خشک کھجوروں کے بدلے تازہ کھجوروں کی بیع جائز نہیں
تحریر: عمران ایوب لاہوری

خشک کھجوروں کے بدلے تازہ کھجوروں کی بیع جائز نہیں مگر اہل عرایا کے لیے جائز ہے
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے باغ کی تازہ کھجوریں خشک کھجوروں کے بدلے یا تازہ انگور کشمش و منقی کے بدلے ماپ کر فروخت کرے اور اگر کھیتی ہو تو اس کا سودا غلہ سے کرے:
نهى عن ذلك كله
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب صورتوں میں ہونے والی بیع سے منع فرمایا ہے۔“
[بخاري: 2185 ، كتاب البيوع: باب بيع المزابنة ، مسلم: 1542 ، أحمد: 5/2 ، ابو داود: 3361 ، نسائي: 266/7 ، ابن ماجة: 2265 ، طحاوي: 33/4]
➋ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کیا تازہ کھجوریں خشک کھجورں کے بدلے فروخت کی جا سکتی ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أينقص الرطب إذا يبس
”کیا وہ خشک ہو کر وزن میں کم رہ جاتی ہیں؟ لوگوں نے کہا ہاں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا۔“
[مؤطا: 624/2 ، ابو داود: 3359 ، ترمذي: 1225 ، ابن ماجة: 2264 ، أحمد: 179/1 ، شرح معاني الآثار: 6/4 ، دار قطني: 49/3 ، بيهقي: 294/5]
(جمہور، شافعیؒ ، مالکؒ) اسی کے قائل ہیں (نیز قاضی ابو یوسفؒ اور امام محمد بن حسنؒ کا بھی یہی موقف ہے )۔
(ابو حنیفہؒ) انہوں نے اس بیع کو جائز قرار دیا ہے۔
[الأم: 26/3 ، الحاوى: 130/5 ، المبسوط: 184/12 ، الاختيار: 32/2 ، سبل السلام: 56/3 ، المغنى: 67/6]
➊ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
أن رسول الله رخص فى العرايا أن تباع بخرصها كيلا
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرایا کے متعلق رخصت دی کہ گھر والے اندازے سے خشک کھجور دے کر کھانے کے لیے تازہ کھجوریں حاصل کر لیں ۔“
[بخاري: 2173 ، 2188 ، كتاب البيوع: باب بيع المزابنة ، مسلم: 1539 ، ابو داود: 3362 ، ترمذي: 1302 ، نسائي: 267/7 ، ابن ماجة: 2269 ، دارمي: 168/2 ، حميدي: 399 ، أحمد: 181/5]
➋ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ اور حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
نهي عن المزابنة بيع الثمر بالثمر إلا أصحاب العرايا فإنه قد أذن لهم
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا ہے لیکن اصحاب العرایا کے لیے اجازت دی ہے ۔“
[بخاري: 2383 ، مسلم: 1540 ، ترمذي: 1303 ، شرح معاني الآثار: 29/4]
عرايا: عریۃ کی جمع ہے ۔ باب عَرَا يَعُرُو (نصر) ”عطیہ مانگنے کے لیے قصد کرنا“ کے معنی میں مستعمل ہے ۔
[المنجد: ص/ 553]
عرایا سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص (کسی باغ کا مالک اپنے باغ میں ) دوسرے شخص کو کھجور کا درخت (ہبہ کرتے ہوئے ) دے دے ، پھر اُس شخص کا اپنے باغ میں آنا اچھا نہ سمجھے تو اس صورت میں وہ شخص (مالک) اتری ہوئی کھجور کے عوض اپنا درخت (جسے وہ ہبہ کر چکا ہے ) خریدے اس کی اُس کے لیے رخصت دی گئی ہے۔
فی الواقع عرب قحط اور خشک سالی کے ایام میں اپنے باغات میں سے ”فقیروں اور مسکینوں کے درختوں کو چھوڑ کر“ پھل صدقات کی صورت میں دیا کرتے تھے کہ فلاں درخت کی کھجوریں تمہاری ہیں۔ اسی طرح عطیہ میں دی گئی کھجور کو بھی ”عریہ“ کہتے ہیں۔ یعنی مساکین باغات میں ان کے درختوں کا پھل کھانے جایا کرتے تھے اس لیے ان کے داخلے سے باغات کے مالک تکلیف محسوس کرتے تھے یا پھر یہ ہوتا کہ مساکین اپنی ضرورت و محتاجی کی وجہ سے پھل پکنے کا انتظار نہ کرتے اور انہیں فروخت کر دیتے جبکہ پھل ابھی درختوں پر ہی ہوتے اور ان کے عوض خشک کھجوریں لے لیتے اور باغات کے مالک بھی ان کی روز مرہ کی آمد ورفت کی پریشانی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے درختوں پر موجود تر کھجوروں کو خشک کھجوریں دے کر خرید لیتے تھے۔ یہ بیع مزابنہ ہی ہے جو ممنوع ہے لیکن عرایا کے لیے اس کی رخصت دی گئی ہے ۔
[فتح البارى: 136/5 ، نيل الأوطار: 579/3 ، الروضة الندية: 238/2 ، سبل السلام: 1139/3 ، بخاري تعليقا: قبل الحديث: 2192 ، شرح معاني الآثار: 30/4]
(شوکانیؒ ) عرایا کی وہ تمام صورتیں جو اہل شرع اور اہل لغت سے ثابت ہوتی ہے (سب) مباح ہیں۔
[نيل الأوطار: 581/3]
اہل عرایا کے لیے صرف پانچ وسق
اہل عرایا کے لیے صرف پانچ وسق یعنی بیسں (20) من سے کم مقدار کی فروخت ہی درست ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ :
رخص فى بيع العرايا بخرصها من التمر فيما دون خمسة أوسق أو فى خمسة أوسق
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ وسق یا اس سے کم میں بیع عریہ کی اجازت دی ہے ۔“
[بخاري: 2190 ، كتاب البيوع: باب بيع التمر على رؤوس النخل بالذهب والفضة ، مسلم: 1541 ، ابو داود: 3364 ، ترمذي: 1301 ، نسائي: 4541]
راوی کے شک کی وجہ سے پہلی بات پر عمل کرنا ہی احوط ہے۔
(شافعیہ ، حنابلہ ، اہل ظاہر ) اسی کے قائل ہیں۔
(حنفیہ ) عرایا کی احادیث منسوخ ہو چکی ہیں (نسخ کا دعوی بلا دلیل ہے ، اس کا کوئی واضح ثبوت موجود نہیں ) ۔
[روضة الطالبين: 218/3 ، الهداية: 44/3 ، الحجة على أهل المدينة: 547/2 ، الكافي: ص/ 315 ، المغنى: 119/6 ، كشاف القناع: 209/3 ، الأم: 68/3 ، سبل السلام: 57/3]
(ابن حبانؒ) احتیاط اسی میں ہے کہ چار وسق سے زیادہ فروخت نہ کیا جائے۔
(ابن حجرؒ) یہی مناسب ہے لیکن حدیث میں پانچ وسق سے کم کا ذکر چار سے زیادتی کے جواز کا متقاضی ہے۔
[فتح البارى: 123/5]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1