ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 837
سوال
کیا حمل کی حالت میں طلاق واقع ہوجاتی ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یقیناً، حمل کی حالت میں حاملہ عورت کو طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اس بات کی وضاحت قرآن مجید میں موجود ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ… ٤﴾…الطلاق
’’حمل والیوں کی عدت وضعِ حمل (بچے کی پیدائش) تک ہے۔‘‘
وضاحت
- قرآن مجید کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ حاملہ عورت کی عدت بچے کی پیدائش تک ہے۔
- "عدت” دراصل طلاق کے بعد گزرنے والی مدتِ انتظار کو کہا جاتا ہے۔
- اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عدت، طلاق کا نتیجہ ہے۔
- اگر حاملہ عورت طلاق کے قابل (محلِ طلاق) نہ ہوتی، تو اس کی عدت کا ذکر کرنا بے فائدہ (عبث) بات ہوتی۔
- جبکہ قرآن مجید کسی عبث یا بے مقصد بات سے پاک اور منزہ ہے۔
لہٰذا، اس سے یہ نتیجہ واضح طور پر نکلتا ہے کہ حاملہ عورت پر طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب