حیض کے دنوں کی شرعی حد: کیا کم یا زیادہ مدت مقرر ہے؟
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

حیض کے ایام کی تعداد – کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کی شرعی وضاحت

سوال:

کیا حیض کے کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ ایام کی حد معلوم ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح اور راجح قول کے مطابق، حیض کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ ایام کی کوئی مقرر شرعی حد متعین نہیں ہے۔ اس کی دلیل قرآن مجید کی درج ذیل آیت ہے:

﴿وَيَسـَٔلونَكَ عَنِ المَحيضِ قُل هُوَ أَذًى فَاعتَزِلُوا النِّساءَ فِى المَحيضِ وَلا تَقرَبوهُنَّ حَتّى يَطهُرنَ﴾
[سورة البقرة: 222]
’’اور تم سے حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، کہہ دو وہ تو نجاست ہے، سو ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان سے مقاربت نہ کرو۔‘‘

آیت سے حاصل ہونے والا شرعی مفہوم:

◈ اللہ تعالیٰ نے حیض کی حالت میں عورت سے کنارہ کشی کی حد معلوم دنوں کے طور پر بیان نہیں کی، بلکہ پاکی (طہارت) کو کنارہ کشی کی بنیاد بنایا ہے۔

◈ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حکم کی علت حیض کی موجودگی ہے۔

✿ جب حیض موجود ہوگا تو شریعت کے احکام نافذ ہوں گے۔

✿ جب عورت پاک ہو جائے گی تو حیض کے مخصوص احکام ختم ہو جائیں گے۔

◈ چنانچہ قرآن و سنت میں ایام کی تعداد (کم یا زیادہ) کے حوالے سے کوئی تحدید موجود نہیں ہے، جبکہ اگر ایسی کوئی حد شرعی طور پر مطلوب ہوتی تو اللہ تعالیٰ یا نبی کریم ﷺ اس کا ذکر ضرور فرماتے۔

شرعی اصول کی روشنی میں:

ہر وہ خون جو عورت کو آئے اور جس کے بارے میں عورتیں عرف عام میں جانتی ہوں کہ یہ حیض کا خون ہے، اسی کو حیض کا خون شمار کیا جائے گا۔

◈ اس میں دنوں کی تعداد کا کوئی تعین نہیں ہے۔

اگر خون مستقل طور پر جاری رہے، یعنی کبھی بند نہ ہو یا مہینے میں صرف ایک یا دو دن کے لیے بند ہو، تو ایسی صورت میں وہ خون استحاضہ (بیماری کا خون) شمار ہوگا۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1