكنه إجابة الداعي ، ولا امتثال ما أمر به، ونهي عنه، فلا ينتفع بالأمر والنهي. وكذلك الكافر لا ينتفع بالأمر والنهي ، وإن سمع الخطاب ، وفهم المعنى . كما قال تعالى: ﴿ولو علم الله فيهم خير الاسمعهم﴾ (الانفال: ۲۳)

(الفتاوىٰ الكبرىٰ لابن تيمية 62/3)

’’یہ اور اس جیسی دیگر نصوص سے واضح ہوتا ہے کہ میت کا فی الجملہ زندوں کا کلام سننے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ سننا دائی ہے، بلکہ وہ مختلف (خاص) حالات میں سنتی ہے، جیسا کہ کبھی زندہ کے لیے رکاوٹ حائل کردی جائے تو (باوجودیکہ ) وہ اپنے سے مخاطب کی بات سنتا ہے، لیکن رکاوٹ کی وجہ سے نہیں سن سکتا اور یہ سننا حسی ہے۔ اس سے  نہ کوئی جزا ثابت ہوتی اور نہ وہ آیت: (إنك لا تسمع الموتى) کی رُو سے منفی نہ سمع ہے، کیونکہ اس سے مراد سننے کو قبول کرنا اور اس کی تعمیل ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے کافر کو مُردے کی طرح قرار دیا کہ (وہ سننے کے باوجود بطور تعمیل) بلانے والے کو جواب نہیں دے پاتا اور جانوروں کی طرح جو آواز سنتے ہیں لیکن اس کا معنی سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ پس میت اگر کلام کو سن اور سمجھ بھی لے تب بھی پکارنے والے کی پکار کا جواب و بیٹا اور نہ (اس کے لیے ) امر و نہی کی تعمیل ہی ممکن ہے، وہ امر و نہی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا ، اسی طرح اگر کافر خطاب کوسن اور سمجھ لے تب بھی امر و نہی سے فائدہ حاصل نہیں کرتا ، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:

(ولو علم الله فيهم خير الأسمعهم)

’’اگر اللہ ان میں کوئی بھلائی جانتا تو انھیں ضرور سنوا دیتا۔‘‘

امام ابن رجب ( التوفی ۷۹۵ ھ ) لکھتے ہیں:

’’وأما قوله: ﴿إنك لا تسييح الموتى (النمل: 80) ، وقوله: ﴿ وما انت بمسمع من في القبور ﴾ (فاطر:22) فأن السماع يطلق ويراد به إدراك الكلام وفهمه ويراد به أيضا الانتفاع به والاستجابة له والمراد بهذه الآيات نفى الثاني دون الأول فإنها في سياق خطاب الكفار الذين لا يستجيبون للهدى ولا للإيمان إذا دعوا إليه كما قال الله تعالى: ﴿ولقد ذرأنا لجهنم كثيرا من الجن والإنس لهم قلوب لا يفقهون بها ولهم أعين لا يبصرون بها ولهم أذان لا يسمعون بها (الأعراف: 179) الآية‘‘

اور رہا (اللہ) تعالیٰ کا فرمان : ’’بے شک تو مردوں کو نہیں سنا سکتا ۔‘‘ ’’اور نہیں ہے تو ان کو سنانے والا جو قبروں میں ہیں۔‘‘تو بے شک سماع مطلق ہے اور مراد اس سے کلام کا ادراک اور اسے سمجھنا ہے اور اسی طرح اس سے مراد اس کے ذریعے سے فائدہ اٹھانا اور اس کو جواب دینا بھی ہے اور مراد ان آیات سے دوسری چیز کی نفی ہے پہلی کی نہیں کیونکہ یہ کفار سے خطاب کے سیاق میں ہے ، وہ جو ہدایت کو قبول نہیں کرتے اور نہ ایمان لاتے ہیں جب ان کو اس کی طرف بلایا جاتا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ’’اور بے شک یقیناً ہم نے پیدا کیا ہے بہت سے جنوں اور انسانوں کو جہنم کے لیے ، ان کے دل ہیں وہ ان کے ذریعے سے سمجھتے نہیں ہیں اور ان کی آنکھیں ہیں وہ ان کے ساتھ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں وہ ان کے ساتھ سنتے نہیں‘‘ آیت میں ان کے سننے اور دیکھنے کی نفی کی گئی ہے، کیونکہ کبھی چیز کے عدم فائدہ کی نفی ہوتی ہے۔ پھر جب آدمی سمع و بصر کے ذریعے سے فائدہ حاصل نہیں کر سکا تو گویا نہ اس نے سنا اور نہ دیکھا اور سماع موتی اس کے مساوی ہے۔ اسی طرح کفار کا سننا ہے اس کے لیے جو انھیں ایمان و ہدایت کی طرف بلاتا ہے۔

(أحوال القبور وأحوال أهلها إلى النشور ص 247)

علامہ ابو العباس ابن رسلان (المتوفی ۸۴۴) نے کہا:

’’إن العبد إذا وضع في قبره وتولى عنه أصحابه (انه) ليسمع قرع نعالهم فيه حجة لمن يقول ان الميت يسمع كلام الاحياء كما يسمع قرع النعال .

والثاني: ان يكون المعنى فإنك لا نسمع الموتى اسماعا ينتفعون به قد انقطعت عنهم الأعمال وخرجوا من دار العمل إلى دار الجزاء .‘‘

جب بندے کو قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس لوٹتے ہیں تو وہ ان کے قدموں کی آواز سنتا ہے۔ اس میں دلیل ہے ان کی جو کہتے ہیں مُردہ زندوں کا کلام سنتا ہے، جیسا کہ وہ جوتوں کی آواز سنتا ہے۔

اور دوسری بات: اس کا یہ معنی بھی ہو سکتا ہے آپ مُردوں کو ایسا نہیں سنا سکتے کہ جس سے وہ فائدہ اٹھا سکیں ۔ بے شک ان کے اعمال منقطع ہو چکے ہیں اور وہ دار العمل سے دار الجزاء کی طرف نکل گئے ہیں۔

(شرح سنن أبي داود 356/18، 347)

علامہ عینی الحنفی التوفی (۸۵۵) قرع نعالھم کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’فیه دليل على إن الميت تعود إليه روحه لاجل السؤال وانه يسمع صوت نعال الأحياء وهو فى السؤال‘‘

اس میں دلیل ہے کہ میت کی روح اس کی طرف سوال کے لیے لوٹائی جاتی ہے اور (اسی اثنا میں) وہ زندوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے، جبکہ اس سے سوال ہو رہے ہوتے ہیں۔

(شرح سنن أبي داود 187/6 باب المشي بين القبور بالنعل)

علامہ ابن ہمام الحنفی (المتوفی ۶۸۱ ) لکھتے ہیں:

’’((إن الميت ليسمع فرع نعالهم إذا انصرفوا)) اللهم إلا أن يخضوا ذلك بأول الوضع فى القبر مقدمة للسؤال‘‘

بے شک مُردہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے جب وہ (لوگ) واپس لوٹتے ہیں۔ شاید و باید یہ (وہ موقع) خاص ہے جب (مُر دے کو) پہلی بار قبر میں رکھا جاتا ہے سوال کے لیے۔

(فتح القدیر ص 447 باب الجنائز)

اب ذرا علمائے دیوبند کی بھی سن لیں وہ کیا کہتے ہیں:

عاشق الہی صاحب لکھتے ہیں:

’’آپ کے مخاطبین جو کچھ سنتے ہیں اس سے منتفع نہیں ہوئے اس لیے اس آیت سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ مردے کوئی کلام کسی کا سن ہی نہیں سکتے سماع اموات کا مسئلہ در حقیقت یہ آیت ساکت ہے البتہ یہ مسئلہ اپنی جگہ قابل نظر ہے کہ مردے کسی کلام کو سن سکتے ہیں یا نہیں۔ ان تینوں آیتوں میں یہ بات قابل نظر ہے کہ ان میں سے کسی آیت میں بھی یہ نہیں فرمایا کہ مردے سن نہیں سکتے بلکہ تینوں آیتوں میں نفی اس بات کی گئی ہے کہ آپ نہیں سنا سکتے بلکہ تینوں آیتوں میں اس تعبیر و عنوان کو اختیار کرنے سے اس طرف واضح اشارہ نکلتا ہے کہ مردوں میں سننے کی صلاحیت تو ہو سکتی ہے مگر باختیار خود ان کو نہیں سنا سکتے‘‘ پھر آخر میں لکھتے ہیں: ’’اس لیے جن مواقع میں حدیث کی روایات صحیح سے سننا ثابت ہے وہاں سننے پر عقیدہ رکھا جائے اور جہاں ثابت نہیں ہے وہاں دونوں احتمال ہیں اس لیے نہ قطعی اثبات کی گنجائش ہے نہ قطعی نفی کی ۔ واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم ۔‘‘

(تفسیر انوار البیان 212/4، 213 تفسیر سورۃ النمل آیت: 82، 81)

ادریس کاندھلوی صاحب لکھتے ہیں:

احادیث صحیحہ سے مردوں کا سننا اور قبر پر حاضر ہونے والے کے سلام کو سننا ثابت ہے سو جاننا چاہیے کہ یہ آیت احادیث کے معارض نہیں اس لیے کہ آیت میں سماع موتی کی نفی نہیں بلکہ اسماع موتی کی نفی کی گئی ہے۔

(معارف القرآن 6 / 11 سورۃ النمل آیت: 8281)

تنبیہ:

قبر پر حاضر ہونے والے کے سلام کوسننا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔

مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:

’’اس لیے جن مواقع میں حدیث کی روایات صحیحہ سے سننا ثابت ہے وہاں سننے پر عقیدہ رکھا جائے اور جہاں ثابت نہیں وہاں دونوں احتمال ہیں اس لیے نہ قطعی اثبات کی گنجائش ہے نہ قطعی نفی کی واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم۔‘‘

(معارف القرآن 604/6 تفسیر سورة النمل آیت: ؟؟؟)

غلام اللہ خان صاحب لکھتے ہیں:

’’جو علماء سماع موتیٰ کی نفی کرتے ہیں ان کا استدلال ظواہر قرآن اور احادیث صحیحہ سے ہے جبکہ قائلین سماع بھی صحیح حدیثوں سے استدلال کرتے ہیں۔‘‘

(جواہر القرآن ص 902 سورۃ روم)

آخر میں خضر حیات بکھروی صاحب سے گزارش ہے کہ اگر اور کسی کی نہیں مانتے تو نہ مانیں !! اپنے حنفی علماء کی بات کو ہی مان لو یا اپنے اکابر علمائے دیو بند کی ہی مان لو، انھوں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور قرآن کے خلاف نہیں لیکن بکھروی صاحب ان سب کے خلاف کہتے ہیں یہ گپ ہے۔ والعیاذ باللہ.

قارئین! فیصلہ آپ خود کریں کہ سچا کون ہے؟ رہی بات اس کو مجہول پڑھنے کی تو یہ بات بھی محدثین کے خلاف ہے، کیونکہ انھوں نے اسے معلوم ہی پڑھا ہے، بلکہ علمائے احناف کے حوالے بھی گزرے ہیں کہ انھوں نے اس کو معلوم پڑھا ہے۔ بکھروی صاحب کہتے ہیں: ”جو معلوم پڑھتا ہے وہ قرآن کا منکر ہے۔“ تو گزارش ہے کہ مطلق طور پر تو آپ نے پوری امت کے علماء کو قرآن کا منکر بنا دیا ہے۔ اب ذرا تھوڑی سی ہمت کریں اور تو چند علمائے احناف و علمائے دیوبند کے نام لے کر ذرا لوگوں کو بتائیں کہ یہ قرآن کے منکر تھے تا کہ لوگ منکرین سے بیچ سکیں اور آپ کی بھی حق گوئی واضح ہو سکے۔

وما علينا إلا البلاغ المبين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے