حلال و حرام کاروبار قران و حدیث کی روشنی میں
مرتب کردہ: فضیلتہ الشیخ حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی رحمہ اللہ

کمائی کے حلال اور حرام ذرائع

﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ﴾ البقره: 168/2

ترجمہ: اے لوگو ! زمین میں جو کچھ حلال اور طیبّ ہے اسے کھاؤ اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو یقیناً وہ تمہارا کھلا دشمن ہے

حلال کمائی کے تمام ذرائع کا شمار کرنا تو مشکل ہے البتہ اصولی بات یہ ہے کہ جن چیزوں سے شریعت نے منع کیا ہے وہ حرام ہیں اور جن سے منع نہیں فرمایا وہ سب حلال ہیں۔
مختصر حلال کمائی کے بڑے بڑے ذرائع چار ہیں:
① ہاتھ سے کام کرنا ۔ ② اجرت پر کام کرنا۔ ③ تجارت ۔ ④ زراعت ۔
ہاتھ سے کام کرنے کی فضیلت کے متعلق صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ما أكل أحد طعاما قط خيرا من أن يأكل من عمل يده وإن نبي الله داوود عليه السلام كان يأكل من عمل يده
صحیح بخاری، کتاب البيوع، باب كسب الرجل و عمله بيده : 2072
”کسی شخص نے کبھی اس سے بہتر کھانا نہیں کھایا کہ وہ اپنے ہاتھوں کے کام سے کھائے اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کے کام سے کھایا کرتےتھے۔“
جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے کفار کا مال ، مال غنیمت کی صورت میں حاصل ہو تو وہ بھی ہاتھ کی پاکیزہ ترین کمائی ہے۔ اجرت پر کام کرنا بھی انبیاء کی سنت ہے اور اس کی بیشمار صورتیں ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے دس سال اجرت پر بکریاں چرائیں۔ صحیح بخاری میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی پیغمبر ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ کسی نے دریافت کیا کہ آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ” ہاں میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند قیراطوں پر چرایا کرتا تھا۔“
صحیح بخارى كتاب الاجارة، باب رعى الغنم على قراريط :2262- ابن ماجه، کتاب التجارات، باب الصناعات : 2183
آپ صلى الله عليه وسلم کی پرورش کرنے والے ابو طالب غریب آدمی تھے۔ بچوں کا بھی بوجھ تھا۔ انہوں نے بچپن میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجرت پر کسی کی بکریاں چرانے پر لگا دیا۔ اس آمدنی سے وہ آپ کی پرورش بھی کرتے اور خود بھی فائدہ اٹھاتے ۔ نبی صلى الله عليه وسلم نے کیسی
بات فرمائی ترمذی میں حدیث ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس نے مجھ پر کوئی احسان کیا تھا، میں نے سب کے احسانات کا بدلہ دے دیا ہے۔ صرف ایک شخص ہے جس کے احسانات کا بدلہ میں نہیں دے سکا، وہ ہے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ، اس کے احسان کا بدلہ قیامت کے دن اللہ عزوجل ہی دے گا۔ “
ترمذی، کتاب المناقب : 3661
ابوطالب کے احسان کا بدلہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دیا تو اجرت پر کام کرنا سنت ہے۔ اسی طرح تجارت کرنا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ زراعت کی فضیلت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے۔ آدم علیہ السلام زراعت کرتے تھے بلکہ انہیں تو سارے کام خود ہی کرنے پڑتے تھے۔ بہر حال میں نے مختصرا حلال کمائی کی چند بنیادیں عرض کر دی ہیں۔ اس وقت میرا مقصد یہ نہیں کہ حلال ذرائع کی تفصیلات بیان کروں ۔ زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان کو معلوم ہو جائے کہ کون سی چیزیں حرام ہیں تا کہ وہ ان سے بچے ۔
میرے بھائیو! حرام کی اتنی شامت اور اتنی نحوست ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں دعا قبول ہونے سے انسان محروم ہو جاتا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو وہی حکم دیا ہے جو پیغمبروں کو دیا ہے۔ مومنوں کو فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ﴾
البقره: 172/2
”اے ایمان والو! کھاؤ پاکیزہ چیزوں سے جو ہم نے تمہیں دی ہیں۔“
اور پیغمبروں کو حکم دیا:
﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلرُّسُلُ كُلُوا۟ مِنَ ٱلطَّيِّبَـٰتِ﴾
المؤمنون: 51/23
”اے رسولو! کھاؤ پاکیزہ چیزوں سے ۔“
مومنوں کو بھی حکم ہے کہ پاکیزہ اور حلال چیزیں کھاؤ اور پیغمبروں کو بھی یہی حکم ہے۔ پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک آدمی کا ذکر کیا جو بہت لمبا سفر کرتا ہے۔ سر کے بال بکھرے ہوئے گرد و غبار سے اٹا ہوا ہے۔ (اور یہ مسکینی اور سفر کی حالت دعا کی قبولیت کا باعث ہے حالت جتنی پراگندہ ہو اور آدمی جتنی عاجزی سے اللہ سے دعا کرے گا ، اتنی ہی اللہ کی رحمت زیادہ جوش میں آتی ہے۔ اور وہ آدمی کہتا ہے یا رب! یا رب اے میرے پروردگار ! اے میرے پروردگار !
ومطعمه حرام ومشربه حرام وملبسه حرام وغذيبالحرام فأنىٰ يستجاب لذٰلك
صحيح مسلم، كتاب الزكاة، باب قبول الصدقة من الكسب الطيب : 1015
”فرمایا اس کی حالت یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام اور اس کا پینا حرام اور اس کا پہننا حرام ہے اور اسے حرام غذا دی گئی ہے تو اس کی دعا کیسے قبول کی جائے۔“
معلوم ہوا کہ حرام کی شامت یہ ہے کہ اس کی وجہ سے دعا قبول نہیں ہوتی تو دوسرے اعمال کی قبولیت کا آپ خود ہی اندازہ کرلیں، زکوۃ جو حرام مال سے ہو حج جو حرام مال سے کیا جائے ، روزہ جو حرام مال سے رکھا جائے ، اور حرام سے افطار کیا جائے، اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟ اس کے علاوہ جب انسان اللہ تعالیٰ کی منع کردہ چیزیں کھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں سے محروم کر دیتے ہیں۔ ہمارے ماں باپ آدم و حوا علیہما السلام کو اللہ تعالیٰ نے پودے کے قریب جانے سے منع فرمایا تھا۔ وہ بھول کر اسے کھا بیٹھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لباس اتر گیا بے پردہ ہو گئے۔ بعد میں بے شک تو بہ قبول ہو گئی مگر جنت سے نکلنا ہی پڑا۔ اس لیے میرے بھائیو ، حرام سے بچنا بے حد ضروری ہے۔

حرام کمائی کی صورتیں:

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ﴾
النساء: 29/4
”اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ ، ہاں اگر آپس کی رضا مندی کے ساتھ تجارت ہو تو الگ بات ہے لیکن باطل طریقے سے ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔“
باطل طریقے سے ایک دوسرے کے مال کھانے کی کئی صورتیں ہیں۔ کسی سے زبردستی مال چھین لینا ، دھوکے کے ساتھ مال لینا ، سود کے ذریعے کسی کا مال کھانا، غرض کمائی کے بہت سے طریقے ایسے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے باطل قرار دیا ہے اور وہ مسلمانوں کے لیے ناجائز اور حرام ہیں۔ آج کل بہت سے لوگ حرام کمائی میں پھنسے ہوئے ہیں مگر انہیں اس کی پرواہ ہی نہیں ۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
”لوگوں پر ایک وقت آئے گا کہ آدمی پرواہ ہی نہیں کرے گا کہ کہاں سے مال حاصل کر رہا ہے، حلال طریقے سے حاصل کر رہا ہے یا حرام طریقے سے حاصل کر رہا ہے۔ “
صحيح بخاري، كتاب البيوع ، باب من لم يبال من حيث كسب المال : 2059

حرام سے پر ہیز :

لہذا ہمیں اس کی فکر کرنی چاہیے۔ کوئی کافر اگر حلال حرام کی فکر نہیں کرتا تو نہ کرے مومن کو تو اس کی فکر کرنی چاہیے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس کی کتنی فکر تھی۔ صحیح بخاری میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا جو کمائی کر کے لاتا اور روزانہ کچھ آمدنی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لا کر دیتا تھا۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسے استعمال کر لیتے ۔ ایک دن وہ کوئی چیز لایا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وہ کھالی۔ اس نے کہا ” آپ کو علم ہے کہ یہ کیا چیز تھی ؟ آپ نے کہا بتاؤ (کہاں سے لائے ہو) اس نے جواب دیا کہ زمانہ جاہلیت میں میں نے ایک آدمی کے لیے کہانت کی تھی، ویسے مجھے اچھی طرح کہانت نہیں آتی تھی لیکن میں نے اسے دھوکا دیا۔ (اتفاق سے ویسا ہی ہو گیا ) آج وہ مجھے ملا اور اس نے مجھے اس کہانت کے بدلے یہ چیز دی جو آپ نے کھائی ہے۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہاتھ ڈال کر منہ میں جو کچھ تھا قے کر کے نکال دیا۔
صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار، باب ايام الجاهلية : 3842
فتح الباری میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اس طرح ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک قبیلہ سے گزرے ، ان کی عورت حاملہ تھی۔ ہم میں سے ایک آدمی نے کہا: ” میں تجھے خوشخبری دیتا ہوں کہ تو لڑکا جنے گی ۔ “ اس عورت نے ایک بکری دی تو اس نے اس بکری کو ذبح کیا تو ہم کھانے لگے، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو قصے کا علم ہوا تو انہوں نے اٹھ کر قے کر دی۔
فتح الباری : 154/7
ایک روایت میں ہے کہ ”جو شخص بھی آئندہ کی باتیں بتانے والے سے پوچھے وہ اس چیز سے کافر ہو جاتا ہے جو محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم پر اتری ۔“
ابو داؤد، کتاب الطب، باب في الكاهن : 3904
خیر اس مسافر نے ویسے ہی کہہ دیا کہ لڑکا ہو گا۔ اتفاق سے اس عورت کے ہاں لڑکا ہی پیدا ہوا، جس کے عوض انہوں نے اس شخص کو کوئی چیز تحفہ دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے کہ ” کا ہن کو ملنے والی شیرینی خبیث ہے۔“
ترمذی ، كتاب الطب، باب ماجاء في اجر الكاهن : 2071.
اس لیے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وہ حرام چیز اپنے پیٹ میں رہنے ہی نہیں دی۔ یہ کسی متشدد کا واقعہ نہیں، نہ کسی تارک الدنیا صوفی کی بات ہے۔ یہ اس امت کے سب سے زیادہ مرتبہ والے شخص کی بات ہے اور صحیح بخاری میں اس کا ذکر ہے۔
لہذا بھائیو! ہمیں اس بات کی بھی فکر کرنی چاہیے کہ ہم کہیں نا دانستہ طور پر تو حرام نہیں کھا رہے۔

حرام کی ایک قبیح شکل ۔سود :

حرام کی شکلوں میں سے ایک سود ہے، اور یہ بہت عام ہے۔ انفرادی و اجتماعی طور پر ساری دنیا میں اس کی سرداری ہے۔ قرآن مجید میں اللہ کا ارشاد ہے:
﴿وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلْبَيْعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٰا۟﴾
البقره : 275/2
”اللہ تعالیٰ نے خرید وفروخت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔“
اور اس سے منع کرتے ہوئے اتنے سخت لفظ استعمال کیے، فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ . ‏ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ﴾
البقره : 278/2-279
”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈر جاؤ اور جتنا سود لینا باقی رہ گیا ہے، چھوڑ دو اگر تم مومن ہو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ اور اگر تم تو بہ کر لو تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال ہیں، نہ تم ظلم کرو گے نہ ظلم کیے جاؤ گے۔“
تفسیر طبری میں لکھا ہوا ہے کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
”جو شخص سود پر اصرار کر رہا ہو ، باز نہ آتا ہو ،مسلمانوں کے امام (امیر المومنین ) پر لازم ہے کہ اسے تو بہ کروائے ، اگر باز آجائے تو ٹھیک ورنہ اس کی گردن اتار دے ۔ “
تفسیر طبری
﴿إِن كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾ ”اگر تم مومن ہو“ سے یہ بات نکلتی ہے کہ سود نہ چھوڑنے والا صحیح مومن نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَذَرُوا۟ مَا بَقِىَ مِنَ ٱلرِّبَوٰٓا۟﴾
” جوسود باقی ہے چھوڑ دو ۔“
اس کے ساتھ ہی فرمایا:
”اگر تم نے ایسا نہ کیا تو یاد رکھو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارےلیے اعلان جنگ ہے۔“
غور کیجیے کتنا بڑا گناہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
درهم ربا يأكله الرجل وهو يعلم أشد من ستة وثلاثين زنية
دار قطنی :16/3 – علامه شمس الحق عظیم آبادی نے التعلیق المغنی میں امام منذری سے نقل کیا ہے کہ اس حدیث کو احمد اور طبرانی نے الکبیر میں روایت کیا ہے اور احمد کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔ مسند احمد: 225/5 صحيح مشكاة المصابیح : 859/2- علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔
”سود کا ایک درہم جسے آدمی کھائے اور اسے معلوم ہو کہ یہ سود ہے چھتیس دفعہ زنا سے بدتر ہے۔“
اور آپ جانتے ہیں کہ زنا کتنا بڑا گناہ ہے اور ابن ماجہ میں صحیح حدیث ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
الربا ثلاثة وسبعون بابا أيسرها أن ينكح الرجل أمه
ابن ماجه، أبواب التجارة و متعلقاتها، باب التغليظ في الربا : 2274
” سود کے ستر سے زیادہ دروازے ہیں ان سب سے ہلکا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح کرے۔“
اب آپ دیکھیں جو شخص زنا کا ارتکاب کرے ،لوگ اسے کتنا برا سمجھتے ہیں اور سمجھنا بھی چاہیے اور جس قدر طاقت ہو، اسے روکنا بھی چاہیے لیکن سود کے لین دین پر کوئی ملامت نہیں کرتا۔ بڑے بڑے دین داروں نے بینکوں سے قرض لیا ہوا ہے ان کے
کاروبار کی بنیاد ہی سود پر ہے لیکن انہیں بالکل پرواہ نہیں کہ کتنی بڑی لعنت میں گرفتار ہیں۔ بہت سے پر ہیز گار لوگوں نے اپنے بیٹوں اور عزیزوں کو بنکوں میں ملازم رکھوایا ہوا ہے، حالانکہ حدیث میں ہے:
لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا ومؤكله وكاتبه وشاهديه وقال هم سواء
صحيح مسلم، کتاب المساقاة، باب لعن أكل الربا و مؤكله : 1597
”رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے سود کھانے والے ، کھلانے والے، اس کے لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا وہ برابر ہیں۔“
اس لیے میرے بھائیو! آئیے ہم اپنے معاملات کی پڑتال کریں۔ اگر ہم کسی قسم کے سود میں ملوث ہیں یا اس میں تعاون کر رہے ہیں تو پہلی فرصت میں اسے چھوڑنے کی
کوشش کریں۔

مدت پرسود :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کی دو صورتیں حرام فرمائیں۔ اس وقت دونوں ہی عام ہیں۔ پہلی صورت تو یہ کہ کوئی شخص کسی کو قرض دے اور کہے جب تم مجھے واپس کرو تو اس کے ساتھ اتنے روپے مزید دو یعنی مدت کے بدلے کچھ رقم وصول کرے۔ یہ سود ہے اور حرام ہے۔
صحیح بخاری میں ابو بردہ بن ابو موسیٰ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
أتيت المدينة فلقيت عبد الله بن سلام فقال إنك بأرض فيها الربا فاش إذا كان لك على رجل حق فأهدى إليك حمل تبن أو حمل شعير أو حمل قت فلا تأخذه فإنه ربا
صحیح بخاری کتاب مناقب الانصار، باب مناقب عبد الله رضی الله عنه : 3814
”میں مدینہ میں آیا اور عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ملا۔ انہوں نے فرمایا تم ایسی سرزمین میں رہتے ہو جہاں سود عام ہے ۔ ( کوفہ میں رہتے تھے ) تو جب تمہارا کسی آدمی پر حق ہو اور وہ تمہیں بھوسے کا گٹھا یا جو کا گٹھا یا چارے کا گٹھا بطور تحفہ دے وہ نہ لینا کیونکہ وہ سود ہے۔“
اگر کوئی شخص قرض واپس کرتے وقت اپنی مرضی سے کچھ زائد دے دے یا بہتر چیز دے دے تو وہ لے لینا جائز ہے جبکہ پہلے کوئی شرط نہ ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر رضی اللہ عنہ کو ان کے اونٹ کی قیمت ادا کرتے وقت طے شدہ قیمت سے زیادہ قیمت عطا فرمائی۔
صحیح بخاری، کتاب الصلوة ، باب الصلواة اذا قدم من سفر : 443
آپ دیکھیے کہ اس وقت بنکوں کی بنیاد ہی سود پر ہے۔ تمام بنک اس پر چل رہے ہیں ، لوگوں سے رقمیں لے کر انہیں سود دیتے ہیں۔ کوئی دس فیصد ، کوئی بیس فیصد ، کوئی تیس فیصد اور کوئی چالیس فیصد سود دیتا ہے۔ جو پرائیویٹ کمپنیاں بنی تھیں، وہ زیادہ سود
بن سلام دیتی تھیں، لوگ روپے کے طمع میں اپنا اصل مال بھی گنوا بیٹھے۔ تاج کمپنی نے منافع کا نام لے کر لوگوں سے سود پر روپے کٹھا کیا۔ آپ دیکھیں، کتنا بڑا ظلم ہے کہ جس قرآن نے سود کو اللہ تعالیٰ سے جنگ قرار دیا، اس کی طباعت واشاعت کے لیے منافع کا نام لے کر سود پر رقم جمع کی گئی اور اس سود پر رقم دینے والوں کی اصل رقمیں بھی بر باد ، ہو گئیں اور وہ چیختے پھرتے ہیں۔ تو بھائیو! یہ سود عام ہے۔ بہت سے لوگ بنکوں میں رقم جمع کروا کے سود لے رہے ہیں اور بہت سے لوگ بنکوں سے رقم لے کر کاروبار کر رہے ہیں اور انہیں سود دے رہے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق دونوں لعنتی ہیں۔

بنکوں کا موجودہ کاروبار :

آج کل بنکوں نے لوگوں کو سود میں پھنسانے کے لیے ایک اور سکیم نکالی ہے۔ اس کا نام انہوں نے مضاربت یا نفع و نقصان میں شراکت (PLS ) رکھا ہے۔ بنک والے کہتے ہیں آپ ہمارے پاس رقم جمع کروا ئیں ، ہم اسے کاروبار میں لگائیں گے۔ آپ ہمارے ساتھ نفع و نقصان میں شریک ہوں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر چہ آپ نفع ونقصان دونوں میں ہمارے ساتھ شریک ہیں مگر آپ نقصان سے بے فکر ہوکر ہمارے پاس رقم جمع کروائیں کیونکہ ہم ایسے کاروبار میں ہیں جس میں نقصان ہوتا ہی نہیں (اگر وہ یہ ضمانت نہ دیں تو کوئی ان کے پاس رقم جمع کروانے کے لیے جائے ہی ناں )
میرے بھائیو! یہ خالص سود ہے اور اسے مضاربت یا نفع و نقصان کا نام دینا صاف دھوکا ہے۔ نام بدلنے سے تو سود مضاربت نہیں بن جاتا۔ یاد رکھیں وہ کاروبار جس میں
نقصان ہوتا ہی نہیں وہ سود ہے۔ بنک لوگوں سے لی ہوئی رقمیں آگے سود پر دیتے ہیں اور جوسود وصول ہوتا ہے اس میں سے کچھ حصہ اپنے کھاتہ داروں کو دیتے ہیں ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سیونگ میں سود کی شرح مقررتھی مثلاً سالانہ دس فیصد اور اس کا نام سود تھا۔ اب سودی کاروبار کا نام مضاربت یا شراکت رکھ دیا گیا اور سود کا نام مارک اپ رکھ دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ سود کی شرح مقرر نہیں۔ بنک اپنے حاصل ہونے والے منافع کے مطابق لوگوں کو دیے جانے والے مارک اپ (سود) کی شرح مقرر کرے گا مثلاً کسی سال دس فی صد دے دیا کبھی نو فیصد کبھی بارہ فیصد ۔ تمام اصحاب بصیرت علماء جانتے ہیں بلکہ بینکوں کے مینجر حضرات صاف اقرار کرتے ہیں کہ پی ایل ایس سود ہی کی ایک صورت ہے۔
میرے بھائیو! یہ ہے ” اسلامی بینکنگ“ جو آج کل چل رہی ہے اور بہت سے لوگ اسے سود کا متبادل قرار دے رہے ہیں حالانکہ یہ بھی سود ہے۔ سود کا صحیح متبادل جائز تجارت ہے، جو سود سے خالی ہو:
﴿وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلْبَيْعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٰا۟﴾
البقره : 275/2
”اللہ نے تجارت حلال کی ہے اور سود حرام کیا ہے۔“
مگر یہ اس وقت ہے کہ لوگ سود چھوڑنا چاہتے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ سود چھوڑنا نہیں چاہتے ۔ ان کا بہانہ یہ ہے کہ آپ سود کا متبادل پیش کریں۔ اسلامی بینکاری کا خاکہ پیش کریں لیکن حقیقت میں ان کی خواہش اور ان کا اصرار یہی ہے کہ متبادل ایسا ہو کہ سود چلتا رہے۔ بینکنگ قائم رہے۔ ان لوگوں نے بہت سے فارمولے پیش کیے ہیں جن کا نام انہوں نے اسلامی بینکاری رکھا ہے۔ پاکستان ،سعودی عرب ، اور دنیا کے کئی ملکوں میں غیر سودی بنک قائم کیے گئے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان میں کوئی بھی سودی کاروبار سے خالی نہیں۔ جہاں مروجہ بینکنگ کا لفظ آئے ، اس کا سود سے خالی ہونا ممکن ہی نہیں۔ یہ سارا نظام ہی غلط ہے۔ اس کی بنیاد ہی سود پر ہے۔ اس کا متبادل یہی ہے کہ سود کی ہر قسم چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع فرمان ہو کر تجارت کی جائز اور حلال صورتیں اختیار کرو ۔ اس وقت دنیا کے تمام کفار کی کوشش یہی ہے کہ کوئی مسلمان سود سے محفوظ نہ رہے۔ مسلمان حکومتیں بھی پوری طرح ان کا ساتھ دے رہی ہیں۔ بجلی کا بل بر وقت ادا نہ ہو سکے تو اس پر دس فیصد زائد سود جرمانہ کے نام پر ڈال دیا جاتا ہے۔ بیمہ کمپنیوں کا سارا کاروبار سود کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ سرکاری ملازمین مثلاً ٹیچر حضرات اور دوسرے سول اور فوجی ملازمین کی تنخواہ میں سے ہر ماہ حکومت کچھ رقم کاٹ لیتی ہے۔ وہ رقم جمع ہوتی رہتی ہے اور اسکے ساتھ اس کا سود بھی شامل ہوتا رہتا ہے۔ ریٹائر ہونے پر وہ رقم مع سود ملازم کو دی جاتی ہے۔ اس کا نام پراویڈنٹ فنڈ رکھا ہوا ہے۔ اس میں سے صرف اپنی تنخواہ کی رقم لینی جائز ہے، سود کی رقم ہر گز نہیں لینی چاہیے۔ حکومت کو لکھ دیا جائے کہ ہمارے پراویڈنٹ فنڈ میں سود شامل نہ کیا جائے تو حکومت شامل نہیں کرتی۔

کاروبار کا اسلامی طریقہ :

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کسی کو رقم کاروبار کے لیے دینے کی جائز صورت کیا ہے؟ میرے بھائیو! وہ مضاربت ہے یعنی نفع و نقصان کی شراکت ۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کو رقم دی مثلا دس ہزار روپے دیے کہ تم اس سے تجارت کرو ۔ نفع ہمارے درمیان نصف نصف ہوگا۔ نقصان میں بھی ہم دونوں شریک ہوں گے۔ اب اس نے اس رقم سے تجارت شروع کر دی۔ سال یا چھ ماہ بعد یا جو مدت مقرر ہوئی ، حساب کیا تو ایک ہزار روپے نفع ہوا۔ معاہدے کے مطابق پانچ سو روپے رقم والے کو مل جائیں گے اور پانچ سو روپے محنت کرنے والے کو مل جائیں گے۔ لیکن اللہ نہ کرے اگر نقصان ہو جائے ، دس ہزار میں سے ایک ہزار خسارہ ہو گیا یا دس ہزار ہی ضائع ہو گیا۔ تجارت میں اس قسم کے نشیب وفراز آ جاتے ہیں تو یہ نقصان کس کے ذمے پڑے گا۔ عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نقصان بھی نصف نصف ہوگا مثلاً ایک ہزار نقصان ہوا تو پانچ سو روپے رقم والے کا نقصان ہوگا اور پانچ سو روپے محنت کرنے والے کے ذمہ پڑیں گے کہ وہ پورا کر کے رقم کے مالک کو دے، لیکن بھائیو! یہ غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رقم کا جتنا نقصان بھی ہو جائے وہ رقم والے کا ہی ہوگا۔ محنت والے کے ذمے کوئی رقم نہیں ڈالی جائے گی۔ کیونکہ اس تجارت میں دو چیزیں شریک تھیں ۔ ایک سرمایہ دوسری محنت نفع کی صورت میں آدھا نفع سرمایہ والے کو مل گیا۔ آدھا محنت والے کو ۔ نقصان کی صورت میں سرمایہ والے کو سرمائے کا نقصان ہوا۔ محنت کرنے والے کو محنت کا ، وہ سارا سال محنت کرتا رہا تا کہ اسے نفع ملے ۔ اب کیا اتنا خسارہ اسے کم ہے کہ اس کی پورے سال کی محنت ضائع ہوگئی۔ وہ کچھ بھی حاصل نہ کر سکا۔ اگر اس سے خسارے کی رقم کا نصف بھی وصول کیا جائے تو کتنا بڑا ظلم ہوگا۔ علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ مضاربت کی صورت میں سرمایہ کا سارا نقصان مال والے کے ذمے پڑے گا۔ اگر کوئی کہے کہ اس طرح تو بے ایمانی سے محنت والے نقصان ہی ظاہر کریں گے اور سرمایہ کھا جائیں گے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ اسے پہلے بے ایمان سمجھتے تھے تو آپ نے اسے اپنی رقم کیوں دی اور اگر اب بے ایمانی ثابت ہوئی ہے تو آپ دلیل سے ثابت کر کے سارا نقصان اس سے وصول کر سکتے ہیں اور اگر بے ایمانی ثابت نہیں ہوئی بلکہ اتفاقاً ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ نقصان ہو گیا تو یہ نقصان محنت والے کے ذمے ڈالنا ظلم ہوگا۔

جنس کے بدلے صرف نقد جنس:

اس سے پہلے میں نے سود کی ایک صورت پر بحث کی اور وہ تھی کسی کو قرض دے کر مدت کے عوض سود وصول کرنا۔ اب میں سود کی دوسری صورت ذکر کرتا ہوں جسے عام لوگ جانتے ہی نہیں۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”سونے کے بدلے سونا، چاندی کے بدلے چاندی ، گندم کے بدلے گندم، جو کے بدلے جو نمک کے بدلے نمک ، برابر برابر، نقد ونقد ( ہونا چاہیے ) جس نے زیادہ کیا، اس نے سودی معاملہ کیا ۔ “
صحيح مسلم كتاب المساقاة والمزارعة باب الربا: 1574 – صحيح ،بخاري، كتاب البيوع، باب بيع الفضة بالفضة: 2176
صحیح بخاری میں ہی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:
فإذا اختلفت هٰذه الأصناف فبيعوا كيف شئتم إذا كان يدا بيد
أبوداؤد، كتاب البيوع ، باب في الصرف : 3350
”جب یہ قسمیں مختلف ہوں تو جس طرح چاہو بیچو جب ہاتھوں ہاتھ نقد ہو ۔“
مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں کی خرید وفروخت میں دو چیزوں کا خیال رکھو ۔ ایک تو یہ ہے کہ وہ برابر ہوں اور دوسری شرط یہ کہ نقد و نقد ہوں ۔ جس وقت ایک طرف سے سونا دیا جائے تو دوسری طرف سے اتنا ہی سونا اسی وقت دے دیا جائے اور اگر یہ جنسیں مختلف ہوں۔ مثلاً ایک طرف سے سونا دیا گیا، دوسری طرف سے چاندی دی گئی۔ ایک طرف سے گندم دی گئی۔ دوسری طرف سے جو دیے گئے تو اس کے لیے لازمی شرط ہے کہ نقد و نقد ہوں ۔ اس میں ادھار جائز نہیں، کمی بیشی جائز ہے۔ مثلاً ایک شخص کہتا ہے میں نے یہ چاندی فروخت کرنی ہے دوسرا شخص اپنا سونا دکھاتا ہے ، دونوں پسند کرنے کے بعد طے کر لیتے ہیں کہ چاندی والا دو کلو چاندی دے کر دو تولے سونا لے گا ، اس میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ جس وقت چاندی دے، اسی وقت سونا وصول کرے۔ اس میں دیر کرنے کی اجازت نہیں۔ اگر دیر کرے گا تو سود ہے۔
صحیح بخاری میں مالک بن اوس رضی اللہ عنہ کا واقعہ لکھا ہوا ہے کہ ان کے پاس سو دینار تھے۔ وہ ان کے عوض چاندی کے سکے حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے ان کی بات طے ہو گئی وہ سونا لے کر ہاتھ میں الٹ پلٹ کرنے لگے پھر کہنے لگے۔ آج سے میرا خازن آئے گا تو تمہیں چاندی دے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ سن رہے تھے۔ فرمانے لگے اللہ کی قسم! جب تک تم ان سے چاندی وصول نہ کرلو ان سے جدا نہیں ہو گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ”سونا چاندی کے بدلے سود ہے مگر نقد و نقد“
صحیح بخاری، کتاب البيوع، باب ما يذكر في بيع الطعام و الحكرة :2134
یاد رہے کہ سونے کی سونے کے ساتھ یا سونے کی چاندی کے ساتھ بیع ہو تو ادھار منع ہے۔ اسی طرح گندم، جو اور نمک کی آپس میں بیع ہو تو ادھار منع ہے البتہ گندم، جو اور نمک وغیرہ کی سونے یا چاندی کے ساتھ بیع ہو تو ادھار جائز ہے کیونکہ سونا اور چاندی تمام چیزوں کے لیے بطور قیمت استعمال ہوتے ہیں صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم فوت ہوئے تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تین صاع جو کے بدلے گروی رکھی ہوئی تھی ۔
صحيح بخاري، كتاب الجهاد و السير، باب ما قيل في درع النبي صلى الله عليه وسلم: 2996

نوٹ اور سود :

سود کی اس دوسری قسم میں اس وقت تمام دنیا پھنس چکی ہے۔ تمام مسلمان ممالک بھی اس میں گرفتار ہیں اور افسوس اس بات کا کہ کسی کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ ہم سودی معاملے میں گرفتار ہیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کسی شخص کے پاس سونا ہو یا چاندی اور وہ اسے فروخت کرنا چاہتا ہو تو اسے سونے یا چاندی کی صورت میں قیمت نقد نہیں ملے گی بلکہ نوٹ کی صورت میں ملے گی۔ اسی طرح اگر وہ بازار سے سونا یا چاندی خریدنے کے لیے جائے تو سونا یا چاندی خرید کر اس کی قیمت نقد سونے یا چاندی کی صورت میں ادا نہیں کرے گا بلکہ نوٹوں کی صورت میں ادا کرے گا۔ یہ نوٹ خود نہ سونا ہے نہ چاندی۔ ان پر صرف ضمانت لکھی ہوئی ہے کہ یہ نوٹ رکھنے والا اگر چاہے تو 100 روپے یا 1000 روپے یا جتنی مالیت کا نوٹ ہے،اس کے برابر حکومت کے بنک سے سونا یا چاندی یا جو جنس لینا چاہے، لے سکتا ہے۔ اب سارا کاروبارانہی نوٹوں پر چل رہا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت کو سود قرار دیا ہے کہ ایک طرف سے سونا یا چاندی دی جائے ، دوسری طرف سے اس وقت نقد قیمت نہ دی جائے تو جو شخص نوٹ دے رہا ہے، کیا اس نے سونا یا چاندی دی ہے ہرگز نہیں بلکہ وہ سونا یا چاندی نوٹ والے کے پاس تو ہے ہی نہیں کہ وہ ادا کر سکے۔ وہ تو اس بینک میں ہے جس نے اسے جاری کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شاطر اور عیار یہود و ہنود نے بینکنگ کا نظام بنا کر تمام مسلمان ملکوں کے اموال اپنے بنکوں میں جمع کر کے انہیں نوٹ جاری کر دیے ہیں ۔ اب لوگوں کے ہاتھ میں نہ سونا ہے نہ چاندی، نہ کوئی اور قیمت رکھنے والی چیز خواہ وہ پاکستان کے لوگ ہوں یا سعودی عرب کے یا کسی اور ملک کے، ان کے ہاتھ میں قیمت رکھنے والی کوئی چیز نہیں۔ نہ سونا نہ چاندی۔ ان کے ہاتھ میں صرف نوٹ ہیں جن پر ان لوگوں کی طرف سے سونا یا چاندی ادا کرنے کی ضمانت لکھی ہوئی ہے جن کے بنکوں میں سونا جمع ہے۔ اب قیمت کے اصل مالک تو وہ ہیں اور وہ شخص جس کے پاس نوٹ ہے صرف اس بات پر اپنی اصل مالیت سے دستبردار ہو گیا ہے کہ کرنسی نوٹ اٹھانے میں ہلکے ہیں اور اسے سونا یا چاندی کے سکے اٹھانے کے بوجھ سے خلاصی ملی ہوئی ہے۔ اس تن آسانی میں نہ اسے یہ فکر ہے کہ وہ سودی کاروبار میں ملوث ہو کر ملعون بنا ہوا ہے۔ نہ یہ کہ دنیا میں بھی اس کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔ آپ دیکھیں جو لوگ اپنی مالیت نوٹ کی صورت میں اپنے پاس رکھنے پر قانع ہیں ان سے کیا سلوک ہوتا ہے۔ حکومت بنکوں کی مالک ہے اور اس کے پاس اصل مالیت سونا یا چاندی ہے، جب چاہتی ہے اعلان کر دیتی ہے کہ روپے کی قیمت اتنے فیصد کم کر دی گئی ہے۔ مثلاً پچھلے دنوں روپے کی قیمت 20 فیصد تک کم کردی گئی۔ اس اعلان کے بعد جس شخص کے پاس سو روپے کا نوٹ ہے اس کی قیمت ن صرف چالیس روپے کے برابر رہ گئی اور اسے سونا بھی صرف چالیس روپے کے برابر ملے گا۔ باقی حکومت غصب کر گئی بلکہ اب تو حکومت کے بنکوں میں بھی سونا بہت کم ہے۔سونا سوئٹزرلینڈ میں یہودیوں کے بنکوں کے پاس ہے۔ حکومتیں سونے کے بغیر ہی نوٹ چھاپتی چلی جاتی ہیں لہذا ان کے نوٹوں کی قیمت کا تعین بھی سونے کے اصل مالک یہود و نصاری کرتے ہیں۔
نوٹوں کے ساتھ سونا چاندی خرید نے یا بیچنے کی صورت میں نقد کی شرط مفقود ہونے کی وجہ سے اس کے سودی کاروبار ہونے کی وضاحت تو ہو چکی ۔ اس کے علاوہ اس میں ایک اور قباحت بھی ہے وہ یہ ہے کہ جو چیز آدمی کے قبضے میں نہ آئی ہو، وہ آگے فروخت کرنی جائز نہیں۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لا تبع ما ليس عندك
” جو شے تیرے پاس نہیں، اسے مت فروخت کر ۔ “
جب آدمی کسی کو نوٹ دیتا ہے اور اس سے کوئی چیز خریدتا ہے تو وہ اسے ایسی چیز دے رہا ہے جو حقیقت میں اس کے پاس ہے ہی نہیں بلکہ بنک کے پاس ہے۔ اس کی وضاحت اس واقعہ سے ہوتی ہے جو صحیح مسلم میں مذکور ہے۔ ہوا یہ کہ مروان بن الحکم رحمہ اللہ نے لوگوں کو جو وظائف دینے تھے ان کی جگہ صک دے دیے۔ صک وہ کاغذ ہوتا ہے جس پر حکومت کے ذمے قرض کا اقرار ہوتا ہے کہ اس صک کے حامل کو اتنی جنس دی جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں نوٹ کہہ لیجیے ۔ لوگوں نے وہ صک آگے فروخت کر کے جنس خریدنا شروع کر دی۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: احللت بيع الربا ”آپ نے سودی بیع حلال کر دی ۔“
اس پر مروان نے کہا میں نے تو ایسا نہیں کیا۔“
فقال أبوهريرة رضي الله عنه: أحللت بيع الصكاك وقد نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الطعام حتى يستوفى فخطب مروان الناس فنهى عن بيعها قال سليمان فنظرت إلى حرس يأخذونها من أيدي الناس
صحيح مسلم، كتاب البيوع، باب بطلان بيع المبيع قبل القبض : 1528
”ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” آپ نے صکوں کی بیع حلال کر دی ہے۔ حالانکہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے غلے کی بیع سے منع فرمایا جب تک وہ پورا وصول نہ کر لیا جائے تو مروان نے خطبہ دیا اور صک فروخت کرنے سے منع کر دیا۔ سلیمان کہتے ہیں ، میں نے سپاہیوں کو دیکھا کہ وہ لوگوں کے ہاتھوں سے صک واپس لے رہے تھے۔“
دوسری صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف غلہ ہی نہیں ، کوئی بھی چیز قبضے میں آنے سے پہلے فروخت کرنا منع ہے۔ (بیع سلم اس سے مستثنی ہے )
اب جن حضرات کے پاس نوٹ ہیں، انہوں نے چونکہ حکومت سے وہ چیز وصول نہیں کی جو اس پر لکھی ہوئی ہے۔ اس لیے اسے آگے فروخت کرنا منع ہے، اگر ایسا کرے گا تو یہ سود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے کی بہترین مثال ہے اور مروان کی سعادت مندی پر دلالت کرتا ہے۔ کاش! آج بھی کوئی مسلم حکمران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سن کر نوٹوں کے اس سودی سلسلے کو ختم کرنے کی جرات کر سکے۔ بعض علماء اور مفتی حضرات فرماتے ہیں کہ یہ نوٹ ہی مالیت ہیں۔ اس لیے ان کے ساتھ لین دین جائز ہے۔ میرے بھائیو! یہ نجیب مالیت ہے کہ حکومت کے منہ سے ایک لفظ نکلتا ہے تو مالیت آدھی رہ جاتی ہے اور چند دنوں کے بعد دوسرا اعلان آتا ہے تو مالیت چوتھا حصہ رہ جاتی ہے۔ اگر حکومت نوٹ منسوخ کر دے اور کوئی شخص اعلان کردہ تاریخ تک حکومت سے نوٹ نہ بدلوائے تو ساری مالیت ہی ختم ہو جائے گی۔ آپ غور فرمائیں اگر اس کے پاس سونا ہوتا یا چاندی یا گندم یا کوئی اور جنس تو کسی کے اعلان سے اس کی قیمت کم یا ختم ہو سکتی تھی۔

سودی نظام سے بچنے کا واحد حل :

اب اگر یہ سودی سلسلہ ہے تو ہم اسے کس طرح بدل سکتے ہیں۔ میرے بھائیو! جب تک دنیا پر یہود ونصاری اور دوسرے کفار کا تسلط ہے، ہم اسے نہیں بدل سکتے ۔ اس مرض کا علاج جہاد فی سبیل اللہ کے علاوہ کچھ نہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ کفار اور ان کے گماشتوں کے تسلط کی وجہ سے ہم اس سود کو سود سمجھ ہی نہیں رہے۔ یہ جہاد فی سبیل اللہ کے بغیر ختم نہیں ہوگا ۔ آپ لوگوں کو لاکھ اسلامی معیشت سنائیں سمجھا ئیں جب تک اللہ تعالیٰ کا کوئی خاص بندہ جہاد کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا قانون نافذ کر کے اس کی عملی صورت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے غلبے کے زمانے میں قائم تھی ، سامنے نہیں لائے گا، صرف تقریروں اور مقالوں سے لوگ نہیں سمجھ سکیں گے۔ جب تک وہ مبارک وقت نہیں آتا ہم موجودہ نظام کے سامنے بے بس ہیں ۔ نوٹوں سے لین دین مجبوری بن چکی ہے۔ حکومت جب چاہتی ہے اس روپے کی قیمت کم کر کے ہمارا مال چھین لیتی ہے۔ مگر ہم اف تک نہیں کر سکتے اور صرف یہی نہیں بلکہ نوٹوں پر تصویر بھی ہے۔ کسی پر جناح کی تصویر ہے کسی پر قبر کی تصویر ہے جس کی اللہ کے علاوہ پوجا کی جاتی ہے ،صرف 2 روپے کا نوٹ ہے جس پر کوئی ناجائز تصویر نہیں ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جہاں تصویر ہو وہاں فرشتہ رحمت نہیں آتا۔
صحیح بخاری ، کتاب بدء الخلق ، باب اذا وقع الذباب في شراب أحدكم : 3322 – ابوداؤد، کتاب اللباس، باب فى الصور : 4155 – ترمذی كتاب الأدب، باب ما جاء أن الملائكة لا تدخل بيتا فيه صورة و لا کلب۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے ۔
اس صورت میں صرف اللہ کے اس فرمان سے کچھ تسلی ہوتی ہے کہ :
﴿وَقَدْ فَصَّلَ لَكُم مَّا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ﴾
الانعام : 119/6
”اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے کھول کر وہ چیزیں بیان کر دی ہیں جو تم پر حرام کی ہیں مگر جس کی طرف تم مجبور کر دیے جاؤ ۔“
کوئی شخص مجبوری کی وجہ سے حرام کو حرام سمجھ کر ضرورت کے مطابق استعمال کرے تو امید ہے کہ جب مجبوری دور ہوگی تو اسے چھوڑ دے گا۔ مگر وہ شخص جو اسے جائز ہی سمجھ لے وہ اسے کس طرح چھوڑے گا۔ پھر مجبوری کی بھی کئی صورتیں ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ زندگی کا وہ معیار قائم نہیں رہتا جس کی نفس خواہش کرتا ہے ، بیوی بچوں کا لباس، رہائش، معاشرتی وقار وہ نہیں رہتا جو ہم چاہتے ہیں اور ایک یہ ہے کہ جسم و جان کا رشتہ قائم رکھنا ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ عام استعمال میں نوٹوں کا سلسلہ تقریباً اسی سے ملتا جلتا ہے۔ اس کے بغیر نہ سفر کر سکتے ہیں نہ کوئی خرید وفروخت ۔ اسی لیے اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ ہمارے اضطرار کی وجہ سے معاف فرمائے گا۔ ان شاء اللہ !
ہاں اگر کسی کے پاس کچھ رقم جمع ہو جائے تو اسے چاہیے کہ فورا سونا یا کوئی اور جنس خرید کر رکھ لے جو خود قیمت رکھتی ہو کہ یہودی اور ان کے گماشتے ہماری مالیت پر قابض نہ رہیں اور نہ ہی روپے کی قیمت کم کر کے ہمارا مال غصب کر سکیں۔

قسطوں کا مسئلہ:

اس کے علاوہ سود کی اور بھی بہت سی صورتیں ہیں جنہیں ہم چھوڑ سکتے ہیں مگر ان میں گرفتار ہیں۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے خرید و فروخت کی وہ سب صورتیں حرام فرمادی ہیں جن میں سود کی آمیزش ہے۔ ان میں سے ایک صورت وہ ہے جو ترمذی کی صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ :
انهى عن بيعتين فى بيعة
ترمذی كتاب البيوع، باب ما جاء في النهي عن بيعتين في بيعة: 1231- كتاب البيوع ، باب بيعتين في بيعة – علامہ البانی نے اسے صحيح نسائی، حسن صحیح کہا ہے۔ رقم الحدیث : 4638 – ص: 958/3
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیعوں سے منع فرمایا۔“
اس کی تشریح اہل علم یہ فرماتے ہیں کہ اگر تم نقد لو تو اتنی قیمت ہے اور اگر اُدھار لوتو تو قیمت ہے۔ مثلاً نقد دس روپے کی ہے اور ادھار پندرہ روپے کی ۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے مگر اس کے منع ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس بات کا تعین نہیں کیا گیا کہ وہ نقد لے گا یا ادھار، اگر پہلے طے کر لے کہ میں تمہیں نقد دوں گا یا ادھار دوں گا تو جائز ہے۔ اصل سبب ایک قیمت کا معلوم اور متعین نہ ہونا ہے۔ اگر معلوم ہو جائے کہ نقد لینا ہے، اسے دس روپے میں دے تو ٹھیک ہے یا طے ہو جائے کہ ادھار لینا ہے اور پندرہ روپے میں دے تب بھی ٹھیک ہے۔ یہ رائے کئی جید علماء بھی دیتے ہیں۔ انہوں نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ مثلاً ایک چیز نقد لاکھ روپے کی اور قسطوں پر سوالا کھ کی بشرطیکہ پہلے طے ہو جائے کہ نقد لینی ہے یا ادھار لینی ہے۔
میرے بھائیو ! جہاں تک میں نے احادیث کا مطالعہ کیا ہے اور پڑھا ہے ، ان علماء کی بات درست نہیں کیونکہ ابو داؤد شریف میں یہی حدیث تفصیل کے ساتھ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من باع بيعتين فى بيعة فله أوكسهما أو الربا
ابو داؤد، کتاب البيوع، باب فيمن باع بيعتين في بيعة : 3461
” جو شخص ایک بیع میں دو بیع کرتا ہے یا تو کم قیمت لے یا پھر وہ سود ہوگا ۔“
اس سے معلوم ہوا کہ اس بیع کی حرمت کا اصل سبب سود ہے قیمت کا غیر متعین ہونا نہیں ہے۔ آپ غور کریں اور دانائی سے سمجھنے کی کوشش کریں ۔ کسی شخص کو اگر آج قیمت ملے تو دس روپے کی چیز دیتا ہے اور اگر ایک ماہ بعد قیمت ملنی ہے تو وہ پندرہ روپے کی دیتا ہے۔ وہ پانچ روپے زائد کس چیز کے لے رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے اس نے وہ پانچ روپے مدت کے عوض لیے ہیں اور یہی سود ہے۔
ہماری حکومتوں نے لوگوں کو سود میں پھنسانے کے لیے کہا کہ کارخانے لگاؤ۔ اتنے فیصد سود پر رقم ہم مہیا کریں گے۔ جو کارخانہ نہ لگا سکے انہیں پہلی ٹیکسیاں اور گاڑیاں قسطوں کے سود پر دے دیں۔ کوشش یہ ہے کہ ذہن کے کسی کونے میں سود سے نفرت باقی نہ رہے۔ اب ایک سکیم یہ ہے کہ تم قرض لے لو ۔ ایک سال تک سود نہیں لگے گا۔ بعد میں لگے گا۔ یہ بھی سود میں پھنسانے کی ترکیب ہے۔ قرض لینے والے نے یہ تو مان لیا کہ سال تک ادا نہ کر سکا تو سود دوں گا اور پھر شاید ہی کوئی سود کے اس پھندے میں پھننے کے بعد نکل سکے۔

حرام کی ایک اور صورت:

بیع کی ایک اور صورت جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ، ابوداؤد ، ترمذی، نسائی ابن ماجہ وغیرہ کی صحیح حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
انهى عن سلف وبيع
النسائى كتاب البيوع، باب سلف و بيع :4633 – شیخ البانی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض اور بیع سے منع فرمایا ہے ۔“
اس کی صورت یہ ہے کہ آپ کسی شخص سے کہتے ہیں کہ مجھے ایک ہزار روپے قرض دے دو۔ وہ کہتا ہے ٹھیک ہے۔ ہزار روپے قرض لے لو مگر شرط یہ ہے کہ اس ہزار روپے سے تم جو کچھ خریدنا چاہتے ہو ، وہ صرف مجھ سے خرید سکتے ہو۔ اب اگر وہ رقم لے کر بازار میں جائیں تو وہ چیز سستے داموں مل سکتی ہے مگر آپ اس سے مہنگی خریدیں گے صرف اس لیے کہ آپ نے اس سے قرض لیا ہے۔ اس حرام صورت میں بھی پاکستان اور دوسرے مسلمان ممالک بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔ آپ نے سنا ہوگا امریکہ ہمیں امداد دیتا ہے حالانکہ وہ امداد ہرگز نہیں دیتا وہ تو رقم سود پر دیتا ہے۔ ہم نہ لینا چاہیں تب بھی دیتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ شرط بھی ہوتی ہے کہ اس رقم سے تم جو اسلحہ مشینری وغیرہ خریدنا چاہتے ہو صرف مجھ سے خریدو، کسی دوسرے سے نہیں خرید سکتے ۔ اگر روپے ہمارے ہاتھ میں ہوں تو جو چیز وہ ہمیں دس ہزار روپے کی دے رہا ہے، جاپان یا دوسرے ممالک سے ایک ہزار روپے میں مل سکتی ہے۔ مگر ہم امریکہ سے لینے پر مجبور ہیں۔ اس قرض کا سود الگ بھی دیں گے اور کئی گنا زیادہ قیمت پر اس کی چیزیں بھی خریدیں گے اور کہا یہی جائے گا کہ ہماری امداد آرہی ہے اور نام رکھا ہوا ہے۔”ایڈ“ ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ” ایڈ “بھی اسی عذاب سے ملتی جلتی چیز ہے جو قوم لوط کا عمل کرنے والے ملعونوں پر اللہ تعالیٰ نے ایڈز کی صورت میں مسلط کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس بیماری کا علاج کیا ہے؟ میرے بھائیو! اس کا علاج بالکل آسان ہے۔ وہ یہ ہے کہ پختہ ارادہ کر لیں اور صاف اعلان کر دیں کہ ہم نے قرض لیا ہے، انہیں صرف اصل رقم ادا کریں گے اور جن لوگوں کو قرض دیا ہے۔ ان سے صرف اصل رقم لیں گے۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ کاروبار کیسے چلے گا؟ کاروبار ان شاء اللہ پہلے سے بہتر چلے گا۔ جس ملک کو آپ نقد قیمت ادا کریں گے، کیا اس کا دماغ خراب ہے کہ وہ آپ کو آپ کی مطلوبہ چیز نہ دے گا، امریکہ سے خریدنا کوئی ضروری ہے۔ کیا اس کے علاوہ کسی ملک سے کوئی چیز نہیں ملتی؟ آپ کسی دوسرے ملک سے لے لیں ۔ آپ کو وہ چیز اچھی بھی ملے گی اور سستی بھی۔ لیکن اس صورت میں امریکہ اور وہ ملک جنہوں نے ہمیں اپنے سودی پنجے میں پھنسا رکھا ہے، ہم سے جنگ کریں گے لڑیں گے کہ ہاتھ آیا شکار کیوں نکل کر جا رہا ہے۔ پھر اس جنگ کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ پر توکل کرے تو اللہ تعالیٰ مددکرتا ہے۔ امریکہ تو اب بھی ہمارا دشمن ہے۔ دشمنی میں کچھ اور بڑھ گیا تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔سود چھوڑنے سے ہمیں یہ فائدہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ سے جو جنگ ہم نے شروع کر رکھی ہے ختم ہو جائے گی۔ اس سے ہماری صلح ہوگی تو پھر کوئی دشمن ہمارے سامنے نہیں ٹھہر سکے گا۔ اگر یہی حالت رہی اور ہم سود پر ہی قائم رہے تو ہمارے بچنے کی صورت نہیں۔ ادھر امریکہ دشمن ہے ، ادھر ہندوستان سے جنگ کا خطرہ ہے پھر اس کے ساتھ جس سے مدد کی امید ہے یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے بھی کھلا اعلان جنگ ہے تو پھر ہم واقعی نہیں بچ سکتے۔ اگر بچنا ہے تو ہمیں سودی کاروبار چھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے معاملہ درست کرنا ہوگا پھر کوئی بھی ہمارے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتا۔

کوئی چیز قبضے میں کیے بغیر بیچنا حرام ہے:

سود کی ایک صورت جس میں بے شمار لوگ پھنسے ہوئے ہیں ، نوٹوں کے ضمن میں مختصر بیان ہوئی ہے۔ اس کی مزید تھوڑی سی تفصیل سنیں ۔ صحیح بخاری اور مسلم میں ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” جب کوئی شخص غلہ خریدے، اس وقت تک اس کو فروخت نہیں کر سکتا جب تک اسے اپنے قبضے میں نہ کر لے۔“
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا، اس کی وجہ کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ”تم دیکھتے نہیں کہ غلہ اپنی جگہ پڑا رہتا ہے اور وہ سونے کے ساتھ سونا خریدتے ہیں ۔“
صحیح بخاری ، البيوع، باب ما يذكر في بيع الطعام والحكرة: 2132-2133- صحیح مسلم، کتاب البیوع باب بطلان بيع المبيع قبل القبض : 1525 –
مثلا کوئی شخص غلہ سے بھرا ہوا ایک گودام خریدنا چاہتا ہے۔ بنک سے پوچھا اس کی قیمت کیا ہے؟ اس نے بتایا دس لاکھ روپے۔ اس نے کہا ٹھیک ہے۔ یہ لیجیے دس لاکھ روپے ۔ غلہ میرا ہو گیا۔ اب یہ غلہ اٹھاتا نہیں۔ وقتاً فوقتاً اس کا ریٹ پوچھتا رہتا ہے، ایک ماہ کے بعد پتہ چلا کہ اب اس کا ریٹ پندرہ لاکھ ہے۔ اس نے فون پر کسی پارٹی کے ہاتھ پندرہ لاکھ روپے میں فروخت کر دیا۔ دس لاکھ دیا تھا ایک ماہ بعد پندرہ لاکھ لے لیا۔ غلے کا صرف نام استعمال ہوا ہے۔ یہ تجارت نہیں ہے۔ نہ اس نے کوئی چیز اٹھائی نہ فروخت کی۔ پیسے سے پیسہ خریدا۔ یہ خالص سود ہے۔ آپ دیکھیں۔ اس وقت اکثر تجارت اسی طرح ہو رہی ہے۔ اس میں صرف غلے ہی کی بات نہیں۔ کوئی بھی چیز ہو ، قبضے میں آنے سے پہلے فروخت کرنی درست نہیں۔ اب اس کا نقصان دیکھیں اگر وہ اس چیز کو اپنے قبضے میں لے کر فروخت کرتا تو بہت برکت ہوتی۔ ایک تو یہ کہ وہاں اٹھانے کے بعد وہ اس چیز کو فوراً فروخت کرتا کیونکہ ہر ایک شخص کے پاس گودام نہیں ہوتا۔ مسلمانوں کے لیے چیزیں وافر بازار میں موجود رہتیں اور سستی دستیاب ہوتیں۔ اب کیا ہوتا ہے۔ چیز ایک ہی جگہ پڑی ہوئی ہے۔ قیمت پر قیمت لگ رہی ہے۔ باہر سے مال آیا۔ ایک جگہ رکھ دیا گیا۔ جس نے منگوایا تھا، اس نے منافع لے کر دس لاکھ میں بیچ دیا۔ دوسرے نے بارہ لاکھ میں بیچا۔ تیسرے دن وہی پندرہ لاکھ میں بکا۔ اب پھر امید ہے، قیمت بڑھے گی۔ چیز گودام میں پڑی رہے گی ۔ روپے پر روپے لگتا رہے گا اور لوگ منافع کے نام پر سود کھاتے جائیں گے۔ اس سود میں بڑے بڑے متشرع لوگ گرفتار ہیں۔ دفتر میں فون رکھا ہوا ہے اور تجارت کے نام پر سود کا کاروبار کر رہے ہیں۔ کبھی نہیں سوچتے کہ ہم یہ مال جو حرام طریقے سے کما رہے ہیں، اگر آج مرجائیں تو ہمارے مرنے کے بعد اس سے فائدہ دوسرے اٹھا ئیں گے۔ بھلا اس سے بڑھ کرکون خسارے میں ہے جو دوسرے کی دنیا کے لیے اپنی عاقبت برباد کر لے۔

بت فروشی کی نئی صورتیں :

ایک اور حرام کاروبار سنیے، صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال مکہ میں خطاب فرمایا :
إن الله ورسوله حرم بيع الخمر والميتة والخنزير والأصنام فقيل يارسول الله أرأيت شحوم الميتة فإنها يطلىٰ بها السفن ويدهن بها الجلود ويستصبح بها الناس فقال لا هو حرام ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذٰلك قاتل الله اليهود إن الله تعالىٰ لما حرم عليهم شحومها أجملوه ثم باعوه فأكلوا ثمنه
صحیح بخاری کتاب البيوع، باب بيع الميتة والأصنام: 2236- صحيح مسلم، كتاب المساقاة ، باب تحريم بيع الخمر والميتة …. الخ : 1581
”اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! نے شراب، مردار خنزیر اور بتوں کی بیع حرام کر دی ہے۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردار کی چربیوں کے متعلق فرمائیے۔ ان کے ساتھ کشتیوں کو تیل لگایا جاتا ہے اور لوگ ان سے چراغ جلاتے ہیں ، آپ نے فرمایا نہیں ۔ وہ حرام ہیں۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ یہود و نصاری کو برباد کرے جب اللہ تعالٰی نے ان پر ان کی چربیاں حرام کیں تو انہوں نے اسے پگھلایا، پھر فروخت کیا اور اس کی قیمت کھا گئے۔“
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ نے جو چیز حرام کی ہے، اسے فروخت کرنا بھی حرام ہے اور اس کی قیمت کھانا بھی حرام ہے۔ اسی طرح شراب، خنزیر اور مردار بیچنا اور ان کی قیمت کھانا بھی حرام ہے۔ بت کی بیع سے اہل علم نے استدلال فرمایا کہ ایسی کتابیں جن میں شرک کی تبلیغ ، کفر کی اشاعت ہے، انہیں بیچنا، ان کی قیمت کھانا بت فروشی کے مترادف ہے۔ یہ بت فروشی ہمارے کئی اہل حدیث بھائی بھی کرتے ہیں۔ شاید ہی کوئی مکتبہ ہو جو اس کام سے پر ہیز کرتا ہو ورنہ آپ کو توحید وسنت کے علمبرداروں کے مکتبہ سے شرک و بدعت پر مشتمل ہر کتاب ملے گی۔ امیر حمزہ کا قصہ، بی بی فاطمہ کا قصہ، عہد نامہ گنج العرش ، درود تاج، کنڈوں کی کتاب وغیرہ۔ ان سے پوچھا جائے ، آپ یہ کیا کر رہے ہیں تو کہتے ہیں بریلوی بیچتے ہیں۔ اگر ہم نہیں بیچیں گے تو لوگ ان سے جا کر لے لیں گے تو ہم کیوں نہ بیچیں ۔ استغفر اللہ کتنی لغو دلیل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کافر بت بیچتے ہیں اور لوگ ان سے خریدتے ہیں تو ہم بھی بت بیچ کر وہ نفع کیوں نہ اٹھائیں بلکہ بت سازی کا کارخانہ کیوں نہ لگا ئیں۔ نہیں میرے بھائی! یہ بات غلط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا ہے۔ اسی طرح سگریٹ کا کاروبار حرام ہے۔ حرام چیز کا کاروبار بھی حرام ہے۔ آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنیے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص واقعی حرام سے بچنا چاہتا ہے تو اسے کیا کرنا چاہیے:
وعن النعمان بن بشير يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول الحلال بين والحرام بين وبينهما مشبهات لا يعلمها كثير من الناس فمن اتقى الشبهات استبرأ لدينه وعرضه ومن وقع فى الشبهات وقع فى الحرام كالراعي يرعى حول الحمى يوشك أن يرتع فيه ألا وإن لكل ملك حمى ألا وإن حمى الله محارمه ألا وإن فى الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله وإذا فسدت فسد الجسد كله ألا وهى القلب
صحيح بخاری ،کتاب الایمان، باب فضل من استبراء لدينه صحيح مسلم، کتاب المساقاة باب أخذ الحلال وترك الشبهات: 1599
”نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے تو جو شخص شبہات سے بچے گا ، وہ اپنے دین اور اپنی عزت کو بچالے گا اور جو شبہات میں داخل ہو جائے گا جس طرح وہ چرواہا جو ممنوعہ چراگاہ کے ارد گرد جانور چراتا ہے، قریب ہے کہ اس میں داخل ہو جائے۔ یاد رکھو! ہر بادشاہ کی کوئی نہ کوئی ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے۔ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ خبردار! اور جسم میں ایک ایسا گوشت کا ٹکڑا ہے کہ جب درست ہو جائے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے اور جب خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ یاد رکھو! وہ دل ہے۔“
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو حرام اور حرام کے شبہ والی چیزوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور رزق حلال پر قناعت عطا فرمائے ۔ (آمین)
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے