نماز میں خشوع کے احکام قرآن و حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس مشہور سعودی عالم دین شیخ محمد صالح المنجد کی کتاب نماز میں خشوع کیسے حاصل کریں؟ سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ مولانا ابو عمار عُمر فاروق سعیدی نے کیا ہے۔

تمام تر تعریفات اس اللہ کے لیے جو تمام جہانوں کا پالنہار ہے۔ جس نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ:
﴿وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ﴾
(2-البقرة:238)
”اللہ کے حضور انتہائی پرسکون ہو کر کھڑے ہوا کرو۔“
اور نماز کے بارے میں فرمایا ہے کہ:
﴿وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ﴾
(2-البقرة:45)
”نماز لوگوں کے لیے بہت بھاری عمل ہے مگر خاشعین (ڈر رکھنے والوں) کے لیے (بہت آسان ہوتا ہے)۔“
اور بے حد و حساب درود و سلام ہوں امام المتقین سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اللہ کی عبادت کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر خاشع (ڈرنے والے) اور ان کے سردار ہیں اور بے شمار رحمتیں ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل و اولاد اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر۔

حمد و ثنا اور درود وسلام کے بعد:

دین کے عملی ارکان میں نماز سب سے بڑھ کر اعلیٰ اور ارفع ترین عبادت ہے۔ اس میں سکون، خشوع، حضوری قلب اور استحضار ایک عظیم ترین شرعی مطلوب و مقصود ہے۔ اور شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہے، ازل سے عہد کر چکا ہے کہ جیسے بھی بن پڑے وہ بنی آدم کو گمراہ کرنے اور فتنوں میں ڈالنے سے باز نہیں رہے گا۔ اس نے کہا تھا:
ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ
(7-الأعراف:17)
”میں یقیناً ان لوگوں کے آگے کی طرف سے آؤں گا، اور ان کے پیچھے کی طرف سے اور ان کی دائیں اطراف سے اور ان کی بائیں جوانب سے بھی۔“
تو اس کا سب سے بڑا حملہ یہی رہا ہے کہ وہ پینترے بدل بدل کر انہیں نماز سے روکتا ہے۔ پھر اس دوران میں طرح طرح سے وسوسہ اندازی اس کا سب سے بڑا مکر و دجل رہا ہے۔ تاکہ وہ اللہ کے بندوں کو اس عظیم ترین عبادت کی حقیقی لذت اور اس کی چاشنی سے محروم کر دے اور ان کا اجر و ثواب ضائع ہو جائے۔ اور عجیب اتفاق ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد شیطان کے اس پھندے میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔

خشوع:

ایک ایسا منفرد علم اور ایسی عظیم عبادت ہے جسے سب سے پہلے اٹھا لیا جائے گا اور شاید ہم لوگوں کا زمانہ بھی آخری زمانہ ہے اور شومئی قسمت سے ہم میں حذیفہ بن یمان کا یہ قول درست ثابت ہو رہا ہے:
أول ما تفقدون من دينكم الخشوع، وآخر ما تفقدون من دينكم الصلاة، ورب مصل لا خير فيه، ويوشك أن تدخل المسجد فلا ترى فيه خاشعا
”تم لوگ اپنے دین میں سب سے پہلے خشوع کا فقدان پاؤ گے اور سب سے آخر میں نماز بھی اٹھائی جائے گی۔ اور کتنے ہی نمازی ایسے ہیں کہ ان میں خیر نہیں ہوتی۔ عنقریب ایسا ہوگا کہ تم کسی مسجد میں جاؤ گے مگر اس میں تمہیں کوئی خاشع (ڈرنے والا) بندہ نظر نہیں آئے گا۔“
مدارج السالكين: 521/1
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ہم اپنی ذات میں اور اپنے بہت سے احباب سے یہ شکایت سنتے ہیں کہ نماز میں دنیاوی خیالات اور وسوسے بہت آتے ہیں۔ نماز میں دلجمعی نہیں ہوتی، وغیرہ۔
یہ اور اس طرح کے دیگر کئی سوالات سے احساس ہوا کہ اس موضوع پر قلم اٹھایا جائے، چنانچہ درج ذیل سطور میں خود میری ذات کے لیے ایک نصیحت ہے اور ان شاء اللہ جملہ مسلمان قارئین کے لیے بھی۔ دعا ہے کہ اللہ رب العالمین ان الفاظ و کلمات کو کسی طرح نفع بخش بنا دے۔
اللہ عز وجل کا فرمان ہے:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ‎﴿١﴾‏ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ‎﴿٢﴾‏
(23-المؤمنون:1,2)
”تحقیق فلاح پائی ایمان والوں نے جو اپنی نمازوں میں خشوع (اور عاجزی) کرتے ہیں۔“

خشوع کسے کہتے ہیں؟

کتب تفسیر میں، خاشعون، کا معنی ”خائفون، ساكنون“ کیا گیا ہے۔ یعنی اللہ سے ڈرنے والے اور سکون اختیار کرنے والے۔
لفظ ”خشوع“ لغوی طور پر اپنے اندر سکون، اطمینان، ٹھہراؤ، وقار اور تواضع کا مفہوم رکھتا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ان سب کیفیات پر آمادہ کرنے والی صرف ایک ہی چیز ہے اور وہ ہے اللہ کی ہیبت و جلال اور اس کا خوف! اور یہ تصور کہ وہ اپنے بندے کو دیکھ رہا ہے۔
تفسير ابن كثير 465/4 بحقيق المهدى
مدارج السالکین (521/1) (ابن القیم) میں ہے:
الخشوع هو قيام القلب بين يدي الرب بالخضوع والذل
”خشوع یہ ہے کہ دل اپنے رب کے سامنے انتہائی جھکاؤ، پستی اور ذلت کا اظہار کرے۔“
امام مجاہد وَقُومُوا لِلَّهِ قٰنِتِينَ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ بندے کا اللہ کے خوف سے اس طرح سے پرسکون ہو کر کھڑا ہونا کہ دل میں ہیبت، ڈر اور خوف ہو، نظریں نیچی ہوں اور پہلو بھی دبے ہوئے (نرم پڑ چکے) ہوں۔
تعظيم قدر الصلاة للمروزي، 1881- تحقيق د/ الفريوائي
ان سب ملی جلی کیفیات کو ”قنوت“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

خشوع کا مقام اور اس کے اثرات:

خشوع کا اصل مقام و محل دل ہے اور پھر اس کے اثرات اعضاء پر نمایاں ہوتے ہیں۔ جسم کے تمام اعضاء دل ہی کے تابع ہوتے ہیں۔ اگر غفلت، وساوس اور انتشار خیالی سے دل کا خشوع بگڑ جائے تو دیگر اعضاء و جوارح کی عبادت و عبودیت بھی بگڑ جاتی ہے۔ جسم کی سلطنت میں دل کی مثال بادشاہ کی سی ہے اور اعضاء اس کے لشکری اور فوجی ہیں۔ تمام اعضاء و جوارح دل ہی کے تابع ہوتے ہیں، اس کے کہنے کے مطابق حرکت میں آتے ہیں۔ اگر دل کی حکومت نہ رہے اور وہ معطل ہو جائے تو اس کی رعیت (اعضائے جسم) بھی کسی طرح متحرک، مرتب و منظم نہیں رہ سکتے۔ لیکن اگر کوئی بناوٹ و تکلف سے خشوع و خشیت کا اظہار کرتا ہے تو یہ ایک انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ کیونکہ اخلاص کی اہم ترین صفت یہی ہے کہ اسے ہمیشہ چھپایا ہی جاتا ہے۔

خشوع کو چھپا کر رکھنا چاہیے:

سيدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے۔ إياكم وخشوع النفاق ”اپنے آپ کو منافقانہ خشوع سے بچاؤ۔“
پوچھا گیا کہ منافقانہ خشوع کیا ہوتا ہے؟ فرمایا: ”یہ کہ تم جسم کو تو خاشع اور متواضع بناؤ مگر دل میں یہ کیفیت نہ ہو اور وہ خاشع (ڈرنے والا) نہ ہو۔“
قاضی فضیل بن عیاض کا قول ہے کہ ”سلف صالحین یہ بات انتہائی بری سمجھتے تھے کہ آدمی دلی کیفیت کے برخلاف بناوٹ و تکلف سے اپنے آپ کو خاشع اور متواضع دکھائے۔“
کسی بزرگ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے کندھے بہت ہی جھکے ہوئے اور بدن بہت ڈھیلا ڈھالا بنا رکھا تھا۔ تو انہوں نے اسے متنبہ کیا اور کہا: ”ارے میاں! خشوع یہاں (دل میں ہوتا) ہے، ادھر (کندھوں میں) نہیں۔“
مدارج السالكين
علامہ ابن القیم خشوع ایمانی اور خشوع نفاق میں اس طرح سے فرق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
ایمانی خشوع (کی علامت) یہ ہے کہ دل میں اللہ کی عظمت کا وقار، اس کی ہیبت و جلال کا خوف اور حیا ہو۔ دل عاجزی و انکساری سے ٹوٹا ہوا ہو، ڈر، شرمندگی، محبت اور حیا سے بھرپور ہو۔ مالک کی ایک ایک نعمت نظروں میں ہو اور اپنی طرف سے اس کے حقوق کی پامالی کا بھی احساس ہو۔ تو اس کیفیت میں دل یقیناً خاشع اور ڈرا ہوا ہوگا، اور اعضاء و جوارح میں بھی یہ کیفیت آئے گی۔
اور اس کے بالمقابل منافقانہ خشوع جو محض بناوٹ اور تکلف سے اعضاء پر طاری کیا جاتا ہے، اس کا دل میں ذرا برابر بھی اثر نہیں ہوتا۔ اسی لیے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے یہ منقول ہے:
أعوذ بالله من خشوع النفاق
”اے اللہ! میں منافقانہ خشوع سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“
الغرض اللہ کا خاشع بندہ وہ ہے جس کے نفس امارہ سے خواہشات کی آگ بجھ چکی ہو۔ دل سے اس کا دھواں نکل چکا ہو۔ ان آلائشوں سے اس کا سینہ صاف ہو چکا ہو۔ اللہ کی عظمت کا نور اس کے چہرے میں رچتا ہو اور نفس کی بے لگام خواہشات اللہ کے خوف اور وقار کی وجہ سے مردہ ہو گئی ہوں۔ دل میں اللہ کی عظمت کا وقار جڑ پکڑ چکا ہو۔ اعضاء و جوارح میں سکون ہو۔ زبان و دل اس کے ذکر سے تسلی و سکون پاتے ہوں، اور رب کی طرف سے ایک طرح کی سکینت اس پر نازل ہوتی ہو، اور نفس کامل طور پر اس (اللہ) کی طرف جھکنے والا بن چکا ہو۔
اور المخبت منکسر اور متواضع آدمی کو کہتے ہیں۔ ایسی زمین جو دبی ہوئی اور پست ہو جو عربی میں ”خبت“ کہلاتی ہے کہ اس میں دباؤ، جھکاؤ اور ڈھلان کی وجہ سے پانی جمع ہو جاتا ہے۔ اور قلب مخبت بھی ایسے ہی ہوتا ہے کہ اس میں اللہ کا ڈر ہوتا ہے اور ساتھ ہی اطمینان وسکون بھی جیسے کسی ڈھلان دار زمین کی طرف پانی بہہ آتا اور اس میں قرار پکڑ لیتا ہے۔
پھر اس کی علامت یہ بنتی ہے کہ بندہ اپنے اللہ کی عظمت اور اس کے جلال کے سامنے اپنی ذلت و انکساری کی انتہا کا اظہار کرتے ہوئے سجدے میں گر پڑتا ہے۔ اس کا سر اس کے سامنے سجدے سے اٹھتا ہی نہیں جب تک کہ اس سے ملاقات نہ کر لے۔ کچھ اسی طرح کی صورت بنتی ہے خشوع ایمانی کی!
مگر بناوٹ اور تکلف سے کسل مندی اور کمزوری ظاہر کرتا ہے (جسے منافقانہ خشوع کہا گیا ہے)۔ یقیناً یہ ایک قسم کا تصنع ہوتا ہے، جو اعضاء جسم پر طاری ہوتا ہے اور یہ سراسر ظاہر داری ہوتی ہے۔ جبکہ باطن میں نفس بالکل جوان، توانا، خواہشات اور طرح طرح کی امیدوں اور تمناؤں سے بھرپور ہوتا ہے۔ بندہ ظاہر تو خشوع (اور تواضع) کرتا ہے مگر (نفس کی) وادی کا اثر رہتا ہے اور جنگل کا شیر اس کے پہلو میں گھات لگائے اسے شکار کر لینے کے انتظار میں ہوتا ہے۔
كتاب الروح، صفحہ: 314
اور نماز میں خشوع صرف ایسے آدمی ہی کو حاصل ہو سکتا ہے جو اپنے دل کو صرف اس کے لیے خالی کر دے۔ اِدھر اُدھر کی مشغولیات سے منہ پھیر کر صرف اسی میں مشغول ہو، اپنی تمام تر مصروفیات کے مقابلے میں اپنی عبادت اور بندگی کو ترجیح دے، تبھی یہ (نماز) اس کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا اطمینان وسکون بنتی ہے۔ جیسے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
وجعلت قرة عيني فى الصلاة
”میری آنکھوں کی ٹھنڈک تو نماز میں ہے۔“
مسند احمد: 199,128/2، مستدرك حاكم 160/2، نسائی: عشرة النساء، باب حب النساء 61/7- صحيح الجامع الصغير، ح: 3124
اللہ تعالیٰ نے اپنے خشوع اختیار کرنے والے بندے اور بندیوں کا تذکرہ اپنے منتخب و چنیدہ لوگوں میں فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ:
أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ‎
(33-الأحزاب:35)
”اللہ نے ان کے لیے بڑی مغفرت اور بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔“

خشوع کے فوائد:

اس سے بندے کے لیے نماز کا بھاری عمل ازحد ہلکا، خفیف اور آسان (بلکہ محبوب و مرغوب) ہو جاتا ہے۔ فرمایا:
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ ‎﴿٤٥﴾
(2-البقرة:45)
”صبر اور نماز کے ساتھ مدد حاصل کرو، بلاشبہ یہ (نماز) بڑا بھاری عمل ہے مگر خاشعین (ڈرنے والوں) کے لیے (نہیں)۔“
❀ خشوع ایک عظیم الشان عمل ہے جو آج امت میں ازحد نادر، بالخصوص ہمارے اس زمانے میں کہ آخری زمانہ ہے اور مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ ناطق وحی میں اللہ کا فرمان ہے:
أول شيء يرفع من هذه الأمة الخشوع حتى لا ترى فيها خاشعا
”اس امت سے سب سے پہلے اٹھائی جانے والی چیز خشوع ہوگی، حتیٰ کہ تم ان میں کسی کو خاشع نہیں پاؤ گے۔“
المعجم الكبير للطبراني کے حوالے سے امام ہيثمي نے مجمع الزوائد 326/2، ح 2813 ح: 530 میں بیان کی ہے اور اسے حسن کہا ہے۔ علامہ البانی نے صحیح الترغیب میں اسے صحیح کہا ہے۔
سلف رحمہ اللہ میں سے کسی بزرگ کا قول ہے کہ نماز کو ایک لونڈی کے ہدیہ سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ جو کسی بادشاہ کے حضور پیش کی جائے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر ہدیہ دینے والا کوئی فالج زدہ، اندھی، کانی، لولی لنگڑی یا دائم المرض اور ازحد بدصورت لونڈی پیش کرے یا بے روح مردہ لونڈی دے؟ تو اسی طرح اس ناقص اور بے روح نماز کا کیا حال ہوگا جو بندہ اپنے رب تعالیٰ کے حضور پیش کرتا ہے اور اس کے ذریعے سے اس کے ہاں اپنا قرب چاہتا ہے۔حالانکہ:
والله طيب لا يقبل إلا طيبا
”اللہ عزوجل خود بے انتہا پاک و پاکیزہ ہے اور وہ ہمیشہ پاکیزہ چیز ہی قبول فرماتا ہے۔“
اور ایسی نماز جو بالکل ہی بے روح ہو، کسی طرح طیب اور پاکیزہ نہیں کہلا سکتی۔ جس طرح کسی نے کسی غلام یا لونڈی کو آزاد کرنا ہو تو اگر وہ کوئی مردہ غلام آزاد کر دے (تو اس کی وہ آزادی معتبر نہ ہو گی)۔
مدارج السالكين

نماز میں خشوع کا حکم:

نماز میں خشوع کے متعلق راجح حکم یہ ہے کہ یہ واجب ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ ‎﴿٤٥﴾
(2-البقرة:45)
”صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو، بلاشبہ یہ ایک بھاری عمل ہے سوائے ان کے جو عاجزی کرنے والے ہیں۔“
اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کی مذمت ہے جن میں عجز اور خشوع نہ ہو۔ اور مذمت ہمیشہ کسی واجب کے ترک یا کسی حرام کے ارتکاب پر ہوتی ہے۔
جب عاجزی نہ کرنے والے غیر خاشع، مذموم اور بُرے لوگ ٹھہرے تو اس کا نتیجہ لازماً یہی ہے کہ نماز میں خشوع اور عجز ایک لازمی اور واجبی عمل ہے۔ علاوہ ازیں اس کے واجب ہونے کی دلیل یہ آیت کریمہ بھی ہے:
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ‎﴿١﴾‏ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ‎﴿٢﴾‏ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ‎﴿٣﴾‏ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ ‎﴿٤﴾‏ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ‎﴿٥﴾‏ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ‎﴿٦﴾‏ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ‎﴿٧﴾‏ وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ ‎﴿٨﴾‏ وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ‎﴿٩﴾‏ أُولَٰئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ ‎﴿١٠﴾‏ الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ‎﴿١١﴾‏
(23-المؤمنون:1تا11)
”تحقیق ایمان والوں نے فلاح پائی، جو اپنی نمازوں میں عاجزی (خشوع) کرتے ہیں … یہی لوگ وارث ہوں گے، جو فردوس کے وارث بنیں گے، وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔“
ان آیات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ان صفات کے حاملین ہی جنت الفردوس کے وارث ہوں گے۔ یعنی ان کے علاوہ کسی طرح اس کے حق دار اور وارث نہ ہو سکیں گے۔
اور جب نماز کے دوران میں خشوع واجب ہوا، اور یہ اعضاء کے سکون اور دل کی عاجزی کو متضمن ہے، تو جو شخص ٹھونگے مار مار کر نماز پڑھے، سجدے میں قرار نہ کرے، رکوع سے سر اٹھا کر کوئی ٹھہراؤ نہ کرے اور جلدی سے سجدے میں چلا جائے، اس نے کوئی سکون نہیں کیا۔ کیونکہ سکون اطمینان اور ٹھہراؤ کا نام ہے۔ اور جس میں اطمینان اور ٹھہراؤ نہ ہو، اس نے سکون اختیار نہیں کیا، اور جس نے سکون نہیں کیا اس نے اپنے رکوع و سجود میں خشوع نہیں کیا۔ اور جو خشوع اختیار نہیں کرتا، وہ اپنے اللہ کا عاصی اور نافرمان ہے۔

ایک اور دلیل:

نماز میں خشوع کے واجب ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خشوع کے تارک کو بڑی سخت وعید (دھمکی) دی ہے جیسے کہ کوئی نماز کے دوران میں آسمان کی طرف نظریں اٹھائے۔ جو ایک لایعنی حرکت ہے۔ اس کا (نماز کے دوران) آسمان کی طرف نظر اٹھانا، خشوع اور خاشع ہونے کی ضد ہے۔
مجموع الفتاوى 553/22 – 558
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
خمس صلوات افترضهن الله تعالى من أحسن وضوءهن وصلاهن لوقتهن، وأتم ركوعهن وخشوعهن كان له على الله عهد أن يغفر له، ومن لم يفعل فليس له على الله عهد إن شاء غفر له وإن شاء عذبه
”پانچ نمازیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے فرض فرمائی ہیں، جو کوئی ان کا وضو خوبصورت بنائے (یعنی سنت کے مطابق کرے)، انہیں ان کے وقت مقررہ پر ادا کرے، ان کا رکوع اور ان کا خشوع کامل بنائے تو اس کے لیے اللہ کا عہد اور ذمہ ہے کہ وہ اسے بخش دے گا۔ اور جو ایسا نہ کرے تو اس کے لیے اللہ عزوجل کے ہاں کوئی عہد و ذمہ نہیں ہے، چاہے تو اسے بخش دے اور اگر چاہے تو عذاب دے۔“
سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب المحافظة على وقت الصلوات، ح: 425
ایک اور فرمان نبوی ہے:
من توضأ فأحسن الوضوء ثم صلى ركعتين يقبل عليهما بقلبه ووجهه (وفي رواية لا يحدث فيهما نفسه) غفر له ما تقدم من ذنبه وفي رواية إلا وجبت له الجنة
”جو کوئی خوبصورت (یعنی سنت کے مطابق) وضو کرے پھر دو رکعت نماز پڑھے، ان میں اپنے دل اور چہرے سے انہی کی طرف متوجہ رہے (اور ایک روایت میں ہے کہ ان میں اپنے جی سے کوئی باتیں نہ کرے) تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں (اور ایک روایت میں ہے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے)۔“
صحيح البخاری، کتاب الوضوء، باب الوضوء ثلاثا ثلاثا، ح: 158 ، صحيح مسلم، کتاب الطهارة، باب صفة الوضوء وكماله، ح: 226

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے