(1) جائے نماز کے نقش و نگار:
نمازی کے مصلیٰ یا اس کے سامنے اگر کوئی ایسے نقش و نگار ہوں جو اس کی توجہ کے لیے کشش کا باعث ہوں اور اسے اپنی طرف الجھاتے ہوں تو ضروری ہے کہ نمازی ان چیزوں کو وہاں سے ہٹا دے (یا نماز ہی ایسی جگہ پڑھے جہاں ایسی چیزیں نہ ہوں)۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ایک منقش پردہ تھا جس سے انہوں نے اپنے گھر کی ایک جانب پردہ کیا ہوا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
أميطي عني فإنه لا تزال تصاويره تعرض لي فى صلاتي
”اے عائشہ! اپنا یہ پردہ میرے آگے سے ہٹا دو، اس کی تصویریں نماز کے دوران میرے آگے آتی رہی ہیں۔ “
صحیح البخاری، کتاب الصلاة، باب إذا صلی فی ثوب مصلب أو ثوب فیہ تصاویر، حدیث: 374، مسند احمد، جلد: 3، حدیث: 151
ام المؤمنین رضی اللہ عنہا سے جناب قاسم بن محمد بن ابی بکر رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ دراصل گھر میں ان کی چھوٹی سی کوٹھڑی کے آگے ایک منقش پردہ ڈالا گیا تھا اور آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم وہاں اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہٹانے کا حکم صادر فرمایا۔ چنانچہ سیدہ رضی اللہ عنہا نے اسے ہٹا کر اس کے تکیے بنا لیے۔
صحيح مسلم، كتاب اللباس والزينة ، باب ،26، ح : 2107۔ سنن النسائی، کتاب القبلة، باب الصلاة التى ثوب فيه تصاوير – مسند احمد : 112/6
اسی مفہوم میں یہ روایت بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کعبہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ اس میں اس مینڈھے کے سینگ رکھے ہیں (جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے قربان کیا تھا) تو جب نماز پڑھ چکے تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا جو کعبہ کے چابی بردار تھے:
إني نسيت أن آمرك أن تخمر القرنين فإنه ليس ينبغي أن يكون فى البيت شيء يشغل المصلي
”میں بھول گیا کہ تجھے کہوں کہ ان سینگوں کو ڈھانپ دو۔ بیت اللہ میں کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہیے جو نمازی کو مشغول کر دے۔ “
سنن ابی داؤد، کتاب المناسک، باب فی الحجر، حدیث: 2030 علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے، صحیح سنن ابی داؤد، حدیث: 1786
اور اس میں یہ چیز بھی ہے کہ نمازی ایسی جگہ میں نماز پڑھنے سے احتراز کرے جہاں سے لوگ گزرتے ہوں، یا شور کرتے ہوں یا جہاں آدمی بیٹھے اپنی باتیں کر رہے ہوں یا ایسی مجلس ہو جہاں لغو ولہو ہو یا نظر کے لیے پرکشش ہو۔
اسی طرح آدمی خیال کرے کہ اگر ممکن ہو تو ایسی جگہ نماز نہ پڑھے جہاں سخت سردی یا سخت گرمی ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے تلقین فرمائی ہے کہ گرمیوں میں نماز ظہر قدرے ٹھنڈے وقت میں پڑھی جائے۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
سخت گرمی آدمی کے لیے نماز میں خشوع اور حضوری قلب سے رکاوٹ بنتی ہے۔ ایسی حالت میں بندہ بڑی کراہت اور بے چینی سے نماز پڑھتا ہے۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کچھ مؤخر کرنے کا فرمایا ہے تا کہ گرمی کی شدت کچھ کم ہو جائے، اس کے بعد بندہ حاضر دلی کے ساتھ نماز پڑھنے والا بنے اور نماز کا اصل مقصد خشوع اور اللہ عزوجل کی طرف توجہ کا فائدہ حاصل ہو۔
الوابل الصيب، ص: 22، طبع: دار البیان
(2) کپڑے جن میں نقش و نگار، عبارات اور تصاویر ہوں:
اس بارے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ:
قام النبى صلى الله عليه وسلم يصلي فى خميصة ذات أعلام فنظر إلى أعلامها فلما قضى صلاته قال: اذهبوا بهذه الخميصة إلى أبى جهم بن حذيفة وأتوني بأنبجانية، فإنها ألهتني آنفا عن صلاتي
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک منقش کپڑے میں، جس میں کچھ تصویریں تھیں، نماز پڑھنے لگے، (نماز کے دوران) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اس کے نقوش پر پڑی تو نماز کے بعد فرمایا: میرا یہ منقش کپڑا ابو جہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے جاؤ (جو کپڑوں کا تاجر تھا) اور ایک انبجانی صاف کپڑا لے آؤ۔ اس نے تو مجھے ابھی نماز میں مشغول کیے رکھا۔ “
صحیح البخاری، کتاب الصلاة، باب إذا صلی فی ثوب لہ اعلام، حدیث: 373 صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب کراہة الصلاة فی ثوب لہ اعلام، حدیث: 556
سب سے زیادہ اولیٰ بات یہی ہے کہ آدمی ایسے کپڑوں میں نماز نہ پڑھے جن میں تصاویر ہوں بالخصوص جان دار اشیاء کی، جیسے کہ آج کل عام چلن ہے۔
(3) کھانا اگر تیار اور حاضر ہو:
اس حالت میں بھی نماز پڑھنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
لا صلاة بحضرة الطعام
”جب کھانا حاضر ہو تو کوئی نماز نہیں۔“
مسلم، کتاب المساجد، باب كرهة الصلاة، بحضرة الطعام، حديث: 1246
جب کھانا حاضر ہو، دستر خوان پر چن دیا گیا ہو یا پیش کر دیا گیا ہو تو چاہیے کہ آدمی پہلے کھانا کھالے۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ اگر آدمی یہ کھانا نہیں کھائے گا تو نماز میں اس کا دل نہیں لگے گا۔ دل تو کھانے ہی کی طرف اٹکا ہوا ہو گا۔ بلکہ چاہیے کہ کھانے میں بھی جلدی نہ مچائے بلکہ تسلی سے اپنی ضرورت کے مطابق کھائے پھر نماز کے لیے جائے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
إذا قرب العشاء وحضرت الصلاة فابدءوا بالعشاء قبل أن تصلوا صلاة المغرب، ولا تعجلوا عن عشائكم
رمضان میں افطاری کے وقت بالعموم ایسی ہی صورت حال ہوتی ہے۔ اس لیے کھانے کا مناسب وقفہ دیا جانا چاہیے۔
متفق عليه ،بخاری، الاذان ، حدیث ،672، مسلم، المساجد، حديث: 1241 .
”جب رات کا کھانا پیش کر دیا جائے اور نماز کا وقت بھی ہو تو مغرب کی نماز پڑھنے سے پہلے کھانا کھا لو، اور کھانے میں جلدی نہ کرو۔“
اور اس معنی میں کئی احادیث وارد ہیں۔
(4) بول و براز کو روک کر نماز پڑھنا:
بلاشبہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب آدمی کو بیت الخلاء جانے کی ضرورت ہو تو یہ کیفیت انسان کی نماز میں خشوع کے لیے بہت بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت میں نماز سے منع فرمایا ہے:
نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يصلي الرجل وهو حاقن
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ آدمی پیشاب روکے ہوئے نماز پڑھے۔
سنن ابن ماجه، کتاب الطهارة، باب ما جاء في النهى للحاقن ان يصلي، ح : 617، علامہ البانی نے صحیح ابن ماجہ میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔
”حاقن“ اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے پیشاب کو روکے ہوئے ہو اور براز روکنے والے کو” عاقن“ کہتے ہیں۔
تو اس ضرورت کے تحت آدمی پہلے بیت الخلاء جائے خواہ جماعت جاتی ہو تو جائے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صریح فرمان ہے:
إذا أراد أحدكم أن يذهب إلى الخلاء وقامت الصلاة فليبدأ بالخلاء
”جب تم میں سے کسی نے خلاء کے لیے جانا ہو، اور ادھر نماز قائم ہو رہی ہو تو چاہیے کہ پہلے فارغ ہو آئے۔“
سنن ابی داؤد، کتاب الطهارة، باب ايصلي الرجل وهو حاقن، ح : 88- سنن الترمذى، كتاب الطهارة، باب 108۔ امام ترمذی نے حدیث کو حسن صحیح کہا ہے۔
بلکہ دوران نماز میں بھی اگر یہ کیفیت ہو جائے تو چاہیے کہ نماز چھوڑ دے اور فارغ ہو کر وضو کر کے آئے اور پھر اپنی نماز پڑھے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یہی ہے کہ:
لا صلاة بحضرة الطعام ولا هو يدافعه الأخبثان
کھانا حاضر ہو یا آدمی دو خبثتوں کو روک رہا ہو تو نماز نہیں۔
صحیح مسلم، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب كراهة الصلاة بحضرة الطعام : 560 سنن ابی داؤد، کتاب الطهارة، باب أيصلي الرجل وهو حاقن ، ح : 81.
طبیعت کا یہ فطری و طبیعی دباؤ اور روک یقیناً آدمی کے لیے خشوع فی الصلاۃ کے منافی ہے۔ اور یہی مسئلہ ہے ریاح (ہوا) کے روکنے کا۔
(5) نیند کا غلبہ:
آدمی پر نیند کا غلبہ ہو اور اونگھ پر اونگھ آ رہی ہو تو بھی اس صورت میں نماز نہیں ہوتی۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا نعس أحدكم فى الصلاة فلينم حتى يعلم ما يقول
”جب تم میں سے کسی کو نماز میں اونگھ آ رہی ہو تو اسے سو جانا چاہیے حتیٰ کہ جاننے لگے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟ کیا بول رہا ہے؟“
صحيح البخارى، كتاب الوضوء، باب الوضوء من النوم ، ح : 209 صحيح مسلم، ح : 786 .
اور اس کا سبب بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان میں آگیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا نعس أحدكم وهو يصلي فليرقد حتى يذهب عنه النوم، فإن أحدكم إذا صلى وهو ناعس لا يدري لعله يستغفر فيسب نفسه
”نماز کے دوران جب کسی پر اونگھ (غالب ہو) تو اسے چاہیے کہ وہ سو جائے، اگر غلبہ نیند حالت میں نماز پڑھے گا تو اسے خبر ہی نہیں ہوگی کہ اپنے لیے استغفار کی بجائے کہیں گالیاں ہی نہ دیتا رہے۔ “
بخاری حدیث : 212 ،شرح فتح الباری، بحوالہ مسلم، حدیث: 212
(6) باتوں میں مشغول یا سوتے آدمی کے پیچھے نماز:
نمازی کو اس بات سے بھی احتیاط چاہیے کہ کسی سوتے آدمی کے پیچھے نماز پڑھے یا اس کے آگے ایسے لوگ بیٹھے ہوں جو اپنی باتوں میں مشغول ہوں کیونکہ وہ اپنی باتوں سے اس نمازی کو الجھائیں گے یا سونے والے کی بھی کوئی ناپسندیدہ کیفیت ہو سکتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
لا تصلوا خلف النائم ولا المتحدث
”سوتے آدمی یا باتوں میں مشغول کے پیچھے نماز مت پڑھو۔ “
سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب الصلاة إلی المتحدثین والنیام، حدیث: 694 السنن الکبری للبیہقی، جلد: 2، ص: 279 المستدرک للحاکم، جلد: 4، ص: 270 علامہ البانی رحمہ اللہ نے حدیث کے تمام طرق جمع کر کے حسن کا حکم لگایا ہے، ارواء الغلیل، حدیث: 374
شارح ابو داؤد علامہ خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس عمل کو امام شافعی رحمہ اللہ اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ مکروہ جانتے ہیں کہ بندہ کسی ایسے اشخاص کے پیچھے نماز پڑھنے لگے جو اپنی ہی باتوں میں ہوں، کیونکہ ان کی باتیں اس نمازی کو الجھائیں گی۔ مگر سوتے ہوئے کے پیچھے کے مسئلہ میں دلائل کئی علماء کے نزدیک کمزور ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی صحیح میں ایک باب کا عنوان ہے "باب الصلاة خلف النائم” اور دلیل میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پیش کی ہے کہ:
كان النبى صلى الله عليه وسلم يصلي وأنا راقدة معترضة على فراشه
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے ہوتے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کے بستر پر آڑی ہو کر سوئی ہوتی تھی۔“
صحیح البخاری، کتاب سترة المصلی، باب الصلاة خلف النائم، حدیث: 490 صحیح مسلم، کتاب الصلاة، باب الاعتراض بین یدی المصلی، حدیث: 512
جبکہ امام مجاہد، طاؤس اور مالک رحمہ اللہ اس عمل کو ناپسند کرتے ہیں، مبادا سوتے آدمی کی کیفیت کوئی ایسی ہو جو نمازی کے لیے ناپسندیدگی یا مشغولیت کا باعث بن جائے۔ الغرض جب سوتے آدمی سے اس قسم کا کوئی خدشہ نہ ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھ لینے میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے۔
(7) کنکریاں برابر کرنا:
نماز کے دوران نمازی اپنے سجدے کی جگہ درست کرنے لگے، کنکریاں ہٹائے یا پھونکیں مار کر غبار اڑائے وغیرہ۔ نماز کے لیے جگہ وغیرہ کی اصلاح نماز سے پہلے ہونی چاہیے نہ کہ نماز کے دوران۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نمازی کی اصلاح فرماتے ہوئے فرمایا:
لا تمسح الحصى وأنت تصلي فإن كنت لا بد فاعلا فواحدة
”نماز پڑہتے ہوئے كنكريوں سے مت مشغول ہو، اگر بہت ہی ضروری ہو تو بس ایک دفعہ!“
صحيح البخارى، كتاب العمل في الصلاة، باب مسح الحصى في الصلاة، ح: 1149۔ صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب كراهة مسح الحصى وتسوية التراب ، ح : 546 .
اور اس کا واحد وحید سبب نمازی کے خشوع کی محافظت ہے کہ آدمی اس دوران کوئی اور کام نہ کرے۔ ہاں نماز شروع ہونے سے پہلے ضرور کر لے۔
اور اس میں یہ بات بھی آجاتی ہے کہ نماز میں ہی سجدے کے بعد بندہ اپنا ماتھا اور ناک صاف کرنے لگے۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا گیا کہ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کی وجہ سے نیچے کیچڑ پر سجدہ کیا۔ مٹی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتھے اور ناک پر لگ گئی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دور نہیں کیا۔
اگر آدمی اس طرح کے کاموں میں لگ جائے تو یقیناً اس کی توجہ نماز کی طرف سے بٹ جائے گی جو کسی طرح قابل قبول عمل نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے سلام کہنے والے کا زبان سے جواب نہیں دیا جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ یہ فرمائی ہے:
إن فى الصلاة لشغلا
”نماز کی اپنی مشغولیت ہے۔ “
صحیح البخاری، کتاب العمل فی الصلاة، باب ما ینہی من الکلام فی الصلاة، حدیث: 1141 صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب تحریم الکلام فی الصلاة، حدیث: 538
یا یہ معنی ہو سکتا ہے کہ اس طرح سے نماز سے دوسری طرف مشغولیت ہو جاتی ہے۔ ماتھا پونچھنے کے بارے میں یہ روایت کس قدر صریح ہے:
عن أبى الدرداء رضى الله عنه قال ما أحب أن لي حمر النعم وأني مسحت مكان جبيني من الحصى
”صحابی رسول سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (نماز کے دوران) میں کنکریوں کی وجہ سے اپنی پیشانی صاف کروں، یہ مجھے کسی طرح گوارا نہیں خواہ اس کے بدلے مجھے سرخ اونٹ بھی ملیں۔ “
ابن ابی شیبہ، کتاب صلاۃ التطوع، حدیث: 7821
جناب عیاض رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ صحابہ و تابعین نماز سے فارغ ہو جانے سے پہلے ماتھا صاف کرنا بہت ناپسند کرتے تھے۔
فتح الباری، جلد: 3، ص: 96، شرح حدیث: 1207، طبع: الریان القاہرہ ۔
الغرض نمازی کو کسی بھی ایسے کام سے متنبہ رہنا چاہیے جو اس کے لیے نماز کے دوران لہو و مشغولیت کا باعث بنے یا یہ خود دوسروں کے لیے پریشانی کا باعث ہو۔
(8) دوسروں کے قریب اونچی آواز سے قراءت وغیرہ کرنا:
بعض لوگ اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ ان کے ساتھ پہلو میں قریب ہی دوسرا نمازی بھی اپنے اللہ کے ساتھ مناجات اور ذکر اذکار میں مشغول ہے، اور وہ نماز میں اپنی قراءت یا تسبیحات کو اس قدر بلند آواز سے پڑھتے ہیں کہ ساتھ والوں کو بڑی الجھن ہوتی ہے اور وہ پڑھ نہیں سکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات میں اس بات کی اس قدر وضاحت موجود ہے کہ فرمایا:
ألا إن كلكم مناج ربه، فلا يؤذين بعضكم بعضا، ولا يرفع بعضكم على بعض فى القراءة فى الصلاة، ولا يجهر بعضكم على بعض بالقرآن
”خبردار! تم سب ہی اپنے رب سے مناجات و سرگوشی میں ہوتے ہو۔ تو کوئی بھی دوسرے کے لیے اذیت کا باعث نہ بنے، کوئی دوسرے پر اپنی قراءت بلند آواز سے نہ کرے، یا فرمایا نماز میں، قرآن اونچا نہ پڑھے۔ “
سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب رفع الصوت بالقراءة في صلاة الليل ، ح : 1183۔
(9) ادھر اُدھر دیکھنا:
نماز میں اپنی نظریں ادھر اُدھر گھمانا خلاف ادب اور حضوری نماز کے منافی ہے۔ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے:
لا يزال الله عزوجل مقبلا على العبد وهو فى صلاته ما لم يلتفت، فإذا التفت انصرف عنه
بندہ جب نماز میں ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی طرف برابر متوجہ رہتا ہے جب تک کہ بندہ ادھر اُدھر نہ جھانکے، جب وہ جھانکنے لگتا ہے تو اللہ بھی اس سے اپنی توجہ (رحمت) پھیر لیتا ہے۔
علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ احمد موسوعه 393/18، حدیث: 11893. سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب الالتفات في الصلاة ، ح : 909۔ سنن النسائی، کتاب السهو ، باب التشديد في الالتفات في الصلاة ، ح : 1194 ۔ علامہ البانی نے حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔
نماز میں التفات (جھانکنے) کی دو صورتیں ہیں:
❀ایک یہ کہ دل سے اللہ کے علاوہ کسی دوسری طرف متوجہ ہونا۔
❀دوسرے نظریں گھمانا۔
اور دونوں ہی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ اس سے نماز کا اجر کم ہو جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
هو اختلاس يختلسه الشيطان من صلاة العبد
”(ادھر اُدھر تاک جھانک) ایک اچکنا ہے کہ اس طرح سے شیطان بندے کی نماز میں سے کچھ اچک لیتا ہے۔ “
صحیح البخاری، کتاب صفة الصلاة، باب الالتفات فی الصلاة، حدیث: 716 سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب الالتفات فی الصلاة، حدیث: 910
علامہ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے ”الوابل الصيب“ میں اس مسئلہ کی خوب تفہیم کی ہے، فرماتے ہیں:
جو شخص نماز میں ادھر اُدھر تاکتا یا دل سے غیر متوجہ ہوتا ہے، اس کی مثال تو ایسے ہے جیسے کسی کو بادشاہ بلائے، اپنے سامنے حضوری کا موقع دے اور اس کے ساتھ کوئی بات چیت اور مکالمہ کرے، مگر یہ اس دوران ادھر اُدھر دائیں بائیں تاکنے لگے، اور اس کا دل بادشاہ کی طرف نہ ہو، اور اسے کچھ سمجھ نہ آ رہی ہو کہ بادشاہ اس سے کیا بات کر رہا ہے۔ تو آپ کا کیا خیال ہے کہ بادشاہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟ کیا یہی نہیں کہ کم از کم اس کو دربار سے مبغوض و ناپسندیدہ قرار دے کر نکال دے اور یہ بادشاہ کی نظروں میں انتہائی بے قدر قرار پائے گا۔ تو اسی طرح ایک نمازی جو اپنے رب کی طرف اپنے قلب و روح کے ساتھ پوری طرح متوجہ ہو اور دوسرا جو ادھر اُدھر تاکتا جھانکتا ہو، برابر نہیں ہو سکتے… حضوری والے کو یہ شعور ہونا چاہیے کہ وہ کس عظیم ذات کے دربار میں ہے، چاہیے کہ اس کا دل اس کی ہیبت و جلال سے مرعوب ہو اور گردن اس کے سامنے جھکی ہوئی ہو، اپنے رب سے حیا کرے کہ وہ اس کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف توجہ کرے۔ سو ان دونوں آدمیوں اور ان کی نمازوں میں کتنا فرق ہوگا۔ جیسے کہ حسان بن عطیہ کا کہنا ہے کہ دو آدمی ایک ہی نماز میں ہوتے ہیں مگر ان دونوں کی فضیلت میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ وجہ صرف یہی کہ ایک اپنے دل و جان سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور دوسرا غافل و بے پروا۔
ہاں اگر فی الواقع کوئی شرعی ضرورت ہو اور نظروں سے کچھ دیکھ لے تو جائز بھی ہے۔ جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے عمل سے ثابت ہے کہ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غزوے میں اپنا ایک سوار ایک گھاٹی کی طرف نگرانی وغیرہ کے لیے بھیجا تھا تو اس دوران صبح کی نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھاٹی کی طرف دیکھ رہے تھے۔
سنن ابی داؤد، کتاب الجهاد، باب فصل الحرس في سبيل الله ، ح : 3501 .
اسی طرح ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نواسی سیدہ اُمامہ بنت ابی العاص رضی اللہ عنہا کو اٹھا کر نماز پڑھائی تھی۔ یا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے دروازہ کھول دیا تھا۔ یا بغرض تعلیم منبر پر کھڑے ہو کر نماز پڑھائی اور پھر سجدے کے لیے اس سے نیچے اترے یا شیطان کو پکڑا اور اس کا گلا دبایا جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہونے اور نماز خراب کرنے کی نیت سے آیا تھا، وغیرہ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ نماز کے دوران سانپ بچھو کو مار دیا کرو یا نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو اشارے سے روکا جائے لیکن اگر وہ مصر (اصرار کرنے والا) ہو تو لڑائی بھی جائز ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو نماز کے دوران تالی بجانے کی اجازت دی ہے یا اشارہ کرنے کی بھی اجازت ملتی ہے۔ یہ اس طرح کے افعال ہیں جو شرعی ضرورت کے تحت کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن بلا ضرورت ہوں تو فضول اور غلط کہے جائیں گے اور خشوع کے منافی ہوں گے، جن کی نماز میں اجازت نہیں۔
مجموع الفتاوى لابن تيميه : 559/22.
(10) آسمان کی طرف نظر اٹھانا:
احادیث میں آیا ہے کہ نماز کے دوران آسمان کی طرف نظر اٹھانا جائز نہیں ہے، فرمایا:
إذا كان أحدكم فى الصلاة فلا يرفع بصره إلى السماء أن يلتمع بصره
”جب تم میں سے کوئی نماز میں ہو تو آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے کہیں اس کی نظر نہ اچک لی جائے۔ “
مسند احمد : 294/5 سنن النسائی، کتاب السهو، باب النهي عن رفع البصر الى السماء في الصلاة ، ح : 1193- علامہ البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ صحیح الجامع ، ح:749
ایک روایت میں ہے:
ما بال أقوام يرفعون أبصارهم إلى السماء فى صلاتهم
لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ نماز کے دوران اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں۔
صحيح البخاري، كتاب صفة الصلاة، باب رفع البصر الى السماء في الصلاة ، ح :717۔ سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب النظر في الصلاة ، ح : 913 .
اور ایک روایت میں ہے:
لينتهين أقوام عن رفعهم أبصارهم عند الدعاء فى الصلاة إلى السماء أو لتخطفن أبصارهم
لوگ نماز کے دوران دعا کے وقت آسمان کی طرف اپنی نظریں اٹھانے سے باز آجائیں ورنہ ان کی نظریں اچک لی جائیں گی۔
صحيح البخارى، كتاب صفة الصلاة، باب رفع البصر الى السماء في الصلاة، ح: 717 سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب النظر في الصلاة ، ح : 913 .
الغرض اس عمل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی سختی سے منع فرمایا ہے۔
(11) نماز میں اپنے آگے کی طرف تھوکنا:
بعض لوگ اس بات کا خیال نہیں کرتے اور مسجد میں قبلہ رخ تھوک دیتے ہیں۔ قبلہ کی طرف تھوکنا بالخصوص نماز میں، اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی شدت سے منع فرمایا ہے۔ یہ چیز اللہ عزوجل کی عظمت و جلال اور حضوری نماز کے خلاف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
إذا كان أحدكم يصلي فلا يبصق قبل وجهه فإن الله قبل وجهه إذا صلى
جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو اپنے سامنے (قبلہ کی جانب) نہ تھوکے، بلاشبہ اللہ عزوجل اس کے سامنے ہوتا ہے جب وہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے۔
بخاری، الصلاة، باب حك البزاق باليد من المسجد، حدیث: 506، مسلم، المساجد، حدیث: 547.
اور فرمایا:
إذا قام أحدكم إلى الصلاة فلا يبصق أمامه فإنما يناجي الله عزوجل ما دام فى مصلاه، ولا عن يمينه فإن عن يمينه ملكا، وليبصق عن يساره أو تحت قدمه فيدفنها
”جب تمہارا ایک نماز کے لیے کھڑا ہو تو اپنے سامنے نہ تھوکے، بلاشبہ وہ اللہ عزوجل سے مناجات اور سرگوشی میں ہوتا ہے جب تک کہ اپنی جائے نماز پر رہے، اور نہ ہی دائیں جانب تھوکے بلاشبہ اس کے دائیں جانب فرشتہ ہوتا ہے۔ اگر تھوکنا ہی ہو تو بائیں جانب تھوک لے یا اپنے قدم کے نیچے تھوکے، پھر اس کو دفن کر دے۔ “
صحيح البخاري، كتاب المساجد، باب دفن النخامة في المسجد ، ح : 406 صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب النهي عن البصاق في المسجد، ح : 548۔
بائیں جانب یا قدم کے نیچے تھوکنا، اس صورت میں ہے جب نیچے زمین کچی ہو۔ اور اس جانب کوئی اور نمازی بھی نہ ہو۔
اور فرمایا :
إن أحدكم إذا قام فى صلاته فإنما يناجي ربه ، وإن ربه بينه وبين قبلته فلا يبز قن أحدكم فى قبلته ولكن عن يساره أو تحت قدمه
”بلاشبہ تمہارا کوئی ایک جب اپنی نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے مناجات کر رہا ہوتا ہے۔ اس کا رب اس کے اور قبلے کے درمیان ہوتا ہے تو وہ قبلے کی جانب ہرگز نہ تھو کے لیکن اپنی بائیں جانب یا پاؤں تلے تھوک لے۔“
صحيح البخارى، حواله السابقه ، ح : 397 398 صحیح مسلم، حواله سابقه ، ح : 547، 549.
(12) نماز میں جمائی لینا:
جمائی طبیعت کی کسل مندی اور سستی کی علامت ہوتی ہے۔ بندے کو نماز کی حالت میں چاق و چوبند اور ہوشیار ہونا چاہیے۔ بہرحال اگر جمائی آئے تو اسے حتیٰ الامکان دبانے کی کوشش کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا تثاءب أحدكم فى الصلاة فليكظم ما استطاع فإن الشيطان يدخل
”جب تم میں سے کسی کو نماز کے دوران جمائی آئے تو حتیٰ الوسع اسے روکے، بلاشبہ اس طرح سے شیطان منہ میں داخل ہو جاتا ہے۔ “
صحيح البخاری، کتاب الادب، باب وما يكره من التثاءب ، ح : 5809 ،مسلم کتاب الزهد والرقائق، باب تشميت العاطس وكراهة التثاءب ، ح : 2994 ، 2995.
اس طرح سے اگر وہ انسان کے جسم میں چلا جائے تو اسے نمازی کو پریشان کرنے سے باز نہیں آتا۔ نیز بتایا گیا ہے کہ اگر آدمی منہ سے هاه کا لفظ نکالے تو شیطان ہنستا بھی ہے۔
(13) نماز میں کولہے پر ہاتھ رکھنا:
دوران نماز کولہا یا کولہوں پر ہاتھ رکھنے سے منع کیا گیا۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الإختصار فى الصلاة
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے دوران کولہوں پر ہاتھ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔
صحیح ابوداود ،947 صحيح البخاری: 1291 ، مسلم: 545 .
جناب زیاد بن صبیح الحنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک بار میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کے قریب کھڑے ہو کر نماز پڑھی تو میں نے اپنا ہاتھ اپنی کولہ پر رکھ لیا تو انہوں نے میرے ہاتھ پر ہاتھ مارا، پھر نماز کے بعد فرمایا: یہ نماز میں صلیب (مصلوب) سے مشابہت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منع فرمایا کرتے تھے۔
علاوہ ازیں مرفوع حدیث میں صراحت ہے کہ کولہوں پر ہاتھ رکھ کے کھڑے ہونا اہل دوزخ کے آرام کرنے کا ایک انداز ہوگا۔
(14) دل یعنی سر یا کندھوں پر سے کپڑا لٹکانا:
نماز کے دوران سدل سے بھی روکا گیا ہے کہ آدمی سر پر یا کندھوں پر سے کپڑا اس طرح لٹکائے کہ زمین تک پہنچ جائے (خطابی)۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے: سدل مطلق طور پر منع ہے کیونکہ یہ تکبر کی علامت ہے اور نماز کے دوران تو اور زیادہ قبیح و شنیع ہے۔
حدیث میں ہے:
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن السدل فى الصلاة وأن يغطي الرجل فاه
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سدل سے منع فرمایا ہے اور اس سے بھی کہ آدمی منہ پر لپیٹ لے (یعنی ڈھاٹا باندھ لے)۔ “
سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب السدل في الصلاة ، ح : 643۔ علامہ البانی نے حدیث کو حسن کہا ہے۔
نہایہ ابن الاثیر میں اس کی ایک اور کیفیت بھی لکھی گئی ہے کہ انسان اپنے اوپر کپڑے خوب لپیٹ لے اور پھر ان کے اندر ہی سے رکوع و سجود کرے۔
کہا جاتا ہے کہ یہودی ایسے کرتے تھے۔ اور یہ بھی بیان ہے کہ سدل اس طرح سے ہوتا ہے کہ کپڑا اپنے سر یا کندھوں پر رکھے اور اس کے کنارے اپنے آگے یا بازوؤں پر لٹکائے چھوڑے۔ تو اس طرح نماز کے دوران انہیں سنبھالنے سنوارنے میں ہی لگا رہے گا، جو خشوع فی الصلاۃ کے خلاف ہے، بخلاف اس کے کہ اگر کپڑا بخوبی لپیٹا ہوا اور بندھا ہوا ہو تو اس کے گرنے کا اندیشہ نہیں ہوتا اور نمازی کو مشغول نہیں کرتا اور اس کا خشوع بھی محفوظ ہو جاتا ہے۔ آج کل لوگوں کے لباس میں بالخصوص افریقیوں میں یا عرب مشائخ میں دیکھنے میں آتا ہے کہ ایسی ایسی عبائیں اور کپڑے لیتے ہیں کہ دوران نماز میں انہیں سنبھالنے میں لگے رہتے ہیں تو نمازی کو ان چیزوں سے متنبہ رہنا چاہیے۔
اور ڈھاٹا باندھنے سے منع کے بارے میں علماء کا کہنا ہے کہ اس طرح سے آدمی بخوبی قراءت نہیں کر سکتا اور سجدے میں بھی نقص آتا ہے۔
مرقاة المفاتيح: 347/2 .
(15) حیوانات سے مشابہت:
رب ذوالجلال نے ابن آدم کو بہترین شکل اور خوبصورت قد وقامت سے نوازا ہے۔ تو یہ انتہائی عیب کی بات ہے کہ آدمی حیوانات کی مشابہت اختیار کرے۔ بالخصوص نماز کے دوران ہمیں کئی ایک صورتوں سے روکا گیا ہے کہ ان میں حیوانات سے مشابہت ہوتی ہے اور یہ صورت خشوع کے منافی اور نمازی کے اعزاز کے خلاف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم فى الصلاة عن ثلاث: عن نقر الغراب وافتراش السبع وأن يوطن الرجل المقام الواحد كإيطان البعير
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں تین باتوں سے منع فرمایا ہے: کوے کی طرح ٹھونگیں مارنے سے، درندے کی طرح ہاتھ پھیلانے سے اور یہ کہ آدمی (مسجد میں) اپنے لیے کوئی جگہ خاص کرلے جیسے کہ اونٹ کوئی جگہ خاص کر لیتا ہے (اور اسے بدلتا نہیں ہے)۔“
احمد ،موسوعه، حدیث: 294/24(15533) سنن کبری بیهقی 5934 سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب صلاة من لا يقيم صلبه ح : 862 سنن النسائی، کتاب التطبيق، باب النهي عن نقرة الغراب، ح : 1111- مسند احمد 428/3۔ حدیث حسن ہے۔
ایک روایت میں ہے:
نهاني عن نقرة كنقرة الديك وافعاء كافعاء الكلب والتفات كالتفات الثعلب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (حالت نماز میں) مرغے کی طرح ٹھونگیں مارنے سے، کتے کی طرح اقعاء کرنے سے اور لومڑی کی مانند ادھر اُدھر جھانکنے سے منع فرمایا۔
مسند احمد : 311/2- مسند ابی یعلى الموصلي : 30/5 ، ح : 2619- السنن الكبرى : -12012 علامہ البانی نے حدیث کو حسن کہا ہے۔ صحيح الترغيب ، ح : 553 .
خلاصة الکتاب:
ان اسباب کے جن سے ایک نمازی آدمی اپنی نماز کو باخشوع بنا سکتا ہے اور اللہ عزوجل توفیق دینے والا ہے۔
ایک اہم سوال:
اس موضوع سے متعلق ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ جس آدمی کو نماز کے دوران بہت زیادہ وساوس آتے ہوں کیا اس کی نماز صحیح ہوتی ہے یا اسے دُہرانی چاہیے؟
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اگر یہ پوچھا جائے کہ بے خشوع آدمی کی نماز، نماز شمار ہوتی ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ثواب کے اعتبار سے یہ کسی شمار میں نہیں آتی، صرف اسی قدر جو اس نے سوچ سمجھ کر پڑھی ہو اور وہ اپنے رب کے لیے خاشع رہا ہو۔ “
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
ليس لك من صلاتك إلا ما عقلت منها
تمہاری نماز تو بس وہی ہے جو تم نے سوچ سمجھ سے پڑھی ہو۔
اور مسند و مرفوع روایت میں ہے کہ:
إن العبد ليصلي الصلاة ولم يكتب له إلا نصفها أو ثلثها أو ربعها حتى بلغ عشرها
”بندہ نماز پڑھتا ہے مگر اس کے لیے صرف آدھی نماز لکھی جاتی ہے یا تہائی یا چوتھائی حتیٰ کہ دسویں حصے تک کا ذکر فرمایا۔ “
اور اللہ عزوجل نے بھی نمازیوں کی فلاح کو ان کی نماز میں خشوع کے ساتھ معلق فرمایا ہے۔ اس کا لازمی معنی و مفہوم یہ ہے کہ جو نماز میں خشوع نہیں کرتا وہ اہلِ فلاح میں سے بھی نہیں ہے۔ اگر اس کا ثواب شمار ہوتا ہو تو وہ بندہ فلاح پانے والوں میں سے ہوتا۔
البتہ دنیاوی اعتبار سے یہ نماز ضرور شمار ہوتی ہے کہ بندہ نمازی سمجھا جاتا ہے اور اس کے ذمے قضاء دینا لازمی نہیں رہتا یعنی وہ بندہ اپنے عہدہ سے بری ہو گیا۔
اگر اس میں خشوع غالب ہو اور بندہ سمجھ کر پڑھے تو ایسی نماز بالاجماع نماز شمار ہوتی ہے اور پھر بعد کے اذکار وسنن اس میں رہ جانے والے نقص اور کمزوریوں کے ازالے کا باعث بنتے ہیں۔
لیکن اگر نماز ایسی ہو کہ اس میں خشوع غالب نہ رہا ہو اور آدمی نے بے سمجھی اور بے شعوری میں نماز پڑھی ہو تو ایسی نماز کے بارے میں فقہا کا اختلاف ہے کہ آیا اس کا اعادہ ہے یا نہیں۔
اصحاب احمد رحمہ اللہ میں سے امام ابن حامد رحمہ اللہ اس کا اعادہ واجب کہتے ہیں اس لیے نماز میں خشوع کے مسئلہ میں ان حضرات کا اختلاف ہے اور اس میں دو قول ہیں اور مذہب احمد میں بھی دو ہی قول ہیں۔
مگر دیگر اکثر فقہا اعادہ واجب نہیں کہتے۔ ان کا استدلال اس بات سے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں بھولنے والے کو تلقین فرمائی ہے کہ وہ آخر میں دو سجدے کر لے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز دہرانے کا حکم نہیں دیا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرماتے ہیں:
إن الشيطان يأتى أحدكم فى صلاته فيقول اذكر كذا، اذكر كذا، لما لم يكن يذكر، حتى يظل الرجل لا يدري كم صلى
”تم میں ایک جب نماز میں ہوتا ہے تو شیطان اس کے پاس آتا ہے تو اسے کہتا ہے وہ یاد کر، اور وہ یاد کر۔ وہ وہ باتیں جو اسے یاد نہیں ہوتیں حتیٰ کہ اسے خبر ہی نہیں رہتی کہ اس نے کس قدر نماز پڑھی ہے۔“
صحیح البخاری، کتاب الأذان،608(1222)
مگر فقہاء کرام کا اس میں بھی اختلاف نہیں ہے کہ بندے کو نماز کا ثواب صرف اتنا ہی ملتا ہے جس قدر اسے حضوری قلب حاصل رہی ہو، اور وہ اس میں خاضع رہا ہو جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
”بندہ نماز سے پھرتا ہے تو اس کے لیے اس کی نماز میں سے صرف آدھی نماز لکھی جاتی ہے، اس کا تیسرا حصہ، چوتھا حصہ حتیٰ کہ دسویں تک کا شمار فرمایا۔“
اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ یہی فرماتے ہیں کہ ”تمہاری نماز بس اس قدر ہے جو تم نے سوچ سمجھ کر پڑھی ہو۔ “
اس نماز کو جو صحیح کہا گیا ہے تو اس اعتبار سے کہ ہمیں اس کے اعادہ کا حکم نہیں دیا گیا۔
مدارج السالكين 112/1 .
اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أذن المؤذن بالصلاة أدبر الشيطان وله ضراط حتى لا يسمع التأذين، فإذا قضي التأذين أقبل، فإذا نوبي بالصلاة أدبر، فإذا قضي التنويب أقبل، حتى يخطر بين المرء ونفسه يقول اذكر كذا، اذكر كذا ما لم يكن يذكر حتى يظل لا يدري كم صلى فإذا وجد أحدكم ذلك فليسجد سجدتين وهو جالس
”جب مؤذن اذان کہتا ہے تو شیطان پیٹھ دے کر گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے حتیٰ کہ اذان نہیں سنتا، جب اذان مکمل ہو جاتی تو واپس آ جاتا ہے، پھر جب اقامت کہی جاتی ہے تو پیٹھ پھیر جاتا ہے، جب اقامت مکمل ہو جاتی ہے تو آ جاتا ہے حتیٰ کہ بندے کے دل میں خیالات ڈالنے لگتا ہے، کہتا ہے وہ بات یاد کر، وہ بات یاد کر، جو اسے یاد نہیں ہوتیں، بالآخر بندہ ایسی حالت میں ہو جاتا ہے کہ نہیں جانتا کہ کتنی نماز پڑھی ہے۔ تو جب تم میں سے کوئی اس کیفیت سے دوچار ہو تو چاہیے کہ دو سجدے کر لے جبکہ وہ بیٹھا ہوا ہو۔“
صحيح البخاري، الأذان، حديث: 3285,1231,608.
علماء کا کہنا ہے کہ دیکھیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی نماز میں جب شیطان نے اسے غافل کیے رکھا حتیٰ کہ اسے اس کی مقدار و تعداد کا بھی علم نہیں رہتا، فرمایا کہ وہ آخر میں سہو کے دو سجدے کر لے۔ اگر یہ نماز باطل ہوتی جیسے کہ آپ لوگ کہہ رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دہرانے کا حکم دیتے۔
نیز کہتے ہیں کہ سجدہ سہو کی حکمت بھی یہی ہے کہ شیطان جو بندے کو وسوسے میں مبتلا کیے رہا یہ سجدے اس کے لیے ناک رگڑائی اور رسوائی کا باعث بنتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سجدوں کو شیطان کی ناک کو خاک آلود کرنے والے (مرغمتین) قرار دیا ہے۔
اگر آپ ان ثمرات و فوائد کے حصول کے لیے اعادہ نماز کو واجب کہتے ہیں تو یہ معاملہ اس کی اپنی ذات کا ہے، چاہے تو حاصل کر لے یا چاہے تو چھوڑ دے۔ اگر آپ یہ کہنا چاہیں کہ اعادہ لازم ہے اور اس کے ترک پر اس کے لیے عقاب ہے اور پھر اس پر تارک صلاۃ کے احکام مرتب ہوں تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ الغرض یہی دوسرا قول زیادہ راجح ہے۔
مدارج السالكين 528/1-530