سوال
اگر حائضہ عورت فجر سے پہلے پاک ہو جائے لیکن غسل طلوع فجر کے بعد کرے تو اس کے روزے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر کوئی حائضہ عورت طلوع فجر سے پہلے پاک ہو جائے لیکن غسل طلوع فجر کے بعد کرے، تو اس کا روزہ درست ہے۔ البتہ ایک شرط ہے کہ اسے فجر سے پہلے پاکی حاصل ہونے کا مکمل یقین ہو۔
◈ یہاں اس بات کی طرف توجہ دینا نہایت ضروری ہے کہ عورت کو پاکی حاصل ہونے کا یقین ہونا چاہیے۔
◈ بعض عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ وہ طاہر ہو گئی ہیں، حالانکہ حقیقت میں وہ ابھی طاہر نہیں ہوتیں۔
اسی وجہ سے:
◈ عورتیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس روئی بھیجا کرتی تھیں تاکہ وہ طہارت کی علامت دکھا سکیں۔
◈ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان سے فرمایا کرتی تھیں:
"جلدی نہ کرو، حتیٰ کہ سفید پانی دیکھ لو”۔
لہٰذا:
◈ عورت کو اچھی طرح یقین کر لینا چاہیے کہ وہ طاہر ہو چکی ہے۔
◈ جب طہارت کا یقین ہو جائے تو فوراً روزے کی نیت کر لے، اگرچہ غسل طلوع فجر کے بعد کرے۔
◈ البتہ غسل میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، تاکہ نماز فجر بروقت ادا کی جا سکے۔
غلط رویہ کی وضاحت
ہمیں معلوم ہوا ہے کہ بعض عورتیں:
◈ طلوع فجر سے پہلے یا فوراً بعد پاک ہو جاتی ہیں لیکن
◈ غسل کو طلوع آفتاب تک مؤخر کر دیتی ہیں۔
◈ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ وہ دن کی روشنی میں غسل کرنا چاہتی ہیں تاکہ غسل مکمل، صاف ستھرا اور طاہر ہو۔
یہ طرز عمل غلط ہے:
◈ چاہے رمضان ہو یا غیر رمضان، ایسی عورت پر واجب ہے کہ فوراً غسل کرے تاکہ فجر کی نماز وقت پر ادا ہو سکے۔
دو غسل کرنے کی اجازت
◈ نماز کے لیے فرض غسل کافی ہے۔
◈ اگر طلوع آفتاب کے بعد اضافی صفائی اور طہارت کے لیے دوبارہ غسل کرنا چاہے تو کوئی حرج نہیں۔
جنبی افراد کا بھی یہی حکم
◈ حائضہ عورت کی طرح اگر کوئی جنبی مرد یا عورت طلوع فجر کے بعد غسل کرے اور روزے سے ہو، تو بھی کوئی حرج نہیں۔
◈ اس کا روزہ درست ہوگا۔
اس کی دلیل:
◈ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ مقاربت کے بعد جنبی ہوتے اور پھر بھی روزہ رکھتے، جبکہ غسل طلوع فجر کے بعد فرماتے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب