خبیث اور طیب کے اصول کی وضاحت اور استثنائی مثالیں

سوال:

سورۃ النور کی آیت
"اَلۡخَبِيۡثٰتُ لِلۡخَبِيۡثِيۡنَ وَالۡخَبِيۡثُوۡنَ لِلۡخَبِيۡثٰتِ‌ۚ وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيۡنَ وَالطَّيِّبُوۡنَ لِلطَّيِّبٰتِ‌ۚ”
[النور: 26]
اس آیت کے مطابق خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے ہیں، جبکہ پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے ہیں۔
لیکن سیدہ آسیہؓ، جو فرعون کی بیوی تھیں، اور آج کے معاشرے میں بھی نیک لوگوں کی بیویاں بری یا برے لوگوں کی بیویاں نیک دیکھی گئی ہیں، تو اس آیت کی روشنی میں اس کی کیا وضاحت کی جا سکتی ہے؟

جواب از فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ

اس آیت کے دو معانی علماء نے بیان کیے ہیں:

الفاظ اور کلمات کے لحاظ سے تفسیر:

"خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے” کا مطلب بعض علماء نے یہ بیان کیا ہے کہ برے کلمات برے لوگوں کے لیے ہیں اور برے لوگ برے کلمات کے لیے ہیں، جبکہ پاکیزہ کلمات اچھے لوگوں کے لیے ہیں اور اچھے لوگ پاکیزہ کلمات کے لیے ہیں۔
اس تفسیر کے مطابق، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر جو تہمت لگائی گئی، وہ برے لوگوں کی طرف سے آئی، جبکہ وہ خود پاکیزہ اور نیک تھیں۔

عام اصول کے طور پر تفسیر:

دوسرا معنی یہ ہے کہ عام طور پر برے مرد برے لوگوں کو اور نیک لوگ نیک لوگوں کو پسند کرتے ہیں۔
یہ ایک عمومی اصول ہے، لیکن استثناء موجود ہیں، جیسا کہ سیدہ آسیہ رضی اللہ عنہا کا نکاح فرعون جیسے ظالم اور فاسق سے ہوا۔
ایسا ممکن ہے کہ کوئی پاکدامن عورت کسی برے مرد سے شادی نہ کرنا چاہے، اور برے لوگ بھی برے لوگوں کو تلاش کریں۔

نتیجہ:

یہ آیت عمومی اصول کو بیان کرتی ہے، لیکن یہ قطعی نہیں کہ ہر نیک شخص کی بیوی نیک ہو یا ہر برا شخص کسی برے کے ساتھ ہی شادی کرے۔
سیدہ آسیہؓ اور فرعون، اور آج کے معاشرتی حالات میں ایسے استثنائی واقعات اس بات کو ثابت کرتے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1