حیض و نفاس میں جماع کرنے کا کفارہ
حیض و نفاس میں جماع کرنے کا کفارہ
سوال: انسان کا اپنی بیوی سے حالت حیض میں یا حیض و نفاس سے پاک ہونے کے بعد اور غسل سے قبل جہالت کی بنا پر جماع کرنے سے اس پر کفارہ واجب ہو گا؟ اور وہ کفارہ کتنا ہوگا؟ اور جب عورت ان حالتوں میں کیے گئے جماع کے نتیجہ میں حاملہ ہو جائے تو اس حمل سے پیدا ہونے والے بچے کو کیا حرامی بچہ کہا جائے گا؟
جواب: حالت حیض میں حائضہ کی فرج (اگلی شرمگاہ) میں جماع کرنا حرام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
«وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ» [2-البقرة: 222]
”اور تجھ سے حیض کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دے وہ ایک طرح کی گندگی ہے، سو حیض میں عورتوں سے علیحدہ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ، یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں، پھر جب وہ غسل کر لیں تو ان کے پاس آؤ جہاں سے تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے، بے شک اللہ ان سے محبت کرتا ہے جو بہت توبہ کرنے والے ہیں اور ان سے محبت کرتا ہے جو بہت پاک رہنے والے ہیں۔“
جس شخص نے ایسا کیا وہ اللہ سے استغفار کرے اور اس سے تو بہ کرے، اور اس پر اپنے اس عمل کی وجہ سے ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرنا واجب ہوگا، جیسا کہ احمد اور اصحاب سنن نے عمدہ سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی سے حالت حیض میں جماع کرنے والے شخص کے متعلق فرمایا:
«يتصدق بدينار أو نصف دينار» [صحيح۔ سنن أبى داود، رقم الحديث 264]
”وہ ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرے۔“
اور ان میں سے جو مقدار بھی تو صدقہ کرے گا تجھے کافی ہوگا۔ اور دینار کی مقدار سعودی ریال کے سات حصوں میں سے چار حصے ہیں، مثلاًً جب سعودی جنیہہ کے مبادلے میں ستر ریال ہوں تو تم پر بیس ریال یا چالیس ریال بعض فقراء پر صدقہ کرنا واجب ہو گا۔
اور خاوند کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ طہارت یعنی خون حیض بند ہونے کے بعد اور عورت کے غسل کرنے سے پہلے اس سے جماع کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
«وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ» [2-البقرة: 222]
”اور ان کے قریب نہ جاؤ، یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں، پھر جب وہ غسل کر لیں تو ان کے پاس آؤ جہاں سے تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے۔“
پس اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے خون حیض کے رک جانے کے بعد اور مکمل پاک ہونے یعنی غسل کرنے سے پہلے حائضہ سے جماع کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ اور جو حائضہ کے غسل کرنے سے پہلے اس سے جماع کرے گا، وہ گنہگار ہوگا اور اس پر کفارہ لازم ہوگا۔
اگر اس کی بیوی حالت حیض میں کیے گئے جماع کے سبب حاملہ ہو جائے یا خون حیض کے بند ہونے کے بعد اور غسل کرنے سے قبل جماع کے نتیجہ میں حاملہ ہو جائے تو اس کے بچے کو حرامی نہیں کہا جائے گا بلکہ وہ حلالی اور شرعی بچہ ہوگا۔ [سعودي فتوي كميٹي]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل