سوال: میرا خاوند مجھے اور میرے بیٹوں کو خرچ نہیں دیتا، اور ہم بعض اوقات اس کو بتائے بغیر اس کا کچھ مال لے لیتے ہیں تو کیا ہمیں اس پر گناہ ہو گا؟
جواب: عورت کے لیے اپنے لیے اور اپنی اس اولاد کے لیے جو ابھی کام کا ج کر کے اپنی ضروریات زندگی فراہم کرنے سے قاصر ہے، معروف طریقے سے اپنے خاوند کا مال اسے بتائے بغیر لینا جائز ہے، بشرطیکہ وہ اس میں اسراف اور فضول خرچی کی مرتکب نہ ہو، اور ایسا کرنا اس وقت جائز ہے۔ جب اس کا خاوند اس کی جائز ضروریات پوری نہ کرتا ہو۔
دلیل اس کی بخاری و مسلم کی وہ روایت ہے جو عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! بے شک ابوسفیان (میرا خاوند) میری اور میرے بیٹوں کی ضروریات کو پور ا کرنے کے لیے مال نہیں دیتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«خذي من ماله بالمعروف ما يكفياك ويكفي بنيك»
[صحيح مسلم، رقم الحديث 17141]
”تو اس کے مال سے اتنا لے لیا کر جتنا تیری اور تیرے بیٹوں کی ضروریات کے لیے کافی ہو۔“
[عبد العزيز بن عبدالله بن باز رحمہ اللہ]
جواب: عورت کے لیے اپنے لیے اور اپنی اس اولاد کے لیے جو ابھی کام کا ج کر کے اپنی ضروریات زندگی فراہم کرنے سے قاصر ہے، معروف طریقے سے اپنے خاوند کا مال اسے بتائے بغیر لینا جائز ہے، بشرطیکہ وہ اس میں اسراف اور فضول خرچی کی مرتکب نہ ہو، اور ایسا کرنا اس وقت جائز ہے۔ جب اس کا خاوند اس کی جائز ضروریات پوری نہ کرتا ہو۔
دلیل اس کی بخاری و مسلم کی وہ روایت ہے جو عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! بے شک ابوسفیان (میرا خاوند) میری اور میرے بیٹوں کی ضروریات کو پور ا کرنے کے لیے مال نہیں دیتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«خذي من ماله بالمعروف ما يكفياك ويكفي بنيك»
[صحيح مسلم، رقم الحديث 17141]
”تو اس کے مال سے اتنا لے لیا کر جتنا تیری اور تیرے بیٹوں کی ضروریات کے لیے کافی ہو۔“
[عبد العزيز بن عبدالله بن باز رحمہ اللہ]